تعلیم کے شہ سواروں پر رحم کریں

اس مرتبہ پورے پاکستان میں آزاد امیدواروں نے جیت کا جشن منایا۔

عوامی سطح پر اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ حق تلفی ہے۔ نظام عدل میں موجود خامیاں مایوسی کی دیواروں کی طرح بلند سے بلند ہوتی جا رہی ہیں، بلدیاتی الیکشن کراچی میں ہو گئے اور بے شمار الزامات کے باوجود ایم کیو ایم نے یہ الیکشن بھی خاموش ووٹروں کی اکثریت کے بنا پر جیت کر اپنی روایات کو برقرار رکھا۔ عمران خان خیبر پختونخوا روانہ ہوئے۔

اس مرتبہ پورے پاکستان میں آزاد امیدواروں نے جیت کا جشن منایا۔ جیتنے والے اس خوشی سے سرشار ہیں کہ ہم جیت گئے مگر انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اب مسائل کے انبار ان کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے ہوئے ہیں حکومتی اداروں میں غلط رویوں کی وجہ سے ناانصافی کا بول بالا ہو رہا ہے اور ان ناانصافیوں کی وجہ سے غربت، مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اگر اس معاشرے میں سچائی کے راستے کو نہ اپنایا گیا تو طبقاتی جنگ شدت اختیار کرے گی۔

ہمیں ہرحال میں میرٹ کا خون کرنے والے ہاتھوں کو روکنا ہو گا اور اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو بقا کی ضمانت کون فراہم کرے گا حصول انصاف کی راہیں محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ظلم اور بربریت کے خلاف عوام نے چیخ وپکار کے بجائے خاموشی اختیار کر لی ہے۔

ہمارے معاشرے میں عوام انفرادی زندگی گزارنے کا تو تصور ہی نہیں کر سکتے ماضی میں کراچی کو عروس البلاد کہا گیا مگر اب تو کراچی کرچی کرچی ہو گیا ہے اور ایسے شیشے کی طرح ٹوٹ گیا ہے، جس میں اپنا چہرہ بھی کرچی کرچی نظر آتا ہے حیدر آباد اور کراچی سے ایم کیو ایم نے اکثریت حاصل کر لی ہے اور مستقبل میں میئر بھی ایم کیو ایم سے ہوں گے مگر ان میئر حضرات کے فنڈ سندھ اسمبلی کی جھولی میں ہیں اور یقینا اب یہ فنڈ خدشہ ہے آہوں کراہوں کے حوالے سے دستیاب ہوں گے جب کہ معتبر جمہوری نظام میں ایسا ہونا تو نہیں چاہیے۔

کچرے اور غلاظت کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پانی کا بحران اور خراب سیوریج کا نظام۔ یہ سب آنے والے میئر حضرات کو تحفے میں ملیں گے، اب ان مشکلات سے نکلنے کے لیے ایک خطیر فنڈ کی ضرورت ہو گی اگر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے نرم گوشہ رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کا ساتھ دیا تو پھر واقعی نیا پاکستان کراچی اور حیدر آباد سے شروع ہو گا اور اس مرتبہ ایم کیو ایم کو بھی اپنے چاہنے والے ووٹروں (جو خاموش اکثریت پر مبنی ہیں) سے محبت کا ثبوت دینا ہو گا اور ان کے حلقوں میں خصوصی توجہ دینی ہو گی تا کہ وہ مایوسی کی دلدل سے نکل سکیں کہ 2013ء سے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔


گزشتہ ہفتے کے ایم سی کی ایک خاتون ریٹائرڈ ہیڈ مسٹریس اور ٹیچر سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران ان کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو تیرنے لگے کہ ہم نے نوجوانی سے لے کر بڑھاپے تک اس ملک کے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور آج ہمیں اور ہمارے ہزاروں ساتھیوں کو 6 ماہ سے پنشن نہیں ملی ہمارے گھروں میں فاقوں کا ڈیرہ ہے ہماری معاشی صورتحال اتنی ابتر ہے کہ صرف بھیک مانگنا باقی رہ گیا ہے ہم کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سندھ حکومت کے اس ناروا سلوک نے ان کی زندگی کے تمام راستوں پر غربت کا پہرا بٹھا دیا ہے، پنشن کے لیے جب ہم جاتے ہیں تو تذلیل کی جاتی ہے۔

تضحیک کے دروازے کھول کر ہمیں یہ کہہ کر شرمندہ کیا جاتا ہے کہ اگلے مہینے آنا پھر دیکھیں گے دنیا کے مہذب ملکوں میں سینئر سٹیزن واجب الاحترام ہوتے ہیں۔ راقم ایک مرتبہ اسپین کے شہر بارسلونا کے ایئرپورٹ سے لندن جانے کے لیے ایک کاؤنٹر پرگیا جو بالکل ویران تھا، رش نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس کاؤنٹر پرگئے اپنا پاسپورٹ اور ٹکٹ کاؤنٹر کی کھڑکی سے اندر دیا اس شخص نے بہت ہی حقارت سے ہمارا پاسپورٹ اور ٹکٹ واپس کرتے ہوئے کہا کہ سامنے والے کاؤنٹر پر جاؤ۔ ہم نے بہت معصومیت سے کہا کہ جناب! آپ فری ہیں ہمیں بورڈنگ کارڈ دے دیں۔ اس نے بورڈ پر اشارہ کرتے ہوئے کہا اسے پڑھ لیں کیا لکھا ہے۔

ہم نے بورڈ کی طرف دیکھا وہاں سنیئر سٹیزن لکھا تھا۔ بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے ملک میں سینئر سٹیزن اپنے حق کے لیے بھی فقیروں کی طرح مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کتنے بے حس ہو گئے ہیں ہم کہ عمر رسیدہ پاکستانیوں کے مفادات، خواہشات، حق خودداری، ان کی ساری عمر کی محنت کا معاوضہ حتیٰ کہ ان کے مفادات بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں اتحاد و یگانگت کو پارہ پارہ کیا جا رہا ہے، یہ عمر رسیدہ مفلوک الحال تو کچھ ایسے بھی ہیں جو معذور ہیں اور پنشن کی عدم ادائیگی نے انھیں ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بیوروکریٹ دانشمندانہ فیصلوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور تکبر کے چراغوں میں شاید ان عمر رسیدہ لوگوں کا خون جل رہا ہے اور ہمارے کرتا دھرتا افسران نے اختیاراتی دستانے پہن رکھے ہیں، ہمارے افسران کے پاس تنازعات نمٹانے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ سینئر سٹیزن کے لیے کیسی تشویشناک صورتحال ہے یوم وصال تو ان غریبوں کا تو ہوگا مگر یاد رکھیں کہ تخت و تاج سجائے بیٹھنے والوں کا بھی یوم وصال تو ہونا ہے ہمیں رب ذوالجلال سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگنی چاہیے کہ بے شک ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔

یہ عمر رسیدہ بے حال لوگ جنھوں نے اس ملک کے لیے اس ملک کے بچوں کے لیے بغیر کسی لالچ اور رشوت کے تعلیم سے آراستہ کیا ان کی گراں قدر خدمات کو دیکھتے ہوئے ان ''کے ایم سی'' کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کو ہر ماہ باقاعدگی سے ادا کیا جائے۔ میری سینئر سٹیزن صدر پاکستان ممنون حسین، وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے مودبانہ گزارش ہے کہ ان لیجنڈز، تعلیمی میدان کے شہ سواروں، بصیرت افروز خیالات سے بہرہ مند اور قومی یکجہتی کے استادوں کی پنشن ان کے کارہائے نمایاں کو دیکھتے ہوئے ہر ماہ وقار کے ساتھ ادا کی جائے۔
Load Next Story