ذکر ’خرمن‘ کا ۔۔۔

اردو ادبی دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں کتاب چھاپنے سے بڑھ کر گھاٹے کا سودا اور کوئی نہیں ہے۔

خرمن کو سید تحسین گیلانی مرتب کرتے ہیں لیکن ہر بار اپنے ساتھ کسی ایک ادیب یا شاعر کو بھی ملا لیتے ہیں۔ فوٹو:فائل

ادب کا دائرہ کار اتنا ہی وسیع ہے جتنا کہ خود زندگی کا۔ اُردو دنیا میں آج بھی زندگی کے مختلف شعبہ جات کا ادب کے ساتھ ان کے اساسی تعلق کے حوالے سے مباحث برپا ہوتے رہتے ہیں۔ اِس اساسی تعلق کی حقیقت بس اتنی ہی ہے کہ ادب کا خالق اور ادب کا مخاطب دونوں، انسان ہے۔ چناں چہ اس انسان کا تعلق جہاں جہاں سے جس جس طرح سے ہے، ادب کا سروکار وہاں وہاں سے اس اس طرح سے ہے۔ یہ تمہید ادبی جریدے ''خرمن'' کے تعارف کے لئے باندھنی پڑی ہے جس کی ضخامت اور مشمولات دیکھ کر من میں خوش گوار حیرت سر اٹھاتی ہے۔

یہ خرمن کا تیسرا شمارہ ہے جسے سید تحسین گیلانی مرتب کرتے ہیں لیکن ہر بار اپنے ساتھ کسی ایک ادیب یا شاعر کو بھی ملا لیتے ہیں جو پاکستان میں اس کی اشاعت و طباعت کا ذمہ اٹھاتا ہے کیوں کہ وہ خود دیارِ غیر میں بستے ہیں۔ پچھلے دو شمارے انھوں نے کراچی کے نوجوان شاعر توقیر تقی کے ساتھ نکالے جب کہ تیسرا شمارہ انڈیا سے مہر افروز کے تعاون سے نکالا گیا ہے۔ اس کی ترتیب و تدوین میں اگرچہ خاصی خامیاں رہ گئی ہیں تاہم مہرافروز نے جس طرح اس کی اشاعت کا بار گراں اٹھایا وہ لائق تحسین ہے۔

464 صفحات پر مشتمل اس ادبی پرچے نے اردو دنیا کے قلم بردار سماج کی ایک بڑی تعداد کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے جن میں صف اول کے اہم ترین نام بھی شامل ہیں اور نوآموز بھی۔ نو آموز شعراء اور افسانہ نگاروں کی جس بڑی تعداد کو اس ادبی کہکشاں کا حصہ بنایا گیا ہے اسے دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ اردو ادب پر ادبی پرچوں کے ذریعے ماضی میں جس طرح اجارہ داری قائم رکھی گئی تھی وہ مستقبل قریب میں بے اثر ہونے کو ہے۔ آج صف اول کے شعراء ستیہ پال آنند، گلزار، ظفر اقبال، ایوب خاور، نصیر احمد ناصر، ابرار احمد، جمیل الرحمن، حمیدہ شاہین اور خلیل مامون کے ساتھ ساتھ ایسے نوجوان شعراء کو بھی چھاپا جارہا ہے جو ابتدائی مرحلے میں ہیں اور ابھی ان کے سامنے برسوں کا تخلیقی سفر اور تجربہ پڑا ہے لیکن ان میں اس عمل کے ذریعے آگے بڑھنے کی لگن بیدار ہوچکی ہے۔

ششماہی خرمن انٹرنیشنل کے اس پرچے کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں تو خاصی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بہت سارے سیکشنز میں بٹی ہوئی ہے۔ افسانے کے بھی دو سیکشنز ہیں جو ''پوپ'' (افسانچے) اور ''افسانے'' پر مشتمل ہیں۔ مقصود الٰہی شیخ، مشتاق نوری، شموئل احمد، مشرف عالم ذوقی، دیپک بدکی، قیصر نذیر خاور، اقبال خورشید اور ابرار مجیب سمیت پاک و ہند کے کئی نامور اور نوآموز لکھاریوں کے 38 افسانے اور افسانچے شایع کئے گئے ہیں۔ اس شمارے کے دو مزید اہم سیکشنز میں انشائیے اور کتابوں کے تجزیے بھی شامل ہیں جس میں مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ ساتھ حقانی القاسمی، شہناز رحمن اور خود تحسین گیلانی نے بھی کئی کتب پر تبصرے و تجزیے تحریر کئے ہیں۔

سید تحسین گیلانی نے اس شمارے میں دو اداریے تحریر کئے ہیں۔ جن میں سے پہلا ''خیر اور شر'' کے فلسفے پر مبنی ہے جس میں انھوں نے سقراط کے فلسفے کو بیان کیا ہے اور اس تناظر میں فلسفہ لذتیت کو بھی مذکور کیا ہے۔ ایک طرف اس اداریے میں انھوں نے خیر کی قدر پر قدیمی مباحث کو پھر سے یاد کیا ہے اور دوسری طرف اپنے دوسرے اداریے میں انھوں نے مابعد جدیدیت کے مقاصد و مضمرات پر بات کرکے اشاریہ دیا ہے کہ اخلاقی اقدار کو اضافی قرار دے کر جدید رویے نے انسانی صورتحال کو بے چینیوں اور اندوہناک انجام سے دوچار کیا ہے۔ اس موضوع پر انھوں نے ناصر عباس نیر، جمیل الرحمن اور احمد سہیل کے تبصرے بھی شامل کئے ہیں۔ جمیل الرحمن نے کہا کہ لفظ چوں کہ زبان کی حیثیت سے غائب نہیں ہوتا اس لئے وہ التوائے معنی کا بھی شکارنہیں ہوتا۔

یہ تبصرہ فلسفی ژاک دریدا کی فکر کو درست طور پر نہ سمجھے جانے کا نتیجہ ہے۔ التوائے معنی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لفظ نے اپنی حیثیت کھودی ہے۔ لفظ تو ایک نشانی ہے جو موجود رہتی ہے اور علاقے بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنی شکل بدلتی رہتی ہے۔ دریدا نے جب التوائے معنی کے بارے میں بات کی تھی تو اس کا پس منظر مغرب میں موجودی کی مابعد الطبیعات سے منسلک تھا جس کے ذریعے انھوں نے فوقیتی ترتیب کو مسترد کیا تھا۔ یعنی معنی کو اگر لفظ پر فوقیت حاصل ہے تو معنی تو ہر دم ملتوی ہورہا ہے اور اس کے لئے انھوں نے مثال ڈکشنری میں درج الفاظ کے آگے بہت سارے دیگر معانی کو مذکور کرکے دی۔ دریدا کے طریقہ کار''ڈی کنسٹرکشن'' پر اعتراض وارد کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس طریقہ کار کے ذریعے انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ظلم اور بربریت کی صورت میں موجود تضادات کو واضح کیا، ادب میں بھی یہ ایک کارآمد طریقہ کار ہے۔


تنقیدی مضامین کے حصے میں کئی اہم نام موجود ہیں جن میں ظفر اقبال اور ناصر عباس نیر کے ساتھ ساتھ احمد سہیل، نسترن احسن فتیحی، احمد حماد اور راقم الحروف بھی شامل ہیں۔ ظفر اقبال کا تنقید سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے تاہم ان کا مضمون لفظ اور معنی کا تنازعہ اس شمارے کا حصہ ہے جس میں انھوں نے اپنے کالمانہ مزاج کے عین مطابق لفظ اور معنی کے جدلیاتی اور دریدائی تعلق کو اپنے غیر منطقی طرز اظہار کا نشانہ بنایا ہے اور یہ کہا ہے کہ لفظ معنی کی غیر موجودگی میں بھی موجود ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے اور یہ کہ
''لفظ پر معنی کی فضیلت کے باوجود لفظ کو معنی پر جو فوقیت حاصل ہے اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ معنی لفظ سے پیدا ہوتا ہے اور لفظ کے بغیر معنی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا جبکہ لفظ بالذات قائم ہے اور معنی سے پیدا نہیں ہوتا''۔

ان کی فکر کے تضاد کو پہلے ہی قدم پر واضح کردیتا ہے۔ لفظ اور معنی کے درست رشتے کو سمجھنے کے لئے تنقیدی مزاج کا ہونا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے لفظ پر معنی کی فضیلت پہلے ہی سے تسلیم کرلی ہے اور اس کے باوجود لفظ کی معنی پر فوقیت کو بھی تسلیم کررہے ہیں۔ جس سے مضحکہ خیز تضاد پیدا ہوا ہے۔ دنیا کے بڑے فلسفیوں نے زبان کو نشانیوں کا نظام کہا ہے جب کہ ظفر اقبال اسے لفظوں کا ڈھیر قرار دیتے ہیں۔ جن سے کسی بھی وقت کوئی بھی معنی برآمد کیا جاسکتا ہے۔ لفظ زبان میں محض ایک علامت کی حیثیت رکھتا ہے جو اگر اپنا کنٹراسٹ نہ رکھے تو اپنی حیثیت ہی کھودے۔ لفظ اگر بالذات قائم ہوتا تو پوری دنیا میں ایک شے کے لئے ایک ہی لفظ مستعمل ہوتا، مثال کے طور پر دریا کو امریکی، جرمن اور عرب بھی دریا ہی کہتے یا ایک لفظ ہر موقع پر ایک ہی ٹھوس معنی دیتا۔ خطے اور جغرافیے کی تبدیلی سے یہ اپنا معنیٰ تبدیل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ لفظ اگر بالذات قائم ہوتا تو پھر اس کے روایتی اور تخلیقی استعمال کا قضیہ ہی نہ سر اٹھاتا۔ جس پر ظفر اقبال نے اپنے اس مضمون میں لاحاصل بحث کی ہے۔

نیر عباس نیر نے اپنے مضمون ''عالمگیریت اور اردو کا مستقبل'' میں سرمایہ داریت کے ہتھکنڈوں اور سرمائے کی تخلیق کے لئے مقامی زبانوں پر انگریزی کے جبر اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کو تفصیل سے مذکور کیا ہے۔ جس طرح سرمایہ دارانہ نظام نے پیداوار کرنے والے اور مزدور کے درمیان غیر انسانی رشتوں کو جنم دیا اِسی طرح لسانی استعماریت کے تحت دنیا بھر کی زبانوں کے مابین جو رشتے ابھرے وہ ظلم، جبر اور تسلط سے عبارت ہیں۔ ڈاکٹر جواز جعفری کا مضمون ''یورپ اور امریکہ کی اردو غزل'' ان نفسیاتی اور حسیاتی عوامل کو بیان کرتا ہے جو ڈایا سپورا کی دین ہوتے ہیں۔ انھوں نے متعدد شعراء کے تذکروں کے ساتھ اردو غزل کے ساتھ ان کے نفسیاتی، سماجی اور حسیاتی رویوں کو قریب سے مذکور کیا ہے۔ نسترن احسن فتیحی نے ایکو فیمینزم کا تعارف پیش کرتے ہوئے آج لکھے جانے والے اردو افسانے میں تانیثی فکر کو تلاش کرکے اس کا فلسفیانہ و سیاسی تحریک ''ماحولیاتی تانیثیت'' کے تناظر میں جائزہ لیا۔ اردو ادبی دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں کتاب چھپنے سے بڑھ کر گھاٹے کا سودا اور کوئی نہیں ہے۔ اس لئے ادیب (استثنائی صورتحال سے ہٹ کر) انفرادی جدوجہد کے بعد کتاب چھپواتا بھی ہے تو وہ ادبی دنیا میں بھی اس کے سماجی روابط کا ذریعہ نہیں بن پاتی۔ ایسے میں سوشل میڈیا نے ان سب کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ نئے اور پرانے ادیبوں پر مشتمل ایک سماج تشکیل پاگیا ہے۔ نسترن فتیحی نے اپنے مضمون میں جتنے افسانہ نگاروں کو مذکور کیا ہے ان کا ادبی کام سوشل میڈیا کے توسط ہی سے ان کے دسترس میں آیا ہے۔

یہ ضخیم ادبی پرچہ ہدیٰ فاؤنڈیشن، دھاراوڑ انڈیا کے زیر اہتمام شائع کیا گیا ہے۔ قیمت فی شمارہ 5 سو روپے ہے اور آن لائن بھی hudafoundation.org پر دستیاب ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story