دسمبر آ گیا ہے
میں آپ اور ہم سب جو لاہور میں رہتے ہیں تو ہم سب کسی زندہ اور پرامن شہر میں رہتے ہیں
ISLAMABAD:
میں آپ اور ہم سب جو لاہور میں رہتے ہیں تو ہم سب کسی زندہ اور پرامن شہر میں رہتے ہیں یا کسی میدان جنگ میں عارضی پڑاؤ کیے ہوئے ہیں کیونکہ ہر روز کہیں نہ کہیں فوجی قسم کی واردات ہو جاتی ہے اور دوسرے دن فوج ہی اس کا پتہ چلاتی ہے یا خاص پولیس جو فوج کے برابر مسلح ہوتی ہے اور خصوصی تربیت یافتہ بھی۔
امن اور سکون نام کی کوئی چیز خبروں میں نہیں ملتی۔ تمام اخبار ڈراؤنی قسم کی خبروں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جیسے یہ خبریں دینے کے لیے نہیں قارئین کو ڈرانے دھمکانے اور خوفزدہ کرنے کے لیے شایع ہوتے ہیں کیونکہ شاید ہی کسی دن کا اخبار کوئی خوش کن خبر بھی دیتا ہو اکثر خبریں چوریوں، ڈاکوں اور لوٹ مار کی ہوتی ہیں۔ اغواء اور عصمت دری کی خبریں بھی ایک معمول بنتی جا رہی ہیں۔
گھروں اور چار دیواری کا تقدس ایک پرانا واقعہ بن گیا ہے آپ اور بھی کسی بدامنی اور عوامی بے چینی کا ذکر کر دیں وہ آپ کو آج نہیں تو کل کے اخبار میں اس کی خبر مل جائے گی۔ میں ان دنوں ایک خوفزدہ انسان ہوں اور شاید اسی لیے ہر روز ہی بدامنی کا ذکر کرتا ہوں مگر میرا خوف پھر بھی دور نہیں ہو تا اور یہ روز مرہ کا ذکر بھی میرے خوف و ہراس کو کم نہیں کرتا۔ مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ متعلقہ ادارے اور امن کے رکھوالے لوگ بیدار ہو جائیں گے اور گلی کوچوں کے امن کا بندوبست کریں گے لیکن یہ میری غلط فہمی ہی رہی اور سب کچھ قدرت کے حوالے کر دیا گیا کہ اللہ تبارک تعالیٰ ہی سب کا محافظ ہے۔ میں یہاں 'بڑے' لوگوں کی سرکاری حفاظت کا ذکر کرکے اپنے سمیت آپ کو بھی مزید پریشان اور مایوس نہیں کر سکتا کیونکہ ان انتہائی مہنگے حفاظتی انتظامات میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔ اور یہ سب ہمارے خرچ پر۔
میں اخباروں کی خبروں سے گھبرا کر مضامین اور کالموں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن یوں لگتا ہے یا پھر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لکھنے والے بھی اندر سے خوفزدہ ہیں اور بہت محتاط انداز اختیار کر چکے ہیں۔ میں کسی دوسرے کا ذکر تو تب کروں اگر میں خود اس خوف سے محفوظ ہوں۔
ہم لکھنے والے اگر صرف اپنے ضمیر سے خوفزدہ ہوں اور باہر کے ڈر خوف سے بے نیاز تو پھر ہماری تحریریں مختلف ہوں گی اور انھیں لازماً مختلف ہونا بھی چاہیے کہ لاکھوں لوگ ان تحریروں سے واقعی متاثر ہوتے ہیں اور اگر یہ تحریریں دیانت کے قلم سے نہ نکلیں تو پھر یہ تباہی پھیلاتی ہیں اور ان کے اشارے کنائے بھی برداشت نہیں ہوتے خواہ وہ کتنے ہی مبہم کیوں نہ رکھے جائیں کہ شاید عوام کا کوئی ایک گروہ تو ان سے متاثر ہو سکے لیکن تحریر کے اثرات چھپ نہیں سکتے اور خود خوفزدہ ہوں تو پھر قارئین بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ یونان کے سقراط نے کہا تھا کہ تحریر ایک خاموش آواز ہے اور قلم ہاتھ کی زبان ہے۔
ہاتھ کی آواز' قلم اور تحریر کی خاموش آواز کو یکجا کرنے کا ہنر کوئی کہاں سے سیکھے۔ میں نے ایک دن امام امین احسن اصلاحی سے سنا کہ سقراط وقت کا پیغمبر تھا۔
وہ صرف خدا کو مانتا تھا اور دیوتاؤں کا منکر تھا۔ اس کے مشہور مقدمے کی روداد اور اس میں ملزم سقراط کا موحدانہ بیان اور پھر اس بیان پر اصرار اور نتیجے میں موت اس شخص کے حصے میں آئی لیکن اس نے اپنے بیان کا ایک لفظ بھی بدلنے پر آمادگی ظاہر نہ کی پھر سزائے موت سے پہلے اس کی اس کے شاگردوں کے درمیان گفتگو اور زہر پلانے والے سرکاری کارندے سے سوال و جواب یہ سب سقراط کے پیغمبرانہ مزاج اور الوہی تربیت کا پتہ دیتے ہیں۔
بہرکیف یہ لوگ ہم سے کچھ طلب کیے بغیر چلے گئے اور ہمارے لیے اپنا نیک نام اور ارشادات چھوڑ گئے اور ایک ایسے کردار کی روشنی جس میں ہم زندہ رہ سکیں تو یہ ہماری خوش نصیبی ہے۔ میں حالات سے گھبرا کر ان دنوں شاعری پڑھتا رہتا ہوں بلکہ یوں کہیں کہ اخباروں میں خبروں کی جگہ سے شعروں کو نقل کرتا رہتا ہے۔ ان دنوں تحریروں میں ایک نظم کا مصرع بار بار دہرایا جا رہا ہے شاید آپ نے عرش صدیقی کی نظم پڑھی ہو گی یہ نظم مجھے اچھی لگی اس لیے پیش خدمت ہے۔
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کہ گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا
میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
ہم پاکستانیوں کی قسمت میں تو دسمبر نے عمر بھر کا رونا لکھ دیا ہے سقوط ڈھاکا سے آرمی اسکول کے شہید بچوں تک۔ دسمبر کی 16تاریخ تو ہمارے لیے غم و اندوہ اور ماتم کی نہ بھولنے والی تاریخ بن گئی ہے۔