سندھ اسمبلی نے رینجرز اختیارات کی مشروط قرارداد منظور کرلی

رینجرز کو سرکاری دفتر پر چھاپے، اہم شخصیت اور دہشت گردوں کے معاون کے شبے میں گرفتاری پر سندھ حکومت سے اجازت لینا ہوگی


ویب ڈیسک December 16, 2015
رینجرز کو سرکاری دفتر پر چھاپے، اہم شخصیت اور دہشت گردوں کے معاون کے شبے میں گرفتاری پر سندھ حکومت سے اجازت لینا ہوگی، فوٹو: فائل

ISLAMABAD: سندھ اسمبلی میں رینجرز اختیارات سے متعلق مشروط قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی ہے جب کہ اس دوران اپوزیشن نے شدید ہنگامہ آرائی کی اور قرارداد کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں۔



سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت ہوا جس میں صوبائی وزیرداخلہ سہیل انور سیال نے رینجرز اختیارات سے متعلق مشروط قرارداد پیش کی جسے ایوان میں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد میں رینجرز کے اختیارات محدود اور مشروط کردیئے گئے ہیں جس کے تحت رینجرز کے اختیارات پر 5 شرائط عائد کی گئی ہیں۔



قرارداد کے مطابق رینجرز کے اختیارات میں توسیع 12 ماہ کے لیے کی گئی ہے جب کہ رینجرز کو صرف 4 جرائم کے خلاف آزادانہ طور پر کارروائی کی اجازت ہوگی جن میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی شامل ہیں۔ قرارداد میں شامل شرائط کے تحت رینجرز کرپشن کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کی اہل نہیں ہوگی اور نہ ہی چیف سیکریٹری کی اجازت لیے بغیر کسی سرکاری دفتر میں چھاپہ مارسکتی ہے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی اہم شخصیت کی گرفتاری، حکومتی دفتر پر چھاپہ اور کسی بھی شخص کے خلاف جو دہشت گردی میں براہ راست ملوث نہ ہو بلکہ صرف دہشت گردوں کا معاون ہونے کے شک کی صورت میں اسے گرفتار کرنے سے پہلے بھی وزیراعلیٰ سے تحریری طور پر اجازت لینا ہوگی۔ قرارداد کے مطابق رینجرز اب صرف پولیس کے علاوہ کسی اور ادارے کی مدد نہیں کرسکے گی۔





دوسری جانب رینجرز کے اختیارات محدود کرنے پراپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے قرارداد کو مسترد کردیا جب کہ رینجرز کو پہلے جیسے اختیارات دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں رینجرز اختیارات سے متعلق مشروط قرارداد پیش کرنے پر اپوزیشن نے شدید ہنگامہ آرائی کی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں جب کہ اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔ اجلاس کے بعد اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایم کیوایم کے رہنما اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ایوان میں انتہائی گھمنڈی ایجنڈا لایا گیا، قرارداد پر بات کرنا چاہتےتھے مگر اپوزیشن کا گلا گھونٹا گیا، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپوزیشن کو روندا ہے۔







خواجہ اظہار الحسن نے رینجرز کو پہلے جیسے اختیارات دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے 16 دسمبر کے روز قوم سے مذاق کیا انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھے، رینجرز اختیارات سے متعلق قرارداد آئین و قانون کے منافی ہے جسے عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قرارداد کا متن اگر ایک دن پہلے دے دیتی تو کوئی قیامت نہیں آجاتی کیونکہ حکومت کو قرارداد پہلے ہمیں فراہم کرنا چاہیے تھی لیکن افسوس ہمیں کوئی بات نہیں کرنے دی گئی اور دیگر جماعتوں کو بھی اسمبلی میں بولنے نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے لینڈ مافیا کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قرارداد منظور کی جس سے تصادم کرانے کی سازش کی جارہی ہے لہٰذا کراچی میں ہونے والے آپریشن کا دائرہ پورے سندھ تک وسیع کیاجائے۔ ایم کیوایم رہنما سید سردار احمد نے کہا کہ اسمبلی میں قرارداد بغیر کسی بحث کے منظور کی گئی جب کہ پچھلی بار رینجرز کو تمام اختیارات دیئے گئے تھے لیکن اس بار محدود کردیئے گئے، یہ قرارداد نیشنل ایکشن پلان کے خلاف ہے اس لیے رینجرز کو پہلے والے اختیارات دیئے جائیں تاکہ امن قائم ہوسکے۔





اس موقع پر اپوزیشن جماعت فنکشنل لیگ کے رہنما شہریار مہر نے کہا کہ اسمبلی میں قرارداد کو چوروں کی طرح پیش کیا گیا، حکومتی قرارداد کو غیر قانونی سمجھتے ہیں، اسمبلی کو کرپٹ اور چوروں کے تحفظ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ارباب غلام رحیم کا کہنا تھا کہ قرارداد ڈاکٹر عاصم کو بچانے کے لیے لائی گئی ہے، حکومت مشروط قرارداد اپنی کرپشن چھپانے کے لیے لائی جب کہ سندھ حکومت نے اس طرح کی قرارداد پیش کرکے اے پی ایس کے شہدا کی قربانیوں کا مذاق اڑایا ہے۔





لیاقت جتوئی نے کہا کہ کرپشن کا خاتمہ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے اس لیے یہ قرارداد نیشنل ایکشن پلان کے خلاف ہے جب کہ اس طرح کی قرارداد پیش کرنے پر پیپلزپارٹی کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے کہا کہ حکومتی قرارداد کو مسترد کرتے ہیں، آج پیپلزپارٹی نے ثابت کردیا کہ وہ عوام کی جماعت نہیں، ایوان کو بادشاہ سلامت کی طرح چلایا جارہا ہے، ہم بھی دیکھتے ہیں اب پیپلزپارٹی کس طرح اس ایوان کو چلاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں