دنیا سنبھال کے رکھنا
خلائی تحقیق کے ادارے روس اور امریکا مسلسل تگ و دو میں ہیں کہ اسرار و رموز کا پتہ چلائیں
خلائی تحقیق کے ادارے روس اور امریکا مسلسل تگ و دو میں ہیں کہ اسرار و رموز کا پتہ چلائیں، دیگر سیارگان میں زندگی کیسی ہے۔ وہاں پانی موجود ہے یا نہیں۔ چاند پر پہلے روس نے اپناخلائی جہاز Sputnik اتارا پھر امریکا نے انسان بھیجا، مگر چاند پر جانے کے بعد روسی سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ وہاں انسان سے زیادہ غیر مرئی حیات نے قبضہ کر رکھا ہے۔ لہٰذا چاند کا سفر چھوڑ کر دیگر سیارگان کی تلاش جاری ہے گو کہ چاند زمین کے قریب تر ہے۔
حال ہی میں مریخ پر امریکی خلائی جہاز اترا اور وہاں سے تصاویر بھیجیں جن سے ظاہر ہونے لگا کہ مریخ پر پانی موجود ہے مگر وہاں کسی ذی حیات کا اندازہ نہیں ہو سکا البتہ رفتہ رفتہ انسان کو یہ اندازہ ہو چلا ہے کہ دیگر ذی حیات بھی موجود ہیں اور اس بات کا بھی احساس ہو چلا ہے کہ اگر ٹائم مشین ایجاد کر لی جائے تو پلک جھپکتے میں انسان کروڑوں میلوں کا سفر طے کر سکتا ہے مگر وقت اور فاصلے پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ اب سائنس رفتہ رفتہ جس رخ پر جا رہی ہے اور تحقیقات بحروبر اور دیگر سیارگان کے سفر سے اس کو محسوس ہونے لگا ہے ہر شجر و ہجر میں ایک طویل پوشیدہ کہانی موجود ہے۔
انسان کے فن تعمیر سے جہازرانی تک ستاروں سے حاصل شدہ جیومیٹری اور فن میں ایک آفاقی ربط ہے جن میں اہرام مصر کا عجوبہ پھر اجنتا الورا میں بھارت کی ٹیکنالوجی اور سائنس دانوں کی پریشانی کہ لبنان میں چٹانوں کے اوپر چٹانیں کیسے رکھی گئیں۔ پھر ایسی چٹانوں سے سری لنکا کے قدیم محلات آخر اس دور میں ہیوی مشینری کیسے لائی گئی اور ہیوی مشینری آج بھی ایسی چٹانوں کو نہیں اٹھا سکتی یعنی انسان کے ساتھ غیر مرئی قوتوں کے رابطے کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے، جو اب نظر نہیں آتا البتہ اگر ہوائی جہاز سے آج بھی تصاویر کھینچی جائیں تو (Crop Circle) جیومیٹریکل کٹنگ (Geometrical Cutting) میلوں لمبی فصلیں ڈیزائن بنا کر کاٹی جاتی ہیں جو انسان نہیں کاٹ سکتے یہ سائنس دانوں کو پریشان کر رہی ہیں۔
ان تمام چیزوں نے سائنس دانوں کو حیرت زدہ کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے ہر چیز کو انسان دیکھ رہا ہے تو وہ اپنی دھرتی سے غافل کیوں کر رہ سکتا تھا۔ اس نے مسلسل یہ دیکھا کہ موسم جو انسان کا دوست تھا وہ رفتہ رفتہ اس کا دشمن بنتا جا رہا ہے۔ آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا میں زیادتی، ترقی کے ساتھ انسان کی ترقی سے غیر تسلی بخش فضلہ آلودگی اور درجہ حرارت ان سب چیزوں نے ہماری حسین کائنات کو تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک سے فیکٹریوں کا غیر تسلی بخش دھواں دھکڑ انسان کو پانی میں غرق ہونے کی خبر دے دی ہے، دنیا کا درجہ حرارت 2 ڈگری ہر سال بڑھ رہا ہے اور اگر یہی روش کائنات کی جاری رہی تو انسان کا لایا ہوا طوفان نوح نہ سہی طوفان آدمی آدمیوں کو ڈبو دے گا، ہم اگر فطرت کے ساتھ بدسلوکی روا رکھیں گے تو قدرت ہمارے ساتھ کیونکر آشتی سے چلے گی۔ ابھی کل کی بات ہے جیسے کراچی میں گرمیوں کے موسم میں جب کئی ہزار لوگ گرم ہوا کی لہر سے مر گئے۔
لگتا تھا کہ جیسے سیکڑوں جہاز کراچی کے ساحل پر لگے ہوئے ہیں اور آگ برسا رہے ہیں کیونکہ اسی روز میں حیدر آباد سے کراچی آیا تھا لگا حیدر آباد اس سے کم گرم ہے وہاں آفتابی گرمی تھی اور یہاں عجب قسم کی آسمانی آگ تھی جیسے گھر سے باہر آگ جل رہی ہو، کراچی میں درختوں کی چھٹائی، صنعتی اداروں کا فضلہ، ماحولیاتی آلودگی، 4-4 سال برسات کا نہ ہونا، ندی نالوں میں کچروں کا ڈھیر، پارک ختم، پلے گراؤنڈ چائنا کٹنگ کا شکار۔ آخر سمندر بھی بے بس ہو کر بیٹھ گیا اگر کسی دن اس کو ناراضگی ہوئی تو پھر بحر عرب میں طوفان اٹھ سکتا ہے جس سے موسم کی بساط الٹ جائے گی۔
یہ تو تھی ہمارے پسماندہ ملک کی حالت جہاں سیاست کی گرد نے ہماری زمین کو آلودہ کر رکھا ہے یہاں نہ اتنا صنعتی فضلہ ہے اور نہ ہی انڈسٹری، محض بدانتظامی، شجرکاری کے نام پر مذاق چل رہا ہے جو یہاں کے مقامی پودے ہیں ان کو چھوڑ کر غیر ملکی پودوں کو لگایا جا رہا ہے پیپل، برگد، گولر، بڑ کو بالکل نظرانداز کر کے خال خال فوجی علاقوں میں نیم کے درخت وہ بھی قبرستانوں میں زیادہ تر، ورنہ سڑکوں پر آپ کو مقامی درخت نظر نہ آئیں گے، بڑے پتے والے بادام کے درخت گوندنی، بیری کم پانی میں پروان چڑھتے ہیں۔
جن کا سایہ گھنا بس تنا ہی تنا اور مقامی پرندوں کے لیے ان میں کوئی جگہ نہیں جن کے پھلوں کو وہ کھا سکیں اور نہ شہد کی مکھیوں کے لیے ان میں دلبستگی یہ تو تھی اپنی روداد ایسی ہی دیگر پسماندہ ممالک ایشیا اور افریقہ کے اور بھی ہیں جہاں انسانوں کی قدر نہیں وہاں درختوں کو کون پوچھے گا، یہاں جہالت کا دور دورہ ہے عام تاثر یہ ہے کہ پیپل، برگد، گولر، بڑ کے درخت مکان کی جڑوں کو توڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ وہ درخت ہیں جن کو مہاتما بدھ نے دھیان گیان کا بادشاہ قرار دیا۔
یہ 4 انچ کی زمین پر پروان چڑھ سکتے ہیں کم پانی اور تیز رفتار نمو، زیادہ سایہ اور پرندوں کے لیے دلچسپی کا باعث۔ اگر جگہ کشادہ تو مضبوط ہو گا ورنہ چھوٹا ہی رہے گا۔ یہ درخت مکان کو گزند نہیں پہنچاتے۔ دنیا ان تمام چیزوں کو باقاعدگی سے دیکھتی ہے اور غور و فکر کرتی ہے۔ ان کو زیادہ فکر ہے کہ دنیا رہے گی تو ان کی اور ان کے آنے والوں کے لیے یہ دنیا تسکین کا سامان ہو گی۔ آنے والا وقت دنیا میں تو بہتر ہو گا مگر پاکستان اور بھارت میں کیا ہو گا۔
اس کا اندازہ مشکل ہے کیونکہ ان ملکوں میں تقسیم کی تلخی نہ کم ہوئی پھر مذہبی تنگ نظری کی آگ بھی دہک رہی ہے مگر یہ دونوں ممالک بھی 30 نومبر 2015ء سے 11 دسمبر 2015ء تک پیرس میں چلنے والی کلائمیٹ چینج کانفرنس میں 196 ملکوں کے ساتھ شریک تھے وہاں پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی اور تمام ان مضمرات پر کنٹرول کرنے کو کہا گیا ہے جو موسم سے متصادم ہوں۔ دنیا کی آبادی 7 ارب کے قریب ہے لائیو اسٹاک یعنی مرغی اور مویشیوں کی تعداد بھی انسانوں سے زیادہ ہے 13 دنوں تک یہ کانفرنس چلتی رہی اور تمام ملکوں کے دانشور اور سائنس دانوں اور لیڈروں نے اس میں شرکت کی اور یہ فیصلہ کیا کہ اب دنیا کے درجہ حرارت میں 2 ڈگری اضافے کی شرح کو بڑھنے سے روک دیں گے۔
امریکا، چین اور ہندوستان درجہ حرارت کے بڑھنے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں ان کو پابند کرنا ہو گا۔ مسودات تیار کیے گئے امید ہے عمل کیا جائے گا۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے صرف خوراک کی نہیں بلکہ رہائش کی بھی ضرورت ہے۔ ایک آسودہ درجہ حرارت، صاف ہوا، وسائل اور آبادی کا تناسب۔12 دسمبر انسانی تاریخ کا یادگار دن ہو گا بشرطیکہ اس کے نتائج کو حاصل کیا جائے اور دنیا کو ستاروں کی المناک جنگ سے محفوظ رکھا جائے اور ہر شخص کو ایسی صورت میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے دنیا ہماری ملکیت ہے۔ آنے والوں کے لیے اسے سنبھال کے رکھنے کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں مریخ پر امریکی خلائی جہاز اترا اور وہاں سے تصاویر بھیجیں جن سے ظاہر ہونے لگا کہ مریخ پر پانی موجود ہے مگر وہاں کسی ذی حیات کا اندازہ نہیں ہو سکا البتہ رفتہ رفتہ انسان کو یہ اندازہ ہو چلا ہے کہ دیگر ذی حیات بھی موجود ہیں اور اس بات کا بھی احساس ہو چلا ہے کہ اگر ٹائم مشین ایجاد کر لی جائے تو پلک جھپکتے میں انسان کروڑوں میلوں کا سفر طے کر سکتا ہے مگر وقت اور فاصلے پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ اب سائنس رفتہ رفتہ جس رخ پر جا رہی ہے اور تحقیقات بحروبر اور دیگر سیارگان کے سفر سے اس کو محسوس ہونے لگا ہے ہر شجر و ہجر میں ایک طویل پوشیدہ کہانی موجود ہے۔
انسان کے فن تعمیر سے جہازرانی تک ستاروں سے حاصل شدہ جیومیٹری اور فن میں ایک آفاقی ربط ہے جن میں اہرام مصر کا عجوبہ پھر اجنتا الورا میں بھارت کی ٹیکنالوجی اور سائنس دانوں کی پریشانی کہ لبنان میں چٹانوں کے اوپر چٹانیں کیسے رکھی گئیں۔ پھر ایسی چٹانوں سے سری لنکا کے قدیم محلات آخر اس دور میں ہیوی مشینری کیسے لائی گئی اور ہیوی مشینری آج بھی ایسی چٹانوں کو نہیں اٹھا سکتی یعنی انسان کے ساتھ غیر مرئی قوتوں کے رابطے کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے، جو اب نظر نہیں آتا البتہ اگر ہوائی جہاز سے آج بھی تصاویر کھینچی جائیں تو (Crop Circle) جیومیٹریکل کٹنگ (Geometrical Cutting) میلوں لمبی فصلیں ڈیزائن بنا کر کاٹی جاتی ہیں جو انسان نہیں کاٹ سکتے یہ سائنس دانوں کو پریشان کر رہی ہیں۔
ان تمام چیزوں نے سائنس دانوں کو حیرت زدہ کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے ہر چیز کو انسان دیکھ رہا ہے تو وہ اپنی دھرتی سے غافل کیوں کر رہ سکتا تھا۔ اس نے مسلسل یہ دیکھا کہ موسم جو انسان کا دوست تھا وہ رفتہ رفتہ اس کا دشمن بنتا جا رہا ہے۔ آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا میں زیادتی، ترقی کے ساتھ انسان کی ترقی سے غیر تسلی بخش فضلہ آلودگی اور درجہ حرارت ان سب چیزوں نے ہماری حسین کائنات کو تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک سے فیکٹریوں کا غیر تسلی بخش دھواں دھکڑ انسان کو پانی میں غرق ہونے کی خبر دے دی ہے، دنیا کا درجہ حرارت 2 ڈگری ہر سال بڑھ رہا ہے اور اگر یہی روش کائنات کی جاری رہی تو انسان کا لایا ہوا طوفان نوح نہ سہی طوفان آدمی آدمیوں کو ڈبو دے گا، ہم اگر فطرت کے ساتھ بدسلوکی روا رکھیں گے تو قدرت ہمارے ساتھ کیونکر آشتی سے چلے گی۔ ابھی کل کی بات ہے جیسے کراچی میں گرمیوں کے موسم میں جب کئی ہزار لوگ گرم ہوا کی لہر سے مر گئے۔
لگتا تھا کہ جیسے سیکڑوں جہاز کراچی کے ساحل پر لگے ہوئے ہیں اور آگ برسا رہے ہیں کیونکہ اسی روز میں حیدر آباد سے کراچی آیا تھا لگا حیدر آباد اس سے کم گرم ہے وہاں آفتابی گرمی تھی اور یہاں عجب قسم کی آسمانی آگ تھی جیسے گھر سے باہر آگ جل رہی ہو، کراچی میں درختوں کی چھٹائی، صنعتی اداروں کا فضلہ، ماحولیاتی آلودگی، 4-4 سال برسات کا نہ ہونا، ندی نالوں میں کچروں کا ڈھیر، پارک ختم، پلے گراؤنڈ چائنا کٹنگ کا شکار۔ آخر سمندر بھی بے بس ہو کر بیٹھ گیا اگر کسی دن اس کو ناراضگی ہوئی تو پھر بحر عرب میں طوفان اٹھ سکتا ہے جس سے موسم کی بساط الٹ جائے گی۔
یہ تو تھی ہمارے پسماندہ ملک کی حالت جہاں سیاست کی گرد نے ہماری زمین کو آلودہ کر رکھا ہے یہاں نہ اتنا صنعتی فضلہ ہے اور نہ ہی انڈسٹری، محض بدانتظامی، شجرکاری کے نام پر مذاق چل رہا ہے جو یہاں کے مقامی پودے ہیں ان کو چھوڑ کر غیر ملکی پودوں کو لگایا جا رہا ہے پیپل، برگد، گولر، بڑ کو بالکل نظرانداز کر کے خال خال فوجی علاقوں میں نیم کے درخت وہ بھی قبرستانوں میں زیادہ تر، ورنہ سڑکوں پر آپ کو مقامی درخت نظر نہ آئیں گے، بڑے پتے والے بادام کے درخت گوندنی، بیری کم پانی میں پروان چڑھتے ہیں۔
جن کا سایہ گھنا بس تنا ہی تنا اور مقامی پرندوں کے لیے ان میں کوئی جگہ نہیں جن کے پھلوں کو وہ کھا سکیں اور نہ شہد کی مکھیوں کے لیے ان میں دلبستگی یہ تو تھی اپنی روداد ایسی ہی دیگر پسماندہ ممالک ایشیا اور افریقہ کے اور بھی ہیں جہاں انسانوں کی قدر نہیں وہاں درختوں کو کون پوچھے گا، یہاں جہالت کا دور دورہ ہے عام تاثر یہ ہے کہ پیپل، برگد، گولر، بڑ کے درخت مکان کی جڑوں کو توڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ وہ درخت ہیں جن کو مہاتما بدھ نے دھیان گیان کا بادشاہ قرار دیا۔
یہ 4 انچ کی زمین پر پروان چڑھ سکتے ہیں کم پانی اور تیز رفتار نمو، زیادہ سایہ اور پرندوں کے لیے دلچسپی کا باعث۔ اگر جگہ کشادہ تو مضبوط ہو گا ورنہ چھوٹا ہی رہے گا۔ یہ درخت مکان کو گزند نہیں پہنچاتے۔ دنیا ان تمام چیزوں کو باقاعدگی سے دیکھتی ہے اور غور و فکر کرتی ہے۔ ان کو زیادہ فکر ہے کہ دنیا رہے گی تو ان کی اور ان کے آنے والوں کے لیے یہ دنیا تسکین کا سامان ہو گی۔ آنے والا وقت دنیا میں تو بہتر ہو گا مگر پاکستان اور بھارت میں کیا ہو گا۔
اس کا اندازہ مشکل ہے کیونکہ ان ملکوں میں تقسیم کی تلخی نہ کم ہوئی پھر مذہبی تنگ نظری کی آگ بھی دہک رہی ہے مگر یہ دونوں ممالک بھی 30 نومبر 2015ء سے 11 دسمبر 2015ء تک پیرس میں چلنے والی کلائمیٹ چینج کانفرنس میں 196 ملکوں کے ساتھ شریک تھے وہاں پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی اور تمام ان مضمرات پر کنٹرول کرنے کو کہا گیا ہے جو موسم سے متصادم ہوں۔ دنیا کی آبادی 7 ارب کے قریب ہے لائیو اسٹاک یعنی مرغی اور مویشیوں کی تعداد بھی انسانوں سے زیادہ ہے 13 دنوں تک یہ کانفرنس چلتی رہی اور تمام ملکوں کے دانشور اور سائنس دانوں اور لیڈروں نے اس میں شرکت کی اور یہ فیصلہ کیا کہ اب دنیا کے درجہ حرارت میں 2 ڈگری اضافے کی شرح کو بڑھنے سے روک دیں گے۔
امریکا، چین اور ہندوستان درجہ حرارت کے بڑھنے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں ان کو پابند کرنا ہو گا۔ مسودات تیار کیے گئے امید ہے عمل کیا جائے گا۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے صرف خوراک کی نہیں بلکہ رہائش کی بھی ضرورت ہے۔ ایک آسودہ درجہ حرارت، صاف ہوا، وسائل اور آبادی کا تناسب۔12 دسمبر انسانی تاریخ کا یادگار دن ہو گا بشرطیکہ اس کے نتائج کو حاصل کیا جائے اور دنیا کو ستاروں کی المناک جنگ سے محفوظ رکھا جائے اور ہر شخص کو ایسی صورت میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے دنیا ہماری ملکیت ہے۔ آنے والوں کے لیے اسے سنبھال کے رکھنے کی ضرورت ہے۔