سندھ کی گندم اور آٹے پر پابندی فلور ملز کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان
سندھ کی پابندی پر پنجاب نے سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، ذرائع
سندھ حکومت کی جانب سے پنجاب سے آنے والی گندم، آٹے اور دیگر گندم مصنوعات پر پابندی کے معاملے پر پنجاب حکومت نے سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اور فلورملز ایسوسی ایشن نے اسے غیرآئینی اور توہین عدالت پر مبنی اقدام قرار دے کر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ پنجاب میں سرکاری گندم کی ایکسپورٹ غیرمعینہ مدت تک ملتوی اور سندھ کی جانب سے پابندی عائد کرنے کے بعد پنجاب میں گندم کی نکاسی کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان ایک کیس میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ کوئی بھی صوبہ گندم، آٹے اور دیگر گندم مصنوعات کی بین الصوبائی یا بین الااضلاعی نقل و حمل پر کسی طرح کی پابندی عائد نہیں کر سکتا کیونکہ یہ غیرآئینی اقدام تصور ہوگا، 2 روز قبل حکومت سندھ نے اچانک نوٹیفکیشن کے ذریعے پنجاب سے آنے والی گندم، آٹے، سوجی، میدے اور فائن کی سندھ سرحد عبور کرنے پر پابندی عائد کردی۔
اس اقدام سے پنجاب میں اضافی گندم کی نکاسی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی بالخصوص سندھ کی سرحد کے ساتھ واقع جنوبی پنجاب کے اضلاع میں لاکھوں ٹن گندم کا ذخیرہ رکھنے والے افراد بحران کا شکار ہو گئے ہیں جبکہ محکمہ خوراک پنجاب کی یومیہ گندم فروخت میں بھی کمی کا خدشہ ہے کیونکہ پنجاب کی اوپن مارکیٹ میں اس وقت 7 لاکھ ٹن سے زائد گندم موجود ہے اور اسی وجہ سے محکمہ خوراک پنجاب نے سرکاری گندم کی ایکسپورٹ کا فیصلہ بھی کم از کم فروری تک موخر کردیا ہے کیونکہ محکمے کو خطرہ ہے کہ ایکسپورٹ کے لیے سستی گندم حاصل کر کے اسے ملک میں تجارت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سندھ کی پابندی پر پنجاب نے سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے سرکاری سطح پر رابطہ کر کے پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا جبکہ دوسری جانب فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنماؤوں عاصم رضا اور حاجی یوسف نے کہا کہ یہ اقدام غیرآئینی اور غیرقانونی ہے اور اسے عدالت عظمی میں چیلنج کیا جائے گا کیونکہ سپریم کورٹ ماضی میں اس حوالے سے حکم دے چکی ہے لہٰذا ہم توہین عدالت کا کیس دائر کریں گے۔
علاوہ ازیں اس وقت محکمہ خوراک پنجاب کے پاس 43 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں اور اوسط یومیہ فروخت 15 ہزار ٹن ہے جو ناکافی ہے، محکمہ اسے 18 سے 20 ہزار ٹن تک لے جانے کا خواہاں ہے، اب تک محکمے نے مجموعی طور پر 7 لاکھ50 ہزار ٹن گندم فروخت کی ہے، منگل کی شام بھی چیف سیکریٹری پنجاب نے گندم کی ایکسپورٹ کے حوالے سے محکمہ خوراک پنجاب کی بھیجی گئی سمری کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کی صدارت کی تھی مگر حکومت فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ بعض بڑے ایکسپورٹرز نے حکومت کے اکابرین کو بھی اس معاملے میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان ایک کیس میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ کوئی بھی صوبہ گندم، آٹے اور دیگر گندم مصنوعات کی بین الصوبائی یا بین الااضلاعی نقل و حمل پر کسی طرح کی پابندی عائد نہیں کر سکتا کیونکہ یہ غیرآئینی اقدام تصور ہوگا، 2 روز قبل حکومت سندھ نے اچانک نوٹیفکیشن کے ذریعے پنجاب سے آنے والی گندم، آٹے، سوجی، میدے اور فائن کی سندھ سرحد عبور کرنے پر پابندی عائد کردی۔
اس اقدام سے پنجاب میں اضافی گندم کی نکاسی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی بالخصوص سندھ کی سرحد کے ساتھ واقع جنوبی پنجاب کے اضلاع میں لاکھوں ٹن گندم کا ذخیرہ رکھنے والے افراد بحران کا شکار ہو گئے ہیں جبکہ محکمہ خوراک پنجاب کی یومیہ گندم فروخت میں بھی کمی کا خدشہ ہے کیونکہ پنجاب کی اوپن مارکیٹ میں اس وقت 7 لاکھ ٹن سے زائد گندم موجود ہے اور اسی وجہ سے محکمہ خوراک پنجاب نے سرکاری گندم کی ایکسپورٹ کا فیصلہ بھی کم از کم فروری تک موخر کردیا ہے کیونکہ محکمے کو خطرہ ہے کہ ایکسپورٹ کے لیے سستی گندم حاصل کر کے اسے ملک میں تجارت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سندھ کی پابندی پر پنجاب نے سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے سرکاری سطح پر رابطہ کر کے پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا جبکہ دوسری جانب فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنماؤوں عاصم رضا اور حاجی یوسف نے کہا کہ یہ اقدام غیرآئینی اور غیرقانونی ہے اور اسے عدالت عظمی میں چیلنج کیا جائے گا کیونکہ سپریم کورٹ ماضی میں اس حوالے سے حکم دے چکی ہے لہٰذا ہم توہین عدالت کا کیس دائر کریں گے۔
علاوہ ازیں اس وقت محکمہ خوراک پنجاب کے پاس 43 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں اور اوسط یومیہ فروخت 15 ہزار ٹن ہے جو ناکافی ہے، محکمہ اسے 18 سے 20 ہزار ٹن تک لے جانے کا خواہاں ہے، اب تک محکمے نے مجموعی طور پر 7 لاکھ50 ہزار ٹن گندم فروخت کی ہے، منگل کی شام بھی چیف سیکریٹری پنجاب نے گندم کی ایکسپورٹ کے حوالے سے محکمہ خوراک پنجاب کی بھیجی گئی سمری کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کی صدارت کی تھی مگر حکومت فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ بعض بڑے ایکسپورٹرز نے حکومت کے اکابرین کو بھی اس معاملے میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔