تُو غدار تُو غدار یہ غدار وہ غدار

حب الوطنی کی ساکھ کوٹھیس پہنچانے میں ہم نےکوئی کسرنہیں چھوڑی،نظریاتی واصولی اختلاف کو بھی ذاتی دشمنی کی شکل دےدیتے ہیں


اویس حفیظ December 14, 2015
اگرچہ بے دل و بے حس سیاست میں الزامات کا وتیرہ کوئی نیا نہیں ہے مگر اس طرح ان کا بار بار اعادہ بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ فوٹو: فائل

شنید ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر تجربہ یہی بتاتا ہے کہ سیاست میں اختلافِ رائے، برداشت، اخلاقیات اور دوراندیشی بھی نہیں ہوتی۔ ابھی پچھلے برس ماہ رمضان کی بات ہے کہ جب وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر الزام لگایا کہ انہوں نے شوکت خانم کے بورڈ ممبران کی مخالفت کے باوجود زکوۃ اور عطیات کی رقم سے فرانس اور مسقط میں کیپیٹل مارکیٹ میں 45 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس میں انہیں 65 فیصد خسارہ اٹھانا پڑا۔ لوگوں کی زکوۃ و خیرات کا پیسہ اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا، 1997ء میں اسپتال پر اس قسم کے الزامات لگائے جاچکے تھے جو ثابت نہیں ہوسکے۔ بہر کیف اس پریس کانفرنس کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے موقف بھی سامنے آگیا کہ کینسر اسپتال کا آڈٹ غیر ملکی ادارے کرتے ہیں اور ساری تفصیلات ادارے کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں جن میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔ نیز یہ کہ رمضان کے مہینے میں اس قسم کے الزامات کا مقصد فنڈ ریزنگ مہم کو نقصان پہنچانا ہے لیکن اس پریس کانفرنس کا الٹا اثر ہوا کیونکہ جو فنڈز اکٹھا کرنے کا اسپتال کا ایک سال کا ٹارگٹ اسی ایک ماہ میں مکمل ہوگیا۔ اس کے چند ماہ بعد وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ایک پریس کانفرنس کی کہ کینسر اسپتال میں مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور غریب مریضوں کو اسپتال میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔

جس کے بعد اسپتال انتظامیہ متحرک ہوئی اور ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ اُس وقت چونکہ تحریک انصاف کے سربراہ ہر شام کو کنٹینر پر کھڑے ہو کر محفل سجاتے تھے۔ اس وجہ سے انہیں بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی متلون مزاجی کی وجہ سے ان سے منسوب ہر چیز پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں مگر انہوں نے بھی اپنی روش نہ بدلی۔

اسی طرح مئی 2013ء میں عام انتخابات سے چند روز قبل جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف انداز میں کہا تھا کہ،

''عمران خان قادیانی اور یہودی ایجنٹ ہیں اور انہیں ووٹ دینا حرام ہے''۔

اس بات کا کتنا اثر ہوا اس کا اندازہ الیکشن 2013ء کے نتائج سے بخوبی ہو گیا کہ جس صوبے میں مولانا نے یہ جلسہ کیا تھا، آج وہاں پر تحریک انصاف کی حکومت ہے، ملک بھر میں تحریک انصاف ووٹوں کے اعتبار سے پہلے اور سیٹوں کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر آئی۔ لیکن دوسری جانب عمران خان بھی اس الزام تراشی اور بہتان بازی کی ریس میں کسی سے پیچھے نہیں رہے انہوں نے پہلے اس بیان پر مولانا کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا کہ مولانا عدالت میں ثابت کریں کہ میں ایک غیر ملکی ایجنٹ ہوں۔ پھر چند روز بعد ہی لکی مروت میں ایک جلسہ عام کے دوران حساب برابر کرتے ہوئے کہا کہ،
''مولانا فضل الرحمٰن مجھے یہودی ایجنٹ کہتے ہیں، حالانکہ مولانا کی موجودگی میں ملک کو کسی دوسرے یہودی ایجنٹ کی ضرورت نہیں'

بظاہر یہ قصہ یہیں پر ختم ہوگیا اور ایک عرصے تک ایک دوسرے کو یہودی و غیر ملکی ایجنٹ کہنے کا سلسلہ تھم گیا۔ مگر پھر کراچی میں حالات نے ایسی کروٹ لی کہ ملیر کے ایس ایس پی نے متحدہ قومی موومنٹ کے چند لوگوں کو گرفتار کیا اور ان پر بھارتی بد نام زمانہ خفیہ ایجنسی ''را'' سے تربیت اور فنڈز لینے کا الزام لگا دیا۔ پھر بریکنگ نیوز کی دوڑ میں شریک چینلوں سے یہ خبریں آنے لگیں کہ متحدہ کے رہنماؤں نے اس بات کا اعتراف کرلیا، ہم نے دستاویزات حاصل کرلیں۔ یہ ہوگیا، وہ ہوگیا۔ غرض چند ہفتے خوب تماشا ہوا اور پھر سب کچھ یکدم سے ختم ہوگیا۔ آج کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھ کر بخوبی کہا جاسکتا ہے اہلیانِ کراچی نے دوبارہ قیادت ایک ''غدار اور ملک دشمن'' جماعت کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ خیر، ایم کیو ایم نے ان سارے الزامات کی تردید کر دی اور اپنا بھرپور دفاع کیا۔

اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد ایک نیوزچینل کے اینکر نے تحریک انصاف پر غیر ملکی و ''یہودی'' فنڈنگ کے الزامات لگائے اور اپنے تئیں پروگرام میں اس کے ثبوت بھی پیش کئے۔ اس کے بعد سے پھر توپوں کا رخ چیئرمین تحریک انصاف کی جانب ہوگیا اور انہیں یہودی، اسرائیلی اور بھارتی ایجنٹ کہا جانے لگا۔

پھر حکمران جماعت کے دانیال عزیز نے یہ کہہ دیا کہ تحریک انصاف نے 247 غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز لئے ہیں، جو منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے، مزید یہ کہ ان میں سے 14 کمپنیاں جعلی ہیں۔ عوام غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز لینے پر عمران خان سے جواب چاہتے ہیں۔ عمران خان پاکستان میں جمہوریت کو کمزور کرنے کیلئے امریکا سے پیسے لے رہے ہیں۔ غیر ملکی فنڈنگ والی سیاسی جماعت پاکستان میں کام نہیں کرسکتی میں اس حوالے سے امریکا میں بھی کیس کرنے کی تیاری کر رہا ہوں۔

اس کے بعد ایک بارپھر الزامات کی مشق دہرائی جانے لگی۔ اب عمران خان کی بھارت میں نریندر مودی سے ملاقات کیا ہوئی، ایک بھونچال سا آ گیا۔ کچھ لوگوں نے اس کا بہت خیر مقدم کیا، مگر عمران خان کے سیاسی مخالفین نے طرح طرح کے سوالات اٹھا دئیے۔ مسلم لیگ (ن) کی ایم پی اے مائزہ حمید نے تو عمران، مودی ملاقات کی تصویر ہی اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر''TRAITOR'' کے کیپشن کے ساتھ لگائی اور اسی پر بس نہیں بلکہ عمران خان سے یہ بھی پوچھ لیا کہ ان کا مودی سے ملاقات کا ''سیکرٹ ایجنڈا'' کیا تھا۔ ادھر عمران خان نے بھی بھارت میں ایک بار پھر الطاف حسین کے لتے لئے اور انہیں سب سے بڑا دہشتگرد قرار دے دیا۔



اگرچہ بے دل و بے حس سیاست میں الزامات کا وتیرہ کوئی نیا نہیں ہے مگر اس طرح ان کا بار بار اعادہ بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں مجھے شہاب نامہ کا وہ باب یاد آ گیا جو محلاتی سازش کے گرد گھومتا ہے۔ شہاب رقمطراز ہیں کہ
11اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا، ان کی حکومت مسلم لیگ اور یونائیٹڈ فرنٹ کے اتحاد سے بنی تھی۔ 'شیر بنگال' مولوی اے کے فضل الحق پہلی بار کسی مرکزی کابینہ میں شامل ہوئے اور انہیں وزارتِ داخلہ ملی۔ کچھ عرصہ قبل ان پر زور و شور سے 'غدار' اور 'ملک دشمن' کا الزام لگ چکا تھا، لیکن اب وہی غدار اور ملک دشمن ملک کا وزیر داخلہ تھا۔

بدقسمتی سے کبھی کبھی ہماری سرکاری، سیاسی، سماجی اور ذاتی قوتِ برداشت بڑی ضعیف ثابت ہوتی ہے۔ حکومت وقت کے ساتھ اختلاف غداری بن جاتا ہے اور سیاسی، سماجی امور میں رائے کا تصادم دشمنی قرار پاتا ہے۔ اِس فعل عبث میں حب الوطنی کی ساکھ کے علاوہ کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔

غیر ملکی ایجنٹ قرار دینے اور ایک دوسرے کو غدار کہنے کی بات تو ہماری تاریخ میں روزِ اول سے جاری ہے اور شاید اس کی ایک وجہ قائد اعظم سے منسوب وہ ''کھوٹے سکے'' کا بے بنیاد الزام ہے۔ جس کی نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی کوئی حیثیت۔ کبھی شیخ مجیب غدار تھا اور بعد میں مشرقی پاکستان سے سب سے زیادہ سیٹیں اسی نے جیتیں، بعد میں بھٹو اور یحیٰ خان غدار بن گئے، یحییٰ خان تو ریٹائرڈ ہوگیا اور بھٹو صاحب وزیر اعظم بن گئے۔ 1999ء میں طیارہ سازش کیس میں جس شخص کو غدار قرار دیا گیا تھا۔ آج وہ ہمارا وزیر اعظم ہے اور وہ ایک شخص جو کبھی ہمارا آرمی چیف اور صدر تھا۔ آج آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہے۔

ہم نے بھی اپنے تئیں حب الوطنی کی ساکھ کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کیونکہ ہم نظریاتی و اصولی اختلاف کو بھی ذاتی دشمنی کی شکل دے دیتے ہیں اور لوگوں پر اس اُمید کے ساتھ کیچڑ اچھالتے ہیں کہ یہ کیچڑ واپس ہم پر نہیں آئے گا۔ حالانکہ جو دوسروں پر کیچڑ اچھالتا ہے وہ سب سے پہلے اپنے ہاتھ داغدار کرتا ہے۔

[poll id="828"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں