آسیب زدہ اقتصادی نظام
مالک کو جو بھی اضافی منافع حاصل ہو گا۔ اس منافعے سے وہ مزید صنعتی پیداواری یونٹس لگائے گا
ایک جگہ میں کہیں یہ پڑھ کر بہت ہی حیران ہوا کہ یورپ کے ترقی یافتہ ملک جرمنی میں نجی اداروں کے ورکرز اپنے مقررہ اوقات کار کے علاوہ دو گھنٹے کا اضافی کام بلا معاوضہ سرانجام دیتے ہیں۔ کسی نے دریافت کیا کہ اس اضافی اوقات سے حاصل ہو نے والا منافع فیکٹری کے مالک کی جیب میں چلا جائے گا آپ کو اس کا کیا فائدہ۔ ورکرز نے دلیل دیتے ہوئے جواب دیا۔
مالک کو جو بھی اضافی منافع حاصل ہو گا۔ اس منافعے سے وہ مزید صنعتی پیداواری یونٹس لگائے گا، جس سے مستقبل میں آنے والی نسلوں اور بالخصوص ہمارے بچوں کو روزگار ملے گا۔ کس قدر منطقی استدلال ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔ آج آپ جرمنی کی معیشت کا تقابلی جائزہ پاکستان کے اقتصادی نظام سے کر نا بھی چاہیں تو کسی صورت نہیں کر سکتے۔
یہ سب کیسے ممکن ہو ا؟ آئیے ہم بتاتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں نے سب سے پہلے غریب اور متوسط طبقے کی خوشحالی اور معاشرے میں ان کی عزت نفس پر ترجیحی بنیادوں پر زور دیتے ہوئے کچھ عملی اور سنجیدہ فیصلے صادر کیے۔ فلاحی ریاستوں کا منظم نظام دیا، قانون و عدل و انصاف (عدالتی نظام) کی بالادستی دی، کرپشن فری ماحول دیا، جان و مال کا تحفظ دیا، باشعور قوم دی، ترقی کے ساتھ خوشحالی دی، سیوک سینس (Civic Sense) کے رموز سے آگاہی دی، ٹیکسز کا مثالی نظام دیا اور سب سے بڑھ کر تمام قوانین کے نفاذ کا تمام طبقوں کے لیے بلا امتیاز یکساں پیمانہ دیا۔
اس اکثریتی افرادی قوت کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا، یہی وجہ ہے کہ ایسی قومیں مثبت سوچ اور بااخلاق خیالات کی مالک ہوا کرتی ہیں۔ اسی لیے ان کے ہاں جرائم کی شرح دوسرے ترقی پذیر ممالک کی نسبت کم ہے۔ اب آپ 68 سالہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آ جائیں یہاں کا جاگیر دار، سرمایہ دار اور صنعت کار منافع سرمایہ کی شکل میں بیرون ممالک کے بینکوں میں ٹرانسفر کر دیتا ہے۔ یہاں کا صنعت کار پروڈکشن کے براہ راست عمل سے دور رہتا ہے۔ پروڈکشن کے مختلف یونٹس ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیتا ہے اور ٹھیکیداروں سے طے شدہ معاہدے کے تحت سرمایہ منافعے کی شکل میں وصول کرتا ہے۔
حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے ذریعے قومی ائیرلائن پی آئی اے کو کارپوریشن کی جگہ لمیٹڈ کمپنی میں ضم کیا جا رہا ہے جو لا محالہ پرائیویٹائیزیشن ہی کا ایک مرحلہ ہے۔
ملازمین کی طرف سے احتجاج جاری ہے۔ ہمارے ملک کی افرادی قوت چپڑاسی، کلرک، چوکیدار، سیکیورٹی گارڈز اور دیگر ہنر مند ورکرز کا ان اداروں سے مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے، جب کہ ملک کی لگ بھگ 70 فیصد آبادی اسی افرادی قوت پر مشتمل ہے۔ یہ کہنا کسی حد تک درست بھی ہے کہ کاروبار کرنا حکومت کے فرائض منصبی میں شامل نہیں ہوتا۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ کوئی بھی پیداواری ادارہ کسی بھی وجہ سے خسارے کا شکار ہو جائے تو اس کا تمام تر ذمے دار ہمارے اسی مفلوک الحال طبقے کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے ایسے عمل سے ملک کی دولت کا براہ راست عوام کو فائدہ نہ پہنچ سکے اور یہ دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ جائے جس سے ہماری سوسائٹی میں طبقاتی کشمکش کے قوی امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں اور اٹل ہے کہ زندگی کی بنیادی آسائشات سے محروم غربت زدہ قومیں منفی سرگرمیوں کی طرف تیزی سے راغب ہو جایا کرتی ہیں۔ ملازمین کی تقدیر اور ان کے مستقبل کا فیصلہ اپنے من پسند افراد کے رحم و کرم پر چھوڑنا کسی بھی انداز میں مناسب عمل نہیں لگتا۔ ظاہری دعوے کیے جاتے ہیں کہ ان ملازمین کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا مگر ہوتا وہی ہے جو انتظامیہ کی پالیسی ہو۔ یعنی ڈاؤن سائزنگ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ میں موجود ایسے گھوسٹ ملازمین کا ادارے سے قلع قمع کیا جائے جو سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئے تھے۔ اب حالات بہت بدل چکے ہیں، ہمیں بھی بدلنا ہو گا۔ اپنے کام پر پوری توجہ اور تندہی کے ساتھ انجام دینا پڑے گا۔
ہمیں بڑا دکھ پہنچتا ہے یہ سن کر کہ جب بھی اس افرادی قوت کے حقوق کی بات کی جا تی ہے تو ملک کی مٹھی بھر سرکاری مراعات یافتہ اشرافیہ کے خزانے سے بھری معیشت کے مضبوط درخت کے پتے جھڑنے لگتے ہیں اور ان میں کچھ عاقبت نااندیش لوگ ترقی یافتہ دنیا کا موازنہ ہمارے کرپشن زدہ معاشرے سے کرتے نہیں تھکتے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسا منفی اور احسا س کمتری پر مبنی پروپیگنڈہ کر کے ملک میں غربت کو فروغ دے کر دہشت گردی اور منفی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی دعوت دی جا رہی ہو ۔
کیا ہماری حکومت کے لیے ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کہ ملک میں اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ منظم اقتصادی نظام استوار کریں، فی کس بچت کی شرح میں اضافہ ہو، قوت خرید میں اضافہ ہو، پروڈکشن کے عمل میں تیزی آئے، سرمایہ کاری بڑھے، زراعت بہتر ہو، زراعت کی ترقی کے مثبت اثرات ملک کی صنعتوں پر پڑیں اور یوں صنعتی عمل کا پہیہ تیز تر چل سکے، برآمدات اور درآمدات کے حجم میں خاطر خواہ اضافہ کے اثرات یقینی ہوں، سیاحت کا وسیع میدان آپ کے پاس موجود ہے۔
سیاحت کو فروغ دیجیے، زرمبادلہ کمایے۔ کیوں نہیں کماتے؟ کس نے منع کیا ہے۔ ذات باری تعالیٰ نے آپ کو خوبصورت سرزمین عطا کی ہے۔ قبائلی علاقوں کو ترقی دیجیے بیرونی دنیا سے ہمارے اچھے تعلقات ہوں، سیاسی استحکام ہو گا، معاشی استحکام خود بخود حرکت میں آ جائے گا۔ اسمال انڈسٹریز، کا ٹیج اور گھریلو صنعتوں کا انقلاب ملک میں برپا کر یں، قدرتی وسائل کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لائیں۔
دراصل ہماری معیشتLabour Intensive Economy کے ضمرے میں آتی ہے جہاں معاشی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کی کھپت نظرانداز نہیں کی جا سکتی چنانچہ ہمیں ان ترجیحات کو مد نظر رکھنا ہو گا۔ جدید معیشت تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق اور جدت طرازی کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا اپنی معیشت کو ترقی کی طرف لے جا نے کے لیے جدید تحقیق، دریافت جیسا علمی ہتھیار استعمال کر رہی ہیں اور عالمی اعزازات حاصل کر رہے ہیں۔
ملک کا موجودہ مالیاتی اسٹریکچر دیکھ کر میں معاشیات کا ادنیٰ سا طالب علم ہوتے ہوئے یہی کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے پورے کا پورا معاشی Scenario ترقی یافتہ تو دور کی بات ترقی پذیر بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے بلکہ حد درجہ معاشی گھٹن نے اس نظام کو آسیب زدہ کر دیا ہے ۔ جس پر آج ہی غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔