ادبی میلہ لاہور آرٹ کونسل میں
ہم نے لاہور آرٹ کونسل میں قدم رکھا تو حق دق رہ گئے۔ ایں چہ می بینم کہ بہ بیدار یست یا رب یا بخواب
ہم نے لاہور آرٹ کونسل میں قدم رکھا تو حق دق رہ گئے۔ ایں چہ می بینم کہ بہ بیدار یست یا رب یا بخواب۔ اتنی تزئین و آرائش۔ آرٹ کونسل اتنی سجی بنی کہ جیسے دلہن نے سولہ سنگھار کیے ہوں۔ یاروں نے ہماری حیرانی پر حیرانی کا اظہار کیا۔ کہا کہ تمہیں پتہ نہیں یہ وہ لٹریچر فیسٹیول ہے یا ادبی میلہ جو سال کے سال پچھلے چند سال سے ہوتا آ رہا ہے۔
اصل میں جسے ہم لٹریچر فیسٹیول کہتے ہیں وہ بس نیا شگوفہ ہے۔ پھوٹا تھا ہندوستان میں۔ گل پھول کھلے پاکستان میں۔ ادب کی جو بھی محفلیں اس شہر میں ہوتی آئی ہیں سادگی ہی ان کا طرۂ امتیاز تھی۔ اس آرٹ کونسل میں گہما گہمی اس وقت ہوتی تھی جب مصوری کی کسی نمائش کا افتتاح ہوتا تھا یا کسی بڑے موسیقار کی آمد پر موسیقی کی محفل سجتی تھی۔ عطاء الحق قاسمی جب سے چیئرمین بنے ہیں یہاں فنون لطیفہ اور ادبیات کے گھال میل سے ایسی تقریب کا چلن نکلا ہے کہ ڈھائی تین دن تک ایک تہذیبی جشن کا سماں رہتا ہے۔
لیکن خیر یہ باہر کا دکھاوا تھا۔ یوں بھی سہی۔ اس نے یہاں کی چہل پہل کو چار چاند لگا دیے تھے۔ سچ مچ میلے کا سماں تھا اور یہ تو اب ہر ادبی میلے میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ادیبوں کے ساتھ دائیں بائیں کھڑے ہو کر تصویریں کھنچوانے کا شوق اور آٹوگراف حاصل کرنے کی سرگرمی۔ جن طلباء اور طالبات کو ادب سے دلچسپی ہے ان کی حد تک یہ شوق بہت جائز ہے۔ مگر ان کی دیکھا دیکھی ہر طرح کی مخلوق کیمرے سے مسلح ہو کر آتی ہے اور یہ شوق پورا کرتی ہے اور وہاں ایک مخلوق اور ہے۔
یہ دور کے علاقوں اور شہروں قصبوں سے آنے والے لوگ ہیں۔ یعنی جو مندوبین آتے ہیں۔ ان کے علاقوں، شہروں، قصبوں سے آنے والے لوگ ہیں۔ یعنی جو مندوبین آتے ہیں ان کے علاوہ بھی دور کی بستیوں سے اہل دل میلہ دیکھنے کے شوق میں چلے آتے ہیں۔ جن ادیبوں کی کتابیں پڑھ رکھی ہیں انھیں یہاں پہلے دور سے حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اچھا یہ وہ شاعر ہے یا افسانہ نگار یا ناول نگار جس کی فلاں فلاں کتاب ہم نے پڑھ رکھی ہے۔
پھر وہ رفتہ رفتہ قریب آتے ہیں۔ کوئی خالی کیمرے کے ساتھ اور کوئی یہاں سجے ہوئے اسٹال سے اپنی پسند کے ادیب کی کتاب خرید کر آتا ہے۔ پہلے کتاب پر آٹو گراف لیتا ہے۔ پھر ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھنچوانے کا شوق پورا کرتا ہے۔ یہ نقشہ دیکھ کر ہم نے جانا کہ ادب کی مار کہاں تک ہے۔ یار لوگ ویسے ہی بے پر کی اڑاتے تھے کہ کتاب پاکستان میں اب کوئی نہیں پڑھتا۔ اب سب ٹی وی پر فدا ہیں۔
خیر اس چہل پہل سے گزرو اور اندر مختلف چھوٹے بڑے ایوانوں میں جو محفلیں سجی ہیں اور ادبی موضوعات پر بحثیں ہو رہی ہیں۔ یا اگلے پچھلے اساتذہ کو اور ان کے کارناموں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ ان مناظر کو دیکھو اور بحث کرنے والے ادیبوں کی باتیں سنو۔ اگر تمہیں ادب سے واقعی دلچسپی ہے تو پھر یہاں تمہارے سننے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
صبح سے شام تک بلکہ رات تک اتنے سیشن اتنی نشستیں ہوتی ہیں اور ایک ایک وقت میں کئی کئی سب میں شرکت تو مشکل ہے۔ مگر جتنا سن سکو اور جتنا ان مباحثوں اور مکالموں سے استفادہ کر سکو اسے غنیمت جانو۔
ہم نے ایک ہال میں قدم رکھا تو دیکھا کہ وہاں پچھلے سو سال کا اردو افسانہ زیر بحث ہے۔ وہاں سے نکل کر دوسرے ایوان میں گئے تو ہندوستان سے آئے ہوئے تین مہمان شریک محفل تھے۔ لکھنو سے انیس اشفاق، دلی سے عبید صدیقی، مشرقی پنجاب سے کیول دھیر، ان سے پوچھا جارہا تھا کہ ہندوستان میں اردو کی کیا صورت حال ہے۔
انیس اشفاق اور عبید صدیقی تو کچھ ناخوش ہی نظر آ رہے تھے۔ عبید صدیقی کہہ رہے تھے کہ یوں ہر صوبے میں اردو اکیڈمی قائم ہے۔ ان کے پاس فنڈ بھی بہت ہوتے ہیں مگر خرابی کے ذمے دار خود اردو والے ہیں۔ وہ اپنے چہیتوں کو نوازتے ہیں اور پھر جنھیں ان اداروں کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے بالعموم نااہل ہوتے ہیں۔ ایک علمی ادارے کی مثال پیش کی گئی کہ اس کا سربراہ ایک ایسے صاحب کو بنایا گیا جن کی تعلیم چوتھی پانچویں کلاس تک محدود تھی۔
اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ کہا گیا کہ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ اردو لغت بورڈ کا سربراہ ایسے شخص کو مقرر کیا گیا جس کا زبان اور ادب سے کوئی واسطہ نہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔
ہم نے سوچا کہ ذرا اس نشست میں جھانک لیں جہاں اردو افسانے نے سو سال کی مدت میں کیا گل کھلائے۔ وہاں ایک مسئلہ زیر بحث آیا کہ پاکستان کے ساتھ یہ سانحہ گزرا کہ مشرقی پاکستان اس سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اس سانحہ پر اردو کے افسانہ نگاروں، ناول نگاروں نے کتنا اثر قبول کیا۔ اس کے بارے میں کتنا لکھا گیا اور کیا لکھا گیا۔
جب افسانہ نگاروں پر اس باب میں تنقید ہو رہی تھی تو ہم نے کہا کہ عزیزو اس سانحہ کو اگر افسانے اور ناول میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی تو اس پر خالی افسانہ نگاروں کو کیوں مطعون کر رہے ہو۔ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ سیاستدانوں نے اس سارے سانحہ کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا۔ اتنی المناک شکست پر یہ کہہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ اب نیا پاکستان وجود میں آ گیا ہے۔ آدھا پاکستان کٹ گیا۔ یہ نیا پاکستان تھا۔ اس رویے کے ہوتے ہوئے جتنا لکھا گیا اسے غنیمت جانو۔
مزاحیہ ادب پر بحث، شاعری میں جو نئے رجحانات آئے اس پر گفتگو، ایک نشست میں عبداللہ حسین نے ناول میں جو ہنر دکھایا اس کا جائزہ لیا گیا۔
ادب سے ہٹ کر کچھ موسیقی، کچھ مصوری، کچھ رقص، پھر ایک نشست فیض صاحب کے نام پر۔
فنون لطیفہ کے ذیل میں رقص کو تو سرے سے فراموش ہی کر دیا گیا۔ شاید ملاؤں کے خوف سے۔ اب اس فن کی واپسی ہو رہی ہے۔
تو یہ فیسٹیول رنگارنگ تھا۔ سامعین کی دلچسپی کا یہ عالم کہ ہر نشست میں سامعین قطار اندر قطار۔ ایسی نشستیں بھی ہوئیں کہ ہال بھرا ہوا۔ سامعین ابلے پڑ رہے ہیں۔
اصل میں جسے ہم لٹریچر فیسٹیول کہتے ہیں وہ بس نیا شگوفہ ہے۔ پھوٹا تھا ہندوستان میں۔ گل پھول کھلے پاکستان میں۔ ادب کی جو بھی محفلیں اس شہر میں ہوتی آئی ہیں سادگی ہی ان کا طرۂ امتیاز تھی۔ اس آرٹ کونسل میں گہما گہمی اس وقت ہوتی تھی جب مصوری کی کسی نمائش کا افتتاح ہوتا تھا یا کسی بڑے موسیقار کی آمد پر موسیقی کی محفل سجتی تھی۔ عطاء الحق قاسمی جب سے چیئرمین بنے ہیں یہاں فنون لطیفہ اور ادبیات کے گھال میل سے ایسی تقریب کا چلن نکلا ہے کہ ڈھائی تین دن تک ایک تہذیبی جشن کا سماں رہتا ہے۔
لیکن خیر یہ باہر کا دکھاوا تھا۔ یوں بھی سہی۔ اس نے یہاں کی چہل پہل کو چار چاند لگا دیے تھے۔ سچ مچ میلے کا سماں تھا اور یہ تو اب ہر ادبی میلے میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ادیبوں کے ساتھ دائیں بائیں کھڑے ہو کر تصویریں کھنچوانے کا شوق اور آٹوگراف حاصل کرنے کی سرگرمی۔ جن طلباء اور طالبات کو ادب سے دلچسپی ہے ان کی حد تک یہ شوق بہت جائز ہے۔ مگر ان کی دیکھا دیکھی ہر طرح کی مخلوق کیمرے سے مسلح ہو کر آتی ہے اور یہ شوق پورا کرتی ہے اور وہاں ایک مخلوق اور ہے۔
یہ دور کے علاقوں اور شہروں قصبوں سے آنے والے لوگ ہیں۔ یعنی جو مندوبین آتے ہیں۔ ان کے علاقوں، شہروں، قصبوں سے آنے والے لوگ ہیں۔ یعنی جو مندوبین آتے ہیں ان کے علاوہ بھی دور کی بستیوں سے اہل دل میلہ دیکھنے کے شوق میں چلے آتے ہیں۔ جن ادیبوں کی کتابیں پڑھ رکھی ہیں انھیں یہاں پہلے دور سے حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اچھا یہ وہ شاعر ہے یا افسانہ نگار یا ناول نگار جس کی فلاں فلاں کتاب ہم نے پڑھ رکھی ہے۔
پھر وہ رفتہ رفتہ قریب آتے ہیں۔ کوئی خالی کیمرے کے ساتھ اور کوئی یہاں سجے ہوئے اسٹال سے اپنی پسند کے ادیب کی کتاب خرید کر آتا ہے۔ پہلے کتاب پر آٹو گراف لیتا ہے۔ پھر ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھنچوانے کا شوق پورا کرتا ہے۔ یہ نقشہ دیکھ کر ہم نے جانا کہ ادب کی مار کہاں تک ہے۔ یار لوگ ویسے ہی بے پر کی اڑاتے تھے کہ کتاب پاکستان میں اب کوئی نہیں پڑھتا۔ اب سب ٹی وی پر فدا ہیں۔
خیر اس چہل پہل سے گزرو اور اندر مختلف چھوٹے بڑے ایوانوں میں جو محفلیں سجی ہیں اور ادبی موضوعات پر بحثیں ہو رہی ہیں۔ یا اگلے پچھلے اساتذہ کو اور ان کے کارناموں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ ان مناظر کو دیکھو اور بحث کرنے والے ادیبوں کی باتیں سنو۔ اگر تمہیں ادب سے واقعی دلچسپی ہے تو پھر یہاں تمہارے سننے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
صبح سے شام تک بلکہ رات تک اتنے سیشن اتنی نشستیں ہوتی ہیں اور ایک ایک وقت میں کئی کئی سب میں شرکت تو مشکل ہے۔ مگر جتنا سن سکو اور جتنا ان مباحثوں اور مکالموں سے استفادہ کر سکو اسے غنیمت جانو۔
ہم نے ایک ہال میں قدم رکھا تو دیکھا کہ وہاں پچھلے سو سال کا اردو افسانہ زیر بحث ہے۔ وہاں سے نکل کر دوسرے ایوان میں گئے تو ہندوستان سے آئے ہوئے تین مہمان شریک محفل تھے۔ لکھنو سے انیس اشفاق، دلی سے عبید صدیقی، مشرقی پنجاب سے کیول دھیر، ان سے پوچھا جارہا تھا کہ ہندوستان میں اردو کی کیا صورت حال ہے۔
انیس اشفاق اور عبید صدیقی تو کچھ ناخوش ہی نظر آ رہے تھے۔ عبید صدیقی کہہ رہے تھے کہ یوں ہر صوبے میں اردو اکیڈمی قائم ہے۔ ان کے پاس فنڈ بھی بہت ہوتے ہیں مگر خرابی کے ذمے دار خود اردو والے ہیں۔ وہ اپنے چہیتوں کو نوازتے ہیں اور پھر جنھیں ان اداروں کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے بالعموم نااہل ہوتے ہیں۔ ایک علمی ادارے کی مثال پیش کی گئی کہ اس کا سربراہ ایک ایسے صاحب کو بنایا گیا جن کی تعلیم چوتھی پانچویں کلاس تک محدود تھی۔
اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ کہا گیا کہ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ اردو لغت بورڈ کا سربراہ ایسے شخص کو مقرر کیا گیا جس کا زبان اور ادب سے کوئی واسطہ نہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔
ہم نے سوچا کہ ذرا اس نشست میں جھانک لیں جہاں اردو افسانے نے سو سال کی مدت میں کیا گل کھلائے۔ وہاں ایک مسئلہ زیر بحث آیا کہ پاکستان کے ساتھ یہ سانحہ گزرا کہ مشرقی پاکستان اس سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اس سانحہ پر اردو کے افسانہ نگاروں، ناول نگاروں نے کتنا اثر قبول کیا۔ اس کے بارے میں کتنا لکھا گیا اور کیا لکھا گیا۔
جب افسانہ نگاروں پر اس باب میں تنقید ہو رہی تھی تو ہم نے کہا کہ عزیزو اس سانحہ کو اگر افسانے اور ناول میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی تو اس پر خالی افسانہ نگاروں کو کیوں مطعون کر رہے ہو۔ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ سیاستدانوں نے اس سارے سانحہ کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا۔ اتنی المناک شکست پر یہ کہہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ اب نیا پاکستان وجود میں آ گیا ہے۔ آدھا پاکستان کٹ گیا۔ یہ نیا پاکستان تھا۔ اس رویے کے ہوتے ہوئے جتنا لکھا گیا اسے غنیمت جانو۔
مزاحیہ ادب پر بحث، شاعری میں جو نئے رجحانات آئے اس پر گفتگو، ایک نشست میں عبداللہ حسین نے ناول میں جو ہنر دکھایا اس کا جائزہ لیا گیا۔
ادب سے ہٹ کر کچھ موسیقی، کچھ مصوری، کچھ رقص، پھر ایک نشست فیض صاحب کے نام پر۔
فنون لطیفہ کے ذیل میں رقص کو تو سرے سے فراموش ہی کر دیا گیا۔ شاید ملاؤں کے خوف سے۔ اب اس فن کی واپسی ہو رہی ہے۔
تو یہ فیسٹیول رنگارنگ تھا۔ سامعین کی دلچسپی کا یہ عالم کہ ہر نشست میں سامعین قطار اندر قطار۔ ایسی نشستیں بھی ہوئیں کہ ہال بھرا ہوا۔ سامعین ابلے پڑ رہے ہیں۔