’’ہم اسے سارا دن ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہیں ملا‘‘ ماؤں کا درد لفظوں میں ڈھلتا ہے
’’میرے پاس اس کے جوتے ہیں، جن میں اس کا خون جما ہوا ہے‘‘
سانحہ آرمی پبلک اسکول کو ایک سال کا عرصہ بیت گیا، لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہ مل پایا۔ ہم نے کچھ شہداء کی ماؤں سے بات کی اور ان کے درد کو الفاظ دینے کی کوشش کی ہے۔
پشاور کے علاقے گلبہار کی رہائشی عبداﷲ ظفر شہید کی والدہ ہما ظفر کہتی ہیں کہ عبداﷲ اسکول سے بہ حفاظت نکلنے میں کام یاب ہوگیا تھا، لیکن باہر سڑک پر آنے کے بعد وہ دوبارہ اسکول اپنے چھوٹے 10 سالہ بھائی کو لینے چلا گیا اور سفاک دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ عبداﷲ والد اس کی زندگی ہی میں وفاتے پاچکے تھے۔
اس نے اپنے پانچویں کلاس میں پڑھتے بھائی کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ ہما ظفر نے کہا کہ میں آرمی پبلک اسکول میں پڑھاتی ہوں اور آج بھی اسکول میں اور گھر میں عبداﷲ کی یادوں کو نہیں بھلا پائی، کیسے بھول سکتی ہوں۔ وہ میرا سب سے بڑا اور لاڈلا بیٹا تھا۔ میری خواہش ہے کہ دوسرے بچوں سمیت اسے حکومت نشان حیدر سے نوازے۔
نویں جماعت کے مزمل شہید کی والدہ نے کہا کہ میں گذشتہ دسمبر سے آج تک ایک رات بھی چین سے نہیں سو سکی ہوں۔ وہ گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ ہم اپنے لاڈلے بیٹے کی شہادت سے اتنے نڈھال ہوچکے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ ان سفاک درندوں کی بوٹیاں بوٹیاں کردیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم تڑپ رہے ہیں اﷲ کسی کو یہ دن نہ دکھائے اور اولاد کا دکھ کسی کو نہ دے ۔ یہ برداشت نہیں ہو پاتا۔ ہم اپنے بیٹے کے جانے سے نہ زندوں میں ہیں اور نہ مردوں میں۔
عزیز احمد شہید کی والدہ نے کہا کہ اب ہمارے بچے کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ہمارے گھر قبرستان بن چکے ہیں، جہاں ہر وقت ہم اپنے بچوں کو یاد کرکے ان کے ساتھ ہونے والی درندگی کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عام شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ حکم راں طبقے نے خود کو اور اپنے بچوں کو تو محفوظ کر رکھا ہے اور غریب عام شہری جانوروں کی طرح کٹ مر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ کبھی تو اﷲ ہماری التجا سنے گا اور غفلت برتنے والوں کو سزا دے گا۔ انہوں نے کہا کہ سب ہمارے لیے دعا کریں کہ اﷲ ہم سب کو صبر دے اور اس طرح کے واقعات میں ملوث لوگو ں کو سزا دے۔
اسفندیار شہید کی والدہ نے کہا کہ ہر دن میرے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ ہر روز مرتی ہوں اور ہر روز جیتی ہوں۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی میں ایسا پل بھی آئے گا جب اپنے جگر کے ٹکڑے کے بغیر زندگی گزاروں گی۔ اس سانحے میں شہید ہونے والے 14 سالہ آمش کی والدہ سمیعہ سلمان نے کہا کہ میں نہیں بتاسکتی کہ یہ ایک سال کس طرح ہم پر بیت گیا۔ اس پورے عرصے میں ایک ایک لمحہ ہم تڑپ تڑپ کر جیتے رہے ہیں۔
ہمیں ایک پل بھی قرار نہ آیا۔ اس کی یادوں سے لپٹ کر آنسو بہانا ہماری مقدر بن چکا ہے۔ بھرائی آواز اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ انہوں نے کہ 16 دسمبر کا دن بھی عام دنوں کی طرح تھا اور میں اپنی بہن کی شادی کے لیے تیاری کر رہی تھی۔ میری کزن نے فون کرکے پریشان لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ آمش کہاں ہے، کیا وہ اسکول گیا ہے؟ انہوں نے مجھے ٹیلی ویژن آن کرنے کا کہا۔ ٹی وی کھولا تو دیکھا کہ آمش کے اسکول پر حملہ ہوچکا ہے۔
میرا خیال تھا کہ وہ بچوں کو یرغمال بنائیں گے۔ ہم اسے سارا دن ڈھونڈتے رہے، ہسپتالوں میں، اسکول کے پیچھے، پارک میں، اسکول کے قریب گھروں میں، ہر جگہ، مگر ہم اسے نہیں ڈھونڈ سکے، شام ساڑھے چار بجے کے قریب میرے شوہر نے مجھے کال کی اور کہا کہ اپنے آپ کو پرسکون رکھو، میں آمش کی لاش گھر لے کر آرہا ہوں۔ میرے دیور نے انہیں چند دن قبل اس کی انگلی پر لگنے والی چوٹ کی وجہ سے اسے شناخت کیا۔
میں چاہتی تھی کہ اس دن آمش اسکول سے چھٹی کر کے میری بہن کی شادی کی شاپنگ میں میری مدد کرے، مگر میرے شوہر نے کہا کہ بچے کا اسکول سے زیادہ دن غیرحاضر رہنا ٹھیک نہیں۔ انہوں نے آمش کو اسکول کے لیے اس کے بال آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے اٹھایا۔ اس نے ناشتہ کیا اور اسکول جانے کے لیے ہمیشہ کے لیے وداع ہوگیا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ میں اسے اب دوبارہ کبھی زندہ نہیں دیکھ پاؤں گی۔
آمش کو کھیل اور حساب میں خاصی دل چسپی تھی۔ اسے گاڑیاں پسند تھیں۔ اسے شکار میں خاصی دل چسپی تھی۔ وہ ہر وقت خوش رہتا۔ اس نے گذشتہ چند سال میں اپنی زندگی بھرپور انداز میں جی تھی۔ وہ میرے کمرے میں آتا تو اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگائے ہوتا۔ وہ گانا ''جسٹ ڈونٹ کرائی'' بہت سنتا تھا۔ مجھے اس گانے سے نفرت تھی۔ اب میں اس گانے کو سنتی ہوں اور محسوس کرتی ہوں کہ وہ شاید مجھے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا۔
میرے پاس اس کے جوتے ہیں، جن میں اس کا خون جما ہوا ہے مگر میں اس کا خون رائیگاں ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔ ہم ساری ماؤں کو بہت سی ہمت چاہیے۔ جماعت دہم کے طالب علم شیرشاہ شہید کی والدہ کی باتوں میں چھلنی دل اور دبی آواز میں ایک حوصلہ اور ہمت نظر آتی ہے۔ ماں بیٹا ایک دوسرے کے بہترین دوست بھی تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ عموماً بچے اپنی ماؤں سے باتیں چھپاتے ہیں، لیکن شیرشاہ تو واقعی میرے لخت جگر کے ساتھ میرا جگری دوست بھی تھا۔ وہ ہر بات مجھ سے شیئر کرتا۔ اسے کوئی الجھن ہوتی تو میرے ساتھ اس کا حل نکالتا۔ اس کے دور چلے جانے کا غم صرف ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے کہ میرے اوپر کیا بیت رہی ہے۔ اس کے بنا ہر پل قیامت کی کوئی گھڑی محسوس ہوتی ہے۔ جدھر نظر اٹھا کر دیکھتی ہوں مجھے شیر شاہ کا عکس نظر آتا ہے۔
جاگتی آنکھوں اور خواب میں اس کی شبیہہ میرے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے۔ خود کو لاکھ سمجھاتی ہوں لیکن نہ دماغ میرا ساتھ دیتا ہے اور نہ دل۔ مجھے اپنے شہید بیٹے کی قربانی پر فخر ہے۔ میں اسے اعلیٰ رتبے ملنے پر نازاں بھی ہوں اور اپنے رب سے دعاگو اور ملتجی ہوں کہ اے میرے رب! تو ان درندوں کو ہدایت دے کہ وہ کسی ماں کی گود نہ اجاڑیں۔ میری دوسری ماؤں سے یہ التجا بھی ہے کہ وہ اپنے آنسو کو روکیں، ہمت باندھیں اور دہشت گردی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے قوم کے حوصلے کو مزید مضبوط کریں۔
شہید حسنین شریف کی باحوصلہ اور باہمت ماں کہتی ہیں کہ میری جان حسنین کے چلے جانے کا دکھ میں بیان نہیں کرسکتی۔ اس کی یادیں مجھے ہر وقت رلاتی اور بے چین کیے رکھتی ہیں، مجھے ہر سو حسنین کا مسکراتا اور معصوم چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہر کسی سے مسکراتے ہوئے ملتا تھا۔ اس کی معصومیت کی تو لوگ مثال پیش کیا کرتے تھے۔
مجھے اپنا حسنین انتہائی سیدھا سادا اور معصوم لگتا تھا۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ سانسوں کی ڈوریاں مجھے بے معنی سی لگنے لگی ہیں۔ ہاں البتہ حسنین کی حَسین یادوں نے میری کچھ ڈھارس بندھائی ہے، جن کے سہارے میں جی رہی ہوں۔
پشاور کے علاقے گلبہار کی رہائشی عبداﷲ ظفر شہید کی والدہ ہما ظفر کہتی ہیں کہ عبداﷲ اسکول سے بہ حفاظت نکلنے میں کام یاب ہوگیا تھا، لیکن باہر سڑک پر آنے کے بعد وہ دوبارہ اسکول اپنے چھوٹے 10 سالہ بھائی کو لینے چلا گیا اور سفاک دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ عبداﷲ والد اس کی زندگی ہی میں وفاتے پاچکے تھے۔
اس نے اپنے پانچویں کلاس میں پڑھتے بھائی کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ ہما ظفر نے کہا کہ میں آرمی پبلک اسکول میں پڑھاتی ہوں اور آج بھی اسکول میں اور گھر میں عبداﷲ کی یادوں کو نہیں بھلا پائی، کیسے بھول سکتی ہوں۔ وہ میرا سب سے بڑا اور لاڈلا بیٹا تھا۔ میری خواہش ہے کہ دوسرے بچوں سمیت اسے حکومت نشان حیدر سے نوازے۔
نویں جماعت کے مزمل شہید کی والدہ نے کہا کہ میں گذشتہ دسمبر سے آج تک ایک رات بھی چین سے نہیں سو سکی ہوں۔ وہ گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ ہم اپنے لاڈلے بیٹے کی شہادت سے اتنے نڈھال ہوچکے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ ان سفاک درندوں کی بوٹیاں بوٹیاں کردیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم تڑپ رہے ہیں اﷲ کسی کو یہ دن نہ دکھائے اور اولاد کا دکھ کسی کو نہ دے ۔ یہ برداشت نہیں ہو پاتا۔ ہم اپنے بیٹے کے جانے سے نہ زندوں میں ہیں اور نہ مردوں میں۔
عزیز احمد شہید کی والدہ نے کہا کہ اب ہمارے بچے کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ہمارے گھر قبرستان بن چکے ہیں، جہاں ہر وقت ہم اپنے بچوں کو یاد کرکے ان کے ساتھ ہونے والی درندگی کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عام شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ حکم راں طبقے نے خود کو اور اپنے بچوں کو تو محفوظ کر رکھا ہے اور غریب عام شہری جانوروں کی طرح کٹ مر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ کبھی تو اﷲ ہماری التجا سنے گا اور غفلت برتنے والوں کو سزا دے گا۔ انہوں نے کہا کہ سب ہمارے لیے دعا کریں کہ اﷲ ہم سب کو صبر دے اور اس طرح کے واقعات میں ملوث لوگو ں کو سزا دے۔
اسفندیار شہید کی والدہ نے کہا کہ ہر دن میرے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ ہر روز مرتی ہوں اور ہر روز جیتی ہوں۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی میں ایسا پل بھی آئے گا جب اپنے جگر کے ٹکڑے کے بغیر زندگی گزاروں گی۔ اس سانحے میں شہید ہونے والے 14 سالہ آمش کی والدہ سمیعہ سلمان نے کہا کہ میں نہیں بتاسکتی کہ یہ ایک سال کس طرح ہم پر بیت گیا۔ اس پورے عرصے میں ایک ایک لمحہ ہم تڑپ تڑپ کر جیتے رہے ہیں۔
ہمیں ایک پل بھی قرار نہ آیا۔ اس کی یادوں سے لپٹ کر آنسو بہانا ہماری مقدر بن چکا ہے۔ بھرائی آواز اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ انہوں نے کہ 16 دسمبر کا دن بھی عام دنوں کی طرح تھا اور میں اپنی بہن کی شادی کے لیے تیاری کر رہی تھی۔ میری کزن نے فون کرکے پریشان لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ آمش کہاں ہے، کیا وہ اسکول گیا ہے؟ انہوں نے مجھے ٹیلی ویژن آن کرنے کا کہا۔ ٹی وی کھولا تو دیکھا کہ آمش کے اسکول پر حملہ ہوچکا ہے۔
میرا خیال تھا کہ وہ بچوں کو یرغمال بنائیں گے۔ ہم اسے سارا دن ڈھونڈتے رہے، ہسپتالوں میں، اسکول کے پیچھے، پارک میں، اسکول کے قریب گھروں میں، ہر جگہ، مگر ہم اسے نہیں ڈھونڈ سکے، شام ساڑھے چار بجے کے قریب میرے شوہر نے مجھے کال کی اور کہا کہ اپنے آپ کو پرسکون رکھو، میں آمش کی لاش گھر لے کر آرہا ہوں۔ میرے دیور نے انہیں چند دن قبل اس کی انگلی پر لگنے والی چوٹ کی وجہ سے اسے شناخت کیا۔
میں چاہتی تھی کہ اس دن آمش اسکول سے چھٹی کر کے میری بہن کی شادی کی شاپنگ میں میری مدد کرے، مگر میرے شوہر نے کہا کہ بچے کا اسکول سے زیادہ دن غیرحاضر رہنا ٹھیک نہیں۔ انہوں نے آمش کو اسکول کے لیے اس کے بال آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے اٹھایا۔ اس نے ناشتہ کیا اور اسکول جانے کے لیے ہمیشہ کے لیے وداع ہوگیا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ میں اسے اب دوبارہ کبھی زندہ نہیں دیکھ پاؤں گی۔
آمش کو کھیل اور حساب میں خاصی دل چسپی تھی۔ اسے گاڑیاں پسند تھیں۔ اسے شکار میں خاصی دل چسپی تھی۔ وہ ہر وقت خوش رہتا۔ اس نے گذشتہ چند سال میں اپنی زندگی بھرپور انداز میں جی تھی۔ وہ میرے کمرے میں آتا تو اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگائے ہوتا۔ وہ گانا ''جسٹ ڈونٹ کرائی'' بہت سنتا تھا۔ مجھے اس گانے سے نفرت تھی۔ اب میں اس گانے کو سنتی ہوں اور محسوس کرتی ہوں کہ وہ شاید مجھے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا۔
میرے پاس اس کے جوتے ہیں، جن میں اس کا خون جما ہوا ہے مگر میں اس کا خون رائیگاں ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔ ہم ساری ماؤں کو بہت سی ہمت چاہیے۔ جماعت دہم کے طالب علم شیرشاہ شہید کی والدہ کی باتوں میں چھلنی دل اور دبی آواز میں ایک حوصلہ اور ہمت نظر آتی ہے۔ ماں بیٹا ایک دوسرے کے بہترین دوست بھی تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ عموماً بچے اپنی ماؤں سے باتیں چھپاتے ہیں، لیکن شیرشاہ تو واقعی میرے لخت جگر کے ساتھ میرا جگری دوست بھی تھا۔ وہ ہر بات مجھ سے شیئر کرتا۔ اسے کوئی الجھن ہوتی تو میرے ساتھ اس کا حل نکالتا۔ اس کے دور چلے جانے کا غم صرف ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے کہ میرے اوپر کیا بیت رہی ہے۔ اس کے بنا ہر پل قیامت کی کوئی گھڑی محسوس ہوتی ہے۔ جدھر نظر اٹھا کر دیکھتی ہوں مجھے شیر شاہ کا عکس نظر آتا ہے۔
جاگتی آنکھوں اور خواب میں اس کی شبیہہ میرے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے۔ خود کو لاکھ سمجھاتی ہوں لیکن نہ دماغ میرا ساتھ دیتا ہے اور نہ دل۔ مجھے اپنے شہید بیٹے کی قربانی پر فخر ہے۔ میں اسے اعلیٰ رتبے ملنے پر نازاں بھی ہوں اور اپنے رب سے دعاگو اور ملتجی ہوں کہ اے میرے رب! تو ان درندوں کو ہدایت دے کہ وہ کسی ماں کی گود نہ اجاڑیں۔ میری دوسری ماؤں سے یہ التجا بھی ہے کہ وہ اپنے آنسو کو روکیں، ہمت باندھیں اور دہشت گردی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے قوم کے حوصلے کو مزید مضبوط کریں۔
شہید حسنین شریف کی باحوصلہ اور باہمت ماں کہتی ہیں کہ میری جان حسنین کے چلے جانے کا دکھ میں بیان نہیں کرسکتی۔ اس کی یادیں مجھے ہر وقت رلاتی اور بے چین کیے رکھتی ہیں، مجھے ہر سو حسنین کا مسکراتا اور معصوم چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہر کسی سے مسکراتے ہوئے ملتا تھا۔ اس کی معصومیت کی تو لوگ مثال پیش کیا کرتے تھے۔
مجھے اپنا حسنین انتہائی سیدھا سادا اور معصوم لگتا تھا۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ سانسوں کی ڈوریاں مجھے بے معنی سی لگنے لگی ہیں۔ ہاں البتہ حسنین کی حَسین یادوں نے میری کچھ ڈھارس بندھائی ہے، جن کے سہارے میں جی رہی ہوں۔