موسمیاتی تغیراوربیماریوں سے کینو کی50 فیصد پیداوار ضائع
برآمدات میں کمی کی بنیادی وجہ بیماری اور موسمیاتی تغیرکی وجہ سےقابل برآمدفاضل پیداوار میں انتہائی کمی قرار دی گئی ہے
HANGU:
گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمیاتی تغیر اور بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی کمزور قوت کے سبب 40 ارب روپے کی کینو کی تجارت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور رواں سیزن 50فیصد سے زائد پیداوار مختلف بیماریوں، وائرس اور موسمیاتی تغیر کا شکار ہوچکی ہے، کاشتکاروں، بیوپاریوں اور ایکسپورٹرز کو کینو کی پیداوار اور ایکسپورٹ کے لیے تاریخ کے بدترین سیزن کا سامنا ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن نے کینو کی فصل کو پہنچنے والے شدید نقصان کے پیش نظر برآمدی ہدف میں 1.5لاکھ ٹن تک کمی کردی ہے، گزشتہ سال 3 لاکھ 50ہزار ٹن ایکسپورٹ کے مقابلے میں رواں سیزن ایکسپورٹ کا ہدف 2لاکھ ٹن تک محدود کردیا گیا ہے۔
برآمدات میں کمی کی بنیادی وجہ بیماری اور موسمیاتی تغیر کی وجہ سے قابل برآمدفاضل پیداوار میں انتہائی کمی قرار دی گئی ہے، برآمدات میں 1.5لاکھ ٹن کمی سے پاکستان کو زرمبادلہ کی مد میں 8کروڑ ڈالر کا نقصان ہوگا، گزشتہ سال 3.5لاکھ ٹن کینو کی ایکسپورٹ سے 20کروڑ ڈالر کی آمدن ہوئی تھی جبکہ رواں سیزن میں ایکسپورٹ 12کروڑ ڈالر تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرزامپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین وحید احمدکے مطابق رواں سیزن میں کینو کی 16لاکھ 50ہزار ٹن پیداوار متوقع ہے تاہم سخت موسم اور بیماریوں کے باعث نہ صرف پیداوار بلکہ ایکسپورٹ میں بھی غیرمعمولی کمی کا خدشہ ہے، پاکستان سے کینو کی ایکسپورٹ یکم دسمبر سے شروع ہوچکی ہے تاہم قابل ایکسپورٹ سرپلس میں کمی کی وجہ سے برآمدی حجم میں گزشتہ سال سیزن کے آغاز کے لحاظ سے نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے، پاکستان میں کینو کی اوسط پیداوار 4 سال قبل تک 20سے 21 لاکھ ٹن تھی۔
تاہم ہر سال پیداوار اور قابل ایکسپورٹ سرپلس میں کمی ہو رہی ہے، کینو کے باغات پر وائرس اور بیماریوں کی لپیٹ میں آنے کی نشاندہی پی ایف وی ای کی جانب سے گزشتہ کئی سال سے ہر فورم پر کی جاتی رہی اور ان سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سرگرمیوں کی ضروت پر زور دیا گیا،صورتحال پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آئندہ چند سال میں پاکستانی کینو کی صنعت ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
حملہ آور وائرس اور بیماریوں سٹرس کینکر، سٹرس پیل مائنر، سٹرس میل نوز کی وجہ سے کینو کی ظاہری ساخت، رنگت، رسیلے پن اور سائز کو نقصان پہنچا ہے، دیگر فصلوں کی طرح کینو کی پیداوار میں کمی بھی سخت موسم اور بیماریوں کی یلغار کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہارٹی کلچر انڈسٹری کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سرگرمیوں کا فقدان ہے جس کے لیے ایسوسی ایشن ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کر رہی ہے، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے مقامی سطح پر ان بیماریوں کی روک تھام ممکن ہے بصورت دیگر آئندہ 3 سے 4 سال میں کینو کی پوری صنعت مفلوج ہونے کا خدشہ ہے۔
گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمیاتی تغیر اور بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی کمزور قوت کے سبب 40 ارب روپے کی کینو کی تجارت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور رواں سیزن 50فیصد سے زائد پیداوار مختلف بیماریوں، وائرس اور موسمیاتی تغیر کا شکار ہوچکی ہے، کاشتکاروں، بیوپاریوں اور ایکسپورٹرز کو کینو کی پیداوار اور ایکسپورٹ کے لیے تاریخ کے بدترین سیزن کا سامنا ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن نے کینو کی فصل کو پہنچنے والے شدید نقصان کے پیش نظر برآمدی ہدف میں 1.5لاکھ ٹن تک کمی کردی ہے، گزشتہ سال 3 لاکھ 50ہزار ٹن ایکسپورٹ کے مقابلے میں رواں سیزن ایکسپورٹ کا ہدف 2لاکھ ٹن تک محدود کردیا گیا ہے۔
برآمدات میں کمی کی بنیادی وجہ بیماری اور موسمیاتی تغیر کی وجہ سے قابل برآمدفاضل پیداوار میں انتہائی کمی قرار دی گئی ہے، برآمدات میں 1.5لاکھ ٹن کمی سے پاکستان کو زرمبادلہ کی مد میں 8کروڑ ڈالر کا نقصان ہوگا، گزشتہ سال 3.5لاکھ ٹن کینو کی ایکسپورٹ سے 20کروڑ ڈالر کی آمدن ہوئی تھی جبکہ رواں سیزن میں ایکسپورٹ 12کروڑ ڈالر تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرزامپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین وحید احمدکے مطابق رواں سیزن میں کینو کی 16لاکھ 50ہزار ٹن پیداوار متوقع ہے تاہم سخت موسم اور بیماریوں کے باعث نہ صرف پیداوار بلکہ ایکسپورٹ میں بھی غیرمعمولی کمی کا خدشہ ہے، پاکستان سے کینو کی ایکسپورٹ یکم دسمبر سے شروع ہوچکی ہے تاہم قابل ایکسپورٹ سرپلس میں کمی کی وجہ سے برآمدی حجم میں گزشتہ سال سیزن کے آغاز کے لحاظ سے نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے، پاکستان میں کینو کی اوسط پیداوار 4 سال قبل تک 20سے 21 لاکھ ٹن تھی۔
تاہم ہر سال پیداوار اور قابل ایکسپورٹ سرپلس میں کمی ہو رہی ہے، کینو کے باغات پر وائرس اور بیماریوں کی لپیٹ میں آنے کی نشاندہی پی ایف وی ای کی جانب سے گزشتہ کئی سال سے ہر فورم پر کی جاتی رہی اور ان سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سرگرمیوں کی ضروت پر زور دیا گیا،صورتحال پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آئندہ چند سال میں پاکستانی کینو کی صنعت ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
حملہ آور وائرس اور بیماریوں سٹرس کینکر، سٹرس پیل مائنر، سٹرس میل نوز کی وجہ سے کینو کی ظاہری ساخت، رنگت، رسیلے پن اور سائز کو نقصان پہنچا ہے، دیگر فصلوں کی طرح کینو کی پیداوار میں کمی بھی سخت موسم اور بیماریوں کی یلغار کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہارٹی کلچر انڈسٹری کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سرگرمیوں کا فقدان ہے جس کے لیے ایسوسی ایشن ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کر رہی ہے، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے مقامی سطح پر ان بیماریوں کی روک تھام ممکن ہے بصورت دیگر آئندہ 3 سے 4 سال میں کینو کی پوری صنعت مفلوج ہونے کا خدشہ ہے۔