ہمیں یونہی مار پڑتی رہے گی

کوئی بھی مذہب کسی سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا، اور نہ دہشت پھیلانے کا ایجنڈا پیش کرتا۔

اگر ہم سب تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں سب سے پہلے گرجا گھر، مندر، جماعت خانہ، امام بارگاہ اور مسجد کو محفوظ رکھنا اور بنانا ہوگا۔ فوٹو:فائل

جب تک ہم اپنے علماء اور تاریخ دانوں کو صراط مستقیم پر نہیں دھکیلیں گے زندگی کے ہر شعبہ میں پٹتے ہی رہیں گے۔ حکمران تو ایک مدت سے ایسے ہی آرہے ہیں اور کیوں ایسے آرہے ہیں؟ تو اس کی بہت سی وجوہات ہوں گی مگر ایک سبب ایسا بھی ہے جو روز اول سے ایک حقیقت ہے کہ جیسے لوگ ہوں گے ویسے ہی سیاستدان ان پر حکمرانی کریں گے۔

عمائنل عامی نے میری طرف دیکھتے ہوئے سارے مسائل کا نچوڑ چند جملوں میں بیان کردیا۔مجھے کسی بھی مضبوط دلیل کا کوئی سرا دکھائی نہیں دیا اور میری خاموشی نے اس کی تائید کردی۔ وہ پھر سے میز پر پڑے اخبارات کے صفحات کو ترتیب سے لگانے لگا۔ اسی دوران ایک میگزین کے صفحات آگے پیچھے لگے تھے وہ اپنے ہاتھ سے اسٹیپلر کی پن کو نکالنے لگا تو پن کا ایک سرا اسکے انگوٹھے میں تھوڑا سا گھس گیا اور وہاں سے معمولی سے چند قطرے خون کے بہہ نکلے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا،
''دیکھو میرے خون کا رنگ بھی ویسا ہی سرخ ہے جیسے تمہارا ہے اور اگر تمہارے ساتھ ایسا ہوتا تو تمہیں بھی درد کا احساس اتنا ہی ہوتا جتنا کہ مجھے''۔

ہم دونوں دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بہت سے نکات پر بلا جھجک متفق ہوجاتے ہیں۔ جھوٹ، دھوکا دہی، چوری، ڈکیتی، قتل و غارت اور دہشت گردی کی تمام اقسام سے وہ بھی اتنی ہی نفرت کرتا ہے جتنی کہ میں بحیثیت مسلمان۔ اسے بھی سردیوں میں سردی اور گرمیوں میں گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ ہم پیاس کی شدت بھی ایک سی محسوس کرتے ہیں اور بھوک کی تڑپ بھی۔ جب بھی گیس اور بجلی کا بل آتے ہیں تو انہیں دیکھ کر اس کا بلڈ پریشر بھی اتنا ہی بڑھ جاتا ہے جتنا کہ میرا۔ اس کے گھر والے بھی منمناتی آواز میں صفائی دے رہے ہوتے ہیں کہ اب تو روٹیاں تک تندور سے آتی ہیں اور 4 مرلے کے مکان میں 4 بلب ہیں جن میں سے ایک آدھا تو ویسے ہی خراب رہتا ہے۔

زیرِ زمین پانی استعمال کے قابل نہیں اور بچے نہر پر لگے نلکوں سے چھوٹی بڑی بوتلیں بھر کر لاتے ہیں۔ دوسری طرف انہی بلوں کو دیکھتے میں بھی کافی دنوں تک بلبلاتا اور اخراجات کو کم کرنے کے طریقوں پر سوچتا رہتا ہوں۔ مگر اگلی ''واردات'' یعنی بلوں کی مد میں اضافہ ہی ملتا ہے۔ زندگی کے شب و روز ہمارے ایک سے مسائل سے لڑتے جھگڑتے گزر رہے ہیں۔ اس نے گیس کا چولہا بند کرکے دیکھ لیا اور میں نے سارے گھر کے بلب اتار کر دیکھ لئے مگرسب لا حاصل ہی رہا۔ اس کا بیٹا بھی موٹر سائیکل کی فرمائش کے ساتھ باپ کی کم علمی پر ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ میرے والے کو بھی یہی شکوہ ہے کہ میں نے بڑا سا ٹچ اسکرین فون کیوں نہیں لیا اور اب تک بٹنوں والے فون پر ہی زندگی کی گاڑی بھگا رہا ہوں۔ ہم جن گھروں میں رہتے ہیں گوگل ارتھ سے اگر دیکھیں تو ایک سے دکھائی دیںگے۔ سیمنٹ اینٹ سے بنے ہوئے، خوشی کی شدت ہو یا غم کی تپش، دونوں صورتوں میں بہنے والے آنسو آنکھوں سے نکلتے ہوئے ایک ہی سمت میں بہتے ہیں۔ ہم دونوں کو مہنگائی بھی ڈستی ہے اور کبھی کبھی ٹریفک کے چالان بھی۔


اداروں کی نظر میں ہم برابر ہیں مگر پھر فرق کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ ہم جب اپنے معاشرے میں جھانکتے ہیں تو ہمیں لوگ دکھائی دیتے ہیں، انسان دکھائی دیتے ہیں، اچھے اور برے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ پیمانے ملتے ہیں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں وہ عناصر بھی دکھائی دیتے ہیں جن کا مقصد ایک متوازن معاشرہ کی تشکیل ہے۔ اگر ہم سب تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں سب سے پہلے گرجا گھر، مندر، جماعت خانہ، امام بارگاہ اور مسجد کو محفوظ رکھنا اور بنانا ہوگا کیونکہ تب ہی اسلام جو دین فطرت ہے وہ بھی اپنی اصل شکل میں نہ صرف برقرار بلکہ انسان خود بھی محفوظ رہے گا۔ حکومت پنجاب کا یہ عمل قابل تعریف ہے کہ وہ آئے دن من پسند اخبارات میں کتب کی فہرست جاری کرتا رہتا ہے جو کہ مذہبی دہشت گردی کو ابھارتی ہیں۔ تاہم ایسے رسائل بھی ہیں جو بظاہر تو اسلام کے نام پر شائع ہو رہے ہیں مگر مختلف مسالک کی نمائندگی کرتے ہوئے فرقہ واریت اور نفرتیں بڑھا رہے ہیں۔

کوئی بھی مذہب کسی سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا، دہشت پھیلانے کا ایجنڈا نہیں پیش کرتا اگر ایسا کچھ ہے بھی تو وہ مذہب نہیں کچھ اور ہی ہے۔ یہ کارپوریٹ علماء اور تاریخ دان ہی ہیں جنہوں نے مذہب سے اسکی اصل روح نکال کر اسے مختصر وقت میں حصول طاقت کا ذریعہ سمجھ لیا ہے اور دہشت کی علامت بنا دیا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ طاقت کے استعمال سے نفرتیں کم نہیں ہوتی، مسائل ختم نہیں ہوتے مگر عارضی طور پر دب ضرور جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی ہارٹ ایشیاء نشست میں ہندوستان، پاکستان اور افغانستان مل بیٹھ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ حکومتیں اب تھک گئی ہیں اور سمجھ بھی تھوڑی سی آگئی ہے کہ جب تک ہمسائے ملک میں امن نہیں ہوگا وہ بھی تڑپتے ہی رہیں گے لاشے اٹھاتے رہیں گے۔ اب اگلے مرحلے میں پنڈت، پادری اور ہمارے علماء کو بھی مل کر بیٹھنا ہوگا۔ تب ہی ترقی کا اور دیرپا امن کا خواب پورا ہوگا ورنہ ہم سب کو مار پڑتی رہے گی۔

[poll id="832"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story