آج پھر سولہ دسمبر ہے
آج پھر سولہ دسمبر ہے۔ ہم تو سولہ دسمبر کو بھلا دینا چاہتے ہیں ۔ اس سے نظریں چرا کر نکل جانا چاہتے ہیں
آج پھر سولہ دسمبر ہے۔ ہم تو سولہ دسمبر کو بھلا دینا چاہتے ہیں ۔ اس سے نظریں چرا کر نکل جانا چاہتے ہیں مگر سولہ دسمبر ہر سال پھر ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ نہ ہم میں اس سے نظریں ملانے کی ہمّت ہے اور نہ اس کے تقاضے پورے کرنے کی! اس کے برسوں بعد 16دسمبر2014 کو ننھے فرشتوں کے جنازے اُٹھے تو پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی، جہالت اور درندگی کا سر کچلنے کے لیے جانبازمیدان میں اترے تو پوری قوم کی دعائیں ان کے ساتھ تھیں، چند مہینوں میں ہی فتنہ پردازوں کی کمر توڑ دی گئی۔ مگر 16دسمبر 1971 کا قرض باقی ہے۔
مشرقی بازو کے کٹ جانے کے اصل واقعات اورحقائق کوچھپانے کی نہیں ان سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ قوم کو ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ وہ عناصر جو سقوطِ غرناطہ کے بعد دنیائے اسلام کی سب سے بڑی ھزیمت اور رسوائی کا باعث بنے انھیں کٹہرے میں کیوں نہ لایا گیا۔
انھیں عبرتناک سزا کیوں نہ دی گئی۔کیا شیخ مجیب الرحمن کا یہ مطالبہ آئینی طور پر غلط تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اکثریتی پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے جو شخص پورے ملک کا وزیرِاعظم بننے کا حق رکھتا تھا وہ اس حق سے دستبردار ہوکر اپنے آپ کو ایک صوبے تک محدود کیوں کرتا؟ اکثریتی پارٹی کو اس کے آئینی حق سے محروم کیوں رکھاگیا؟ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ7مارچ 1971کو مجیب الرحمن نے جس تقریر میں بنگالیوں کو تمام سرکاری اور تعلیمی اداروں میں جانے سے روک دیا تھااس تقریر کے آخر میں اس نے جئے بنگلہ کے بعد پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایاتھا۔
ذوالفقار علی بھٹوکو اقتدار کی ہوس ہوگی اور وہ اس کے لیے جوڑ توڑ یا سازشیں کررہا ہوگا۔ مگر ان تمام حالات میں فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس تھا؟۔کس نے اپنی عیاشیوں اور موج مستیوں کے لیے اپنی آئینی ذمّہ داری سے روگردانی کی ۔ یحیٰی خان نے ،جو صدر بھی تھا اور چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بھی! فوج کا چیف بھی وہی تھااور حکومت کا سربراہ بھی وہی تھا تمام اختیارات اس کے پاس تھے۔
اس نے اپنی آئینی ذمے داری پوری نہ کرکے مجیب کو علیحدگی کا اعلان اور بھارت کو مداخلت کرنے کا جواز کیوں فراہم کیا؟ غیر جانبدار مورّخ اس عظیم سانحے کی زیادہ ذمے داری اسی پر ڈالیں گے جو صاحبِ اختیار تھا۔کیا جی ایچ کیو نے ذمّہ داروں کا کورٹ مارشل کرکے سزائیں دیں؟قوم اس سے واقف نہیں ہے! مگر اس بار مجھے سولہ دسمبر ایک سفارتکار کی کتاب نے یاد کرایا ہے۔ ایک باکمال سفارتکار نے ایسی کتاب لکھی ہے جسے پڑھ کر آنکھیں کھلتی بھی ہیں اور گاہے گاہے بھیگ جاتی ہیں۔
برسوں پہلے جب میں مظفّر گڑھ میں تعینات تھا تو ایک روز وزیٹنگ کارڈ آیا، لکھّاتھا میاں مظفر مہدی ہاشمی سابق ایم این اے۔ میاں صاحب انِتہائی نفیس اور پڑھے لکھے آدمی تھے۔
چند سال پہلے جب میں سروس کے آخری تربیّتی کورس کے لیے اسٹاف کالج گیا تو وہاں بَیچ کے سب سے خوش گفتار افسر نے بتایا کہ وہ میاں مظفر مہدی صاحب کا بیٹا ہے۔ افراسیاب ذہین اور منجھا ہوا سفارتکار تھا اورملک سے محبّت میں رچی ہوئی اس کی خوبصورت گفتگو سنکر لطف آجاتا تھا۔کورس کے خاتمے کے بعد سب اپنی اپنی ذمے داریوں میں مصروف ہوگئے توایک دن معلوم ہوا کہ افراسیاب کوبنگلہ دیش میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کر دیا گیا ہے اس پر میرے منہ سے فوری طور پر نکلا کہ سابق مشرقی پاکستان (اور اب بنگلہ دیش)میں پاکستان کی نمایندگی کے لیے افراسیاب سے بہتر کوئی چوائس نہیں ہو سکتی ۔
پھر ایک بار ڈھاکا فون پر بات ہوئی تو افراسیاب نے بتا یا کہ "حکومت کی ہدایات کے مطابق بنگلہ دیش کا سرکاری میڈیا صبح وشام زہریلا پراپیگنڈا کرتا ہے کہ پاکستانی فوج نے1971میں تیس لاکھ افراد کو قتل کیا اور دو لاکھ خواتین کی عزّت و عصمت برباد کی"، میں نے کہا "بیرون ملک کئی جگہوں اور کئی موقعوں پر ان الزامات کا جواب میں بھی دیتا رہتا ہوںاور آیندہ بھی دیتا رہوں گا کہ پاکستان آرمی ایک ایسی ڈسپلنڈ اور اسلامی تہذیب میں ڈھلی ہوئی فوج ہے کہ اس سے اسطرح کی غیر انسانی حرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
ممکن ہے چند واقعات ہوئے ہوںمگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ مغربی پاکستان کی فوج سے وابستہ ظلم اور زیادتی کی زیادہ تر کہانیاں مبالغہ آمیز اور محض پراپیگنڈا ہے البتہ مکتی باہنی کی طرف سے ہونے والے ظلم کی داستانیں کہیں زیادہ لرزہ خیز ہیں" ۔ اُسے تشویش تھی کہ سرکاری طور پر کبھی ثبوت اور حقائق کے ساتھ تین ملین فِگر والے الزام کا جواب نہیں دیا گیا۔پھریہ کام کرنے کا بیڑہ خود افراسیاب نے اٹھالیا۔کئی مہینوں کی عرق ریزی کے بعد اصل حقائق کا کھوج لگا یا اور حال ہی میں "1971...Fact & Fiction"کے نام سے ایسی اعلیٰ کتاب لکھ دی جس نے بھارت اور عوامی لیگ کے الزامات کی دھجّیاں اڑادی ہیں۔
اُس کا دُکھ بجا ہے اور واقعی یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ جس ملک کے قیام کی قرارداد ایک بنگالی رہنما(شیرِ بنگال فضلِ حق) نے پیش کی تھی اسی بنگال کے باشندے اس کے خلاف ہوگئے اورجس پاکستان کے بانی (قائدِ اعظمؒ) کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی الیکشن کا چیف پولنگ ایجنٹ خود شیخ مجیب الرحمان تھا وہی مجیب الرحمان ہی پاکستان سے علیحدگی کا علمبردار بن گیا۔
افراسیاب نے بھارتی الزامات کی قلعی کھولنے کے لیے انتہائی قابلِ اعتماد محققین اور رائٹرز کی تحریر وں کے حوالے دیے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے انتہائی قریبی ساتھی ڈاکٹر کمال حسین کے داماد ڈیوڈ برگ مین کے مطابق شیخ مجیب الرحمن غالباً تین لاکھ کہنا چاہتے تھے مگر ان کے منہ سے تین ملین نکل گیا اور پھر عوامی لیگ نے اسی مبالغہ آمیز تعداد کو ہی اپنالیا۔ بنگلہ دیش کے پہلے سیکریٹری خارجہ سیّد اے کریم نے شیخ مجیب کے دعوے کو 'gross over statement' قرار دیا ہے۔
آسٹریلیا کے ڈاکٹر جیفرے ڈیوس (جس نے ان واقعات پر بہت تحقیق کی تھی)نے مجیب کے پراپیگنڈے کو غلط قرار دیا۔ سبھاش چندر بوس کے سگے بھائی کی پوتی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی سینئر ریسرچ اسکالر شر میلا بوس نے بھارتی اور عوامی لیگی اعداد کو ایک "عظیم افواہ" 'gigantic rumour' قرار دیا۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ڈاکٹر تجّمل حسین نے تصدیق کی ہے کہ معروف بنگالی سیاستدان مرحوم حمیدالحق چوہدری کے مطابق 1971میں جابحق ہونے والوں کی تعداد دس سے پندرہ ہزار تک ہوسکتی ہے۔ مصنّف نے بَیسیوں مزید مستند حوالوں سے مجیب اور اس کی بیٹی کے جھوٹے الزامات کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔
اب کچھ واقعات مصنّف کی اپنی زبان میں سنیے۔ "بنگلہ دیش میں پاکستان کے لیے نفرت بھی ہے اور محبت بھی حسد اور بغض بھی ہے اور دعائیں اور نیک تمنائیں بھی ۔ اکثر پڑھے لکھے بنگالی مضطرب ہیں کہ بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی بنادیاگیا ہے ۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کی کابینہ میں کون شامل ہوگا اس کا فیصلہ دلّی میں ہوتا ہے"۔
"ـاسٹیڈیم میں پاکستان اور بنگلہ دیش کا کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے کہ چائے دینے والے ویٹر نے میرے کان میں کہا "سر میں تو پاکستان کی جیت کے لیے دعاکررہاہوں" اس میچ میں پاکستان جیت گیا تو ایک سابق فارن سیکریٹری کا فون آیا کہ میچ اسلامی پاکستان اور سیکیولر بنگلہ دیش کے درمیان تھا، میں اور میری بیگم پاکستان کی جیت پر ناخوش نہیں ہیں۔
ایوانِ صدر میں ہونے والی عیدِ میلادالنبیؐ کی تقریب میں امام صاحب نے میرے پاس آکر کہا" مجھے پاکستان بنگلہ دیش سے زیادہ پسند ہے" سب سے بڑے صوفی بزرگ حضرت شاہ جلال کے مزار پر اورلاکھوں کے تبلیغی اجتماع میں نوجوانوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔
"میری کار پر پاکستانی جھنڈا دیکھ کر بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیور اور مسافر محبّت سے ہاتھ ہلایا کرتے تھے"۔" ایوانِ صدر کی ایک تقریب میں ڈھاکا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے مجھے مخاطب کرکے کہا "دنیائے اسلام کے سب سے بڑے مفّکر علامہ اقبالؒ کے بتائے ہوئے نظریہء پاکستان کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا" "کئی لوگوں نے مجھ سے اپنے گھر رکھنے کے لیے علامہ اقبالؒ کے فوٹو دینے کی پر زورفرمائش کی"۔ "بنگلہ دیش کے یونیورسٹی طلباء پاکستان کے دورے سے واپس آئے تو انھوں نے اپنے جذبات تحریر کرکے مجھے بھی بھیجے وہ پاکستان کی خوبصورتی ، صفائی، ترقی اور بنگلہ دیشی طلباء کے لیے محبت اور اپنائیت سے بے حد متاثر ہوئے "۔
ایک پاکستانی ڈپلومیٹ ڈھاکا سے کراچی آرہا تھا اس کے ساتھ ایک نوجوان بنگلہ دیشی بیٹھا تھا۔کراچی ائیرپورٹ کے قریب ائیرہوسٹس نے اناؤنس کیا" اب ہم جناح انٹر نیشنل ائیرپورٹ پر اترنے والے ہیں"۔ اس پر بنگلہ دیشی نوجوان نے جوش میں کہا"اسے صرف جناح نہیں قائدِ اعظم محمد علی جناح ائیر پورٹ کہنا چاہیے تھا"۔ ایک فارن سیکریٹری نے دل گرفتگی میں کہا" ہم علیحدہ کہاں ہوتے تھے مگر آپ کاسلوک ہی ایسا تھا۔آپکا عزیز احمد چیف سیکریٹری کے طور پر کسی بنگالی کو کبھی کرسی پربیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا"۔
آج کے دن کا یہ بھی تقاضا ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت یکسُو ہوکر 1971کے واقعات پر 1974 میں مجیب، بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے (جس میں گڑھے مردے نہ اکھاڑنے کا تحریری عہد کیا گیا تھا) کی روشنی میں بھارتی قیادت سے کھل کر بات کرے کہ اس نے بنگلہ دیش پر جو خونخوار قاتلہ مسلّط کی ہے اسے ظلم اور درندگی سے روکے اور سیاسی رہنماؤں کے قتل سے باز رکھے۔
صلاح الدین قادر چوہدری کی جان بچانے کے لیے ہم عالمی ضمیر کو کیوں نہ جھنجوڑ سکے؟باپ کے بعد بیٹا بھی پاکستان پر قربان ہوگیا اور ہم کچھ بھی کرسکے!!۔ کسی بھی ملک میں ایک کرسچن شہری کو معمولی سی گزند پہنچے تو یورپ اور امریکا سے احتجاج کے تار کھڑکنے لگتے ہیں۔کیا ہم میں احتجاج کرنے کی بھی ہمّت نہیں ہے؟۔ اگر ہماری جگہ ترکی یا ایران ہوتے تو کیا وہ خاموش رہتے؟ ہرگز نہیں!