دہشت گردی سے نجات کیسے
دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری ہے اور بڑی حد تک بظاہر امن وامان کی فضا بھی قائم ہوتی نظر آرہی ہے
دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری ہے اور بڑی حد تک بظاہر امن وامان کی فضا بھی قائم ہوتی نظر آرہی ہے حتیٰ کہ خون آشام 16 دسمبر بھی بخیریت گزرگیا جب کہ اس دن کے بارے میں نہ صرف عوام بلکہ حکمرانوں کے دل میں بھی کچھ خدشات تھے، لہٰذا تعلیمی اداروں میں اس دن تعطیل کردی گئی پرچے ملتوی کیے گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ تاریخ ہے جس دن ایک بار ہمارا ملک دولخت ہوا اور دوسری بار پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے معصوم طالب علموں کا خون اس بے دردی سے بہایا گیا کہ سنگدل سے سنگدل انسان بھی خون کے آنسو روئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ ایسے واقعات ہیں جن سے ہم جتنا بھی سبق لیتے کم تھا۔
اتنے بڑے سانحات پر ہم خون کے آنسو تو روئے مگر آیندہ کسی کا استحصال، کسی سے امتیازی اور ناروا سلوک کی پالیسی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن نہ کرسکے بلکہ آج بھی کسی نہ کسی صوبے میں احساس محرومی اور امتیازی سلوک جاری ہے، جس کے نتیجے میں نوبت صوبوں اور وفاق کے درمیان کشیدگی کی صورت میں سامنے آرہی ہے، جو وطن عزیز اور ملکی سیاست کے لیے کسی طرح بھی خوش آیند قرار نہیں دی جاسکتی۔
صوبوں کی شکایات اپنی جگہ اور وفاق کی ذمے داری اپنی جگہ مگرکہیں نہ کہیں کچھ تو ایسا ہے کہ اعتراضات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوکہ سب اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے، ذاتیات سے بلند ہوکر صرف اورصرف ملکی مفاد کے بارے میں سوچیں۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہرکوئی محب وطن ہو اپنا نقصان برداشت کرے مگر ملک پر آنچ نہ آنے دے مگر ہماری ملکی تاریخ کا یہ پہلو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہم نے حب الوطنی کے جذبے کوکبھی پروان چڑھانے کی کوشش ہی نہیں کی (وجہ اس کی وہی ہے جو ہم اپنے ہر اشارے میں واضح کرتے رہتے ہیں یعنی جاگیردارانہ نظام۔)
دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں بھی کچھ خامیاں،کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں جوکہ اتنے بڑے کام میں ہونا ناممکن نہیں یہ الگ بات ہے کہ شاید یہ کوتاہیاں دانستہ طور پر نہ ہوئی ہوں مثلاً دہشت گردی کسی ایک علاقے یا صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورا ملک اس سے دوچار ہے لہٰذا آپریشن بھی بیک وقت پورے ملک میں ہونا چاہیے تھا، اگر وسائل کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہ تھا تو بھی تمام صوبوں کو اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی کہ مرحلہ وار اس آپریشن کا دائرہ پورے ملک میں بڑھایا جائے کہ... اس صورتحال کو یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ پولیس میں جعلی اہلکاروں کے روپ میں دہشت گردوں کے بھرتی ہونے کی اطلاعات آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں مگر ایسے افسوسناک واقعے پر بھرپور ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
اس انکشاف نے یہ واضح کردیا ہے کہ باوجود تمام ترکوششوں کے دہشت گرد کہاں کہاں پہنچ گئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں ہو رہی ہیں رفتار کم اور نتائج غیر موثر ہو رہے ہیں۔ افواج پاکستان ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دہشت گردی کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے مگر ملک کے دیگر کئی ذمے دار اداروں تک میں دہشت گردوں کی رسائی یا ان کے سہولت کاروں کے باعث وہ اب تک کیفرکردار تک نہ پہنچ سکے۔
غیر محب وطن اور انتہا پسند نہ صرف براہ راست معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ یہ ملک کے بے حد حساس اداروں میں بھی موجود ہیں۔ محکمہ تعلیم، قانون، پولیس کے علاوہ دیگر اداروں میں بھی دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مبینہ طور پر انتہا پسندی کو عین اسلامی رجحان قرار دے کر فروغ دیا جا رہا ہے۔ طلبا ہر وقت غیر مساویانہ اور انتہا پسندانہ رویے کی حمایت کرتے رہتے ہیں مگر اسلام کے بنیادی اصولوں اور فلسفہ اسلامی سے ذرا واقف نہیں۔ دینیات کے اساتذہ اسلام کی تشریح اپنے مخصوص نقطہ نظر سے کرکے طلبا کے درمیان تفریق پیدا کرنے اور ان کے ذہن کو آلودہ کرنے میں مصروف ہیں۔
والدین اولاد کی روحانی تربیت سے لاپرواہ ہیں۔ بہت خیال آیا تو قرآن پڑھانے کے لیے ایک قاری کا بندوبست کرلیا اور خود مطمئن ہوگئے۔ اب وہ قاری قرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی کیا ذہنی تربیت کر رہا ہے اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔ ہمارے معاشرے اور زندگی میں اس قدر تضاد ہے کہ بچوں کے کچے ذہن اسلامی تعلیمات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ہر طرف اسلام اسلامی طرز حکومت، اسلامی فلاحی ریاست کی باتیں اور دنیاوی تعلیم کیمبرج نظام کے تحت دلائی جا رہی ہے تو طلبا اس صورتحال میں خود کو کہاں ایڈجسٹ کریں؟ ہمارے اردگرد تمام رسم و رواج مثلاً سالگرہ، مدر ڈے، فادر ڈے، شادی کی سالگرہ وغیرہ سب کچھ تو مغربی طرز پر ہو رہا ہے، ہمارے شب و روز نمائشی، غیر فلاحی کاموں میں بسر ہو رہے ہیں جب کہ صدقہ خیرات، مستحقین کی امداد وغیرہ بھی اگرکی جا رہی ہے تو وہ بھی نمائشی۔ زکوٰۃ کہاں اور کیسے خرچ ہو رہی ہے۔
اس کا کوئی جوابدہ نہیں جب کہ نظام زکوٰۃ ہی اگر درست ہو اور واقعی مستحقین تک پہنچ جائے تو پانچ دس سال کے بعد ملک میں کوئی شخص زکوٰۃ لینے والا نہ رہے مگر یہ خالص اسلامی فنڈ بھی خرد برد کردیا جاتا ہے۔
ورنہ اب تک تو ملک میں غربت کا نام و نشان نہ رہتا۔ اگر حقیقی اسلامی نظام حیات کو رائج کیا جاتا تو کیا دہشت گرد، طالبان، القاعدہ اور اب داعش جیسی انتہا پسند یہی نہیں بلکہ اسلام دشمن قوتیں معرض وجود میں آسکتی تھیں؟ آج دنیا بھر میں یہ تصور عام ہوتا جا رہا ہے کہ مسلمان کا اصل مطلب دہشت گرد ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ ہم نے دشمنان اسلام کے ہتھکنڈوں کو نہ سمجھتے ہوئے ان کی اندھی تقلید کی مغربی فلسفہ اور طرز حکمرانی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھا۔ اسلامی طرز حکمرانی کو ملوکیت و شہنشاہیت میں تبدیل کردیا اور بقول اقبال:
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
آج جو مسلمان آدھے تیتر آدھے بٹیر بنے ہوئے ہیں۔ انسانی آزادی و ترقی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے ذمے دار کسی حد تک ہمارے وہ علما بھی ہیں جو اسلام کی تشریح، اسلام دشمنوں کے ایما پر اپنے دنیاوی فوائد کی رو سے کرتے ہیں۔ جو سیاست اور فلسفہ عبادت کو الگ الگ قرار دیتے ہیں جنھوں نے یہ نہ سوچا کہ ''جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی'' کہا اور لکھا تو بہت جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے (اور حقیقت بھی یہی ہے) مگر گزشتہ دنوں ایک معاصر روزنامے میں ایک جید عالم بلکہ مفتی صاحب کا کالم پڑھا جس کا آغاز ہی یوں ہوا تھا کہ ''اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو مسلمانوں کو زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔''
جب کہ میری کم عملی اور ناقص رائے کے مطابق ہونا یوں چاہیے تھا کہ ''جو بنی نوع انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے'' کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو محض مسلمانوں تک محدود کرکے باقی انسانیت کی فلاح و ہدایت کے راستے مسدود کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ خود اسلام کی ہمہ گیریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ جب کہ اسلام وہ دین فطرت ہے جو تمام انسانیت، ہر دور، ہر علاقے کے لیے چشمہ ہدایت ہے اوپر جو میں نے جید عالم کے حوالے سے بات کی ہے اسی کے تناظر میں اسلام میں فرقہ بندیوں کا جائزہ لیجیے تو اپنے تفرقے کی حقیقت روشن ہوجائے گی۔
بات ہو رہی تھی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی کہ وہ کہاں کہاں موجود ہیں ان پر قابو پانے کے لیے ان عناصر پر نظر رکھنے کے علاوہ اس ذہنیت کو جو اسلام کو غیر ترقی یافتہ، تنگ نظر اور طبقاتی استحصال کا دین بنانے پر مصر ہیں کے خیالات کے پھیلاؤ پر بھی قدغن لگانی پڑے گی اور ان سے چھٹکارا پانا بے حد ضروری ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کوئی بھی مذہب اسلام سے زیادہ ہر دور کا ساتھ دینے والا، انسانی ترقی و فلاح و بہبود، مساوات انسانی کا عملی مظاہرہ کرنے والا دین نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ تاریخ ہے جس دن ایک بار ہمارا ملک دولخت ہوا اور دوسری بار پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے معصوم طالب علموں کا خون اس بے دردی سے بہایا گیا کہ سنگدل سے سنگدل انسان بھی خون کے آنسو روئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ ایسے واقعات ہیں جن سے ہم جتنا بھی سبق لیتے کم تھا۔
اتنے بڑے سانحات پر ہم خون کے آنسو تو روئے مگر آیندہ کسی کا استحصال، کسی سے امتیازی اور ناروا سلوک کی پالیسی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن نہ کرسکے بلکہ آج بھی کسی نہ کسی صوبے میں احساس محرومی اور امتیازی سلوک جاری ہے، جس کے نتیجے میں نوبت صوبوں اور وفاق کے درمیان کشیدگی کی صورت میں سامنے آرہی ہے، جو وطن عزیز اور ملکی سیاست کے لیے کسی طرح بھی خوش آیند قرار نہیں دی جاسکتی۔
صوبوں کی شکایات اپنی جگہ اور وفاق کی ذمے داری اپنی جگہ مگرکہیں نہ کہیں کچھ تو ایسا ہے کہ اعتراضات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوکہ سب اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے، ذاتیات سے بلند ہوکر صرف اورصرف ملکی مفاد کے بارے میں سوچیں۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہرکوئی محب وطن ہو اپنا نقصان برداشت کرے مگر ملک پر آنچ نہ آنے دے مگر ہماری ملکی تاریخ کا یہ پہلو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہم نے حب الوطنی کے جذبے کوکبھی پروان چڑھانے کی کوشش ہی نہیں کی (وجہ اس کی وہی ہے جو ہم اپنے ہر اشارے میں واضح کرتے رہتے ہیں یعنی جاگیردارانہ نظام۔)
دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں بھی کچھ خامیاں،کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں جوکہ اتنے بڑے کام میں ہونا ناممکن نہیں یہ الگ بات ہے کہ شاید یہ کوتاہیاں دانستہ طور پر نہ ہوئی ہوں مثلاً دہشت گردی کسی ایک علاقے یا صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورا ملک اس سے دوچار ہے لہٰذا آپریشن بھی بیک وقت پورے ملک میں ہونا چاہیے تھا، اگر وسائل کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہ تھا تو بھی تمام صوبوں کو اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی کہ مرحلہ وار اس آپریشن کا دائرہ پورے ملک میں بڑھایا جائے کہ... اس صورتحال کو یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ پولیس میں جعلی اہلکاروں کے روپ میں دہشت گردوں کے بھرتی ہونے کی اطلاعات آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں مگر ایسے افسوسناک واقعے پر بھرپور ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
اس انکشاف نے یہ واضح کردیا ہے کہ باوجود تمام ترکوششوں کے دہشت گرد کہاں کہاں پہنچ گئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں ہو رہی ہیں رفتار کم اور نتائج غیر موثر ہو رہے ہیں۔ افواج پاکستان ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دہشت گردی کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے مگر ملک کے دیگر کئی ذمے دار اداروں تک میں دہشت گردوں کی رسائی یا ان کے سہولت کاروں کے باعث وہ اب تک کیفرکردار تک نہ پہنچ سکے۔
غیر محب وطن اور انتہا پسند نہ صرف براہ راست معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ یہ ملک کے بے حد حساس اداروں میں بھی موجود ہیں۔ محکمہ تعلیم، قانون، پولیس کے علاوہ دیگر اداروں میں بھی دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مبینہ طور پر انتہا پسندی کو عین اسلامی رجحان قرار دے کر فروغ دیا جا رہا ہے۔ طلبا ہر وقت غیر مساویانہ اور انتہا پسندانہ رویے کی حمایت کرتے رہتے ہیں مگر اسلام کے بنیادی اصولوں اور فلسفہ اسلامی سے ذرا واقف نہیں۔ دینیات کے اساتذہ اسلام کی تشریح اپنے مخصوص نقطہ نظر سے کرکے طلبا کے درمیان تفریق پیدا کرنے اور ان کے ذہن کو آلودہ کرنے میں مصروف ہیں۔
والدین اولاد کی روحانی تربیت سے لاپرواہ ہیں۔ بہت خیال آیا تو قرآن پڑھانے کے لیے ایک قاری کا بندوبست کرلیا اور خود مطمئن ہوگئے۔ اب وہ قاری قرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی کیا ذہنی تربیت کر رہا ہے اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔ ہمارے معاشرے اور زندگی میں اس قدر تضاد ہے کہ بچوں کے کچے ذہن اسلامی تعلیمات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ہر طرف اسلام اسلامی طرز حکومت، اسلامی فلاحی ریاست کی باتیں اور دنیاوی تعلیم کیمبرج نظام کے تحت دلائی جا رہی ہے تو طلبا اس صورتحال میں خود کو کہاں ایڈجسٹ کریں؟ ہمارے اردگرد تمام رسم و رواج مثلاً سالگرہ، مدر ڈے، فادر ڈے، شادی کی سالگرہ وغیرہ سب کچھ تو مغربی طرز پر ہو رہا ہے، ہمارے شب و روز نمائشی، غیر فلاحی کاموں میں بسر ہو رہے ہیں جب کہ صدقہ خیرات، مستحقین کی امداد وغیرہ بھی اگرکی جا رہی ہے تو وہ بھی نمائشی۔ زکوٰۃ کہاں اور کیسے خرچ ہو رہی ہے۔
اس کا کوئی جوابدہ نہیں جب کہ نظام زکوٰۃ ہی اگر درست ہو اور واقعی مستحقین تک پہنچ جائے تو پانچ دس سال کے بعد ملک میں کوئی شخص زکوٰۃ لینے والا نہ رہے مگر یہ خالص اسلامی فنڈ بھی خرد برد کردیا جاتا ہے۔
ورنہ اب تک تو ملک میں غربت کا نام و نشان نہ رہتا۔ اگر حقیقی اسلامی نظام حیات کو رائج کیا جاتا تو کیا دہشت گرد، طالبان، القاعدہ اور اب داعش جیسی انتہا پسند یہی نہیں بلکہ اسلام دشمن قوتیں معرض وجود میں آسکتی تھیں؟ آج دنیا بھر میں یہ تصور عام ہوتا جا رہا ہے کہ مسلمان کا اصل مطلب دہشت گرد ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ ہم نے دشمنان اسلام کے ہتھکنڈوں کو نہ سمجھتے ہوئے ان کی اندھی تقلید کی مغربی فلسفہ اور طرز حکمرانی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھا۔ اسلامی طرز حکمرانی کو ملوکیت و شہنشاہیت میں تبدیل کردیا اور بقول اقبال:
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
آج جو مسلمان آدھے تیتر آدھے بٹیر بنے ہوئے ہیں۔ انسانی آزادی و ترقی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے ذمے دار کسی حد تک ہمارے وہ علما بھی ہیں جو اسلام کی تشریح، اسلام دشمنوں کے ایما پر اپنے دنیاوی فوائد کی رو سے کرتے ہیں۔ جو سیاست اور فلسفہ عبادت کو الگ الگ قرار دیتے ہیں جنھوں نے یہ نہ سوچا کہ ''جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی'' کہا اور لکھا تو بہت جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے (اور حقیقت بھی یہی ہے) مگر گزشتہ دنوں ایک معاصر روزنامے میں ایک جید عالم بلکہ مفتی صاحب کا کالم پڑھا جس کا آغاز ہی یوں ہوا تھا کہ ''اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو مسلمانوں کو زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔''
جب کہ میری کم عملی اور ناقص رائے کے مطابق ہونا یوں چاہیے تھا کہ ''جو بنی نوع انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے'' کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو محض مسلمانوں تک محدود کرکے باقی انسانیت کی فلاح و ہدایت کے راستے مسدود کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ خود اسلام کی ہمہ گیریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ جب کہ اسلام وہ دین فطرت ہے جو تمام انسانیت، ہر دور، ہر علاقے کے لیے چشمہ ہدایت ہے اوپر جو میں نے جید عالم کے حوالے سے بات کی ہے اسی کے تناظر میں اسلام میں فرقہ بندیوں کا جائزہ لیجیے تو اپنے تفرقے کی حقیقت روشن ہوجائے گی۔
بات ہو رہی تھی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی کہ وہ کہاں کہاں موجود ہیں ان پر قابو پانے کے لیے ان عناصر پر نظر رکھنے کے علاوہ اس ذہنیت کو جو اسلام کو غیر ترقی یافتہ، تنگ نظر اور طبقاتی استحصال کا دین بنانے پر مصر ہیں کے خیالات کے پھیلاؤ پر بھی قدغن لگانی پڑے گی اور ان سے چھٹکارا پانا بے حد ضروری ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کوئی بھی مذہب اسلام سے زیادہ ہر دور کا ساتھ دینے والا، انسانی ترقی و فلاح و بہبود، مساوات انسانی کا عملی مظاہرہ کرنے والا دین نہیں ہے۔