جس کی لاٹھی اُس کی بھینس

یہ محاورہ جس کسی نے بھی تخلیق یا ایجاد کیا ہے اُس کی ذہانت اور عقل و فہم کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

mnoorani08@gmail.com

یہ محاورہ جس کسی نے بھی تخلیق یا ایجاد کیا ہے اُس کی ذہانت اور عقل و فہم کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کئی صدیاں بیت گئیں لیکن اِس محاورے کی اہمیت و افادیت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ دنیا میں کسی علاقے یا ملک میں چلے جائیے یہ محاورہ اپنی مکمل آب وتاب اور استمراری حیثیت کے ساتھ انتہائی فعال، مضبوط اور متحرک نظر آتا ہے۔

یہ ازل سے جاری ہے اور لگتا ہے ابد تک قائم رہے گا۔ ہر بڑا طاقتور اپنے سے چھوٹے اور نسبتاً کم طاقت والے کے ساتھ وہی سلوک اور رویہ اختیار کرتا ہے جو ہم اپنے ارد گرد روزانہ صبح و شام دیکھا کرتے ہیں۔ گھر میں میاں بیوی میں سے جو زیادہ دبدبے اور حیثیت کا مالک ہوتا ہے وہی دوسرے فریق پر حاوی دکھائی دیتا ہے۔ ویسے تو زیادہ تر یہ حق ہمارے یہاں صرف مردوں ہی کو حاصل ہے لیکن اکثر اوقات گھر کے اِس سربراہ کی حالت قابلِ رحم بھی ہوتی ہے۔

وہ کہنے کو تو اپنے کنبہ کا سربراہ ہوتا ہے مگر اصل حکومت اُس زوجہ محترمہ کی ہوتی ہے جس کے ماں باپ کے پاس دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور یا تو وہ مزاجاً لڑاکا خصلت کی مالک ہوتی ہے۔ ایسے گھر انے میں شوہرِ نامدار کی حالت زن مرید کی ہوتی ہے۔ بے شک وہ گھر سے باہر طرم خان ہی کیوں نہ بنا پھرتا ہو مگر اپنے گھر میں اُس کی حیثیت بھیگی بلّی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ایسا ہی حال کچھ ہمارے دفتروں اور محکموں کا بھی ہوتا ہے۔ وہاں بھی افسرِان بالا اپنے ماتحتوں کو اپنا زرخرید غلام سمجھ کر اُن پر اپنا خوب رعب جما تے ہیں اور اُن سے اپنا ہر جائز اور ناجائز کام کرواتے ہیں۔

علاقے کے پولیس اسٹیشنوں اور تھانوں میں تو یہ کلچر بہت عام ہے۔ ہر بڑا پولیس افسر اپنے سے چھوٹے پولیس افسر پر اِس طرح حکم چلاتا ہے جسے وہی اِس شہر اور ملک کا حاکم اعلیٰ ہو، حالانکہ وہ جب اپنے سے بھی بڑے کسی افسر کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے تو اُس کی یہ ساری طرم خانی دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور طرح ہاتھ جوڑے کھڑا ہوتا ہے جس طرح وہ ا پنے حلقہ اختیار میں اپنے سے کم تر لوگوں کو اپنی اطاعت اور حکم برداری پر مجبور کرتا ہے۔

ایسے ہی دل آزار اور دلسوز حالات ہم اپنے معاشرے میں اوپر کی سطح پر بھی دیکھتے رہتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری ادارے یا محکمے میں چلے جائیں ہمیں وہاں بھی کمزور اور طاقتور کے درمیان یہی مخمصہ اور کشمکش کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے ایک صوبے کے حاکم خود کو خدمت گزارِ کہتے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی چھوٹے افسر کو نوکری سے بیدخل یا معطل ضرور کر دیتے ہیں۔ اور کہیں سے بھی ظلم اور ناانصافی پر فوراً نوٹس تو لیتے ہی ہیں اور ساتھ ساتھ ایک افسر بھی معطل کر دیتے ہیں۔

اُس کی محکمہ جاتی کارروائی کا نہ عوام کو پتہ چلتا ہے اور نہ خود اِن کو۔ ویسے بھی ہماری قوم کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ اُسے چند مہینوں پہلے والی بات بھی یاد نہیں رہتی۔ ہمارا بہت ہی فعال اور متحرک الیکٹرنک میڈیا اگر آج موجود نہ ہوتا تو شاید ایسی کئی خبریں عوام تک سرے سے پہنچ ہی نہیں پاتیں۔

سیاسی طور پر بھی'مائٹ از رائٹ' کی بہت سی مثالیں ہمیں اپنے معاشرے میں روزانہ نظر آتی رہتی ہیں۔ جس ملک میں طاقت کے بل بوتے پر عوام کے منتخب حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے بیدخل کر کے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہو وہاں مجبور و لاچار نوجوانوں کی بساط اور اوقات ہی کیا۔ ملک کے اندر دس دس سالوں تک بلاروک ٹوک حکمرانی کرنیوالے آمروں کا دور اِسی فلسفے اور نظریے کی حقیقت کا ناقابلِ تردید منہ بولتا ثبوت ہے۔


اپنے ملک کے علاوہ باہر نظر دوڑائیں تو بین الاقوامی طور پر ہمیں حالات کچھ اِس سے بھی زیادہ خطرناک دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا میں پہلے صرف ہی دو سپر پاورز اور عالمی طاقتیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر ایک وقت آیا سویت یونین کی شیرازہ بندی کے بعد صرف ایک ہی سپر پاور باقی رہ گئی۔ اُس سپرپاور نے موقعہ ملتے ہی ساری دنیا پر اپنا حکم چلانا شروع کر دیا۔ ایک نیا ورلڈ آڈر ترتیب دیا گیا جسے فرمانِ امروز کا درجہ عطا کیا گیا اور جس کے تحت یہ طے ہوا کہ کوئی ملک اُس سپرپاور کی مرضی و منشاء کے خلاف کوئی کام نہیں کر پائے گا۔

سب اِسی کے تابع اور غلام رہیں گے۔ ساری دنیا کی معاشیات اور اقتصادیات کے اُصول اور اسرار و رموز وہی طے کرے گا۔ جس کے تحت تمام ممالک کی دولت مختلف ذرایع اور طریقوں سے امریکی سرمایہ داروں، بینکاروں اور اسٹیٹ بروکروں کی تجوریو ں میں پہنچائی گئی۔ معاشی جادوگروں کے وضع کردہ نظریات اور حساب کتاب ہی کو عالمی معیشت کا نام دیا گیا اور جس کے ذریعے کبھی پیٹرول 145 ڈالر فی بیرل تو کبھی صرف 40 ڈالر فی بیرل کر دیا گیا۔ کبھی سونا آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگتا تو کبھی وہ روزانہ کی بنیاد پر سستا ہونے لگتا۔

جب چاہا اور جیسے چاہا اپنے مفادات اور اپنی ترجیحات کیمطابق عالمی معیشت کے نظام کو تبدیل کر ڈالا۔ اسلامی دنیا کے بڑے بڑے ممالک کو اپنی تابع فرمان اتھارٹی بنا کر اُن کے معدنی ذخائر اور خام مال کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر اپنی تیار کردہ مصنوعات سونے کے بھاؤ بیچ کر خوب مال کمایا گیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے ہمارے جیسے کئی کمزور اور بے سہارا ملکوں کو قرضوں اور امداد کے دلدل میں ایسا غرق کر دیا گیا کہ جس سے نکلنا اب اُن کے بس کی بات نہیں۔ اِس امتیازی اور متعصبانہ سسٹم اور نظام کے خلاف ایرانیوں نے آواز بلند کی تو اُنہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔

سوڈانیوں نے جرأت و ہمت دکھائی تو اُنہیں فاقوں کی مار ماری گئی۔ افغانوں نے دلیری اور بہادری دکھائی تو اُنہیں ایسا سبق سکھایا گیا کہ وہ ابھی تک اُسی سبق کے اثرات کو جھیل رہے ہیں۔ عراقیوں نے کچھ دم خم دکھایا تو اُنہیں بھی ماس کلنگ میٹریل رکھنے کے فرضی جرم میں ایسی سزا دی گئی کہ اگلی کئی دہائیوں تک وہ سر اُٹھا کر جی نہ سکیں۔ اب باری ہے ملک شام کی۔ وہ بھی اِیسے ہی ناکردہ گناہوں کی سزا کئی سالوں سے بھگت رہا ہے۔ بشارالاسد کو ہدف بنا کر ملک شام کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔

وہاں کے ہزاروں اور لاکھوں بے گناہ باشندوں کو بلاوجہ مارا جا رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی سلوک عراق کے سابق صدر صدام حسین اور لیبیا کے کرنل قذافی کے ساتھ بھی کیا گیا۔اور تو اور ایک واحد سپر پاور کے ساتھ ساتھ اب چھوٹی بڑی کئی اور طاقتیں عالمی افق پر نمودار ہونے لگی ہیں۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس کے علاوہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت اور اسرائیل بھی خود کو سپر پاور سمجھنے لگے ہیں۔ یہ ممالک بھی اپنے ارد گرد کے غریب اور بے بس ملکوں کو اپنے انگوٹھے تلے دبائے رکھنے کی پالیسیوں پر پورے شد و مد کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔

ابھی حال ہی میں ہمارے ایک برادر ملک نے روس کا ایک طیارہ اپنی سرحدی حدود میں مار گرایا۔ پھر اُس کے ساتھ جو سلوک روسی حکمرانوں کی جانب سے اختیار کیا گیا وہ ہمارے جیسے لاچار اور بے بس قوم کے حکمرانوں کے لیے سبق آموز نصیحت سے کم نہیں ہے۔ معزز ترک صدر طیب اردگان کو ہم سب ایک نڈ ر، دلیر اور بے باک لیڈر کے طور پر جانتے اور پہچانتے رہے ہیں۔

ابتدا میں تو اُنہوں نے استقامت اور جرأت و ہمت دکھائی لیکن پھر وہ بھی معذرت خواہانہ انداز اپنانے پر مجبور ہو گئے اور اِسے اپنی غلطی قرار دیکر ایسے واقعات آیندہ نہ ہونے کا عندیہ دے ڈالا۔ 'جس کی لاٹھی اُس کی بھینس' اور 'مائٹ اِز رائٹ' کا فلسفہ دنیا کا ایسا منفرد مروجہ فلسفہ ہے جسے ہر ایک کو لازماً پڑھنا، سمجھنا اور قبول کرنا ہو گا۔ جس نے بھی اُس سے انکار یا بغاوت کی وہ نیست و نابود کر دیا گیا۔ معاملہ نائن الیون کا ہو یا کشمیر کی آزادی کا، ہم سب کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہو یا ریمنڈ ڈیوس کا ہر معاملے میں یہی فلسفہ کارآمد اور کارگر دکھائی دیتا ہے۔
Load Next Story