غریبوں کے لیے عید کا تحفہ
لاہور ہائیکورٹ نے ٹیکس تو ختم کر دیا لیکن 7 ارب روپے کی رقم کی واپسی کیسے ممکن ہوگی ؟
لاہور:
عدلیہ بے نوا، بے بس اور مظلوم عوام کے دکھوں کا مداوا کر رہی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ نے سی این جی اور بین الاقوامی کالوں پر ٹیکس ختم کر کے غریبوں کو عید کا تحفہ دیا ہے۔ یکم اکتوبر سے 25 اکتوبر تک 25 دنوں میں نئی پالیسی کے تحت محتاط اندازے کے مطابق 7 ارب روپے کمائے گئے۔ حکومت کی نئی پالیسی سے سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ میں مقیم پاکستانی متاثر ہوئے۔ قریباً 35 لاکھ محنت کشوں کا اپنے گھروں سے رابطے کا واحد ذریعہ ٹیلی فون ہی تو ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ٹیلی فون کالوں کے ریٹ امریکا اور یورپ کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ اس پر 300 سے 500 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کرنا ظلم سے کم نہیں تھا۔
گزشتہ 25 دنوں میں ہر سطح پر واویلا کیا گیا لیکن بیوروکریسی اور نیم خواندہ عوامی نمایندوں نے اس زبانی کلامی احتجاج اور شور شرابے پر کان دھرنا بھی گوارا نہ کیا۔ اﷲ بھلا کرے، ایک اسٹیک ہولڈر کا، جو انصاف کی فریاد لے کر لاہور ہائیکورٹ جا پہنچا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے مختصر سماعت کے بعد بیرون ملک سے آنے والی کالوں پر عائد کیا جانے والا ٹیکس منسوخی کا حکم جاری کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے جواب طلب کر لیا ہے۔
مظلوم کی آہ و زاری اور فریاد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ خدا کے ہاں دیر ہو سکتی ہے، اندھیر نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے ٹیکس تو ختم کر دیا لیکن 7 ارب روپے کی رقم کی واپسی کیسے ممکن ہوگی ؟
اپنے پیاروں سے دُور تپتے صحرائوں، اجنبی سر زمینوں اور کٹھن حالات میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کش، پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ یہ محنت کش مزدور ہر ماہ تقریباً ایک ارب ڈالر زرمبادلہ بھجواتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اب تک دیوالیہ ہونے سے بچے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران 13 ارب ڈالر ان بے نام اور گمنام محنت کشوں نے بھجوائے۔ ہم ہیں کہ ان کے لیے سر تا پا سپاس پیش کریں، ممنون خاطر ہوں، مختلف طریقوں سے انھیں لوٹنے پر کمربستہ ہیں، وہ رہائشی اسکیموں کے ذریعے ہونے والی نوسر بازیاں ہوں یا ان کی جائیدادوں پر قبضہ گروپوں کے دھاوے۔ کوئی بھی ہزاروں میل کے فاصلوں پر ان بے نام انسانوں کو خوشخبری نہیں سناتا۔
اور اب دکھوں کے مارے ان محنت کشوں کے لیے پاکستان میں اپنے پیاروں سے رابطہ بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اپنے گھر والوں سے رابطہ ان کے لیے زندگی بچانے والی آکسیجن سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ گھر گرہستی کے معاملات، تنازعات، چکا چوند روشنیوں میں بچپن سے جوانی کی دہلیز پر کھڑی اپنی اولاد سے رابطے سے تازہ دم ہوکر کام کرتے ہیں۔اب اس رابطہ کوانتہائی مہنگا کر دیا گیا ہے۔
محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت 80 لاکھ سے ایک کروڑ تک پاکستانی بیرون ملک مقیم اپنی روٹی روزی کے دھندوں میں مصروف ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ان پاکستانیوں کے لیے پاکستان سے فوری رابطے کے کئی ذریعے ہیں۔ انٹرنیٹ کا انقلاب ان کی زندگیاں زیادہ متاثر نہیں کر سکا کیونکہ انٹرنیٹ کے قدم ان دور افتادہ گوٹھوں، چکوک اور دیہات تک نہیں پہنچے جہاں ان بے نوا محنت کشوں کے پیارے بستے ہیں جن کے کان سر شام، فون کی گھنٹی پر لگ جاتے ہیں کہ دو گھنٹے کا فرق ان کے لیے زحمت نہیں رحمت بن جاتا ہے۔
ورنہ نت نئے جادوئی خصوصیات کے حامل اسمارٹ فونوں نے تو شہری آبادیوں کی زندگیاں بہت آسان کر دی ہیں کہ انٹرنیٹ کی کرشماتی ایجاد کے سہارے دوسرے براعظموں میں مقیم اپنے چاہنے والوں سے لامتناہی گفتگو ہمارا روز مرہ کا معمول بن چکی ہے۔ ہمارے پیارے عبداﷲ ملک مرحوم کے مایہ ناز فرزند عالمی شہرت یافتہ ماہر زراعت اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر کوثر عبداﷲ ملک نے چند سال پہلے بڑے حیران کن لہجے میں بتایا تھا کہ جرمنی میں مقیم ہماری اپنی صاحبزادی ڈاکٹر میرا ملک سے قربت میں فاصلوں نے اضافہ کر دیا ہے۔ لاکھوں میل کے فاصلے اور قربت دو متضاد چیزیں تھیں کچھ سمجھ نہ آیا تو انھوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ انٹرنیٹ کی معجزاتی ایجاد کی وجہ سے ہم سر شام اس سے گپ شپ کی ''لائیو'' مجلس آرائی شروع کر دیتے ہیں جس میں کبھی کبھار کینیڈا میں مقیم اس کا چچا سرمد بھی خاندان سمیت شامل ہو جاتا ہے۔
اگرچہ شہری اشرافیہ کے لیے انٹرنیٹ کے بغیر زندگی محال ہو گئی لیکن فوری رابطہ کا بنیادی ذریعہ فون ہی رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے جادوئی کرشمے تا حال شہروں تک محدود ہیں۔
مجھے خبر تک نہ ہوئی یہ تو مانچسٹر میں مقیم ہمدم دیرینہ میاں سہیل اقبال نے بتایا کہ پاکستان میں رابطہ کرنا مہنگا ہوگیا ہے۔ اس کے بعد دمام، سعودی عرب سے برادر عزیز اجمل خاں، جدہ سے زاہد سندھو، پیرس سے رانا یاسر محبوب سمیت لاتعداد احباب نے بھی ایسا ہی کہا۔بین الاقوامی کمپنیاں اپنا ضابطہ احتجاج ریکارڈ کرا چکی ہیں امن و امان کی بدتر صورتحال کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان سے نئی صنعتوں کے بعض بڑے منصوبے ''امن کے قریبی جزیروں'' کو منتقل ہو رہے ہیں۔
ماضی قریب میں طاقت کے کھیل کا ایک اہم کردار رائے ریاض حسین بڑی دل گرفتگی سے بتا رہے تھے کہ ان کے انجینئر صاحبزادے ثاقب کی کی کمپنی اپنا پراجیکٹ مصر لے گئی ہے کہ بجلی کا بحران اور امن و امان کا مسئلہ اس کی بنیادی وجہ بنا۔ اس میگا پراجیکٹ کی وجہ سے ایک لاکھ ہنر مند روزگار پاتے اور اب مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق لوٹ مار کے نئے منصوبے بروئے کار آ گئے ہیں۔
حرف آخر یہ کہ پانی سے علاج کے حوالے سے ہزاروں ایس ایم ایس اور فون کالیں موصول ہوئیں۔ جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جن میں یکساں نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ بلاشبہ پانی نعمت رب جلیل ہے۔ یہ قدیم زمانوں سے تہذیب اور زندگی کی علامت قرارپایا۔ تمام شہر اور قدیم تہذیبیں دریائوں کے کنارے آباد ہوئیں۔
جہاں تک پانی سے علاج کا تعلق ہے یہ رات کو زبان کے نیچے پیدا ہونے والے انزائم کو معدے میں لے جانے کا کام کرتا ہے۔ یہ انزائم انسانی جسم میں خودکار مدافعتی عمل کے ذریعے دماغ کے حکم پر پیدا ہوتے ہیں جو کہ بیماریوں کے خلاف خودکار طریقے سے بروئے کار آتے ہیں۔ ہزاروں ایس ایم ایس اور کالوں کا فرداً فرداً جواب دینا ممکن نہیں ہے اس لیے مستقبل میں ہاتھ سے لکھے ہوئے ایڈریس والے جوابی لفافے کے ہمراہ استفسارات بذریعہ ڈاک روزنامہ ایکسپریس، آبپارہ مارکیٹ، خیابان سہروردی، اسلام آباد کے پتے پر بھجوائے جا سکتے ہیں۔
عدلیہ بے نوا، بے بس اور مظلوم عوام کے دکھوں کا مداوا کر رہی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ نے سی این جی اور بین الاقوامی کالوں پر ٹیکس ختم کر کے غریبوں کو عید کا تحفہ دیا ہے۔ یکم اکتوبر سے 25 اکتوبر تک 25 دنوں میں نئی پالیسی کے تحت محتاط اندازے کے مطابق 7 ارب روپے کمائے گئے۔ حکومت کی نئی پالیسی سے سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ میں مقیم پاکستانی متاثر ہوئے۔ قریباً 35 لاکھ محنت کشوں کا اپنے گھروں سے رابطے کا واحد ذریعہ ٹیلی فون ہی تو ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ٹیلی فون کالوں کے ریٹ امریکا اور یورپ کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ اس پر 300 سے 500 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کرنا ظلم سے کم نہیں تھا۔
گزشتہ 25 دنوں میں ہر سطح پر واویلا کیا گیا لیکن بیوروکریسی اور نیم خواندہ عوامی نمایندوں نے اس زبانی کلامی احتجاج اور شور شرابے پر کان دھرنا بھی گوارا نہ کیا۔ اﷲ بھلا کرے، ایک اسٹیک ہولڈر کا، جو انصاف کی فریاد لے کر لاہور ہائیکورٹ جا پہنچا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے مختصر سماعت کے بعد بیرون ملک سے آنے والی کالوں پر عائد کیا جانے والا ٹیکس منسوخی کا حکم جاری کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے جواب طلب کر لیا ہے۔
مظلوم کی آہ و زاری اور فریاد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ خدا کے ہاں دیر ہو سکتی ہے، اندھیر نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے ٹیکس تو ختم کر دیا لیکن 7 ارب روپے کی رقم کی واپسی کیسے ممکن ہوگی ؟
اپنے پیاروں سے دُور تپتے صحرائوں، اجنبی سر زمینوں اور کٹھن حالات میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کش، پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ یہ محنت کش مزدور ہر ماہ تقریباً ایک ارب ڈالر زرمبادلہ بھجواتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اب تک دیوالیہ ہونے سے بچے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران 13 ارب ڈالر ان بے نام اور گمنام محنت کشوں نے بھجوائے۔ ہم ہیں کہ ان کے لیے سر تا پا سپاس پیش کریں، ممنون خاطر ہوں، مختلف طریقوں سے انھیں لوٹنے پر کمربستہ ہیں، وہ رہائشی اسکیموں کے ذریعے ہونے والی نوسر بازیاں ہوں یا ان کی جائیدادوں پر قبضہ گروپوں کے دھاوے۔ کوئی بھی ہزاروں میل کے فاصلوں پر ان بے نام انسانوں کو خوشخبری نہیں سناتا۔
اور اب دکھوں کے مارے ان محنت کشوں کے لیے پاکستان میں اپنے پیاروں سے رابطہ بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اپنے گھر والوں سے رابطہ ان کے لیے زندگی بچانے والی آکسیجن سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ گھر گرہستی کے معاملات، تنازعات، چکا چوند روشنیوں میں بچپن سے جوانی کی دہلیز پر کھڑی اپنی اولاد سے رابطے سے تازہ دم ہوکر کام کرتے ہیں۔اب اس رابطہ کوانتہائی مہنگا کر دیا گیا ہے۔
محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت 80 لاکھ سے ایک کروڑ تک پاکستانی بیرون ملک مقیم اپنی روٹی روزی کے دھندوں میں مصروف ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ان پاکستانیوں کے لیے پاکستان سے فوری رابطے کے کئی ذریعے ہیں۔ انٹرنیٹ کا انقلاب ان کی زندگیاں زیادہ متاثر نہیں کر سکا کیونکہ انٹرنیٹ کے قدم ان دور افتادہ گوٹھوں، چکوک اور دیہات تک نہیں پہنچے جہاں ان بے نوا محنت کشوں کے پیارے بستے ہیں جن کے کان سر شام، فون کی گھنٹی پر لگ جاتے ہیں کہ دو گھنٹے کا فرق ان کے لیے زحمت نہیں رحمت بن جاتا ہے۔
ورنہ نت نئے جادوئی خصوصیات کے حامل اسمارٹ فونوں نے تو شہری آبادیوں کی زندگیاں بہت آسان کر دی ہیں کہ انٹرنیٹ کی کرشماتی ایجاد کے سہارے دوسرے براعظموں میں مقیم اپنے چاہنے والوں سے لامتناہی گفتگو ہمارا روز مرہ کا معمول بن چکی ہے۔ ہمارے پیارے عبداﷲ ملک مرحوم کے مایہ ناز فرزند عالمی شہرت یافتہ ماہر زراعت اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر کوثر عبداﷲ ملک نے چند سال پہلے بڑے حیران کن لہجے میں بتایا تھا کہ جرمنی میں مقیم ہماری اپنی صاحبزادی ڈاکٹر میرا ملک سے قربت میں فاصلوں نے اضافہ کر دیا ہے۔ لاکھوں میل کے فاصلے اور قربت دو متضاد چیزیں تھیں کچھ سمجھ نہ آیا تو انھوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ انٹرنیٹ کی معجزاتی ایجاد کی وجہ سے ہم سر شام اس سے گپ شپ کی ''لائیو'' مجلس آرائی شروع کر دیتے ہیں جس میں کبھی کبھار کینیڈا میں مقیم اس کا چچا سرمد بھی خاندان سمیت شامل ہو جاتا ہے۔
اگرچہ شہری اشرافیہ کے لیے انٹرنیٹ کے بغیر زندگی محال ہو گئی لیکن فوری رابطہ کا بنیادی ذریعہ فون ہی رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے جادوئی کرشمے تا حال شہروں تک محدود ہیں۔
مجھے خبر تک نہ ہوئی یہ تو مانچسٹر میں مقیم ہمدم دیرینہ میاں سہیل اقبال نے بتایا کہ پاکستان میں رابطہ کرنا مہنگا ہوگیا ہے۔ اس کے بعد دمام، سعودی عرب سے برادر عزیز اجمل خاں، جدہ سے زاہد سندھو، پیرس سے رانا یاسر محبوب سمیت لاتعداد احباب نے بھی ایسا ہی کہا۔بین الاقوامی کمپنیاں اپنا ضابطہ احتجاج ریکارڈ کرا چکی ہیں امن و امان کی بدتر صورتحال کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان سے نئی صنعتوں کے بعض بڑے منصوبے ''امن کے قریبی جزیروں'' کو منتقل ہو رہے ہیں۔
ماضی قریب میں طاقت کے کھیل کا ایک اہم کردار رائے ریاض حسین بڑی دل گرفتگی سے بتا رہے تھے کہ ان کے انجینئر صاحبزادے ثاقب کی کی کمپنی اپنا پراجیکٹ مصر لے گئی ہے کہ بجلی کا بحران اور امن و امان کا مسئلہ اس کی بنیادی وجہ بنا۔ اس میگا پراجیکٹ کی وجہ سے ایک لاکھ ہنر مند روزگار پاتے اور اب مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق لوٹ مار کے نئے منصوبے بروئے کار آ گئے ہیں۔
حرف آخر یہ کہ پانی سے علاج کے حوالے سے ہزاروں ایس ایم ایس اور فون کالیں موصول ہوئیں۔ جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جن میں یکساں نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ بلاشبہ پانی نعمت رب جلیل ہے۔ یہ قدیم زمانوں سے تہذیب اور زندگی کی علامت قرارپایا۔ تمام شہر اور قدیم تہذیبیں دریائوں کے کنارے آباد ہوئیں۔
جہاں تک پانی سے علاج کا تعلق ہے یہ رات کو زبان کے نیچے پیدا ہونے والے انزائم کو معدے میں لے جانے کا کام کرتا ہے۔ یہ انزائم انسانی جسم میں خودکار مدافعتی عمل کے ذریعے دماغ کے حکم پر پیدا ہوتے ہیں جو کہ بیماریوں کے خلاف خودکار طریقے سے بروئے کار آتے ہیں۔ ہزاروں ایس ایم ایس اور کالوں کا فرداً فرداً جواب دینا ممکن نہیں ہے اس لیے مستقبل میں ہاتھ سے لکھے ہوئے ایڈریس والے جوابی لفافے کے ہمراہ استفسارات بذریعہ ڈاک روزنامہ ایکسپریس، آبپارہ مارکیٹ، خیابان سہروردی، اسلام آباد کے پتے پر بھجوائے جا سکتے ہیں۔