آواز کوئی نہیں سنے گا

خانیوال, خبر ناقابل یقین تھی کہ ایک باپ، بھائی اور چچا نے 2 دن کی بچی کو اس لیے زندہ دفن کردیا کہ وہ ’’بدصورت‘‘ تھی


ایکسپریس July 18, 2012
[email protected]

کچا کھوہ، خانیوال سے آنے والی یہ خبر ناقابل یقین تھی کہ ایک باپ، بھائی اور چچا نے 2 دن کی بچی کو اس لیے زندہ دفن کردیا کہ وہ ''بدصورت'' تھی۔ ہمارے وہ سیاسی اور مذہبی رہنما جو صبح شام جلسے ، جلوس اور دھرنوں میںمصروف رہتے ہیں اور اگلے انتخابات میں پارلیمنٹ کے اندر پہنچنے کے لیے بے تاب ہیں، ہمارے وہ مذہبی رہنما جنہوںنے جبہ ودستار سنبھالتے ہوئے چند مہینوں پہلے خود کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے پیش کردیا تھا۔

مجھے یقین تھا کہ یہ سب مل کر اس گھنائونے جرم پر چیخ اٹھیں گے اور ہوسکتا ہے کہ ان میںسے کوئی کچا کھوہ بھی جائے اور زندہ درگور کردی جانے والی بچی کی بدنصیب ماں سے پرسہ کرے۔ لیکن ان سطروں کے لکھے جانے تک ان میں سے کسی ایک کی آواز سنائی نہیں دی۔ احتجاج کیا تو ان افراد اور تنظیموںنے جو معتوب ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے شمالی علاقہ جات کے بعض حصوں میں یہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ عوامی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے وابستہ مردوں اور عورتوں کی نماز جنازہ نہیںپڑھائی جائے گی۔

کئی برس پہلے کسی ادبی پرچے کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک نظم نظر سے گزری تھی جس نے دل کے ٹکڑے کردیے تھے۔ میں نے پرچا بہت سنبھال کر رکھ لیا کہ اسے پھر سے پڑھوں گی لیکن رسالوں اور کتابوں کے انبار میں وہ کہیںکھو گیا ۔گزشتہ دنوں کسی دوست کے گھر رکھے ہوئے ادبی پرچوںکو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی کہ اچانک وہ نظم ''اُداس لڑکیاں'' سامنے آگئی۔ جس کی چند سطریں آپ کی نذر ہیں:

اداس لڑکیاں...اجل دریدہ و سحر زدہ' ستم نصیب آئینے کے آس پاس لڑکیاں...اداس لڑکیاں...تمام رات آفتاب ان کے انتظار میں رُکا رہا...کہ سو سکیں...تمام دن خزاں کی دھوپ ان کے گھر سے دور...خیمہ زن رہی...کہ تیز روشنی سے مضطرب نہ ہوں...یہ زندگی کی سِل پہ پس چکیں تو رنگ آئے گا... عدم نصیب عورتیں عدم کا راستہ بتائیں گی... یہ آئینے کے اس طرف گئیں تو آئینے کا ماجرا سنائیں گی ...اداس عورتیں سفر کے راز لے کے آئیں گی ... سفر نصیب عورتیں، اجل نشان عورتیں، عدم نژاد عورتیں ...سُو ایسا کیا ضرور ہے کہ ان کے قتل کی سزا بھی قتلِ عمد ہو۔

میں نے انور خالد کو داد دینی چاہی تو معلوم ہوا کہ وہ اس جہان سے رخصت ہوئے۔ ان کو دی جانے والی دادمجھ پر قرض ہوگئی اور دل کٹ کر رہ گیا۔ دل تو اب ان خبروں کو پڑھ کر صبح و شام قتل ہوتا ہے جن میں بچیوں، لڑکیوں اور عورتوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے کی، زندگی ان پر حرام کردینے کی، ان کے چہروںکو تیزاب سے جھلسا دینے کی تفصیل سے اخباروں کے صفحے سیاہ رہتے ہیں ۔

وہ جماعتیںجو صبح سے شام تک یورپ، امریکا، سوشل ازم، سیکولر ازم کی دھجیاں اڑاتی رہتی ہیں، ان جماعتوں کے دانشور ٹیلی ویژن کے مذاکروں اور مباحثوں میں دنیا کے ہر موضوع کو زیرِ بحث لاتے ہیں لیکن ان کا دل اپنی مظلوم عورتوں بہ طور خاص دور دراز علاقوں میں رہنے والی عورتوں کے لیے ذرا نہیں پگھلتا جو پیدا ہوتے ہی ظلم کی بھٹی میں جھونک دی جاتی ہیں۔یہ ایک دور وحشت ہے جس سے ہم گزررہے ہیں۔ ہمارے ہزاروں نوجوان اور مرد بھی اس کا نشانہ ہیں لیکن لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ حیرت ہے کہ اس کے بعد بھی ہمیں اصرار ہے کہ ہم مسلمان ہیں، مہذب ہیں اور دنیا کو ہماری پیروی کرنی چاہیے۔

نام نہاد پیروں اور عاملوں کے ہاتھوں ہماری بچیوں پر جو ستم توڑا جارہا ہے، اس کی خبریں بھی روز چلی آتی ہیں۔ ساہیوال میں چک 114/12-L کی بدنصیب بارہ سالہ سلمیٰ بی بی اپنے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر ختم ہوگئی اور وہ اس پر ہونے والا ہر ستم دیکھتے رہے اور کیوں نہ دیکھتے کہ پیر شوکت ان کی بچی پر آیا ہوا جن اتار رہا تھا۔ اس پیر کے خلاف مقدمہ درج ہوا لیکن فوراً بعد ہی وہ ضمانت پر رہا ہوگیا۔ دوسری سلمیٰ بی بیوں پر سے جن اتارنے کے لیے۔

جِن اتارنا ان عاملوں اور خود ساختہ پیروں کی روزی روٹی ہے اور اس کے لیے وہ مرگی اور دوسرے ذہنی امراض میں مبتلا بچیوں کو دہکتے ہوئے لوہے سے داغتے ہیں، انھیں ہنٹروں سے پیٹتے ہیں اور بعض حالات میں جان سے مار دیتے ہیں۔ سلمیٰ بی بی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوا کہ اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔

یہ لوگ اولاد کے لیے ترستی ہوئی عورتوں کا جنسی اور معاشی استحصال کرتے ہیں۔ غربت اور جہالت کے یہ عذاب ہمارے دیہی علاقوں میں عام ہیں لیکن ہمارے دینی رہنما ان انسانیت سوزجرائم کے خلاف کوئی مہم نہیں چلاتے، انھیں امریکا مخالف مہم چلانے سے تو فرصت ہو۔ ہماری سیاسی جماعتیں ان سے کہیں بڑھ کر ذمے دار ٹھہرتی ہیں کیونکہ وہ سماج کو بدلنے اور ملک کی تمام آبادی کو انصاف فراہم کرنے کی دعویدار ہیں۔ سیاسی سونامی کے ذریعے ملک کے حکمرانوں کو غرق کرنے کے بلند بانگ دعوے کرنے والے بھی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی تدبیریں نہیں کرتے۔

مئی کے مہینے میں ہندوستانی فلم اسٹار عامر خان کا نیا پروگرام ستیامیو جیتی شروع ہوا۔ پاکستان میں بھی لوگوں نے اس پروگرام کو بہت شوق سے دیکھا۔ عامر خان پاکستان کے لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کے چہیتے ہیں اور خاص طور سے لڑکیاں ان کی ہر ادا پر فدا ہیں۔ ہوسکتا ہے لوگوں کا خیال ہو کہ یہ بھی دل بہلانے والا کوئی پروگرام ہوگا لیکن عامر خان کا پہلا پروگرام جب ختم ہوا تو میں نے اپنے آنسو خشک کیے اور گھر کے کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ ماں کی کوکھ میں بچی کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا قتل ایسا گھنائونا جرم ہے جس میں شوہر، اس کے خاندان کے افراد، ابارشن کرنے والا ڈاکٹر اور بعض حالات میں بچی کی ماں بھی شریک ہوتی ہے۔ اس پروگرام کو دیکھنے والی کچھ عورتیں یہ کہتی ہوئی اٹھیں کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے یہاں یہ لعنت موجود نہیں اور میری اس بات پر انھیں بہت مشکل سے یقین آیا کہ الٹرا سائونڈ ٹکنیک عام ہونے کے بعد پاکستان میں بھی یہ جرم پھل پھول رہا ہے اس کے خلاف اکا دکا آوازیں اٹھتی بھی ہیں لیکن جتنے بڑے پیمانے پر اور دل کے ٹکڑے کردینے والے انداز میں عامر خان نے یہ بات کہی، وہ دل ہلا دیتی ہے۔

ماں کی کوکھ میں ختم کردی جانے والی بچیاں ہوں یا عورتوں کے خلاف دوسرے جرائم ہو، ان میں کمی آنے کے بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دو دن پہلے اسلام آباد میں ''عورت فائونڈیشن'' کی طرف سے ہونے والے ایک سیمینار میںیہ بات سامنے آئی کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے بارے میں قانون بن جانے کے باوجود، ان پر تشدد اور ان کے خلاف جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اگر ملزم پکڑے جائیں تو پولیس ان کے خلاف شہادتیں مہیا کرنے میں مستعدی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ 100 میں سے 89 ملزم چھوٹ جاتے ہیں اور اگلی مرتبہ زیادہ اعتماد سے جرم کرتے ہیں۔ 2008 سے 2011 کے درمیان سارے ملک میں عورتوں کے خلاف جرائم کے 35,658 مقدمات درج ہوئے۔

ان مقدمات میں 2010 سے 2011ء کے درمیان لگ بھگ 7 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا پولیس کے پاس اندراج صرف 40 فیصد ہوتاہے۔ ''کاروکاری'' پاکستان کے دیہی علاقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ اس طرح شوہر، باپ، بھائی، چچا، سسر اور بعض حالات میں بیٹے نہ صرف اس عورت سے نجات حاصل کرلیتے ہیں جس پر وہ شک رکھتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی اپنے کسی دشمن کو بھی قتل کردیتے ہیں۔ کئی مرتبہ یہ قتل عورت کی جائیداد ہتھیانے کے لیے ہوتا ہے۔ ایسے ملزمان عموماً چھوٹ جاتے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر عورت کے لیے جو قانون بنائے وہ آج تک پاکستانی عورت کے لیے سزا ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے فائدے کے لیے ہمارے آئین کے بخیے ادھیڑ دیے لیکن ان عورت دشمن قوانین کو ہاتھ نہیں لگایا جن کے خلاف حقوق انسانی کی پاکستانی تنظیمیں 1980 کے ابتداء سے احتجاج کررہی ہیں۔ ان قوانین کا خاتمہ تو موجودہ حکومت سے بھی نہ ہوسکا جو اعلیٰ ترین منصب پر فائز اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے چند منٹ میں نئے بل منظور کراتی ہے اور پھر چین آرام کی بانسری بجاتی ہے۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے سماج کا ایک چھوٹا سا طبقہ جس میں عورتیں اور مرد دونوں ہی شامل ہیں وہ اپنے ضمیر کی آواز سن کران مظلوم لڑکیوں اور عورتوں کے لیے انصاف طلب کرتے رہیں گے لیکن برسر اقتدار اور بااثر سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کے کان ان کی آواز نہیں سنیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں