انور سمیع کی یاد میں آخری حصہ
روزنامہ ’’مساوات‘‘ کا دفتر سرائے روڈ پر تھا۔ یہ 1973ء کا واقعہ ہے۔
KHAR:
روزنامہ ''مساوات'' کا دفتر سرائے روڈ پر تھا۔ یہ 1973ء کا واقعہ ہے۔ میں وہاں ملازمت کرتا تھا۔ انور اکثر ملاقات کرنے وہاں آ جاتا تھا۔ ایک دن آیا تو میں باہر گیا ہوا تھا۔ واپس آیا تو دیکھا، وہ ہمارے ایک چپراسی شبیر سے گفتگو کر رہا تھا۔ بعد میں شبیر اکثر پوچھا کرتا، آپ کے دوست انور سمیع صاحب کیسے ہیں، انھیں میرا سلام کہیے گا۔ ''مساوات'' بند ہو گیا، وقت بہت آگے نکل گیا۔ چین سے واپس آنے کے بعد 1993ء میں، میں نے ''جنگ'' جوائن کیا۔
ایک دن دفتر سے نکل رہا تھا، فٹ پاتھ پر دوسری طرف سے شبیر آتا دکھائی دیا۔ وہ دوڑ کر گلے سے لگ گیا اور میری خیریت دریافت کرنے کے بجائے پوچھنے لگا، آپ کے دوست انور سمیع کیسے ہیں، مجھے ہنسی آ گئی۔ بعد میں انور سے پوچھا، تم نے شبیر پر کون سا جادو کیا ہے۔
بیس سال بعد بھی وہ تمہیں یاد کر رہا تھا، میرا خیال تھا، انور نے اسے کوئی مالی امداد فراہم کی ہو گی۔ انور بہت ہنسا، اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا پھر اس نے بتایا ''شاید اس کا باپ مر گیا تھا۔ میں اس کی کہانی سنتا رہا اور ہمدردی کے بول بولتا رہا۔ ہمدردی کے بول، ایسے میٹھے انداز میں کہ سننے والے کے دل پر نقش ہو گیا۔
میں انڈر گراؤنڈ تھا، پولیس ہر طرف تلاش کر رہی تھی، فوجی حکمرانوں کا اُن پر سخت دباؤ تھا کہ کسی طرح اس آدمی کو تلاش کرو۔ پریس کلب محاصرے میں تھا۔ ہم وہاں جا نہیں سکتے تھے۔ ریگل چوک پر روزانہ چار صحافیوں پر مشتمل دستہ گرفتاری پیش کرتا تھا، تقریباً اسّی دن تک یہ تحریک جاری رہی۔ ہم ٹھکانے بدلتے رہتے تھے، رات کو تھوڑا بہت بھیس بدل کر باہر نکلتے تھے، رابطے کے دو تین آدمیوں کے علاوہ کسی کو ہمارے ٹھکانے کا علم نہیں تھا۔ اُن دنوں ہم ناظم آباد کے ایک مکان میں تھے۔
اچانک ایک شام انور سمیع وہاں آ دھمکا۔ میں نے پوچھا، تمہیں پتہ کس نے بتایا۔ اُس کا چہرہ اُتر گیا، پھر ہنسنے لگا، کہنے لگا، ''اماں چھوڑو خاں صاحب، یاد بہت آ رہی تھی بس آ گیا کسی طرح۔'' ہاتھ میں بڑا سا لفافہ تھا۔ گرما گرم سموسے اور جلیبیاں تھیں۔ ''کھاؤ، تمہیں کھاتا دیکھ لوں، اس کے بعد چلا جاؤں گا۔'' جانے لگا تو میں نے پھر پوچھا، پتہ کس نے بتایا۔ کہنے لگا، ''مجھے معلوم ہے، میں نے اصول توڑا ہے، لیکن تمہیں دیکھنا ضروری تھا، چند روز قبل خواب میں دیکھا، تم کچھ افسردہ نظر آئے، اس وقت سے بے چین تھا۔''
اس کی دوستی بے غرض تھی، اور وہ سب کے غم میں تڑپتا تھا۔ ایک دن اچانک کہنے لگا، ''سُنا ہے خالد علیگ بہت بیمار ہیں۔'' میں نے کہا، ''ہاں، اب طبیعت کچھ بہتر ہے۔ اسپتال سے گھر آ گئے ہیں۔'' کہنے لگا، ''یار، ان سے ملنے کو دل کر رہا ہے۔ چلتے ہیں، مل کر آتے ہیں۔'' خالد بھائی لانڈھی میں رہتے تھے، میں دو تین دن پہلے ہی مل کر آیا تھا۔ اس کے اصرار پر پھر جانا پڑا، جو شخص خالد بھائی جیسے درویش صفت اور بہادر آدمی کے لیے اس قدر لگاؤ رکھتا ہو، اس کے اندر کوئی کھوٹ نہیں ہو سکتا۔
ہماری محبتیں مشترک تھیں، اور ہماری نفرتیں بھی مشترک تھیں۔ یہی یک جائی ہماری مضبوط دوستی کی بنیاد تھی۔
یادیں بہت ہیں۔ انھیں بیان کرنے کے لیے کتاب درکار ہو گی۔ یہ یادیں نہ جانے کب تک تڑپاتی رہیں گی۔ جب سے وہ گلشن معمار منتقل ہوا تھا، ملاقات کم کم ہوتی تھی۔ میری بیماری کی خبر سن کر مہر بھابی کے ساتھ عیادت کے لیے آیا۔ پھر شہریار، ظفر قریشی اور عزیز خان کے ساتھ آیا۔ اگرچہ اسے بھی ایک سرجری سے گزرنا پڑا۔ لیکن وہ بہت صحت مند تھا۔ خوراک کا بہت خیال رکھتا تھا۔
باقاعدگی سے واکنگ کرتا تھا۔ یوں اچانک جاں سے گزر جائے گا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میری بیٹی فے فے ملائشیا سے آئی ہوئی ہے۔ اس نے کہا، انور انکل تو بڑے ڈسپلن والے آدمی تھے۔ اپنی صحت کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ دوسروں کو بھی مشورہ دیتے تھے کہ بد پرہیزی مت کرو۔
یہ درست ہے۔ اس کے پاس انسائیکلو پیڈیا، بریٹینکا کا ایک نسخہ موجود تھا۔ جب کوئی کسی بیماری کا ذکر آتا تو فوراً اسے اٹھا کر لے آتا اور بیماری کے اسباب، تدارک اور علاج کے طریقے پر سنجیدگی سے لیکچر دینے لگتا۔
گلشن معمار میں بھی وہ روزانہ واکنگ ضرور کرتا تھا، تا کہ متحرک اور مستعد رہے۔ اسی واکنگ کے دوران اسے موت نصیب ہو گی، اس نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ روزانہ اس ظالم شہر میں اس قسم کے درجنوں حادثے ہوتے ہیں۔ پولیس غافل اور رشوت خور ہے، ڈرائیور اندھوں کی طرح بد مست ہو کر گاڑیاں چلاتے ہیں، نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ گل کر دیتے ہیں۔ آدمی کو ہلاک کرتے ہیں اور بھاگ نکلتے ہیں۔
انور کے بڑے بیٹے بتّو نے بتایا، انور کو جس شخص نے روندا، وہ بھاگا نہیں اور اس نے یہ بھی کہا کہ غلطی ہو گئی، میں حاضر ہوں، مجھے پولیس کے حوالے کر دیں۔ ظاہر ہے، انور کے گھر والے بھی اس کی طرح بلند ظرف رکھتے ہیں، معاف کر دیا۔ لیکن یہ چلن عام ہے۔ سنگین ترین جرم کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا لفظ "SORRY" چُھٹکارے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔
گلشن معمار کا وہ علاقہ سنسان رہتا ہے۔ بہت کشادہ سڑک ہے، جس کے کنارے وہ حسب معمول واکنگ کر رہا تھا۔ بتّو نے بتایا، پورا جسم سلامت رہا، سر کے پچھلے حصے پر کاری ضرب لگی، جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ اسپتال جانے تک خون نہیں رُکا۔
خبر سُنی تو میں سناٹے میں آ گیا۔ کسے خبر تھی کہ وہ اس طرح بچھڑ جائے گا۔ پانچ روز گزر چکے ہیں، حادثے کا منظر میری آنکھوں میں منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔ بار بار سوچتا ہوں، ضرب لگنے کے بعد اگلے لمحے میں انور نے کیا سوچا ہو گا۔ کیا خیال اس کے ذہن میں اُبھرا ہو گا۔ کس آرزو نے اس سے گفتگو کی ہو گی، کس عزیز کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوما ہو گا۔ انور اور مہر بھابی نے لَو میرج کی تھی۔ یہ عاشقی کی ایک طویل داستان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُس لمحے انور کو سب سے پہلے مہر بھابی کا خیال آیا ہو گا۔
مہر بھابی! آپ کا غم سمندر جیسا ہے، لیکن اس غم میں میرا، شہریار کا اور دوسرے دوستوں کا بھی تھوڑا سا حصہ ہے۔ اس بیان کے آگے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ:
ہم تم کو روتے ہی نہ رہتے، اے دنیا والو
مر کے اگر پا سکتے تم کو، مر جاتے ہم بھی
روزنامہ ''مساوات'' کا دفتر سرائے روڈ پر تھا۔ یہ 1973ء کا واقعہ ہے۔ میں وہاں ملازمت کرتا تھا۔ انور اکثر ملاقات کرنے وہاں آ جاتا تھا۔ ایک دن آیا تو میں باہر گیا ہوا تھا۔ واپس آیا تو دیکھا، وہ ہمارے ایک چپراسی شبیر سے گفتگو کر رہا تھا۔ بعد میں شبیر اکثر پوچھا کرتا، آپ کے دوست انور سمیع صاحب کیسے ہیں، انھیں میرا سلام کہیے گا۔ ''مساوات'' بند ہو گیا، وقت بہت آگے نکل گیا۔ چین سے واپس آنے کے بعد 1993ء میں، میں نے ''جنگ'' جوائن کیا۔
ایک دن دفتر سے نکل رہا تھا، فٹ پاتھ پر دوسری طرف سے شبیر آتا دکھائی دیا۔ وہ دوڑ کر گلے سے لگ گیا اور میری خیریت دریافت کرنے کے بجائے پوچھنے لگا، آپ کے دوست انور سمیع کیسے ہیں، مجھے ہنسی آ گئی۔ بعد میں انور سے پوچھا، تم نے شبیر پر کون سا جادو کیا ہے۔
بیس سال بعد بھی وہ تمہیں یاد کر رہا تھا، میرا خیال تھا، انور نے اسے کوئی مالی امداد فراہم کی ہو گی۔ انور بہت ہنسا، اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا پھر اس نے بتایا ''شاید اس کا باپ مر گیا تھا۔ میں اس کی کہانی سنتا رہا اور ہمدردی کے بول بولتا رہا۔ ہمدردی کے بول، ایسے میٹھے انداز میں کہ سننے والے کے دل پر نقش ہو گیا۔
میں انڈر گراؤنڈ تھا، پولیس ہر طرف تلاش کر رہی تھی، فوجی حکمرانوں کا اُن پر سخت دباؤ تھا کہ کسی طرح اس آدمی کو تلاش کرو۔ پریس کلب محاصرے میں تھا۔ ہم وہاں جا نہیں سکتے تھے۔ ریگل چوک پر روزانہ چار صحافیوں پر مشتمل دستہ گرفتاری پیش کرتا تھا، تقریباً اسّی دن تک یہ تحریک جاری رہی۔ ہم ٹھکانے بدلتے رہتے تھے، رات کو تھوڑا بہت بھیس بدل کر باہر نکلتے تھے، رابطے کے دو تین آدمیوں کے علاوہ کسی کو ہمارے ٹھکانے کا علم نہیں تھا۔ اُن دنوں ہم ناظم آباد کے ایک مکان میں تھے۔
اچانک ایک شام انور سمیع وہاں آ دھمکا۔ میں نے پوچھا، تمہیں پتہ کس نے بتایا۔ اُس کا چہرہ اُتر گیا، پھر ہنسنے لگا، کہنے لگا، ''اماں چھوڑو خاں صاحب، یاد بہت آ رہی تھی بس آ گیا کسی طرح۔'' ہاتھ میں بڑا سا لفافہ تھا۔ گرما گرم سموسے اور جلیبیاں تھیں۔ ''کھاؤ، تمہیں کھاتا دیکھ لوں، اس کے بعد چلا جاؤں گا۔'' جانے لگا تو میں نے پھر پوچھا، پتہ کس نے بتایا۔ کہنے لگا، ''مجھے معلوم ہے، میں نے اصول توڑا ہے، لیکن تمہیں دیکھنا ضروری تھا، چند روز قبل خواب میں دیکھا، تم کچھ افسردہ نظر آئے، اس وقت سے بے چین تھا۔''
اس کی دوستی بے غرض تھی، اور وہ سب کے غم میں تڑپتا تھا۔ ایک دن اچانک کہنے لگا، ''سُنا ہے خالد علیگ بہت بیمار ہیں۔'' میں نے کہا، ''ہاں، اب طبیعت کچھ بہتر ہے۔ اسپتال سے گھر آ گئے ہیں۔'' کہنے لگا، ''یار، ان سے ملنے کو دل کر رہا ہے۔ چلتے ہیں، مل کر آتے ہیں۔'' خالد بھائی لانڈھی میں رہتے تھے، میں دو تین دن پہلے ہی مل کر آیا تھا۔ اس کے اصرار پر پھر جانا پڑا، جو شخص خالد بھائی جیسے درویش صفت اور بہادر آدمی کے لیے اس قدر لگاؤ رکھتا ہو، اس کے اندر کوئی کھوٹ نہیں ہو سکتا۔
ہماری محبتیں مشترک تھیں، اور ہماری نفرتیں بھی مشترک تھیں۔ یہی یک جائی ہماری مضبوط دوستی کی بنیاد تھی۔
یادیں بہت ہیں۔ انھیں بیان کرنے کے لیے کتاب درکار ہو گی۔ یہ یادیں نہ جانے کب تک تڑپاتی رہیں گی۔ جب سے وہ گلشن معمار منتقل ہوا تھا، ملاقات کم کم ہوتی تھی۔ میری بیماری کی خبر سن کر مہر بھابی کے ساتھ عیادت کے لیے آیا۔ پھر شہریار، ظفر قریشی اور عزیز خان کے ساتھ آیا۔ اگرچہ اسے بھی ایک سرجری سے گزرنا پڑا۔ لیکن وہ بہت صحت مند تھا۔ خوراک کا بہت خیال رکھتا تھا۔
باقاعدگی سے واکنگ کرتا تھا۔ یوں اچانک جاں سے گزر جائے گا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میری بیٹی فے فے ملائشیا سے آئی ہوئی ہے۔ اس نے کہا، انور انکل تو بڑے ڈسپلن والے آدمی تھے۔ اپنی صحت کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ دوسروں کو بھی مشورہ دیتے تھے کہ بد پرہیزی مت کرو۔
یہ درست ہے۔ اس کے پاس انسائیکلو پیڈیا، بریٹینکا کا ایک نسخہ موجود تھا۔ جب کوئی کسی بیماری کا ذکر آتا تو فوراً اسے اٹھا کر لے آتا اور بیماری کے اسباب، تدارک اور علاج کے طریقے پر سنجیدگی سے لیکچر دینے لگتا۔
گلشن معمار میں بھی وہ روزانہ واکنگ ضرور کرتا تھا، تا کہ متحرک اور مستعد رہے۔ اسی واکنگ کے دوران اسے موت نصیب ہو گی، اس نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ روزانہ اس ظالم شہر میں اس قسم کے درجنوں حادثے ہوتے ہیں۔ پولیس غافل اور رشوت خور ہے، ڈرائیور اندھوں کی طرح بد مست ہو کر گاڑیاں چلاتے ہیں، نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ گل کر دیتے ہیں۔ آدمی کو ہلاک کرتے ہیں اور بھاگ نکلتے ہیں۔
انور کے بڑے بیٹے بتّو نے بتایا، انور کو جس شخص نے روندا، وہ بھاگا نہیں اور اس نے یہ بھی کہا کہ غلطی ہو گئی، میں حاضر ہوں، مجھے پولیس کے حوالے کر دیں۔ ظاہر ہے، انور کے گھر والے بھی اس کی طرح بلند ظرف رکھتے ہیں، معاف کر دیا۔ لیکن یہ چلن عام ہے۔ سنگین ترین جرم کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا لفظ "SORRY" چُھٹکارے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔
گلشن معمار کا وہ علاقہ سنسان رہتا ہے۔ بہت کشادہ سڑک ہے، جس کے کنارے وہ حسب معمول واکنگ کر رہا تھا۔ بتّو نے بتایا، پورا جسم سلامت رہا، سر کے پچھلے حصے پر کاری ضرب لگی، جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ اسپتال جانے تک خون نہیں رُکا۔
خبر سُنی تو میں سناٹے میں آ گیا۔ کسے خبر تھی کہ وہ اس طرح بچھڑ جائے گا۔ پانچ روز گزر چکے ہیں، حادثے کا منظر میری آنکھوں میں منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔ بار بار سوچتا ہوں، ضرب لگنے کے بعد اگلے لمحے میں انور نے کیا سوچا ہو گا۔ کیا خیال اس کے ذہن میں اُبھرا ہو گا۔ کس آرزو نے اس سے گفتگو کی ہو گی، کس عزیز کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوما ہو گا۔ انور اور مہر بھابی نے لَو میرج کی تھی۔ یہ عاشقی کی ایک طویل داستان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُس لمحے انور کو سب سے پہلے مہر بھابی کا خیال آیا ہو گا۔
مہر بھابی! آپ کا غم سمندر جیسا ہے، لیکن اس غم میں میرا، شہریار کا اور دوسرے دوستوں کا بھی تھوڑا سا حصہ ہے۔ اس بیان کے آگے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ:
ہم تم کو روتے ہی نہ رہتے، اے دنیا والو
مر کے اگر پا سکتے تم کو، مر جاتے ہم بھی