گبریل پیری کی 74ویں برسی

ان اشتہارات میں جرمنی و فرانس کے محنت کشوں کو ترغیب دی گئی تھی کہ وہ آپس کے دوستانہ تعلقات نہ صرف قائم رکھیں


ایم اسلم کھوکھر December 15, 2015

ہم بات کریںگے ایک ایسے قلم کارکی جو ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا۔ گبریل پیری جوکہ ایک ادیب ، حق گو صحافی اور ایک بااصول نظریاتی سیاسی کارکن بھی تھا۔

گبریل پیری نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی 1902 میں تو وہ گھرانہ قدرے معاشی نا ہمواریوں سے آزاد تھا، یہی سبب ہے کہ گبریل پیری کو حصول تعلیم و حصول ملازمت میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی، چنانچہ گبریل پیری ابھی 17 برس کا نوجوان ہی تھا کہ ایک اچھی باعزت ملازمت و اس ملازمت کا معقول معاوضہ اس کا منتظر تھا، یہ ذکر ہے 1919 کا اگرچہ گبریل پیری معاشی تنگدستی سے بے فکر ضرور تھا مگر وہ سماج میں اپنے ارد گرد ہونے والی معاشی نا ہمواریوں سے بے خبر نہ تھا۔ چنانچہ فقط 17 برس کی عمر میں گبریل پیری کو ان معاشی ناہمواریوں کا ادراک بھی ہوچکا تھا اور جان چکا تھا کہ ان معاشی ناہمواریوں کے حقیقی اسباب ہیں کیا کیوں کہ طویل غور و فکر کرنے پر گبریل پیری پر راز منکشف ہوا تھا کہ جن مسائل کا آج کے انسان کو سامنا ہے۔

ان تمام تر مسائل کا سبب تھا جنگ، وہی جنگ جس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ جنگ لا تعداد مسائل کو جنم دیتی ہے یہ جنگیں ہوتی کیوں ہیں؟ کیا اس کی وجوہات میں انسانی حسد رقابت نسلی برتری کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے؟ گبریل پیری یہ سب تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا چنانچہ جنگ کیوں ہوتی ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے وہ مطالعے کی جانب راغب ہوگیا اس کا شوق ہی تھا کہ گبریل پیری نے کارل مارکس و فریڈرک اینگزکی سب کتابیں پڑھ ڈالیں وہ بھی نو عمری میں جنگیں کیوں ہوتی ہیں۔ اب اس سوال کا جواب بھی گبریل پیری کو مل چکا تھا وہ جان چکا تھا کہ جنگیں تو اسلحے کے عالمی سرمایہ دار تاجروں کی ضرورت ہوتی ہیں اور تاجر تو فقط اپنے مال کی کھپت کا طلبگار ہوتا ہے۔

چنانچہ کون سا اسلحہ تیار کرنے والا ہے جس کی خواہش ہو کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے اور اس کی فیکٹریوں میں تیار ہونے والا اسلحہ گوداموں میں پڑا رہے۔ بہر کیف 1919 میں فرانس نے جرمنی کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کی حکمت عملی اپناتے ہوئے رائن لینڈ کی شہروں پر قبضہ کرلیا جب کہ اسی برس گبریل پیری نے فرانس کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی چنانچہ جب فرانس نے رائل لینڈ کے شہروں پر قبضہ کیا اور اپنے فوجیوں کو دوبارہ مسلح ہونے کا حکم دیا تو گبریل پیری نے اپنے کمیونسٹ ساتھیوں سمیت فرانس کے اس اقدام کی عام جلسوں کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ اخبارات میں بھی شدید مذمت کی کیوں کہ گبریل پیری جان چکا تھا کہ فرانس کے اس اقدام کا مقصد جرمنی کے ترقی پسندوں کوکمزورکرنا تھا اور گبریل پیری و اس کے ساتھیوں نے اس موقعے پرکئی ایک اشتہارات بھی مارسیلز میں تقسیم کیے۔

ان اشتہارات میں جرمنی و فرانس کے محنت کشوں کو ترغیب دی گئی تھی کہ وہ آپس کے دوستانہ تعلقات نہ صرف قائم رکھیں بلکہ ان تعلقات کو مزید مضبوط کریں۔ گبریل پیری کی اسی قسم کی سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں کہ اس کی انھی سرگرمیوں کے باعث اسے 1921 میں 2 ماہ کے لیے جیل یاترا بھی کرنا پڑی۔ اس وقت گبریل پیری کی عمر فقط 19 برس تھی گبریل پیری کے والدین نے اسے کبھی اس کی سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کی کوشش نہیں کی کیوں کہ وہ جان چکے تھے کہ ان کا بیٹا پوری فہم و فراست کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے جب کہ 1922 میں گبریل پیری کو 20 برس کی عمر میں نوجوانوں کی کمیونسٹ تنظیم کا سیکریٹری چن لیا گیا مگر اس کے لیے اسے مارسیلز چھوڑ کر پیرس آنا پڑا اگرچہ وہ مارسیلز چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر اسے اپنی پارٹی کا فیصلہ قبول کرنا پڑا۔

جس نے اسے پیرس بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا البتہ پیرس آنے کے بعد اس نے صحافت کا آغاز بھی کر دیا اور کمیونسٹ نوجوانوں کی تنظیم کے اخبار AVANTA GARDE سے منسلک ہوگیا، پیرس آنے کے بعد گبریل پیری کو دوسرے ممالک کی نوجوان کی کمیونسٹ تنظیموں سے رابطے کے سلسلے میں پڑوسی ممالک کے دورے بھی کرنے پڑے ان ممالک میں ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم و انگلستان شامل ہیں۔ ان ممالک کے دورے کرنے سے گبریل پیری کا مقصد مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگوں سے محفوظ رہنا تھا جب کہ 1922 میں جب فرانسیسی فوجیوں کو پھر تیاری کا حکم ملا تو اس کی مخالفت میں گبریل پیری نے اپنے اخبار کا ایک خاص نمبر سپاہی جس پر گبریل پیری گرفتار ہوا جب کہ اس برس کے آخر میں گبریل پیری کو کمیونسٹ نوجوانوں کی عالمگیر کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ماسکو جانے کا اتفاق ہوا ۔

جہاں اس کا ایک ماہ تک قیام رہا۔ اس موقعے پر اس نے جنگ کے بعد کا فرانسیسی انقلابی ادب و پیرس کمیون پر تقاریر کیں اور 20 سالہ گبریل پیری کو استاد معظم لینن سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا جب کہ اپریل 1923 میں گرفتار ہوکر جیل گیا تو اس بار اس پر اور اس کے ساتھیوں پر فرانسیسی حکومت کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جہاں فرانسیسی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ان اسیران کا مقدمہ ہائی کورٹ نہیں سینیٹ سنے گا اور سینیٹ کو ہائی کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے البتہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ جب تک مقدمہ نہیں سنے گا ۔

ان اسیران کو رہا کردیا جائے گا مگر جرمنی سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی ولیم کو رہائی نہیں ملے گی۔ گبریل پیری نے فرانسیسی حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ولیم کے ساتھ مل کر لاسا نتے جیل میں بھوک ہڑتال کردی اور رہا ہونے سے انکار کردیا یہ بھوک ہڑتال 11 روز جاری رہی جس پر 11 روز بعد گبریل پیری و ولیم کو زبردستی کوچین کے اسپتال لے جایا گیا اور زبردستی غذا دی گئی اور گبریل پیری کو اس کی مرضی کے خلاف رہا کردیاگیا۔ رہائی کے بعد گبریل پیری نے زبردست احتجاج کیا نتیجہ یہ کہ 2روز بعد فرانسیسی حکومت نے ولیم کو بھی رہا کردیا۔

وقت کا پنچھی اڑتا رہا اور 1941 کا دور آتا ہے ، اڈولف ہٹلر کو سرمایہ دار طبقے کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، اڈولف ہٹلر کے خونی عزائم کے سامنے اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ دنیا بھر کے محنت کشوں کی سرخ فوج ہے جو کمیونسٹ نظریات کے حامل سوویت یونین صدر جوزف اسٹالن کی قیادت میں اڈولف ہٹلر کے سامنے سینہ سپر ہے یہ وہ حالات ہیں کہ نازی افواج فرانس پر قابض ہوچکی ہیں شکست خوردہ فرانس کا پرچم سرنگوں ہے یہ پیرس ہے خوشبوؤں کا شہر پیرس وہ ہی پیرس جہاں 1870 میں دنیا کا پہلا اشتراکی نظام 72 گھنٹے کے لیے قائم ہوا تھا یہ 14 دسمبر 1941 کی شب ہے۔

گبریل پیری فرانس کی جیل میں مقید ہے بلکہ ہزاروں کمیونسٹ و آزادی پسند پابند سلاسل ہیں سیکڑوں ایسے ہیں جنھیں بغاوت کے جرم میں موت کی نیند سلادیا ہے چنانچہ گبریل پیری بھی اپنی کوٹھری میں بند ہے اسے معلوم ہوچکا ہے کہ اسے آنے والی صبح دیکھنا نصیب نہ ہوگی ۔گبریل پیری اپنی مختصر سوانح حیات تحریر کرتا ہے گبریل پیری شادی شدہ ہے اس کی بیوی بھی کمیونسٹ ہے اور اسی جرم میں 25 مئی 1940 سے جیل میں قید ہے اس کی کوئی اولاد نہیں ہے ،چنانچہ اس نے اسپین سے تعلق رکھنے والے حریت پسند رہنما کی بیٹی کو گود لے رکھا ہے۔

جس میں وہ لکھتا ہے کہ میں اپنے نظریات پر قائم ہوں، موت کے سائے میرے ارادے کمزور نہیں کرسکے ہاں اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں اسی طرح بسر کرنا پسند کروںگا۔15 دسمبر 1941 کی صبح ہونے سے قبل چھ گولیوں کی آواز شب کا سناٹا چیرتی ہوئی بلند ہوتی ہے جس کے نتیجے میں گبریل پیری ابدی نیند سوچکا ہے گبریل پیری 39 برس عمر پائی آج 15 دسمبر 2015 اس کی 74 ویں برسی ہے مگر گبریل پیری زندہ ہے اپنے ترقی پسند نظریات کی شکل میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں