بلدیاتی مسائل کا منتظر اژدھا
سندھ میں ہی نہیں پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا کریڈٹ صرف سپریم کورٹ کو جاتا ہے
دس سال بعد کراچی میں بھی بلدیاتی انتخابات ہو ہی گئے اور سپریم کورٹ کے حکم پر ملک کے سب سے بڑے شہر کے عوام کو نچلی سطح پر اپنے بلدیاتی نمایندے منتخب کرنے کا حق پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے دے ہی دیا جو وہ چھ سال سے دبائے بیٹھی تھی۔
اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت سے یہ داغ بھی ختم ہو گیا کہ پیپلز پارٹی کی ملک اور سندھ میں 43 سال میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت میں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے اور پیپلز پارٹی کی موجودہ سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کے پروگرام کے تحت اپنے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرا دیے۔
سندھ میں ہی نہیں پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا کریڈٹ صرف سپریم کورٹ کو جاتا ہے وگرنہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہی نہیں ہیں۔
اب جب مجبوری میں سندھ و پنجاب کی حکومتوں کو انتخابات کرانا ہی پڑے تو دونوں نے اپنے صوبوں کو بااختیار بلدیاتی نظام نہیں دیا بلکہ ایک لولا لنگڑا، بے اختیار، بیوروکریسی کے ماتحت نظام دیا اور سرکاری وسائل استعمال کر کے اپنے امیدواروں کو کامیاب بھی کرا لیا، جس پر دونوں صوبوں میں حکومت کی مخالف جماعتیں احتجاج کرتی رہیں۔
مگر دونوں صوبائی حکومتیں اپنے امیدواروں کی کامیابی پر نازاں ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومتی کارکردگی پر یہ کامیابی حاصل کی ہے مگر حقائق اس کے برعکس ہیں اور پنجاب حکومت کی کارکردگی تو پنجاب میں نظر بھی آتی ہے جب کہ سندھ میں پی پی کی ساڑھے سات سالہ حکومت میں کارکردگی کم اور کرپشن اور بیڈ گورننس زیادہ نظر آتی ہے۔ جس کا ثبوت سندھ کے چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس، اعلیٰ افسروں اور پی پی رہنماؤں پر لگنے والے الزامات ہیں اور متعدد ضمانت پر بھی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان الزام لگا چکے ہیں کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی عہدیداروں کو اختیارات نہیں دیے اور تمام اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں اور سندھ کی صورتحال بھی پنجاب سے مختلف نہیں اور متحدہ کے رہنما فاروق ستار کے بقول کراچی کے میئر کے پاس بھی اختیارات نہیں ہوں گے اور وہ مکمل طور پر سندھ کے وزیر اعلیٰ کا محتاج اور پابند ہو گا اور اس کے پاس برائے نام ہی اختیارات ہوں گے۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی سیاسی حکومتوں میں تو اتنی اہلیت بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے صوبوں کو کوئی بااختیار بلدیاتی نظام ہی دے سکتیں۔
پنجاب نے ضلع حکومتوں کا نام تو برقرار رکھا ہے مگر اب چاروں صوبوں میں ناظم کا عہدہ نہیں رکھا گیا۔ چیئرمین ماضی میں سرکاری بھی رہے ہیں اور غیر سرکاری بھی اس لیے چاروں سیاسی حکومتوں نے بلدیاتی سربراہوں کا نام دیا ہے، کیونکہ سندھ کے ایک صوبائی وزیر کے بقول ناظم کے نام میں رعب نہیں تھا، چاروں صوبائی حکومتوں نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلع نظام کو مکمل طور پر مسترد کر کے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کے 1979ء کے بلدیاتی نظام کو مزید کمزور کر کے اپنے صوبوں میں رائج کیا ہے جو بااختیار نہیں بلکہ بیورو کریسی محکمہ بلدیات اور وزرائے اعلیٰ کے ماتحت نظام ہے، جس میں بلدیاتی سربراہوں کو برائے نام اختیارات حاصل ہوں گے۔
سندھ میں تو یوسیز میں بھی امتیاز برتا گیا ہے۔ کراچی شہر میں پہلے 178 یونین کونسلیں تھیں جنھیں اب یونین کمیٹیوں کا نام دیا گیا ہے جب کہ ضلع کونسل کراچی کی یوسیز یونین کمیٹی کی بجائے یونین کونسلیں قرار دی گئی ہیں۔ اندرون سندھ بھی یہی حال ہے اور سندھ حکومت اب پورے صوبے میں شہری اور دیہی علاقوں کی تفریق پیدا کر چکی ہے۔
چاروں صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو وہ اختیارات دینا ہی نہیں چاہتیں جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں کے منتخب میئروں کو حاصل ہیں۔ چاروں اس بات پر ضرور متفق ہیں کہ ان کے صوبوں میں بااختیار بلدیاتی ادارے نہ ہوں ۔ خیبرپختون خوا کی پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی اس سلسلے میں کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی اور وہ بھی اس سلسلے میں (ن) لیگ اور پی پی کی تقلید کر چکی ہے تا کہ کہیں کوئی بااختیار ادارہ نہ ہو۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ کی نمایاں کامیابی کے بعد متحدہ سندھ اسمبلی میں نو منتخب میئر اور چیئرمینوں کو اختیار دینے کی جدوجہد کا اعلان کر چکی ہے اور اس سلسلے میں دیگر جماعتوں سے بھی رابطے کر کے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے گا۔
جس صورتحال میں موجودہ بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں اتنی خراب صورتحال بلدیاتی اداروں کی ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ سندھ حکومت نے اپنے گزشتہ دور میں سندھ کے بلدیاتی اداروں پر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے اپنے مکمل کنٹرول میں رکھا جس کے نتیجے میں بلدیہ عظمیٰ سمیت سندھ کے تمام چھوٹے بڑے بلدیاتی ادارے شدید مالی بحران میں مبتلا اور تباہی کا شکار ہیں، لاکھوں روپے رشوت دے کر بلدیاتی اداروں کے سرکاری ایڈمنسٹریڑوں نے شہروں کے بلدیاتی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے تعمیری اور ترقیاتی کاموں کے لیے مختص فنڈز کو صرف وہاں استعمال کر دیا، جہاں انھیں زیادہ سے زیادہ کمیشن ملا۔
اس طرح ان کی دی گئی رقم تو سود سمیت واپس مل گئی، مگر شہر تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ چھوٹے بڑے شہروں کی تباہی تو اپنی جگہ اگر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی ہی کی حالت دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہی شہر ہے جسے متحدہ کے سابق سٹی ناظم کے دور میں دنیا کا تیرہواں میگا سٹی قرار دیا گیا تھا۔
کراچی کے پارکس اور پلے گراؤنڈز ہی نہیں اجڑے بلکہ وہ کچرا کنڈیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ چند ایک کے سوا شہر کی اہم شاہراہیں تباہی کا شکار ہو کر چلنے کے بھی قابل نہیں۔ روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ صفائی کا فقدان عام، عملہ صفائی نایاب، پارکوں کے مالی غائب، شہر بھر میں فراہمی و نکاسی آب کا نظام انتہائی ناقص ہر علاقہ سیوریج کے پانی سے زیر آب، سڑکوں پر کچرے اور مٹی کے ڈھیر شہر کی تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
ہر جگہ زائد رضاکار بھرتی کر کے آمدنی سے زائد اخراجات بڑھوا دیے گئے، جس کی وجہ سے بلدیاتی عملے کو وقت پر تنخواہیں ملنا بند ہو گئی ہیں۔ بلدیاتی مسائل کا خوفناک اژدھا اپنے نو منتخب عہدیداروں کا منتظر ہے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل ہوں گے جو بلدیاتی مسائل کے حل میں سو فیصد ناکام رہیں گے اور پی پی حکومت چاہتی بھی یہی ہے تا کہ موجودہ نام نہاد بلدیاتی نظام ناکام اور منتخب نمایندے بدنام ہوں تا کہ ملک کے عوام ان کا برا حشر دیکھیں کہ آیندہ کبھی بلدیاتی الیکشن کا مطالبہ ہی نہ کر سکیں۔
اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت سے یہ داغ بھی ختم ہو گیا کہ پیپلز پارٹی کی ملک اور سندھ میں 43 سال میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت میں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے اور پیپلز پارٹی کی موجودہ سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کے پروگرام کے تحت اپنے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرا دیے۔
سندھ میں ہی نہیں پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا کریڈٹ صرف سپریم کورٹ کو جاتا ہے وگرنہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہی نہیں ہیں۔
اب جب مجبوری میں سندھ و پنجاب کی حکومتوں کو انتخابات کرانا ہی پڑے تو دونوں نے اپنے صوبوں کو بااختیار بلدیاتی نظام نہیں دیا بلکہ ایک لولا لنگڑا، بے اختیار، بیوروکریسی کے ماتحت نظام دیا اور سرکاری وسائل استعمال کر کے اپنے امیدواروں کو کامیاب بھی کرا لیا، جس پر دونوں صوبوں میں حکومت کی مخالف جماعتیں احتجاج کرتی رہیں۔
مگر دونوں صوبائی حکومتیں اپنے امیدواروں کی کامیابی پر نازاں ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومتی کارکردگی پر یہ کامیابی حاصل کی ہے مگر حقائق اس کے برعکس ہیں اور پنجاب حکومت کی کارکردگی تو پنجاب میں نظر بھی آتی ہے جب کہ سندھ میں پی پی کی ساڑھے سات سالہ حکومت میں کارکردگی کم اور کرپشن اور بیڈ گورننس زیادہ نظر آتی ہے۔ جس کا ثبوت سندھ کے چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس، اعلیٰ افسروں اور پی پی رہنماؤں پر لگنے والے الزامات ہیں اور متعدد ضمانت پر بھی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان الزام لگا چکے ہیں کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی عہدیداروں کو اختیارات نہیں دیے اور تمام اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں اور سندھ کی صورتحال بھی پنجاب سے مختلف نہیں اور متحدہ کے رہنما فاروق ستار کے بقول کراچی کے میئر کے پاس بھی اختیارات نہیں ہوں گے اور وہ مکمل طور پر سندھ کے وزیر اعلیٰ کا محتاج اور پابند ہو گا اور اس کے پاس برائے نام ہی اختیارات ہوں گے۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی سیاسی حکومتوں میں تو اتنی اہلیت بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے صوبوں کو کوئی بااختیار بلدیاتی نظام ہی دے سکتیں۔
پنجاب نے ضلع حکومتوں کا نام تو برقرار رکھا ہے مگر اب چاروں صوبوں میں ناظم کا عہدہ نہیں رکھا گیا۔ چیئرمین ماضی میں سرکاری بھی رہے ہیں اور غیر سرکاری بھی اس لیے چاروں سیاسی حکومتوں نے بلدیاتی سربراہوں کا نام دیا ہے، کیونکہ سندھ کے ایک صوبائی وزیر کے بقول ناظم کے نام میں رعب نہیں تھا، چاروں صوبائی حکومتوں نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلع نظام کو مکمل طور پر مسترد کر کے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کے 1979ء کے بلدیاتی نظام کو مزید کمزور کر کے اپنے صوبوں میں رائج کیا ہے جو بااختیار نہیں بلکہ بیورو کریسی محکمہ بلدیات اور وزرائے اعلیٰ کے ماتحت نظام ہے، جس میں بلدیاتی سربراہوں کو برائے نام اختیارات حاصل ہوں گے۔
سندھ میں تو یوسیز میں بھی امتیاز برتا گیا ہے۔ کراچی شہر میں پہلے 178 یونین کونسلیں تھیں جنھیں اب یونین کمیٹیوں کا نام دیا گیا ہے جب کہ ضلع کونسل کراچی کی یوسیز یونین کمیٹی کی بجائے یونین کونسلیں قرار دی گئی ہیں۔ اندرون سندھ بھی یہی حال ہے اور سندھ حکومت اب پورے صوبے میں شہری اور دیہی علاقوں کی تفریق پیدا کر چکی ہے۔
چاروں صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو وہ اختیارات دینا ہی نہیں چاہتیں جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں کے منتخب میئروں کو حاصل ہیں۔ چاروں اس بات پر ضرور متفق ہیں کہ ان کے صوبوں میں بااختیار بلدیاتی ادارے نہ ہوں ۔ خیبرپختون خوا کی پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی اس سلسلے میں کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی اور وہ بھی اس سلسلے میں (ن) لیگ اور پی پی کی تقلید کر چکی ہے تا کہ کہیں کوئی بااختیار ادارہ نہ ہو۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ کی نمایاں کامیابی کے بعد متحدہ سندھ اسمبلی میں نو منتخب میئر اور چیئرمینوں کو اختیار دینے کی جدوجہد کا اعلان کر چکی ہے اور اس سلسلے میں دیگر جماعتوں سے بھی رابطے کر کے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے گا۔
جس صورتحال میں موجودہ بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں اتنی خراب صورتحال بلدیاتی اداروں کی ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ سندھ حکومت نے اپنے گزشتہ دور میں سندھ کے بلدیاتی اداروں پر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے اپنے مکمل کنٹرول میں رکھا جس کے نتیجے میں بلدیہ عظمیٰ سمیت سندھ کے تمام چھوٹے بڑے بلدیاتی ادارے شدید مالی بحران میں مبتلا اور تباہی کا شکار ہیں، لاکھوں روپے رشوت دے کر بلدیاتی اداروں کے سرکاری ایڈمنسٹریڑوں نے شہروں کے بلدیاتی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے تعمیری اور ترقیاتی کاموں کے لیے مختص فنڈز کو صرف وہاں استعمال کر دیا، جہاں انھیں زیادہ سے زیادہ کمیشن ملا۔
اس طرح ان کی دی گئی رقم تو سود سمیت واپس مل گئی، مگر شہر تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ چھوٹے بڑے شہروں کی تباہی تو اپنی جگہ اگر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی ہی کی حالت دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہی شہر ہے جسے متحدہ کے سابق سٹی ناظم کے دور میں دنیا کا تیرہواں میگا سٹی قرار دیا گیا تھا۔
کراچی کے پارکس اور پلے گراؤنڈز ہی نہیں اجڑے بلکہ وہ کچرا کنڈیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ چند ایک کے سوا شہر کی اہم شاہراہیں تباہی کا شکار ہو کر چلنے کے بھی قابل نہیں۔ روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ صفائی کا فقدان عام، عملہ صفائی نایاب، پارکوں کے مالی غائب، شہر بھر میں فراہمی و نکاسی آب کا نظام انتہائی ناقص ہر علاقہ سیوریج کے پانی سے زیر آب، سڑکوں پر کچرے اور مٹی کے ڈھیر شہر کی تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
ہر جگہ زائد رضاکار بھرتی کر کے آمدنی سے زائد اخراجات بڑھوا دیے گئے، جس کی وجہ سے بلدیاتی عملے کو وقت پر تنخواہیں ملنا بند ہو گئی ہیں۔ بلدیاتی مسائل کا خوفناک اژدھا اپنے نو منتخب عہدیداروں کا منتظر ہے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل ہوں گے جو بلدیاتی مسائل کے حل میں سو فیصد ناکام رہیں گے اور پی پی حکومت چاہتی بھی یہی ہے تا کہ موجودہ نام نہاد بلدیاتی نظام ناکام اور منتخب نمایندے بدنام ہوں تا کہ ملک کے عوام ان کا برا حشر دیکھیں کہ آیندہ کبھی بلدیاتی الیکشن کا مطالبہ ہی نہ کر سکیں۔