وی آئی پی جانوروں کی قربانی
ہمارے ملک کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے۔ اس قلعے میں جو کچھ ہورہا ہے، اس نے ہمیں ساری دنیا میں مشہور کردیا ہے
میں لسبیلہ پہنچا تو ٹریفک جام تھا، کراچی میں ٹریفک جام کی دو بڑی وجوہ ہوتی ہیں۔
ایک ٹریفک پولیس کی نااہلی، دوسرے وی آئی پیز کی تشریف آوری یا رخصت، سو ہم نے سمجھا کہ کوئی وی آئی پی جارہا ہوگا۔ بڑی دیر ہوگئی پھر معلوم ہوا کہ چالیس من کا بیل منی ٹرک میں منڈی سے کلفٹن جارہا ہے۔ اس ہاتھی نما وی آئی پی کو دیکھنے کے لیے لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں، اس لیے ٹریفک جام ہوگیا ہے۔ وی آئی پی بیل کو جانے کا راستہ ہی نہیں مل رہا ہے۔ کوئی بیس پچیس منٹ بعد وی آئی پی ہمارے سامنے سے گزرا ہم حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔
ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں جانوروں کو 50-40 من تک پہنچانے کے نسخوں کا ذکر ہم نے سن رکھا تھا۔ معلوم ہوا تھا کہ ہمارے نامور محققین اور موجدین نے ایسے انجیکشن، ایسی غذائیں (مرغیوں کی بیٹ) ایجاد کرلی ہیں، جن کے استعمال سے 10 من کا جانور چالیس من کا ہوجاتا ہے۔
ہمارے ملک کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے۔ اس قلعے میں جو کچھ ہورہا ہے، اس نے ہمیں ساری دنیا میں مشہور کردیا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے محققین موجدین اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے نئی نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں اور ہم ان کے استعمال کے ایسے ایسے جدید طریقے ایجاد کرتے ہیں کہ دنیا ہماری ذہانت پر عش عش کرتی ہے، مثلاً 10 من کے بیل کو چالیس من کا بنادینا اور اسے چالیس لاکھ میں فروخت کرنا۔ موبائل فون ایجاد کرنے والوں کے ذہن میں یہ تصور رہا ہوگا کہ انسان ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے لینڈ لائن کی مشکلات سے بچ جائے گا، لیکن ہم نے موبائل کے استعمال کے لیے جدید طریقے ایجادکیے۔
دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بینک ڈکیتیوں میں موبائل فون ہمارا سب سے بڑا مددگار ہے۔ اس مددگار کے سامنے پولیس کا 15 مددگار پانی بھرتا رہ جاتا ہے۔ ہم نے خودکش بمبار، بارودی گاڑیوں جیسے جدید ترین ہتھیار ایجاد کرلیے۔ ترقی یافتہ مغربی ملک ہماری ان ایجادات سے پریشان ہیں۔ ہم مرچوں میں لکڑی کا برادہ ملانے کے فن میں ماہر ہیں۔ ہم گٹکا، مین پوری میں ایسی صحت بخش اشیاء ملاتے ہیں کہ کینسر کا علاج ڈھونڈنے والے ہم سے پناہ مانگتے ہیں۔ ہم تیل گھی سمیت تمام اشیائے صرف میں ایسے تکنیکی طریقوں سے ملاوٹ کرتے ہیں کہ دنیا ہماری ان مہارتوں پر انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔
ہم سلاٹر ہائوس سے آنے والے گوشت کو پانی کے پریشر سے اتنا پھیلا دیتے ہیں کہ 10 کلو گوشت 20 کلو بن جاتا ہے۔ ہمارے قانون، ہمارے انصاف میں اس شعبے کے ماہرین ایسی کلاسیکی ملاوٹ کردیتے ہیں کہ آئین کی دفعہ 6 منہ دیکھتے رہ جاتی ہے۔ ہماری وکلاء برادری کی صلاحیتوں کا عالم یہ ہے کہ بھوک سے تنگ آکر روٹی چوری کرنے والا قید بامشقت سے سرفراز ہوجاتا ہے اور 100-100 قتل کرنے والے ضمانت پر رہا ہو کر مزید 100 قتل کرنے میں آزاد ہوجاتے ہیں۔ ہماری اشرافیہ نے کرپشن کے ایسے جدید ترین طریقے ایجاد کرلیے ہیں کہ بڑے سے بڑا سراغ رساں حتیٰ کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ بھی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ غرض جس شعبے زندگی پر نظر ڈالیں، محققین اور مفکرین ذہنوں میں نئی نئی دریافتیں لیے کھڑے نظر آتے ہیں۔
ناسا نے مریخ پر جو خلائی گاڑی بھیجی ہے، وہ مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کررہی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک کے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھی مریخ پر ایک مشن بھیجنے کی تیاری کررہے ہیں۔ مریخ پر حرکت کرنے والی گاڑی کیوریسٹی نے اپنے مصنوعی ہاتھ سے مریخ کی چٹکی بھر مٹی اٹھالی ہے، وہ مٹی ناسا آئے گی تو ناسا کے خلائی ماہرین اس پر تحقیق کرکے اس بات کا پتا چلانے کی کوشش کریں گے کہ کیا مریخ پر کسی قسم کی زندگی موجود ہے یا ماضی میں کبھی رہی ہے یا یہ سیارہ ابھی زندگی کی تخلیق کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ماضی میں مسلمانوں میں بلاشبہ بڑے جیّد مفکرین اور محققین گزرے ہیں، اس دور کے تناظر میں ان مسلم محققین اور مفکرین کا کام اتنا جدید تھا کہ جدید دنیا ان علوم، ان فنون سے استفادہ کرتی رہی لیکن ہم ابھی تک پدرم سلطان بود کے ریگستان میں نشاۃ ثانیہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ ہمارا ماضی بلاشبہ شاندار تھا لیکن حال کا اتنا برا حال ہے کہ دنیا ہمارے حال پر خندہ زن ہے۔
کوئی بھی صاحبِ عقل انسان جب ہمارے ماضی اور حال پر نظر ڈالتا ہے تو ایک بات عیاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ مغربی ممالک جس ترقی کی معراج پر کھڑے ہیں، اس کا سب سے بڑا وسیلہ، سب سے بڑا محرک آزادیٔ فکر و اظہار ہے اور جب ہم اس حوالے سے اپنے ملک اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو قدم قدم پر فکر واظہار کے راستوں میں گولیاں، بارودی جیکٹس، صلیبیں، پھندے کھڑے نظر آتے ہیں۔ اہل علم،اہل دانش یا تو اپنی اپنی فکری کھولیوں میں دبکے نظر آتے ہیں یا پھر غیر ملکوں میں بھاگتے نظر آتے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔
بھارت کے کئی سیٹلائٹ زمین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اب وہ مریخ پر جانے کی تیاری کررہا ہے۔ بھارت میں بھی مذہبی تہوار آتے ہیں اور بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی جمعہ، عیدالفطر، عیدالاضحیٰ آتی ہے، بلاکسی خوف وخطر کے گزر جاتی ہے۔ ہمارے اسلام کے قلعے میں جمعے کی نماز ہو یا نمازِ عید ہو، ہر مسجد، ہر امام بارگاہ کو پولیس، رینجرز گھیرے کھڑی ہوتی ہے، پھر بھی نمازی خوف میں اس طرح گھرے ہوتے ہیں کہ ان کا سارا ذہن بم حملوں، کلاشنکوف کی آوازوں کی طرف لگا رہتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم عشروں سے چوکی پہروں میں نمازکیوں پڑھ رہے ہیں، ہم نے کافروں کے خوف سے اپنا ایک الگ ملک بنالیا، اب ہم یہاں گھر سے باہر نکلتے ہوئے جامع مسجدوں، عید گاہوں میں نماز کے لیے جاتے ہوئے کس سے خوف زدہ ہیں؟ کیا وہ کافر ہیں یا بلغمی آواز میں پکارے جانے والے یہود و نصاریٰ ہیں؟ ان سوالوں کا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک ہم بلغمی آوازوں کے فسوں سے باہر نہیں آجائیں گے۔ 40 من کی قربانی کرنے والے جب تک اس ملک پر قابض رہیں گے، اس وقت تک 98 فیصد لوگ مرغی کی قربانی سے بھی محروم رہیں گے۔ ان وی آئی پی بیلوں، گائے، بکروں سے اس وقت تک جان نہیں چھوٹے گی، جب تک 65 برسوں سے قربانیاں دینے والے 98 فیصد عوام دو فیصد طبقے کی قربانیاں نہیں کریں گے۔ یہ قربانیاں حلال ہوں گی یا حرام، اس کا فیصلہ خود عوام کریں گے۔