ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس
ستر سالوں سے دونوں ملکوں کی اسٹبلشمنٹ اپنے اپنے ملک کی بقا صرف اور صرف جھگڑے اورفساد کی بنیاد پر رکھتی آئی ہیں
مشکل سے پندرہ دن پہلے تک پاکستان اور انڈیا کے ڈیڑھ ارب نفوس میں سے کسی ایک کو بھی معلوم نہ تھا، ایک دوسرے پرہر وقت چڑھائی کرنے والے یہ دونوں ملک اچانک سے ایک دوسرے کے اتنے قریب بھی ہوجائیں گے۔ نزدیک تو وہ پہلے بھی کئی بارہوئے ہیں، مگربرصغیرکی قلیل تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ دونوں جتنی جلدی سے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں،اتنی ہی تیزی سے واپسی کی راہ بھی اختیارکرتے ہیں۔
ستر سالوں سے دونوں ملکوں کی اسٹبلشمنٹ اپنے اپنے ملک کی بقا صرف اور صرف جھگڑے اورفساد کی بنیاد پر رکھتی آئی ہیں۔ دونوں ملکوں کا غیراعلانیہ معاہدہ صرف اسی بات پر رہا کہ وہ پائیدارامن کے لیے کبھی کوئی معاہدہ نہیں کرسکتے۔دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے عوام کو اکھنڈ بھارت اور اسلام کے قلعے قائم کرنے کے بے سود خواب دکھاکر ملکی بجٹ کے آدھے سے زیادہ فیصد لے کر ٹینکس، میزائل، جنگی جہاز اور ایٹمی بم بناتی رہی ہیں اورکمال مہارت سے بھوک اور بدحالی میں سر سے پاؤں تک پھنسے انسانوں کو جنگی جنون میں مبتلا کرتی رہی ہیں۔ حد تویہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ بھی جنگ کے میدان کا منظر پیش کرتے رہے ہیں۔
اس بار بھی قریب آنے کی بنیادی وجہ اپنی، اپنی سیاسی اور معاشی ضروریات کم افغانستان کی صورتحال زیادہ ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکا، چین اور روس سمیت پوری دنیا افغانستان میں امن کی خواہاں ہیں۔ وہ طالبان سمیت تمام فریقوں سے بات چیت کرکے امن قائم کرنے کے خواہشمند ہوچکے ہیں اورپاکستان اور بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کو برابرکردار دینے کے لیے بھی رضامند ہوچکے ہیں۔ اصل میں یہ سلسلہ دوہزار پانچ میں شروع ہوا تھا جو اب اپنے منطقی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔
سو اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا بنیادی مقصداور محورپاکستان اور بھارت بات چیت نہیں بلکہ افغانستان کے حالات، اس کے مستقبل میں بننے والے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے،اس کے قریبی اور تھوڑے سے دور پڑوسیوں کا برابر پر مبنی کردار، اس کے تمام اسٹیک ہولڈرزکوساتھ لے کر چلنے اور مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے امن کے حصول کو سنجیدگی اور سچائی سے زیر بحث لانا تھا۔
اس ساری صورتحال کے پس منظر میں ظاہر ہے پاکستان اور بھارت دونوں اہم حصے دار ہیں، جن کے قریب آنے اورکسی ہم آہنگی کے بغیر اسٹیبل (مستحکم) افغانستان کا حصول ناممکن ہے، اس لیے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا زیادہ تر فوکس پاک بھارت بات چیت پر مرکوز رہا۔
دوسر ی اہم وجہ ہمارا میڈیا تھا، جس نے کانفرنس کے اصل موضوعات اور طے پانے والے فیصلوں سے ہٹ کر صرف پاک بھارت میل ملاقات کو اپنی خبروں میں زیادہ توجہ دی اور یہ تاثردینے کی کوشش کی کہ جیسے اس کانفرنس کا مقصد ہی پاک بھارت تعلقات اور ان کی بہتری ہو۔حد تو یہ کہ پورے کے پورے قومی میڈیا نے اپنے فوکس کو اور بھی نیرو ڈاؤن کرتے ہوئے اسے صرف اور صرف کرکٹ سیریز تک محدود کردیا،اور تو اور عمران خان کے بھارتی دورے میں سے بھی کرکٹ سیریزکی خبر نکالنے کی کوشش کی گئی۔
بہرحال ہار ٹ آف ایشیا کا مقصد بنیادی طور پر افغانستان کے مسائل کا حل کرنا تھا ،اس لیے پاک بھارت بات چیت کو بھی اسی پس منظر اور پیرائے میں دیکھا جائے تو بہتر ہوگا۔ہارٹ آف ایشیا کانفرنس استنبول پروسیس کے تحت پہلی بار ترکی میں نومبر دوھزار گیارہ میںمنعقد ہوئی تھی، اسلام آباد میں نو دسمبر کوہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اسی سلسلے کی پانچویں کانفرنس تھی۔
جس میں گزشتہ کانفرنسوں میں طے کیے گئے اہداف پر غوروخوض کے علاوہ افغان متحارب دھڑوں کو بات چیت کی دعوت ، دہشتگردوں کی مالی امداد نہ کرنے اور ایک دوسرے پر الزامات عائد نہ کرنے کی بات کی گئی۔اسی کانفرنس نے افغان امن عمل تحت رکی ہوئی بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ اسی جگہ سے جوڑنے کی طرف اشارہ بھی کیا اور اسی کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاک بھارت مضبوط تعلقات کی بات کرتے ہوئے پاکستان سے افغانستان کے زمینی راستہ کھولنے کی اجازت بھی مانگ لی۔
2013-14کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت (اٹاری۔واہگہ کے ذریعے)تین بلین امریکی ڈالرز سے بھی کم ہے۔دونوں ممالک کو 2016 تک اسے چھ بلین امریکی ڈالرز تک لانا تھا مگر ظاہر ہے اس چیزکا دارومدار ان کے تعلقات پر منحصر ہے۔ امریکی تھنک ٹینک ووڈروولسن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تجارت 40 بلین ڈالرز تک جاسکتی ہے۔ یہ ہوجائے تواورکیا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں سمجھدار ریاستوں کے رویے میں تبدیلی آچکی ہے۔وہ اپنے مسائل اور تجارت کو الگ الگ باسکٹس میں رکھتے ہیں۔خود بھارت جس کے چین کے ساتھ سرحد اور پانی کے حوالے سے سات دہائیوں پر محیط مسائل ہیں، مگر اس بات نے ان کے تجارتی تعلقات پرکوئی منفی اثر نہیں چھوڑا۔دونوں ملکوں کے درمیان قریب 70بلین کا سالانہ ٹریڈ ہوتا ہے، جسے 2015 تک100بلین ڈالرز تک پہنچانا تھا، تاہم دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے ٹریڈ ڈیفیسٹ، اس میں گزشتہ دوسالوں میں تھوڑی سی کمی ہوئی۔ اسی طرح چین کے تائیوان اور جاپان سے کافی سارے مسائل ہیں مگر اس کے باوجود ان کے درمیان تجارت اسی طرح برقرار ہے۔
سچی بات تویہ ہے کہ دشمنیاں اور جھگڑے بھی صرف وہ ملک پال سکتے ہیں، جن کی اقتصادی حالت بہتر ہو۔ وہ الگ بات ہے کہ جن ملکوں کی اقتصادی حالت مضبوط ہوتی ہے، وہ جھگڑوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ہمیں گیٹ وے ٹوایشیا کہا جاتاہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسیوں تک کے لیے دروازے بند رکھے ہوئے ہیں۔
سوائے چین کے ہمارے کسی پڑوسی سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے ہم لینڈ لاک سی صورتحال میں ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ کشمیرسمیت تمام معاملات پر بات چیت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے علاوہ تمام ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھائے، تاکہ ملک کے اقتصادی حالات کچھ بہتر ہوسکیں۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے۔ یہ بات طے ہے کہ مستحکم افغانستان دنیا بھر کے لیے انتہائی ضروری بن چکا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے لیے تو ان حالات میں اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ پاکستان کواپنی صنعتیں چلانے کے لیے وسطی ایشیا گیس درکار ہے،جوکہ افغانستان کے رستے سے آنی ہے۔اسی طرح کچھ بجلی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے بھی افغانستان کا روٹ درکار ہے۔ ایسے حالات میں مستحکم افغانستان پاکستان کے لیے نوید مسرت ہے ، جب کہ اس کی تباہی ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔