جنرل اسلم بیگ کی ’’جمہوریت نوازی‘‘
غلام اسحاق خان کو قائل کیا گیا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے کئی ہفتے پہلے اس کے ’’جانشین‘‘ کا نام لے دیا جائے
KARACHI:
شاید میں صحافت میں ساری زندگی گزارنے کے باوجود محض ایک رپورٹر ہی رہا ہوں۔
خدا نے عقل، ہمت اور لگن بخشی ہوتی تو اپنے تجربات کو تجزیہ کی بھٹی سے کشید کر کچھ فلسفیانہ موتی اچھال پاتا۔ جب بھی کبھی سنجیدگی سے تاریخ پڑھنا چاہی تو اپنی زبان میں میسر کتابوں میں زیادہ تر کہانیاں ہی ملیں۔ محمد بن قاسم کے سندھ آنے کا پتہ تو ضرور چلا مگر یہ جاننے میں بہت عرصہ لگاکہ وہ کن حالات میں یہاں سے واپس گیا تھا۔
مجھے تو ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے اپنے ایک ایٹمی میزائل کا نام ''غوری'' کیوں رکھا ہوا ہے؟ اپنے عروج کے دنوں میں ڈاکٹر قدیر نے اسی نام کے ایک بادشاہ کا مزار عالیشان بنانے کی کوششیں کیوں کی تھیں؟ اس بادشاہ کے کارنامے کیا تھے اور اس کی شخصیت میں کونسی دینی اور روحانی خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ اورنگزیب اپنے ہی بھائیوں کو قتل کر کے اپنی بادشاہت تو بچاتا رہا مگر سنا ہے کہ پھر بھی درویش صفت تھا اور کلام پاک لکھ کر اپنا خرچہ پانی پورا کرتا تھا۔
چونکہ بہت سارے تاریخی واقعات اور شخصیات کی پوری طرح جان کاری نہ حاصل کر پایا اسی لیے فیصلہ کر لیا کہ میں صرف رپورٹر ہی بھلا۔ ذرا بڑے دل سے سوچئے تو رپورٹنگ آسان کام نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ''خبر'' وہ حقیقت ہوتی ہے جسے طاقتور لوگ اور ادارے چُھپانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھئے تو خبر تلاش کر کے اسے چھاپنا ''تخریب کاری'' بھی سمجھا جا سکتا ہے اور مجھے اس تخریب کاری پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔
اصغر خان کے مقدمہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد اسلم بیگ کے ان کارہائے نمایاں کا بہت ذکر ہو رہا ہے جن کے ذریعے انھوں نے 1990ء کے انتخابات میں ''قومی سلامتی'' کی خاطر بھٹو کی بیٹی اور ان کے چیلے چانٹوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ افسوس تو مجھے اس بات کا ہو رہا ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں جنرل بیگ صاحب کے کارہائے نمایاں کا ذکر کرتے ہوئے ہم 1988ء کو بھول رہے ہیں۔
موصوف اپنا طیارہ لے کر بہاولپور گئے تھے۔ وہاں ان دنوں پاکستان میں امریکا کے سفیر آرنلڈ رافیل بھی اپنا ہی طیارہ لے کر گئے تھے۔ مگر واپسی پر جنرل ضیاء نے انھیں اپنے طیارے میں بٹھا لیا۔ بیگ صاحب خوش نصیب ٹھہرے کہ اپنے ہی طیارے پر اسلام آباد واپس لوٹ آئے۔ جنرل ضیاء والے طیارے کے حادثے کی خبر آئی تو میرے جیسے دو ٹکے کے صحافی یہ سمجھے کہ ٹیلی وژن پر جنرل اسلم بیگ ''میرے عزیز ہم وطنو'' کہنے ہی والے ہیں۔ اسی انتظار میں اپنے گھر جا کر ٹیلی وژن دیکھنے کے چکر میں کسی سواری کا انتظار کر رہا تھا تو اسلام آباد کی سپر مارکیٹ سے باہر آتے ہوئے ایک عرب سفیر کی نگاہ مجھ پر پڑ گئی۔ انھوں نے لفٹ کرا دی۔ گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھا تو ان کے ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ وہ سفیر میری بات سن کر مسکرا دیے۔ تقریباََ میرا مذاق اڑاتے ہوئے بول اٹھے کہ ''ضیاء کا مارا جانا باقی جرنیلوں کے لیے بڑا سخت پیغام بھی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ مارشل لاء نہیں لگے گا۔ نئے انتخابات کروانا پڑیں گے۔'' اسی لیے تو اس بات پر حیران نہ ہوا جب بالآخر غلام اسحاق خان پی ٹی وی پر نمودار ہوئے اور قوم کو ''طیارہ پھٹ جانے'' کی خبر سنائی۔ ہماری قوم اور اس کے سیاستدانوں کی اکثریت مگر بہت سالوں تک جنرل بیگ کی مشکور رہی کہ انھوں نے ضیاء الحق کی موت کے بعد بجائے ''میرے عزیز ہم وطنو'' کہنے کے بجائے انتخابات کرادیے۔ یہ انتخابات کتنے صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ تھے اس کی حقیقت اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب حمید گل صاحب آج کل بھی ٹی وی اسکرینوں پر سینہ تان کر بتاتے پائے جاتے ہیں۔
1990ء کا ذکر کرنے میں مصروف لوگ تو 1989ء کی اس تحریک عدم اعتماد کا ذکر بھی نہیں کر رہے جو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی گئی تھی۔ چوہدری نثار علی خان نے 1992ء میں کابینہ کی ایک میٹنگ میں برملا اعتراف کر لیا تھا کہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے بیگ صاحب نے اپنے جمہوریت پرست ہاتھوں سے ایک اہم جماعت اس وقت کی حزب اختلاف کو تعاون پیش کیا تھا۔ مجھے جب چوہدری نثار کے اس اعتراف کی بھنک پڑی اور اپنے ایک رپورٹر دوست کے ساتھ ان کے ہاں جا پہنچا۔ چوہدری صاحب نے بغیر کسی لیت ولعل کے اپنے اس اعتراف کا اعتراف کر لیا۔ ہم دونوں نے اس انٹرویو کی خبر اپنے اپنے اخباروں کو بھجوا دی۔ دوسرے دن اسے صفحہ اول پر جگہ ملی۔
جنرل صاحب کی جمہوریت نوازی کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ وہ بڑے خلوص کے ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو کو ہٹا کر 1990ء کے انتخابات کے ذریعے غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کو اس ملک کا وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے۔ ان کا مسئلہ مگر یہ ہو گیا کہ حمید گل کو یہ نام پسند نہ آیا۔ ان کا خیال تھا کہ 1990ء کے انتخابات کے بعد ''اصل مینڈیٹ'' نواز شریف کو ملا ہے۔ اﷲ کے فضل سے میاں زاہد سرفراز اور میر بلخ شیر مزاری جیسے کئی معتبر لوگ اب بھی زندہ ہیں۔
وہ مناسب سمجھیں تو میری اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم بڑے دکھ سے بار ہا اپنے دوستوں کی محفل میں یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ 1990ء کے انتخابات کے بعد کس طرح حمید گل صاحب نے ترکی کے سفارتخانے میں ہونے والی ایک تقریب میں نواز شریف کے لیے حمایت کے الفاظ ان کے کانوں تک پہنچائے تھے۔ عبوری حکومت کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے جتوئی صاحب نے وہ فقرہ سنا تو فوراََ گھر آ کر بتیاں بجھا کر سو گئے۔
حمید گل صاحب نواز شریف کو وزیر اعظم بنوانے میں تو کامیاب ہو گئے مگر ان کے اقتدار میں پہنچنے کے چند ہی روز بعد پہلے عراق نے کویت پر اور پھر امریکا نے عراق پر حملہ کر دیا۔ امریکا کے عراق پر حملے سے پہلے پاکستان کا منتخب وزیر اعظم اپنا طیارہ لے کر ایک سے دوسرے اسلامی ملک جا کر یہ کوششیں کرنے میں مصروف ہو گیا کہ کویت سے عراق کو نکلوا کر امریکی حملے کا راستہ روکا جائے مگر ان ہی کے چیف آف آرمی اسٹاف جناب مرزا اسلم بیگ نے بیانات دینا شروع کر دیے کہ اگر امریکا نے صدام حسین کے ملک پر حملہ کیا تو وہ عراق کو دوسرا ویت نام بنا دیں گے۔ امریکا نے پھر بھی حملہ کر کے صدام حسین کو کویت خالی کرنے پر مجبور کر دیا۔
بعد ازاں 2003ء میں ایک اور حملہ بھی کر دیا۔ عراق لیکن ابھی تک ویت نام نہیں بن پایا۔ پھر بھی جنرل بیگ بہت بڑے ''عسکری دانشور'' سمجھے جاتے ہیں۔ سنا ہے انھوں نے اپنا ایک تھنک ٹینک بھی بنا رکھا ہے۔ یہ ادارہ اپنی دانش کن لوگوں میں کس قیمت پر بانٹتا ہے میں ابھی تک نہیں جان پایا۔ ''بلڈی سویلین'' جو ٹھہرا۔
یہ کالم ختم کرنے سے پہلے مجھے یہ اطلاع بھی فراہم کر لینے دیں کہ جمہوری نظام کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی کے جنون میں بیگ صاحب نواز شریف کی پہلی حکومت کو فارغ کرنے کے لیے بھی بالکل تیار بیٹھے تھے۔ برا ہو مگر چوہدری انور عزیز اور ملک نعیم کا۔ دونوں کے درمیان ''سرگودھا'' کے حوالے سے بڑا گہرا رشتہ ہے۔ جن دنوں بیگ صاحب ''لاہور کے چھچھورے وزیر اعظم'' سے جان چھڑانے کو تلملا رہے تھے تو ان دونوں حضرات میں ایک لمبی ملاقات ہوئی۔ یہ بدنصیب بھی اس ملاقات میں موجود تھا۔ اس محل میں یہ خیال کوندا کہ کیوں نہ کسی نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا اعلان کر دیا جائے۔ ملک نعیم ان دنوں نواز شریف کے بڑے چہیتے ہوا کرتے تھے۔
صدر غلام اسحاق خان کو بھی چوہدری نثار علی خان اور ملک نعیم سے ''بڑی امیدیں'' تھیں۔ دونوں نے کسی طرح غلام اسحاق خان کو قائل کر دیا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی چیف آف آرمی اسٹاف کی ریٹائرمنٹ سے کئی ہفتے پہلے اس کے ''جانشین'' کا نام سرکاری طور پر لے دیا جائے۔ یوں جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم کی تقرری کا اعلان ہوا اور جنرل اسلم بیگ پاکستان میں جمہوریت کی مزید سرپرستی نہ فرما سکے۔
شاید میں صحافت میں ساری زندگی گزارنے کے باوجود محض ایک رپورٹر ہی رہا ہوں۔
خدا نے عقل، ہمت اور لگن بخشی ہوتی تو اپنے تجربات کو تجزیہ کی بھٹی سے کشید کر کچھ فلسفیانہ موتی اچھال پاتا۔ جب بھی کبھی سنجیدگی سے تاریخ پڑھنا چاہی تو اپنی زبان میں میسر کتابوں میں زیادہ تر کہانیاں ہی ملیں۔ محمد بن قاسم کے سندھ آنے کا پتہ تو ضرور چلا مگر یہ جاننے میں بہت عرصہ لگاکہ وہ کن حالات میں یہاں سے واپس گیا تھا۔
مجھے تو ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے اپنے ایک ایٹمی میزائل کا نام ''غوری'' کیوں رکھا ہوا ہے؟ اپنے عروج کے دنوں میں ڈاکٹر قدیر نے اسی نام کے ایک بادشاہ کا مزار عالیشان بنانے کی کوششیں کیوں کی تھیں؟ اس بادشاہ کے کارنامے کیا تھے اور اس کی شخصیت میں کونسی دینی اور روحانی خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ اورنگزیب اپنے ہی بھائیوں کو قتل کر کے اپنی بادشاہت تو بچاتا رہا مگر سنا ہے کہ پھر بھی درویش صفت تھا اور کلام پاک لکھ کر اپنا خرچہ پانی پورا کرتا تھا۔
چونکہ بہت سارے تاریخی واقعات اور شخصیات کی پوری طرح جان کاری نہ حاصل کر پایا اسی لیے فیصلہ کر لیا کہ میں صرف رپورٹر ہی بھلا۔ ذرا بڑے دل سے سوچئے تو رپورٹنگ آسان کام نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ''خبر'' وہ حقیقت ہوتی ہے جسے طاقتور لوگ اور ادارے چُھپانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھئے تو خبر تلاش کر کے اسے چھاپنا ''تخریب کاری'' بھی سمجھا جا سکتا ہے اور مجھے اس تخریب کاری پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔
اصغر خان کے مقدمہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد اسلم بیگ کے ان کارہائے نمایاں کا بہت ذکر ہو رہا ہے جن کے ذریعے انھوں نے 1990ء کے انتخابات میں ''قومی سلامتی'' کی خاطر بھٹو کی بیٹی اور ان کے چیلے چانٹوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ افسوس تو مجھے اس بات کا ہو رہا ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں جنرل بیگ صاحب کے کارہائے نمایاں کا ذکر کرتے ہوئے ہم 1988ء کو بھول رہے ہیں۔
موصوف اپنا طیارہ لے کر بہاولپور گئے تھے۔ وہاں ان دنوں پاکستان میں امریکا کے سفیر آرنلڈ رافیل بھی اپنا ہی طیارہ لے کر گئے تھے۔ مگر واپسی پر جنرل ضیاء نے انھیں اپنے طیارے میں بٹھا لیا۔ بیگ صاحب خوش نصیب ٹھہرے کہ اپنے ہی طیارے پر اسلام آباد واپس لوٹ آئے۔ جنرل ضیاء والے طیارے کے حادثے کی خبر آئی تو میرے جیسے دو ٹکے کے صحافی یہ سمجھے کہ ٹیلی وژن پر جنرل اسلم بیگ ''میرے عزیز ہم وطنو'' کہنے ہی والے ہیں۔ اسی انتظار میں اپنے گھر جا کر ٹیلی وژن دیکھنے کے چکر میں کسی سواری کا انتظار کر رہا تھا تو اسلام آباد کی سپر مارکیٹ سے باہر آتے ہوئے ایک عرب سفیر کی نگاہ مجھ پر پڑ گئی۔ انھوں نے لفٹ کرا دی۔ گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھا تو ان کے ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ وہ سفیر میری بات سن کر مسکرا دیے۔ تقریباََ میرا مذاق اڑاتے ہوئے بول اٹھے کہ ''ضیاء کا مارا جانا باقی جرنیلوں کے لیے بڑا سخت پیغام بھی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ مارشل لاء نہیں لگے گا۔ نئے انتخابات کروانا پڑیں گے۔'' اسی لیے تو اس بات پر حیران نہ ہوا جب بالآخر غلام اسحاق خان پی ٹی وی پر نمودار ہوئے اور قوم کو ''طیارہ پھٹ جانے'' کی خبر سنائی۔ ہماری قوم اور اس کے سیاستدانوں کی اکثریت مگر بہت سالوں تک جنرل بیگ کی مشکور رہی کہ انھوں نے ضیاء الحق کی موت کے بعد بجائے ''میرے عزیز ہم وطنو'' کہنے کے بجائے انتخابات کرادیے۔ یہ انتخابات کتنے صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ تھے اس کی حقیقت اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب حمید گل صاحب آج کل بھی ٹی وی اسکرینوں پر سینہ تان کر بتاتے پائے جاتے ہیں۔
1990ء کا ذکر کرنے میں مصروف لوگ تو 1989ء کی اس تحریک عدم اعتماد کا ذکر بھی نہیں کر رہے جو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی گئی تھی۔ چوہدری نثار علی خان نے 1992ء میں کابینہ کی ایک میٹنگ میں برملا اعتراف کر لیا تھا کہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے بیگ صاحب نے اپنے جمہوریت پرست ہاتھوں سے ایک اہم جماعت اس وقت کی حزب اختلاف کو تعاون پیش کیا تھا۔ مجھے جب چوہدری نثار کے اس اعتراف کی بھنک پڑی اور اپنے ایک رپورٹر دوست کے ساتھ ان کے ہاں جا پہنچا۔ چوہدری صاحب نے بغیر کسی لیت ولعل کے اپنے اس اعتراف کا اعتراف کر لیا۔ ہم دونوں نے اس انٹرویو کی خبر اپنے اپنے اخباروں کو بھجوا دی۔ دوسرے دن اسے صفحہ اول پر جگہ ملی۔
جنرل صاحب کی جمہوریت نوازی کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ وہ بڑے خلوص کے ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو کو ہٹا کر 1990ء کے انتخابات کے ذریعے غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کو اس ملک کا وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے۔ ان کا مسئلہ مگر یہ ہو گیا کہ حمید گل کو یہ نام پسند نہ آیا۔ ان کا خیال تھا کہ 1990ء کے انتخابات کے بعد ''اصل مینڈیٹ'' نواز شریف کو ملا ہے۔ اﷲ کے فضل سے میاں زاہد سرفراز اور میر بلخ شیر مزاری جیسے کئی معتبر لوگ اب بھی زندہ ہیں۔
وہ مناسب سمجھیں تو میری اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم بڑے دکھ سے بار ہا اپنے دوستوں کی محفل میں یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ 1990ء کے انتخابات کے بعد کس طرح حمید گل صاحب نے ترکی کے سفارتخانے میں ہونے والی ایک تقریب میں نواز شریف کے لیے حمایت کے الفاظ ان کے کانوں تک پہنچائے تھے۔ عبوری حکومت کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے جتوئی صاحب نے وہ فقرہ سنا تو فوراََ گھر آ کر بتیاں بجھا کر سو گئے۔
حمید گل صاحب نواز شریف کو وزیر اعظم بنوانے میں تو کامیاب ہو گئے مگر ان کے اقتدار میں پہنچنے کے چند ہی روز بعد پہلے عراق نے کویت پر اور پھر امریکا نے عراق پر حملہ کر دیا۔ امریکا کے عراق پر حملے سے پہلے پاکستان کا منتخب وزیر اعظم اپنا طیارہ لے کر ایک سے دوسرے اسلامی ملک جا کر یہ کوششیں کرنے میں مصروف ہو گیا کہ کویت سے عراق کو نکلوا کر امریکی حملے کا راستہ روکا جائے مگر ان ہی کے چیف آف آرمی اسٹاف جناب مرزا اسلم بیگ نے بیانات دینا شروع کر دیے کہ اگر امریکا نے صدام حسین کے ملک پر حملہ کیا تو وہ عراق کو دوسرا ویت نام بنا دیں گے۔ امریکا نے پھر بھی حملہ کر کے صدام حسین کو کویت خالی کرنے پر مجبور کر دیا۔
بعد ازاں 2003ء میں ایک اور حملہ بھی کر دیا۔ عراق لیکن ابھی تک ویت نام نہیں بن پایا۔ پھر بھی جنرل بیگ بہت بڑے ''عسکری دانشور'' سمجھے جاتے ہیں۔ سنا ہے انھوں نے اپنا ایک تھنک ٹینک بھی بنا رکھا ہے۔ یہ ادارہ اپنی دانش کن لوگوں میں کس قیمت پر بانٹتا ہے میں ابھی تک نہیں جان پایا۔ ''بلڈی سویلین'' جو ٹھہرا۔
یہ کالم ختم کرنے سے پہلے مجھے یہ اطلاع بھی فراہم کر لینے دیں کہ جمہوری نظام کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی کے جنون میں بیگ صاحب نواز شریف کی پہلی حکومت کو فارغ کرنے کے لیے بھی بالکل تیار بیٹھے تھے۔ برا ہو مگر چوہدری انور عزیز اور ملک نعیم کا۔ دونوں کے درمیان ''سرگودھا'' کے حوالے سے بڑا گہرا رشتہ ہے۔ جن دنوں بیگ صاحب ''لاہور کے چھچھورے وزیر اعظم'' سے جان چھڑانے کو تلملا رہے تھے تو ان دونوں حضرات میں ایک لمبی ملاقات ہوئی۔ یہ بدنصیب بھی اس ملاقات میں موجود تھا۔ اس محل میں یہ خیال کوندا کہ کیوں نہ کسی نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا اعلان کر دیا جائے۔ ملک نعیم ان دنوں نواز شریف کے بڑے چہیتے ہوا کرتے تھے۔
صدر غلام اسحاق خان کو بھی چوہدری نثار علی خان اور ملک نعیم سے ''بڑی امیدیں'' تھیں۔ دونوں نے کسی طرح غلام اسحاق خان کو قائل کر دیا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی چیف آف آرمی اسٹاف کی ریٹائرمنٹ سے کئی ہفتے پہلے اس کے ''جانشین'' کا نام سرکاری طور پر لے دیا جائے۔ یوں جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم کی تقرری کا اعلان ہوا اور جنرل اسلم بیگ پاکستان میں جمہوریت کی مزید سرپرستی نہ فرما سکے۔