مقامی حکومتیں گمان اور حقیقت
مقامی حکومتیں، وفاق اور صوبے کی حکومت کے بعد حکومت کی تیسری سطح ہیں
لاہور:
مقامی حکومتوں کے قانون کے حوالے سے اگر ہم نے وہی کچھ کیا ہوتا جو ہمارے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کیا ہے تو پھر اس قانون کو پاس کرنے میں آخر اتنا وقت کیوں لگتا اور متحدہ قومی موومنٹ سے ہماری اتنی کھینچ تان کیوں ہوتی جس سے اس عرصے میں ہم گزرے ہیں۔
یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ کتنی ہی دفعہ متحدہ قومی موومنٹ نے اس مسئلے پر حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دی۔ ایک دفعہ ان کے تمام وزرا اور خود گورنر استعفیٰ دے کر چلے گئے۔ کئی بار امن و امان کی صورتحال پیدا ہوئی اور یہ سب مسائل صرف اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے جائز موقف پر پورے عزم کے ساتھ قائم رہی ۔ اس جائز موقف کی بھرپور نمائندگی موجودہ قانون میں ہوتی ہے اور یہ ایک سیاسی کامیابی ہے کہ ہم متحدہ قومی موومنٹ کو طویل مذاکرات کے ذریعے اس جائز موقف پر متفق کرنے میں کامیاب ہوئے۔
دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی موقف وہی تھا جو کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا تھا۔ یہ جماعتیں چاہتی تھیں کہ کمشنری نظام کو مقامی حکومتوں کے نیچے رکھا جائے بلکہ یہ براہ راست حکومت سندھ کے نیچے ہو۔ مقامی حکومتوں کا نظام اور اس کے مالی وسائل مرکزی حکومت کے بجائے صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہوں۔ تیسرے یہ کہ پولیس اور امن و امان کا شعبہ براہ راست صوبائی حکومت کے زیر نگرانی ہو۔ ابتدا میں متحدہ قومی موومنٹ ان امور کو پہلے کی طرح ضلع حکومت کے تحت ہی رکھنا چاہتی تھی۔ طویل مذاکرات کے بعد ہم ان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئے اور موجودہ قانون میں یہ تمام چیزیں مقامی حکومت کے بجائے صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں اور اس طرح نہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے موقف کی عملی تائید اس قانون کے ذریعے ہورہی ہے۔
ہمارے ناقدین بدگمانی کا شکار رہے۔ بہت سی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں اور میڈیا کی زینت بنتی رہیں، بدقسمتی سے ہمارے ناقدین نے ان افواہوں کو حقیقت سمجھ لیا اور آرڈیننس کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی انھوں نے پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس احتجاج میں جو دلائل دیے گئے ان کی بنیاد بھی یہی بدگمانی اور افواہیں تھیں جن کا اصل حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت مجبوری میں کوشش یہ کی جارہی ہے کہ قانون میں سے سیاق و سباق سے بالکل الگ کرکے وہ الفاظ تلاش کیے جائیں یا وہ نصف جملے تلاش کیے جائیں جن کو نئے معنی دے کر ان کو اپنے غیر حقیقی اور متضاد موقف کی تائید میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مقامی حکومتیں، وفاق اور صوبے کی حکومت کے بعد حکومت کی تیسری سطح ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 32 حکومت کو ان کو مضبوط بنانے کا پابند کرتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے لایا گیا آئین کا آرٹیکل 140A حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ ''مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات منتقل کریں''۔ اگر ماضی میں پائی جانے والی صورتحال سے موجودہ قانون کا مقابلہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ مزید اختیارات منتقل کرنا تو دور کی بات ہے جو اختیارات پہلے ضلعی مقامی حکومتوں کو حاصل تھے وہ بہت بڑے پیمانے پر ان سے واپس لے لیے گئے ہیں اور جو کچھ بچے کچھے اختیارات ان کو اس وقت اس قانون کے تحت دیے گئے ہیں ان کے استعمال میں بھی وہ صوبائی حکومت کی مرضی و منت کے پوری طرح تابع ہیں۔
اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو مقامی حکومتوں کا صوبائی حکومت سے اسی نمونے کا تعلق ہونا چاہیے جو صوبائی حکومتوں کا وفاقی حکومت سے ہے۔ اس قانون کے تحت صوبائی حکومت اور مقامی حکومت کا کیا بنیادی تعلق ہے وہ ابتدائی سیکشن 4 ہی میں واضح ہوجاتا ہے جس کے پہلے ذیلی سیکشن میں کہا گیا ہے کہ منتخب کونسلیں، صوبائی حکومت کے زیر نگرانی کام کریں گی اور جس کی دوسری ذیلی شق میں کہا گیا ہے کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کونسلیں صوبائی حکومت کی ایگزیکٹو اتھارٹی پر عملدرآمد میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالیں گی نہ ہی اس کے بارے میں کوئی غلط تاثر دیں گی۔ قانون کی یہ ابتدائی اور بنیادی شق عملی طور پر مقامی حکومتوں کے صوبائی حکومت سے کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش کو سرے سے ختم کردیتی ہے۔
قانون کی شق 24 کے تحت صوبے کا چیف منسٹر، مئیر یا ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کے کیے ہوئے کسی بھی فیصلے یا حکم کی تنسیخ کرکے معاملے کو انکوائری کے لیے صوبائی لوکل گورنمنٹ کمیشن کے سپرد کرسکتا ہے۔
مقامی حکومتوں کے افسروں کا تقرر صوبائی حکومت کرے گی۔ مزید یہ کہ شق 33 کے تحت گریڈ 19 اور اس سے اوپر کے افسران کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ پر دوسرے دستخط چیف منسٹر کے ہوں گے۔
شق 29(4) کے تحت مئیر یا ڈسٹرکٹ کونسل کا چیئرمین اگر کسی افسر کا تبادلہ کرنا چاہتا ہے تو اسے تحریری طور پر تمام وجوہات دے کر چیف منسٹر سے اس افسر کے تبادلے کی گزارش کرنی ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر کسی بھی کونسل کا چیف آفیسر یہ سمجھتا ہے کہ میئر یا ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کا کوئی بھی حکم قانون یا قواعد کے منافی ہے یا صوبائی حکومت کی پالیسی کے خلاف ہے تو وہ شق 27(2) کے تحت معاملے کو فیصلے کے لیے لوکل گورنمنٹ کمیشن کو بھیج سکتا ہے۔
سیکشن 43(1)(2) کے تحت صوبائی چیف منسٹر منتخب میٹروپولٹین یا ڈسٹرکٹ کونسل کی پاس شدہ کسی بھی قرارداد کو نہ صرف رد کرسکتا ہے بلکہ اس کوانکوائری کے لیے لوکل گورنمنٹ کمیشن کے سپرد کرسکتا ہے۔
شق 20 کے تحت میئر یا چیئرمین کے کسی بھی ذاتی طور پر اس کی ہدایت پر ہونے والے فیصلے سے مالی یا کسی دوسرے نقصان کی ذمے داری ذاتی طور پر اس میئر یا چیئرمین پر ہوگی۔
شق (30) کے تحت مقامی حکومت کے کام کی انجام دہی کے سلسلے میں رولز آف بزنس بنانے کا اختیار منتخب کونسلوں کے بجائے صوبائی حکومت کے پاس ہے۔
شق 145 لوکل گورنمنٹ کمیشن سے متعلق ہے جو کونسلوں کے کام کا معائنہ کرسکتا ہے۔ اپنے طور پر یا چیف منسٹر کے حکم پر کسی بھی متعلقہ شخص یا محکمے کے خلاف انکوائری کرسکتا ہے۔ اسپیشل آڈٹ کرسکتا ہے۔ کونسلوں کے آپس کے اختلافات دور کراسکتا ہے، چیف منسٹر کی جانب سے بھیجے ہوئے معاملات کی انکوائری کرکے ان پر فیصلے دے سکتا ہے، کہیں بھی اگر کسی قاعدے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو مداخلت کرسکتا ہے اور جس کمیشن کے احکامات کی پابندی متعلقہ کونسل کے اوپر حتمی ہوگی۔
اگر کمیشن کی رائے میں انکوائری کے لیے کسی میئر یا چیئرمین کی معطلی ضروری ہے تو وہ چیف منسٹر سے یہ سفارش کرسکتا ہے کہ وہ اس میئر یا چیئرمین کو زیادہ سے زیادہ نوے دن کے لیے معطل کردیں۔ اسی طرح اگر لوکل گورنمنٹ کمیشن اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کوئی میئر چیئرمین یا کونسل کے ممبر بے ضابطگی کا مرتکب ہوا ہے تو وہ چیف منسٹر سے اس کے خلاف ضروری کاروائی کرنے کی سفارش کرسکتا ہے۔
لوکل گورنمنٹ کمیشن کی طرح صوبائی مالیاتی کمیشن میں منتخب مقامی اداروں کی کسی قسم کی نمائندگی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس میں صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا نامزد کردہ بھی کوئی نمائندہ نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کسی ایسے قومی مالیاتی کمیشن کا تصور کرسکتے ہیں جس میں صوبوں کی نمائندگی نہ ہو؟
ڈھیر سارے اعتراضات کیے جاسکتے ہیں جن میں سے کچھ میں نے اوپر خود ہی پیش کیے ہیں لیکن یہ اس زاویہ نظر سے کیے جاسکتے ہیں کہ تمامتر اختیارات اور کنٹرول صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور وہ جب چاہیں مقامی منتخب اداروں کو صرف اس الزام میں کہ صوبائی حکومت کی پالیسی پر عمل نہیں ہورہا عضومعطل بناسکتے ہیں۔ ہمارے ناقدین نے اپنے بے بنیاد خدشات اور بدگمانی کے زیر اثر قانون کے سامنے آنے سے قبل ہی اپنے لیے ایک متضاد رویہ اختیار کرلیا کہ اس قانون میں تمام اختیارات میئر (اور وہ بھی کراچی کے میئر) کے پاس ہیں اور صوبائی حکومت عضو معطل بن گئی ہے۔
صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ کے پاس تمام اختیارات مرکوز کرنے کی وجہ ہمارا گزشتہ تجربہ ہے جب ضلع حکومتیں ریاست کے اندر ریاست کی حیثیت اختیار کر گئی تھیں اور وفاق کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت کو بالکل بے اختیار اور عضو معطل بناچکی تھیں۔ بہت ہی اچھا ہوگا اگر کسی بھی مرحلے پر وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی حکومت کو اس قانون میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور صوبائی حکومتیں آزادی کے ساتھ اپنے فرائض بہترین طور پر انجام دے سکیں لیکن اس مرحلے پر یقیناً صوبائی حکومت کو یہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضرورت تھی۔
مقامی حکومتوں کے قانون کے حوالے سے اگر ہم نے وہی کچھ کیا ہوتا جو ہمارے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کیا ہے تو پھر اس قانون کو پاس کرنے میں آخر اتنا وقت کیوں لگتا اور متحدہ قومی موومنٹ سے ہماری اتنی کھینچ تان کیوں ہوتی جس سے اس عرصے میں ہم گزرے ہیں۔
یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ کتنی ہی دفعہ متحدہ قومی موومنٹ نے اس مسئلے پر حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دی۔ ایک دفعہ ان کے تمام وزرا اور خود گورنر استعفیٰ دے کر چلے گئے۔ کئی بار امن و امان کی صورتحال پیدا ہوئی اور یہ سب مسائل صرف اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے جائز موقف پر پورے عزم کے ساتھ قائم رہی ۔ اس جائز موقف کی بھرپور نمائندگی موجودہ قانون میں ہوتی ہے اور یہ ایک سیاسی کامیابی ہے کہ ہم متحدہ قومی موومنٹ کو طویل مذاکرات کے ذریعے اس جائز موقف پر متفق کرنے میں کامیاب ہوئے۔
دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی موقف وہی تھا جو کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا تھا۔ یہ جماعتیں چاہتی تھیں کہ کمشنری نظام کو مقامی حکومتوں کے نیچے رکھا جائے بلکہ یہ براہ راست حکومت سندھ کے نیچے ہو۔ مقامی حکومتوں کا نظام اور اس کے مالی وسائل مرکزی حکومت کے بجائے صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہوں۔ تیسرے یہ کہ پولیس اور امن و امان کا شعبہ براہ راست صوبائی حکومت کے زیر نگرانی ہو۔ ابتدا میں متحدہ قومی موومنٹ ان امور کو پہلے کی طرح ضلع حکومت کے تحت ہی رکھنا چاہتی تھی۔ طویل مذاکرات کے بعد ہم ان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئے اور موجودہ قانون میں یہ تمام چیزیں مقامی حکومت کے بجائے صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں اور اس طرح نہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے موقف کی عملی تائید اس قانون کے ذریعے ہورہی ہے۔
ہمارے ناقدین بدگمانی کا شکار رہے۔ بہت سی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں اور میڈیا کی زینت بنتی رہیں، بدقسمتی سے ہمارے ناقدین نے ان افواہوں کو حقیقت سمجھ لیا اور آرڈیننس کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی انھوں نے پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس احتجاج میں جو دلائل دیے گئے ان کی بنیاد بھی یہی بدگمانی اور افواہیں تھیں جن کا اصل حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت مجبوری میں کوشش یہ کی جارہی ہے کہ قانون میں سے سیاق و سباق سے بالکل الگ کرکے وہ الفاظ تلاش کیے جائیں یا وہ نصف جملے تلاش کیے جائیں جن کو نئے معنی دے کر ان کو اپنے غیر حقیقی اور متضاد موقف کی تائید میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مقامی حکومتیں، وفاق اور صوبے کی حکومت کے بعد حکومت کی تیسری سطح ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 32 حکومت کو ان کو مضبوط بنانے کا پابند کرتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے لایا گیا آئین کا آرٹیکل 140A حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ ''مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات منتقل کریں''۔ اگر ماضی میں پائی جانے والی صورتحال سے موجودہ قانون کا مقابلہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ مزید اختیارات منتقل کرنا تو دور کی بات ہے جو اختیارات پہلے ضلعی مقامی حکومتوں کو حاصل تھے وہ بہت بڑے پیمانے پر ان سے واپس لے لیے گئے ہیں اور جو کچھ بچے کچھے اختیارات ان کو اس وقت اس قانون کے تحت دیے گئے ہیں ان کے استعمال میں بھی وہ صوبائی حکومت کی مرضی و منت کے پوری طرح تابع ہیں۔
اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو مقامی حکومتوں کا صوبائی حکومت سے اسی نمونے کا تعلق ہونا چاہیے جو صوبائی حکومتوں کا وفاقی حکومت سے ہے۔ اس قانون کے تحت صوبائی حکومت اور مقامی حکومت کا کیا بنیادی تعلق ہے وہ ابتدائی سیکشن 4 ہی میں واضح ہوجاتا ہے جس کے پہلے ذیلی سیکشن میں کہا گیا ہے کہ منتخب کونسلیں، صوبائی حکومت کے زیر نگرانی کام کریں گی اور جس کی دوسری ذیلی شق میں کہا گیا ہے کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کونسلیں صوبائی حکومت کی ایگزیکٹو اتھارٹی پر عملدرآمد میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالیں گی نہ ہی اس کے بارے میں کوئی غلط تاثر دیں گی۔ قانون کی یہ ابتدائی اور بنیادی شق عملی طور پر مقامی حکومتوں کے صوبائی حکومت سے کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش کو سرے سے ختم کردیتی ہے۔
قانون کی شق 24 کے تحت صوبے کا چیف منسٹر، مئیر یا ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کے کیے ہوئے کسی بھی فیصلے یا حکم کی تنسیخ کرکے معاملے کو انکوائری کے لیے صوبائی لوکل گورنمنٹ کمیشن کے سپرد کرسکتا ہے۔
مقامی حکومتوں کے افسروں کا تقرر صوبائی حکومت کرے گی۔ مزید یہ کہ شق 33 کے تحت گریڈ 19 اور اس سے اوپر کے افسران کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ پر دوسرے دستخط چیف منسٹر کے ہوں گے۔
شق 29(4) کے تحت مئیر یا ڈسٹرکٹ کونسل کا چیئرمین اگر کسی افسر کا تبادلہ کرنا چاہتا ہے تو اسے تحریری طور پر تمام وجوہات دے کر چیف منسٹر سے اس افسر کے تبادلے کی گزارش کرنی ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر کسی بھی کونسل کا چیف آفیسر یہ سمجھتا ہے کہ میئر یا ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کا کوئی بھی حکم قانون یا قواعد کے منافی ہے یا صوبائی حکومت کی پالیسی کے خلاف ہے تو وہ شق 27(2) کے تحت معاملے کو فیصلے کے لیے لوکل گورنمنٹ کمیشن کو بھیج سکتا ہے۔
سیکشن 43(1)(2) کے تحت صوبائی چیف منسٹر منتخب میٹروپولٹین یا ڈسٹرکٹ کونسل کی پاس شدہ کسی بھی قرارداد کو نہ صرف رد کرسکتا ہے بلکہ اس کوانکوائری کے لیے لوکل گورنمنٹ کمیشن کے سپرد کرسکتا ہے۔
شق 20 کے تحت میئر یا چیئرمین کے کسی بھی ذاتی طور پر اس کی ہدایت پر ہونے والے فیصلے سے مالی یا کسی دوسرے نقصان کی ذمے داری ذاتی طور پر اس میئر یا چیئرمین پر ہوگی۔
شق (30) کے تحت مقامی حکومت کے کام کی انجام دہی کے سلسلے میں رولز آف بزنس بنانے کا اختیار منتخب کونسلوں کے بجائے صوبائی حکومت کے پاس ہے۔
شق 145 لوکل گورنمنٹ کمیشن سے متعلق ہے جو کونسلوں کے کام کا معائنہ کرسکتا ہے۔ اپنے طور پر یا چیف منسٹر کے حکم پر کسی بھی متعلقہ شخص یا محکمے کے خلاف انکوائری کرسکتا ہے۔ اسپیشل آڈٹ کرسکتا ہے۔ کونسلوں کے آپس کے اختلافات دور کراسکتا ہے، چیف منسٹر کی جانب سے بھیجے ہوئے معاملات کی انکوائری کرکے ان پر فیصلے دے سکتا ہے، کہیں بھی اگر کسی قاعدے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو مداخلت کرسکتا ہے اور جس کمیشن کے احکامات کی پابندی متعلقہ کونسل کے اوپر حتمی ہوگی۔
اگر کمیشن کی رائے میں انکوائری کے لیے کسی میئر یا چیئرمین کی معطلی ضروری ہے تو وہ چیف منسٹر سے یہ سفارش کرسکتا ہے کہ وہ اس میئر یا چیئرمین کو زیادہ سے زیادہ نوے دن کے لیے معطل کردیں۔ اسی طرح اگر لوکل گورنمنٹ کمیشن اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کوئی میئر چیئرمین یا کونسل کے ممبر بے ضابطگی کا مرتکب ہوا ہے تو وہ چیف منسٹر سے اس کے خلاف ضروری کاروائی کرنے کی سفارش کرسکتا ہے۔
لوکل گورنمنٹ کمیشن کی طرح صوبائی مالیاتی کمیشن میں منتخب مقامی اداروں کی کسی قسم کی نمائندگی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس میں صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا نامزد کردہ بھی کوئی نمائندہ نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کسی ایسے قومی مالیاتی کمیشن کا تصور کرسکتے ہیں جس میں صوبوں کی نمائندگی نہ ہو؟
ڈھیر سارے اعتراضات کیے جاسکتے ہیں جن میں سے کچھ میں نے اوپر خود ہی پیش کیے ہیں لیکن یہ اس زاویہ نظر سے کیے جاسکتے ہیں کہ تمامتر اختیارات اور کنٹرول صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور وہ جب چاہیں مقامی منتخب اداروں کو صرف اس الزام میں کہ صوبائی حکومت کی پالیسی پر عمل نہیں ہورہا عضومعطل بناسکتے ہیں۔ ہمارے ناقدین نے اپنے بے بنیاد خدشات اور بدگمانی کے زیر اثر قانون کے سامنے آنے سے قبل ہی اپنے لیے ایک متضاد رویہ اختیار کرلیا کہ اس قانون میں تمام اختیارات میئر (اور وہ بھی کراچی کے میئر) کے پاس ہیں اور صوبائی حکومت عضو معطل بن گئی ہے۔
صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ کے پاس تمام اختیارات مرکوز کرنے کی وجہ ہمارا گزشتہ تجربہ ہے جب ضلع حکومتیں ریاست کے اندر ریاست کی حیثیت اختیار کر گئی تھیں اور وفاق کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت کو بالکل بے اختیار اور عضو معطل بناچکی تھیں۔ بہت ہی اچھا ہوگا اگر کسی بھی مرحلے پر وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی حکومت کو اس قانون میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور صوبائی حکومتیں آزادی کے ساتھ اپنے فرائض بہترین طور پر انجام دے سکیں لیکن اس مرحلے پر یقیناً صوبائی حکومت کو یہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضرورت تھی۔