بھارت میں مسلم کش فسادات
ہندو انتہا پسندوں نےنہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائی پادریوں کو قتل بھی کیا
جمعے کے اخبارات نے بھارتی ریاست مہاراشٹر سمیت متعدد دیگر علاقوں میں بھی مسلم کش فسادات کی خبریں دی ہیں۔
مہاراشٹر کے ضلع اکولا میں مسلمانوں کے 25 مکانوں کو آگ لگا دی گئی، اس گھیرائو جلائو میں کتنی جانیں گئیں، اس کی اخبارات والوں کو مکمل اطلاع نہ مل سکی۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق چار مسلمان ان فسادات میں جاں بحق ہوئے جب کہ پچیس دیگر زخمی ہو گئے۔ فیض آباد میں بھی دکانیں جلائی گئیں، تانڈیر اور اترپردیش میں عبادت گاہوں پر پتھرائو کیا گیا ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مہاراشٹر کے ضلع اکولا میں اکوٹ کے علاقے میں ہندوئوں کے مذہبی تہوار درگا پوجا کے موقع فسادات پھوٹ پڑے۔ہندووں کا کہنا تھا کہ درگا پوجا کے جلوس پر پتھرائو کیا گیا ہے۔
اس افراتفری کا فائدہ اٹھا کر شرپسندوں نے مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگانا شروع کر دی۔ اس ہنگامے میں 4 مسلمان شہید اور 25 زخمی ہو گئے۔ بعض دیگر ذرایع کے مطابق ہندووں کے جلوس پر پتھرائو سازشی عناصر نے کرایا تا کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا بہانہ میسر آ سکے ۔ یہ وہ طریقہ واردات ہے جو غالباً روز ازل سے ہی جارحیت کا جواز پیدا کرنے کے لیے چلا آ رہا ہے۔ جدید تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جب ایک ملک نے پڑوس ملک پر جارحیت کرنے کے لیے پہلے پڑوسی ملک کی طرف سے کیے گئے ایک جعلی حملے میں اپنے کچھ فوجی مروا دیے اور پھر ان مرنے والوں کا بدلہ لینے کی خاطر پڑوسی ملک پر چڑھائی کر دی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، اس کے جوانوں کو قتل کر دیا گیا اور خواتین پر اپنا تسلط جما لیا گیا۔
حکومتوں کی طرف سے حکومتوں کے ساتھ کی جانے والی اسی رسم کو کئی مقامات پر شہروں اور بستیوں میں اپنی اصل کارروائی کا بہانہ تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت میں ریاست گجرات کے فسادات اور پھر مالیگاؤں کا سانحہ بھی لوگوں کو یاد ہوگا۔ان واقعات میں ہندو انتہا پسند ملوث تھے ۔بھارت میں ان واقعات کا تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں شرپسند عناصر خاصے طاقت ور ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں نہ صرف مسلمان شہریوں کو نشانہ ستم بنا تے ہیں بلکہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں عیسائیوں کے گرجے بھی جلا ئے گئے اور عیسائی پادریوں کو قتل بھی کیا گیا۔ بھارت میں سکھ بھی احتجاج کرتے رہتے ہیں،اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں بے گناہ سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔
بھارت پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے بے چین ہے۔ پاکستان کے وفاقی سیکریٹری تجارت (منیر قریشی) کے مطابق بھارت اپریل تک 100 اشیاء تجارت کی حساس فہرست جاری کر دے گا۔ پاک بھارت تجارت کے حوالے سے ایک حلقے کا موقف یہ بھی ہے کہ اگر بھارت کو تجارتی تعلقات میں شرکت کا موقع فراہم کر دیا جائے تو اس سے دیگر تنازعات کے حل کی بات بھی کی جا سکتی ہے جن میں ظاہر ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہے لیکن اب جو بڑا مسئلہ بتدریج پیدا ہو رہا ہے وہ بھارت کی طرف سے ہمارے دریائوں کے پانی کو روکنے کے لیے ان پر سرحد پار ڈیموں کی دھڑا دھڑ تعمیر ہے۔
یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے، بہرحال یہ تنازعات سیاسی نوعیت کے ہیں اور ریاستوں کے درمیان ہیں۔انھیں حل کرنے کے لیے مذاکرات بھی ہوتے رہتے ہیں اور اب پاکستان اور بھارت ایسے اقدامات کررہے ہیں جن سے دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے لیکن بھارت میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں سے صورتحال میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔پاکستان اور بھارت کو انتہا پسندوں کا سامنا ہے۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ مہاراشٹر میں فسادات بھڑکانے والے انتہا پسندوں کے ساتھ سختی سے نمٹے ۔
مہاراشٹر کے ضلع اکولا میں مسلمانوں کے 25 مکانوں کو آگ لگا دی گئی، اس گھیرائو جلائو میں کتنی جانیں گئیں، اس کی اخبارات والوں کو مکمل اطلاع نہ مل سکی۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق چار مسلمان ان فسادات میں جاں بحق ہوئے جب کہ پچیس دیگر زخمی ہو گئے۔ فیض آباد میں بھی دکانیں جلائی گئیں، تانڈیر اور اترپردیش میں عبادت گاہوں پر پتھرائو کیا گیا ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مہاراشٹر کے ضلع اکولا میں اکوٹ کے علاقے میں ہندوئوں کے مذہبی تہوار درگا پوجا کے موقع فسادات پھوٹ پڑے۔ہندووں کا کہنا تھا کہ درگا پوجا کے جلوس پر پتھرائو کیا گیا ہے۔
اس افراتفری کا فائدہ اٹھا کر شرپسندوں نے مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگانا شروع کر دی۔ اس ہنگامے میں 4 مسلمان شہید اور 25 زخمی ہو گئے۔ بعض دیگر ذرایع کے مطابق ہندووں کے جلوس پر پتھرائو سازشی عناصر نے کرایا تا کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا بہانہ میسر آ سکے ۔ یہ وہ طریقہ واردات ہے جو غالباً روز ازل سے ہی جارحیت کا جواز پیدا کرنے کے لیے چلا آ رہا ہے۔ جدید تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جب ایک ملک نے پڑوس ملک پر جارحیت کرنے کے لیے پہلے پڑوسی ملک کی طرف سے کیے گئے ایک جعلی حملے میں اپنے کچھ فوجی مروا دیے اور پھر ان مرنے والوں کا بدلہ لینے کی خاطر پڑوسی ملک پر چڑھائی کر دی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، اس کے جوانوں کو قتل کر دیا گیا اور خواتین پر اپنا تسلط جما لیا گیا۔
حکومتوں کی طرف سے حکومتوں کے ساتھ کی جانے والی اسی رسم کو کئی مقامات پر شہروں اور بستیوں میں اپنی اصل کارروائی کا بہانہ تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت میں ریاست گجرات کے فسادات اور پھر مالیگاؤں کا سانحہ بھی لوگوں کو یاد ہوگا۔ان واقعات میں ہندو انتہا پسند ملوث تھے ۔بھارت میں ان واقعات کا تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں شرپسند عناصر خاصے طاقت ور ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں نہ صرف مسلمان شہریوں کو نشانہ ستم بنا تے ہیں بلکہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں عیسائیوں کے گرجے بھی جلا ئے گئے اور عیسائی پادریوں کو قتل بھی کیا گیا۔ بھارت میں سکھ بھی احتجاج کرتے رہتے ہیں،اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں بے گناہ سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔
بھارت پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے بے چین ہے۔ پاکستان کے وفاقی سیکریٹری تجارت (منیر قریشی) کے مطابق بھارت اپریل تک 100 اشیاء تجارت کی حساس فہرست جاری کر دے گا۔ پاک بھارت تجارت کے حوالے سے ایک حلقے کا موقف یہ بھی ہے کہ اگر بھارت کو تجارتی تعلقات میں شرکت کا موقع فراہم کر دیا جائے تو اس سے دیگر تنازعات کے حل کی بات بھی کی جا سکتی ہے جن میں ظاہر ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہے لیکن اب جو بڑا مسئلہ بتدریج پیدا ہو رہا ہے وہ بھارت کی طرف سے ہمارے دریائوں کے پانی کو روکنے کے لیے ان پر سرحد پار ڈیموں کی دھڑا دھڑ تعمیر ہے۔
یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے، بہرحال یہ تنازعات سیاسی نوعیت کے ہیں اور ریاستوں کے درمیان ہیں۔انھیں حل کرنے کے لیے مذاکرات بھی ہوتے رہتے ہیں اور اب پاکستان اور بھارت ایسے اقدامات کررہے ہیں جن سے دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے لیکن بھارت میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں سے صورتحال میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔پاکستان اور بھارت کو انتہا پسندوں کا سامنا ہے۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ مہاراشٹر میں فسادات بھڑکانے والے انتہا پسندوں کے ساتھ سختی سے نمٹے ۔