معلومات تک رسائی عوام کا حق
یہ پاکستانی شہریوں کا دیرینہ مطالبہ ہے جو پاکستان کے آئین کے عین مطابق ہے۔
معلومات تک رسائی کے حق کے حوالے سے نئے قانون میں تمام سرکاری محکمے عام آدمی تک معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں جس کے لیے ہر محکمے میں ایک انفارمیشن افسر ہو جو کہ بلاخوف و خطر معلومات فراہم کرے اور اس حوالے سے ایک بااختیار آزاد کمیشن بنایا جائے جو شہریوں کو اطلاعات تک رسائی نہ دینے والے افسران کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرے، عوام تک معلومات کی فراہمی کے نظام کو آن لائن بنایا جائے، معلومات دینے کے حوالے سے کوئی پیسہ وصول نہ کیا جائے، معلومات کم از کم وقت پر فراہم کی جائیں۔
یہ پاکستانی شہریوں کا دیرینہ مطالبہ ہے جو پاکستان کے آئین کے عین مطابق ہے۔ اس ضمن میں 26 اکتوبر 2002ء کو صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا جو آزادی معلومات کا آرڈی نینس 2002ء کہلاتا ہے۔ اس کا اطلاق پورے پاکستان میں فوری طور پر نافذ العمل ہو گا، کہا گیا۔ اس کے بعد اس ضمن میں ریاستی اعلامیہ (ایس آر او) 2004ء بلوچستان صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ، اعلامیہ 2005ء حکومت بلوچستان، اعلامیہ، آزادی معلومات کے ضوابط 2007ء، سندھ گورنمنٹ گزٹ، صوبائی اسمبلی، اعلامیہ، سندھ آزادی معلومات ایکٹ 2006ء، گورنمنٹ گزٹ خیبر پختونخوا، اعلامیہ حق معلومات ایکٹ 2013ء اور پنجاب گزٹ، صوبائی اسمبلی پنجاب، حق معلومات ایکٹ 2013ء جاری کیے گئے۔ لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ تحلیل ہو گئے اب نئے سرے سے معلومات تک رسائی کے حق کا قانون بنانے کی ضرورت ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آزادی اطلاعات کے قانون کو تقریباً دفن کرتے ہوئے وزارتوں کو ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس کے توسط سے انھیں ''عوامی مفاد'' کے نام پر کسی بھی اطلاع کو روکنے کا اختیار دیا گیا ہے اور یوں شفافیت اور لوگوں کے جاننے کے حق کو بڑی زک پہنچی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو معلومات تک رسائی کے حق سے محروم رکھ کر بدعنوانیوں پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ جب عوام متعلقہ سرکاری محکمے سے معلومات کے حصول کے لیے درخواست دیتے ہیں تو انھیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شہری معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ پڑوس میں واقع سرکاری اسکول کی تنخواہ کا بجٹ کیا ہے؟ شہر کے نالوں کی صفائی کا شیڈول کیا ہے؟ ایک اسپتال کا دواؤں کے لیے سالانہ بجٹ کیا ہے؟ علاقے میں سڑکوں کی مرمت کا بجٹ کیا ہے؟ عوام سے لیے گئے ٹیکس کہاں خرچ ہوتے ہیں، نگرانی کا نظام کیا ہے؟ پاکستان میں مزدور کو جاننے کا حق ہے کہ مزدور کو عالمی ادارہ محنت کے معیار کے مطابق سہولیات کیا حاصل ہیں؟
سینٹر فار لا اینڈ ڈیموکریسی کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 95 ممالک میں سے معلومات تک رسائی کے حوالے سے پسندیدہ قانون میں سربیا پہلے نمبر، بھارت دوسرے نمبر پر سلووینیا تیسرے نمبر پر ہے، پاکستان کا معلومات کی فراہمی کے حوالے سے نمبر 72 ہے جو کہ کافی تشویش ناک بات ہے۔
بھارت میں معلومات تک رسائی کے حق کو گزشتہ سال 44 لاکھ افراد نے استعمال کیا، پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف سندھ میں گزشتہ سال 3 ہزار سے زائد افراد نے معلومات تک رسائی کے قانون کو استعمال کیا، پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19(A) کے مطابق معلومات کو عام آدمی تک فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ واضح رہے کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں معلومات تک رسائی کا ایکٹ نافذ ہو گیا ہے لیکن صوبے کی عوام اس حق سے بدستور محروم ہیں۔
21 ستمبر 2015ء کو بھارتی صوبے ہریانہ میں دائرکی گئی اطلاعات کے حق کی ایک درخواست پر بھارتی ایٹمی ادارے نے بتایا ہے کہ نیوکلیئر پاور کارپوریشن کے 3 ماہرین نے مبینہ طور پر خودکشی کی اور ایک سڑک کے حادثے میں ہلاک ہوا۔ یہ ایک مثال ہے جو باعث تقلید ہے۔
ہمارے یہاں معاملہ الٹ ہے 8 ستمبر 2015ء کو ملک کے تمام وفاقی وزارتوں کو حکومتی ہدایت نامہ جاری کیا جاتا ہے کہ ''تمام دستاویزات اور ریکارڈ جسے شایع کرنے سے عوامی مفاد پر زک آتی ہو تو اسے فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس 2002ء کی شق 8 کے دائرہ کار سے فوری طور پر نکال دیا جائے۔ اس ہدایت نامہ سے بیورو کریسی کے ہاتھ مزید مضبوط ہوں گے جو کہ پہلے ہی معاملات کو شفاف بنانے اور اطلاعات تک ایسی رسائی میں رکاوٹ ہے جس سے حکمران اور سول سرونٹس کو جوابدہ بنایا جا سکے۔
ایک رپورٹ کے مطابق معلومات کے حصول کے لیے واٹر بورڈ کو 119 درخواستیں دی گئیں جس میں سے 117 درخواستوں کا کوئی جواب نہ ملا جس کے بعد صوبائی محتسب سے اپیل کی گئی جس میں سے صرف 20 کا جواب ملا، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو 37 درخواستیں موصول ہوئیں جس کا جواب نہ ملنے پر 37 ہی درخواستیں صوبائی محتسب کے پاس ہیں۔
جس میں سے صرف 20 کا جواب ملا ہے، محکمہ ماسٹر پلاننگ کو 57 درخواستیں موصول ہوئیں جس میں سے تمام 57 درخواستوں کا جواب نہ ملنے پر صوبائی محتسب سے اپیل کی گئی جس میں سے صرف 14 درخواستوں کا جواب ملا جب کہ43 درخواستیں التوا کا شکار ہیں، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو 19 درخواستیں موصول ہوئیں جس میں جواب نہ ملنے پر 17 درخواستوں پر صوبائی محتسب سے اپیل کی گئی۔ غیر سرکاری تنظیم شہری کے مطابق صوبائی سطح پر عوام کو معلومات کی فراہمی کے حوالے سے کارکردگی 30 فیصد ہے۔
کراچی میں غیر سرکاری تنظیم شہری نے معلومات تک رسائی کے حوالے سے صوبائی سطح پر منظوری کے لیے ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے۔ بل میں سرکاری محکموں کے علاوہ این جی اوز کو بھی معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے پابند کیا گیا ہے، معلومات فراہم نہ کرنے والے افسران پر 50 فیصد جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
ماہر سماجیات عبدالرحیم موسوی کے مطابق عوام کو معلومات تک رسائی کے حق کی فراہمی سے مختلف اداروں کی کارکردگی کی نگرانی کا نظام قائم ہو گا جس سے عوام کو حکومتی آمدنی، اخراجات، حکومتی پالیسیاں، حکومتی معاہدات، قوانین، بے ضابطگی کا ادراک ہو گا جس سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا، سیاسی امور میں عوام کی براہ راست شمولیت ہو گی۔