خواتین کی تعلیم
جنرل ضیاء الحق کا دور تعلیم اور خواتین کی حیثیت کے حوالے سے ایک تاریک دور تھا
لاہور:
تعلیم کا حق استعمال کرنے والی 'حنا خان' کی زندگی خطرے میں ہے۔
سوات کی مکین اور گیارہویں جماعت کی طالبہ حنا خان نے 2011 میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کے حق کو روکنے پر آواز بلند کی تھی۔ حنا خان اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد میں پناہ گزین ہے، اس کے گھر کے دروازے پر نامعلوم افراد نے ایک مخصوص نشان لگادیا ہے یوں اب حنا خان کے لیے اسلام آباد میں بھی تعلیم کے دروازے بند ہورہے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح مجموعی طور پر کم ہے مگر خواتین میں یہ شرح شرم ناک حد تک کم ہے۔ Education for all Global Monitoring Report میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 25 ملین بچے اسکول نہیں جاتے، اسکول نہ جانے والے بچوں کے اعتبار سے پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف 39 فیصد لڑکیاں پرائمری اسکول پاس کرتی ہیں، باقی بچیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امراء سے تعلق رکھنے والے 70 فیصد افراد لوئر سیکنڈری تک تعلیم مکمل کرتے ہیں مگر نچلے طبقے کے صرف 16 فیصد مرد اور 5 فیصد خواتین لوئر سیکنڈری اسکول تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں، اس طرح دیہی علاقوں میں رہنے والی آدھی خواتین تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم ہیں جب کہ شہری علاقوں کی 14 فیصد خواتین تعلیم حاصل کرپاتی ہیں، 59 فیصد لڑکے پرائمری اسکول پاس کرپاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں حکومت پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں اسکول جانے والی بچیوں کی تعداد میں 16 فیصد اضافہ ہوا جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک مثلاً بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش کی حکومت کی کوششوں سے اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
پاکستان میں تعلیم کبھی ریاست کی اولین ترجیح نہیں رہی، اس بنا پر قیام پاکستان کے بعد سے تعلیم کا بجٹ انتہائی کم رہا۔ سابق بیوروکریٹ اور سوشل ایکٹیوسٹ تسنیم صدیقی نے اپنے ایک آرٹیکل میں تحریر کیا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح جب 1947 میں گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیر اعظم تھے تو پہلے وفاقی بجٹ میں اولین ترجیح دفاع کو دی گئی تھی۔ تعلیم اور صحت بجٹ کی آخری ترجیح تھے، حکومتوں نے تعلیم کو عام کرنے میں بہت کم کردار ادا کیا۔ یہ فریضہ سماجی مذہبی تنظیموں اور نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ تعلیم پھیلانے کی جو کوشش کی گئی وہ اعلیٰ اور متوسط طبقے کے لیے تھی۔
1947 سے 1972 تک کے اس طویل دور میں ریاست نے خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت کو ترجیح نہیں دی، جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے 1972 میں اپنی پہلی تعلیمی پالیسی نافذ کی تو ریاست نے شہریوں کو تعلیم دینے کی ذمے داری کو پہلی دفعہ قبول کیا، اس پالیسی کے تحت تمام تعلیمی ادارے سرکاری تحویل میں لیے گئے اور تعلیمی اداروں میں طلبا سے فیس لینے کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ سماجی، مذہبی تنظیموں پر تعلیمی ادارے قائم کرنے پر ممانعت ہوئی۔ اگرچہ بھٹو حکومت نے چھوٹے شہروں میں اسکول، کالج، ٹیکنیکل اور میڈیکل کالجز قائم کیے۔ ملک کے مختلف شہروں میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ محترمہ نصرت بھٹو کی قیادت میں خواتین کے حقوق کے لیے باز گشت سنائی دی جانے لگی مگر خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کے لیے ترجیحی بنیاد پرکوششیں نہیں ہوئیں۔
جنرل ضیاء الحق کا دور تعلیم اور خواتین کی حیثیت کے حوالے سے ایک تاریک دور تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے متنازع مذہبی قوانین نافذ کرکے خواتین کی حیثیت کو کم کردیا اور امریکی خفیہ ایجنسی CIA کے پروجیکٹ میں شامل ہوکر افغانستان میں مداخلت شروع کردی۔ افغانستان میں روسی فوجیں داخل ہوگئیں، افغانستان سے لاکھوں مہاجرین پاکستان آگئے، ان کی اکثریت پختونخوا اور بلوچستان میں آباد ہوئی مگر ہزاروں مہاجرین پنجاب اور سندھ خاص طور پر کراچی میں آباد ہوئے۔ سی آئی اے کے اس پروجیکٹ کی اہم خصوصیت مذہبی انتہاپسندی تھی۔
جو مذہبی عناصر سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مصروف تھے وہ خواتین کی تعلیم اور زندگی کی دوڑ میں ان کی شرکت کے خلاف تھے، یوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوئیں۔ جب 1988 میں عام انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں تحریر کیا کہ تعلیم کا بجٹ یونیسکو کے عالمی معیار کے مطابق جی این پی کا 4 فیصد دیا جائے گا مگر بے نظیر بھٹو اپنی18 ماہ کے دور حکومت میں خواتین کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دے پائیں۔ جب 1991 میں مسلم لیگ کی حکومت بنی تو میاں نوازشریف مسلم لیگ کے روایتی ایجنڈے پر عمل پیرا تھے، ان کی حکومت کو تعلیم اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم سے خاطر خواہ دلچسپی نہیں تھی ۔
پنجاب میں صنعتی ترقی کا دائرہ بڑھنے سے شہروں میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح بڑھ گئی تھی۔ پیپلزپارٹی اپنے دوسرے دور حکومت میں اپنے منشور کے مطابق تعلیمی بجٹ کو یونیسکو کے معیار کے مطابق نہیں کرسکی مگر حکومت کے وزیر داخلہ نصیر اﷲ بابر کی طالبان کو منظم کرنے کی پالیسی نے پختونخوا، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں تعلیم اور خواتین کی تعلیم کو مجموعی طور پر نقصان پہنچایا۔ نوازشریف کی حکومت نے ایٹمی دھماکا کیا اور عالمی امداد بند ہوئی تو تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی کردی گئی۔ جب طالبان نے کابل میں اپنی حکومت قائم کی تو انھوں نے طالبات کے اسکول بند کردیے اور خواتین کے کام کرنے کے مواقعے انتہائی محدود کردیے گئے۔
طالبان کی اس پالیسی کے اثرات قبائلی علاقوں پختونخوا اور بلوچستان میں پڑے، جب مولانا فضل اﷲ کی قیادت میں طالبان نے سوات میں اپنا تسلط قائم کیا تو وہاں خواتین کے اسکول بند کردیے گئے اور ان کی عملی زندگی میں شرکت کو ناممکن بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ 2000 سے قبائلی علاقوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ملحقہ پشتون زون میں اسکولوں کو نشانہ بنایا جانے گا۔ ایک اندازے کے مطابق ان علاقوں میں 2 ہزار اسکول کی عمارتوں کو مسمار کیا گیا۔
پشاور میں انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی بسوں پر حملے کیے گئے، خواتین کے اسکول جانے کی شرح میں انتہائی کمی ہوئی، اس کے ساتھ گزشتہ تین برسوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں آنے والے سیلابوں سے بہت سی عمارتیں تباہ ہوئیں، ان میں اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں بھی تھیں۔ ملک کے باقی صوبوں میں بھی خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
بلوچستان اپنے روایتی قبائلی معاشرے کی بنا پر ہمیشہ پسماندہ رہا ہے مگر گزشتہ 6 برسوں کے دوران بدامنی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں کے قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔ قتل ہونے والوں میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی شامل تھے۔ ایجنسیوں کے ہاتھوں بلوچ اساتذہ اور طلبا کے اغوا، ان کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے اور احتجاجی ہڑتالوں نے تعلیمی امن کو خراب کردیا۔ پنجاب کے شہروں میں تو خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی صورتحال بظاہر تو بہتر رہی مگر دیہی علاقوں میں رجعت پسندانہ، مذہبی انتہا پسندانہ خیالات اور غربت کی بنا پر لڑکیوں کی خاصی بڑی تعداد اسکول جانے سے محروم رہ گئی۔
کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ اگر چہ حکومت سندھ سرکاری اسکولوں میں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو وظیفہ دے رہی ہے مگر غربت، جہالت، اسکولوں کی عمارتوں کی گھروں سے دوری، استانیوں کے اسکول میں نہ جانے اور استانیوں کے طالبات سے گھروں کے کام کی بنا پر اسکولوں کو چھوڑ کر جانے والی طالبات کی شرح زیادہ ہے۔ پنجاب میں بھی پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن طالبات کو وظیفہ دیتی ہے مگر مختلف وجوہات کی بنا پر طالبات کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح اطمینان بخش ہے ۔
تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح صد فیصد نہیں ہوگی غربت کے خاتمے کی کوئی اسکیم کامیاب نہیں ہوگی۔ گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ رپورٹ عوام کو یاد دلا رہی ہے کہ صرف ان جماعتوں پر اعتماد کیا جائے جو خواتین کی تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں، دوسری صورت میں یہ صدی پاکستانی قوم کے لیے غربت و افلاس کی صدی ہی رہے گی اور ملالہ کے بعد حناخان کی جان بچانے کے لیے اپیلیں ہی ہوں گی۔
تعلیم کا حق استعمال کرنے والی 'حنا خان' کی زندگی خطرے میں ہے۔
سوات کی مکین اور گیارہویں جماعت کی طالبہ حنا خان نے 2011 میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کے حق کو روکنے پر آواز بلند کی تھی۔ حنا خان اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد میں پناہ گزین ہے، اس کے گھر کے دروازے پر نامعلوم افراد نے ایک مخصوص نشان لگادیا ہے یوں اب حنا خان کے لیے اسلام آباد میں بھی تعلیم کے دروازے بند ہورہے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح مجموعی طور پر کم ہے مگر خواتین میں یہ شرح شرم ناک حد تک کم ہے۔ Education for all Global Monitoring Report میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 25 ملین بچے اسکول نہیں جاتے، اسکول نہ جانے والے بچوں کے اعتبار سے پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف 39 فیصد لڑکیاں پرائمری اسکول پاس کرتی ہیں، باقی بچیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امراء سے تعلق رکھنے والے 70 فیصد افراد لوئر سیکنڈری تک تعلیم مکمل کرتے ہیں مگر نچلے طبقے کے صرف 16 فیصد مرد اور 5 فیصد خواتین لوئر سیکنڈری اسکول تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں، اس طرح دیہی علاقوں میں رہنے والی آدھی خواتین تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم ہیں جب کہ شہری علاقوں کی 14 فیصد خواتین تعلیم حاصل کرپاتی ہیں، 59 فیصد لڑکے پرائمری اسکول پاس کرپاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں حکومت پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں اسکول جانے والی بچیوں کی تعداد میں 16 فیصد اضافہ ہوا جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک مثلاً بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش کی حکومت کی کوششوں سے اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
پاکستان میں تعلیم کبھی ریاست کی اولین ترجیح نہیں رہی، اس بنا پر قیام پاکستان کے بعد سے تعلیم کا بجٹ انتہائی کم رہا۔ سابق بیوروکریٹ اور سوشل ایکٹیوسٹ تسنیم صدیقی نے اپنے ایک آرٹیکل میں تحریر کیا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح جب 1947 میں گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیر اعظم تھے تو پہلے وفاقی بجٹ میں اولین ترجیح دفاع کو دی گئی تھی۔ تعلیم اور صحت بجٹ کی آخری ترجیح تھے، حکومتوں نے تعلیم کو عام کرنے میں بہت کم کردار ادا کیا۔ یہ فریضہ سماجی مذہبی تنظیموں اور نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ تعلیم پھیلانے کی جو کوشش کی گئی وہ اعلیٰ اور متوسط طبقے کے لیے تھی۔
1947 سے 1972 تک کے اس طویل دور میں ریاست نے خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت کو ترجیح نہیں دی، جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے 1972 میں اپنی پہلی تعلیمی پالیسی نافذ کی تو ریاست نے شہریوں کو تعلیم دینے کی ذمے داری کو پہلی دفعہ قبول کیا، اس پالیسی کے تحت تمام تعلیمی ادارے سرکاری تحویل میں لیے گئے اور تعلیمی اداروں میں طلبا سے فیس لینے کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ سماجی، مذہبی تنظیموں پر تعلیمی ادارے قائم کرنے پر ممانعت ہوئی۔ اگرچہ بھٹو حکومت نے چھوٹے شہروں میں اسکول، کالج، ٹیکنیکل اور میڈیکل کالجز قائم کیے۔ ملک کے مختلف شہروں میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ محترمہ نصرت بھٹو کی قیادت میں خواتین کے حقوق کے لیے باز گشت سنائی دی جانے لگی مگر خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کے لیے ترجیحی بنیاد پرکوششیں نہیں ہوئیں۔
جنرل ضیاء الحق کا دور تعلیم اور خواتین کی حیثیت کے حوالے سے ایک تاریک دور تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے متنازع مذہبی قوانین نافذ کرکے خواتین کی حیثیت کو کم کردیا اور امریکی خفیہ ایجنسی CIA کے پروجیکٹ میں شامل ہوکر افغانستان میں مداخلت شروع کردی۔ افغانستان میں روسی فوجیں داخل ہوگئیں، افغانستان سے لاکھوں مہاجرین پاکستان آگئے، ان کی اکثریت پختونخوا اور بلوچستان میں آباد ہوئی مگر ہزاروں مہاجرین پنجاب اور سندھ خاص طور پر کراچی میں آباد ہوئے۔ سی آئی اے کے اس پروجیکٹ کی اہم خصوصیت مذہبی انتہاپسندی تھی۔
جو مذہبی عناصر سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مصروف تھے وہ خواتین کی تعلیم اور زندگی کی دوڑ میں ان کی شرکت کے خلاف تھے، یوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوئیں۔ جب 1988 میں عام انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں تحریر کیا کہ تعلیم کا بجٹ یونیسکو کے عالمی معیار کے مطابق جی این پی کا 4 فیصد دیا جائے گا مگر بے نظیر بھٹو اپنی18 ماہ کے دور حکومت میں خواتین کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دے پائیں۔ جب 1991 میں مسلم لیگ کی حکومت بنی تو میاں نوازشریف مسلم لیگ کے روایتی ایجنڈے پر عمل پیرا تھے، ان کی حکومت کو تعلیم اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم سے خاطر خواہ دلچسپی نہیں تھی ۔
پنجاب میں صنعتی ترقی کا دائرہ بڑھنے سے شہروں میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح بڑھ گئی تھی۔ پیپلزپارٹی اپنے دوسرے دور حکومت میں اپنے منشور کے مطابق تعلیمی بجٹ کو یونیسکو کے معیار کے مطابق نہیں کرسکی مگر حکومت کے وزیر داخلہ نصیر اﷲ بابر کی طالبان کو منظم کرنے کی پالیسی نے پختونخوا، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں تعلیم اور خواتین کی تعلیم کو مجموعی طور پر نقصان پہنچایا۔ نوازشریف کی حکومت نے ایٹمی دھماکا کیا اور عالمی امداد بند ہوئی تو تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی کردی گئی۔ جب طالبان نے کابل میں اپنی حکومت قائم کی تو انھوں نے طالبات کے اسکول بند کردیے اور خواتین کے کام کرنے کے مواقعے انتہائی محدود کردیے گئے۔
طالبان کی اس پالیسی کے اثرات قبائلی علاقوں پختونخوا اور بلوچستان میں پڑے، جب مولانا فضل اﷲ کی قیادت میں طالبان نے سوات میں اپنا تسلط قائم کیا تو وہاں خواتین کے اسکول بند کردیے گئے اور ان کی عملی زندگی میں شرکت کو ناممکن بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ 2000 سے قبائلی علاقوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ملحقہ پشتون زون میں اسکولوں کو نشانہ بنایا جانے گا۔ ایک اندازے کے مطابق ان علاقوں میں 2 ہزار اسکول کی عمارتوں کو مسمار کیا گیا۔
پشاور میں انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی بسوں پر حملے کیے گئے، خواتین کے اسکول جانے کی شرح میں انتہائی کمی ہوئی، اس کے ساتھ گزشتہ تین برسوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں آنے والے سیلابوں سے بہت سی عمارتیں تباہ ہوئیں، ان میں اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں بھی تھیں۔ ملک کے باقی صوبوں میں بھی خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
بلوچستان اپنے روایتی قبائلی معاشرے کی بنا پر ہمیشہ پسماندہ رہا ہے مگر گزشتہ 6 برسوں کے دوران بدامنی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں کے قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔ قتل ہونے والوں میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی شامل تھے۔ ایجنسیوں کے ہاتھوں بلوچ اساتذہ اور طلبا کے اغوا، ان کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے اور احتجاجی ہڑتالوں نے تعلیمی امن کو خراب کردیا۔ پنجاب کے شہروں میں تو خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی صورتحال بظاہر تو بہتر رہی مگر دیہی علاقوں میں رجعت پسندانہ، مذہبی انتہا پسندانہ خیالات اور غربت کی بنا پر لڑکیوں کی خاصی بڑی تعداد اسکول جانے سے محروم رہ گئی۔
کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ اگر چہ حکومت سندھ سرکاری اسکولوں میں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو وظیفہ دے رہی ہے مگر غربت، جہالت، اسکولوں کی عمارتوں کی گھروں سے دوری، استانیوں کے اسکول میں نہ جانے اور استانیوں کے طالبات سے گھروں کے کام کی بنا پر اسکولوں کو چھوڑ کر جانے والی طالبات کی شرح زیادہ ہے۔ پنجاب میں بھی پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن طالبات کو وظیفہ دیتی ہے مگر مختلف وجوہات کی بنا پر طالبات کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح اطمینان بخش ہے ۔
تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح صد فیصد نہیں ہوگی غربت کے خاتمے کی کوئی اسکیم کامیاب نہیں ہوگی۔ گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ رپورٹ عوام کو یاد دلا رہی ہے کہ صرف ان جماعتوں پر اعتماد کیا جائے جو خواتین کی تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں، دوسری صورت میں یہ صدی پاکستانی قوم کے لیے غربت و افلاس کی صدی ہی رہے گی اور ملالہ کے بعد حناخان کی جان بچانے کے لیے اپیلیں ہی ہوں گی۔