اقوام متحدہ کے ادارے ’’آئی اے ای اے‘‘ نے ایران کے جوہری پروگرام پر تحقیقات ختم کردیں

جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران پر لگی عالمی اقتصادی پابندیوں کے ہٹائے جانے کے امکانات پیدا ہوگئے۔


ویب ڈیسک December 16, 2015
جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران پر لگی عالمی اقتصادی پابندیوں کے ہٹائے جانے کے امکانات پیدا ہوگئے، فوٹو: فائل

جوہری توانائی کے عالمی ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں اس کے تسلی بخش اقدامات کے بعد 12 برس سے جاری تحقیقات ختم کردی ہیں جس کے بعد جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران پر لگی عالمی اقتصادی پابندیوں کے ہٹائے جانے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا ادارہ ''آئی اے ای اے'' گزشتہ ایک دہائی سے اس بات کی تحقیقات کر رہا تھا کہ آیا ایران کہیں اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تو تیار نہیں کر رہا لیکن اب 12 برس سے جاری تحقیقات کو ایران کے تسلی بخش اقدامات کے باعث ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے جسے عالمی برادری ایران پر امریکی، یورپی اور اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹائے جانے کی جانب اہم قدم قرار دے رہی ہے۔

''آئی اے ای اے'' کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جوہری ہتھیار کی تیاری کے لیے 2003 تک تحقیق کی تھی اور 2009 تک بہت محدود پیمانے پر تحقیق لیکن اس کے بعد سے انہیں ایسی تحقیق کے شواہد نہیں ملے جب کہ ایران نے ماضی میں جوہری بم بنانےکے لیے محدود قدم اٹھائے تھے لیکن یہ کوششیں منصوبہ بندی اور بنیادی اجزا کا جائزہ کرنے سے آگے نہیں بڑھیں تھیں۔

ویانا سے جاری ایک بیان میں ''آئی اے ای اے '' کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایران اس پر لگی جوہری پابندیوں پر عملدرآمد بہت تیزی سے کر رہا ہے جب کہ ''آئی اے ای اے'' کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی قرارداد سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور ایران ہمیشہ سے کہتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

دوسری جانب ایران پر لگی پابندیوں پر نظر رکھنے والے مانیٹرز کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں ایران کی جانب سے میزائل کا تجربہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ماہرین کے پینل کا کہنا ہے کہ یہ میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں