حالیہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ سیاست کا کھیل فی الواقع ممکنات کا کھیل ہے

S_afarooqi@yahoo.com

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ سیاست کا کھیل فی الواقع ممکنات کا کھیل ہے۔ سیاست خواہ ملکی ہو یا بین الاقوامی اس حقیقت کا اطلاق دونوں پرکم و بیش یکساں طور پر ہی ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

حالیہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا انعقاد اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ وفاقی دارالخلافہ اسلام آباد میں 5 ویں ہارٹ آف ایشیا ''استنبول پراسس'' سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا شرف اس مرتبہ وطن عزیز پاکستان کو حاصل ہوا۔اس کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پرکیا جسے ایک خوش آیند پیش رفت سے تعبیرکیا جاسکتا ہے ،کیونکہ ایک عرصے سے ان دونوں پڑوسی مسلم ممالک کے باہمی تعلقات کسی نہ کسی حد تک کشیدگی اور باہمی عدم اعتمادکا شکار چلے آرہے تھے۔ ملکی اور غیر ملکی دونوں ہی سیاسی حلقوں میں اس کانفرنس کے انعقاد کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نہایت اہم اور لائق تحسین کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورتحال اوراس کے نتیجے میں اس کے ملحقہ علاقوں میں جنم لینے والے مسائل کے پس منظر میں اس کانفرنس کا منعقد ہونا انتہائی بروقت تھا۔ بقول اقبال:

وقت پرکافی ہے قطرہ ابرِخوش ہنگام کا
جل گئی کھیتی اگر برسا تو پھر کس کام کا

بلاشبہ وقت اور موقعے کے لحاظ سے کسی بھی کام کی Timing کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ A Stitch intime saves nine متذکرہ کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں سات ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی جن میں پاکستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ بھی شامل ہیں۔

یہ ہیں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی، افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی، بھارتی وزیر خارجہ شریمتی سشما سوراج اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف۔ ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ گزشتہ 4 ماہ کے عرصے میں ان کا پاکستان کا یہ تیسرا دورہ تھا جب کہ بھارتی وزیر خارجہ کے دورے کی اہمیت اس اعتبار سے دوچند تھی کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں اور سرحدی کشیدگی کی شدت بھی برقرار رہی ہے۔ 14 ممالک کے اعلیٰ سطح وفود نے اس کانفرنس میں شرکت کرکے اس کی اہمیت اور افادیت میں کئی گنا اضافہ کردیا۔

علاوہ ازیں اس کانفرنس میں پاکستان کے لیے امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن نے بھی شرکت کی جوکہ آج کل پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمایندے کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ متذکرہ کانفرنس میں روس، سعودی عرب، ترکمانستان، آذر بائیجان، ترکی، قازقستان، کرغزستان اور متحدہ عرب امارات کے سینئر نمایندوں نے بھی شرکت کی جس نے اس کی اہمیت و افادیت کو مزید بڑھاوا دیا۔


''استنبول پراسس''اس کانفرنس کی اصل بنیاد ہے جس کا آغاز ترکی اور افغانستان کی مشترکہ کوششوں کا ثمر ہے۔ان کوششوں کا بنیادی مقصد ''ہارٹ آف ایشیا'' پر مشتمل ممالک کے اشتراک سے وہ مطلوبہ تعاون حاصل کرنا تھا جس کے ذریعے افغانستان کو ایک پرامن، مستحکم اور ترقی پذیر ملک بنایا جاسکتا ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا تھا کہ جغرافیائی اعتبار سے چاروں جانب سے خشکی سے گھرے ہوئے ملک افغانستان اور اس کے قریبی اور دور پرے کے ملکوں کے مابین موثر اور مسلسل مکالمے کے سلسلے کو جاری رکھا جائے تاکہ مشترکہ دلچسپی اور اہمیت کے حامل مختلف امور اور مسائل بحث و مباحثہ منقطع نہ ہونے پائے جس کے نتیجے میں بدگمانیاں پیدا ہونے سے بچ جائیں۔

اس اعتبار سے ''استنبول پراسس'' باہمی اعتماد سازی کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اعتماد سازی کی فضا بحال رہے گی تو سیاسی پیچیدگیوں سے بہ آسانی بچا جاسکے گا جس سے نہ صرف افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کو تقویت حاصل ہوگی بلکہ ملحقہ پورے خطے کی سیاسی فضا کو خوشگواور اور سازگار بنانے میں بڑی مدد حاصل ہوگی۔ چنانچہ اس لحاظ سے ''استنبول پراسس'' کو کئی اعتبار سے وسیع البنیاد اور کثیر المقاصد کہا جاسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس خطے کے حالات سازگار ہوں تو علاقائی تنظیمیں بھی یکجہتی کے فروغ، سلامتی کی بہتری اور اقتصادی تعاون بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں جس سے نہ صرف افغانستان کو فائدہ ہوگا بلکہ پورے خطے کی فضا میں بہتری اور خوشگواری آئے گی۔ نیز اس عمل کے نتیجے میں عوامی سطح پر تعلقات کے فروغ اور استحکام میں بھی خاطر خواہ مدد اور کامیابی حاصل ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پانچویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے تمام شرکا کی دلی خواہش یہی تھی کہ اس کانفرنس کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنایا جائے اور پاکستان اور افغانستان کی حیثیت تو اس میں Major Stake Holders کی تھی۔

اس کانفرنس کی سب سے اہم توجہ طلب بات یہ تھی کہ اس کے افتتاح کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی نے نہایت جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جی ایچ کیو کا دورہ بھی کیا۔ اس سے قبل بھی ماضی کے اپنے سابقہ دورہ پاکستان میں تمام سفارتی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام آباد میں قدم رنجہ فرمانے کے تھوڑی ہی دیر بعد سب سے پہلے جی ایچ کیو کا وزٹ کیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی کے اس عمل کی بڑی غیر معمولی اہمیت ہے ۔

جس سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ علاقائی سیکیورٹی کے حوالے سے طاقت کے اصل سرچشمے کی حیثیت سے جی ایچ کیو کو کیا مقام حاصل ہے اور اس کی اہمیت کتنی ہے۔ ان کے اس عمل سے اس حقیقت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ وہ علاقائی سیکیورٹی کے حوالے سے ٹھوس کارروائی کے خواہاں ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ جو معاملات بھی باہمی رضامندی سے طے پاجائیں ان پر محض لفظی طور پر نہیں روح کے مطابق پوری طرح عمل بھی کیا جائے۔ ان کے دل میں اگر واقعی ایسا ہی جذبہ موجود ہے تو یہ ایک نہایت خوش آیند بات ہے جس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا نا چاہیے۔

افغان صدر نے وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ اپنے مذاکرات کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ''ہارٹ آف ایشیا کے بارے میں ہمارا ویژن مشترک ہے۔'' اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ ''جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کو توانائی، گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کے ذریعے مربوط کرکے اقتصادی یکجہتی کی ضمانت دی جائے گی اور یہ کام اب محض خواب و خیال نہیں رہے گا بلکہ ایک حقیقت بن جائے گا۔''

انھوں نے مزید کہا کہ ''ماضی میں نظرانداز کیے گئے ہمارے عوام کو بھی مستقبل کے منظرنامے میں اسٹیک ہولڈرز کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے تاکہ انھیں بھی مستحکم اور پرامن ممالک کی اقتصادی ترقی میں سے کچھ حصہ میسر آسکے۔'' افغان صدر نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے آگے کہا کہ ''ہمارے اعتماد متزلزل ہیں کیونکہ دہشت گردی کی کوئی حدود نہیں ہیں۔'' تاہم انھوں نے عزم محکم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم نے 13 سال کی رکاوٹوں پر صرف تین دن میں قابو پالیا ہے اور ہم کسی بھی صورت ماضی کو اپنے مستقبل کی تباہی کی اجازت نہیں دے سکتے۔''

افغان صدر کے متذکرہ بالا فرمودات ان کے خلوص، نیک نیتی اور عزم صمیم کی عکاسی کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ اپنے اس قول کو اپنے آئینی عمل سے سچ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کے نہ صرف پاک افغان تعلقات پر بلکہ اس پورے خطے کے سیاسی اور اقتصادی حالات پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے انعقاد نے پاکستان اور افغانستان کو اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ اس تناظر میں افغانستان کی حکومت کے ایک سابقہ آفیسر (جوکہ اب بطور کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہے ہیں) جناب حبیب ویاند کا یہ تبصرہ بھی قابل توجہ ہے کہ ''یہ کانفرنس دونوں جانب سے حالات خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کا راستہ بند کردے گی تاکہ علاقے کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس کے نتیجے میں پائیدار امن اور ترقی کی راہیں کھل جائیں۔ اس مقصد کی خاطر افغانستان کو غیر ذمے دارانہ اور پاکستان دشمن ایجنڈے کو ترک کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے لیے پاکستان کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔''
Load Next Story