سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کا احتجاج رینجرز اختیارات کا معاملہ پھر لٹک گیا
اسپیکر نے اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی پر اجلاس منگل کی صبح تک کے لئے ملتوی کردیا
سندھ اسمبلی میں تیسرے روز بھی رینجرز کے اختیارات کی قرارداد پیش نہ کی جاسکی اور اپوزیشن کے احتجاج پر معاملہ پھر سے ایک دن کے لئے ملتوی ہوگیا۔
اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں سندھ اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا، اجلاس کا باقاعدہ اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت چاہی لیکن اسپیکر نے انہیں انکار کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس قواعد کے مطابق چلے گا۔
اجلاس کے دوران ایم کیوایم کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں نے رینجرز کے اختیارات سے متعلق قرارداد نا لانے پر اعتراض کیا تو اسپیکر نے ریمارکس دیئے کہ اجلاس کی کارروائی کا ایجنڈا طے ہے اور اجلاس اسی ایجنڈے کے تحت ہی چلے گا۔ جس پر اپوزیشن ارکان نے اسپیکر کے نشست کے سامنے کھڑے ہوکر احتجاج شروع کردیا۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ 4 ماہ بعد اسمبلی کا اجلاس ہوا ہے اس لئے اسے ایجنڈے کے تحت چلنے دیا جائے۔ ارباب غلام رحیم اور لیاقت جتوئی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں وہ اپنے ارکان کو سمجھائیں تاہم احتجاج جاری رہنے پر اسپیکر نے اجلاس منگل کی صبح تک کے لئے ملتوی کردیا۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد وزیراعلی سید قائم علی شاہ ایوان سے باہر آئے تو صحافیوں نے رینجرز اختیارات میں توسیع سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی جس پر وزیراعلی سندھ برہم ہوگئے اور کہا کہ آپ رینجرز کے معاملے کو کیوں بڑھا رہے ہیں اختیارات کچھ نہیں ہوتے وہ تو میرے پاس بھی نہیں، رینجرز ہمارے ساتھ ہے اور ہم رینجرز کے ساتھ اس لئے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرلیا جائے گا۔
وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ اگر اقلیتی اپوزیشن اکثریت کوڈکٹیٹ کرے تو یہ افسوس کی بات ہے، ہم نے ایوان کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں اجلاس جاری رکھنا ممکن نہ تھا جس پر اسپیکر نے اجلاس ملتوی کیا۔
تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ رینجزر کے اختیارات کا معاملہ آج ہی حل ہوجائے اور اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے سوا تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں، شہریار مہر نے کہا کہ رینجرز کےاختیارات کا حکم اسمبلی کو نہیں بلکہ حکومت کو جاری کرناہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ حکومت یہ نہیں چاہتی۔
سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے کہا کہ کراچی آپریشن پر پیپلز پارٹی بڑی خوش تھی لیکن جب پیپلز پارٹی کے ارکان کو پکڑا گیا تو انہیں تکلیف ہوئی۔ سب سے بڑے ڈاکو تو اقتدار میں بیٹھے ہیں، حکومت اپوزیشن کوبولنےنہیں دیتی اور مائیک بند کردیا جاتا ہے۔
سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر ہمارے اپوزیشن کے دوستوں نے جذباتی ردعمل دیا اور حکومت کوآسانی سے راہ فرار مل گئی، تمام ارکان کو معلوم ہے کہ منگل کو ارکان کا دن ہے اور اس دوران ایسی کوئی قرارداد پیش نہیں جاسکتی۔
اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں سندھ اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا، اجلاس کا باقاعدہ اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت چاہی لیکن اسپیکر نے انہیں انکار کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس قواعد کے مطابق چلے گا۔
اجلاس کے دوران ایم کیوایم کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں نے رینجرز کے اختیارات سے متعلق قرارداد نا لانے پر اعتراض کیا تو اسپیکر نے ریمارکس دیئے کہ اجلاس کی کارروائی کا ایجنڈا طے ہے اور اجلاس اسی ایجنڈے کے تحت ہی چلے گا۔ جس پر اپوزیشن ارکان نے اسپیکر کے نشست کے سامنے کھڑے ہوکر احتجاج شروع کردیا۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ 4 ماہ بعد اسمبلی کا اجلاس ہوا ہے اس لئے اسے ایجنڈے کے تحت چلنے دیا جائے۔ ارباب غلام رحیم اور لیاقت جتوئی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں وہ اپنے ارکان کو سمجھائیں تاہم احتجاج جاری رہنے پر اسپیکر نے اجلاس منگل کی صبح تک کے لئے ملتوی کردیا۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد وزیراعلی سید قائم علی شاہ ایوان سے باہر آئے تو صحافیوں نے رینجرز اختیارات میں توسیع سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی جس پر وزیراعلی سندھ برہم ہوگئے اور کہا کہ آپ رینجرز کے معاملے کو کیوں بڑھا رہے ہیں اختیارات کچھ نہیں ہوتے وہ تو میرے پاس بھی نہیں، رینجرز ہمارے ساتھ ہے اور ہم رینجرز کے ساتھ اس لئے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرلیا جائے گا۔
وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ اگر اقلیتی اپوزیشن اکثریت کوڈکٹیٹ کرے تو یہ افسوس کی بات ہے، ہم نے ایوان کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں اجلاس جاری رکھنا ممکن نہ تھا جس پر اسپیکر نے اجلاس ملتوی کیا۔
تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ رینجزر کے اختیارات کا معاملہ آج ہی حل ہوجائے اور اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے سوا تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں، شہریار مہر نے کہا کہ رینجرز کےاختیارات کا حکم اسمبلی کو نہیں بلکہ حکومت کو جاری کرناہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ حکومت یہ نہیں چاہتی۔
سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے کہا کہ کراچی آپریشن پر پیپلز پارٹی بڑی خوش تھی لیکن جب پیپلز پارٹی کے ارکان کو پکڑا گیا تو انہیں تکلیف ہوئی۔ سب سے بڑے ڈاکو تو اقتدار میں بیٹھے ہیں، حکومت اپوزیشن کوبولنےنہیں دیتی اور مائیک بند کردیا جاتا ہے۔
سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر ہمارے اپوزیشن کے دوستوں نے جذباتی ردعمل دیا اور حکومت کوآسانی سے راہ فرار مل گئی، تمام ارکان کو معلوم ہے کہ منگل کو ارکان کا دن ہے اور اس دوران ایسی کوئی قرارداد پیش نہیں جاسکتی۔