بڑا دشمن بنا پھرتا ہے

انسان کتنا کٹھور اور سخت قلب واقع ہوا ہے کہ اپنی آنکھوں سے نجانے کیسے کیسے سانحات کو ہوتا دیکھتا ہے


Abid Mehmood Azam 1 December 17, 2015

انسان کتنا کٹھور اور سخت قلب واقع ہوا ہے کہ اپنی آنکھوں سے نجانے کیسے کیسے سانحات کو ہوتا دیکھتا ہے اور سب کچھ نہ صرف برداشت کرتا ہے، بلکہ بہت جلد بھول بھی جاتا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے سے لے کر بند کرنے تک بہت سے ایسے دل دوز مواقعے آتے ہیں، جن کو دیکھ کر انسان کی روح تک کانپ جاتی ہے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد سب کچھ اس کے ذہن سے محو ہوجاتا ہے، مگر کچھ واقعات اس قدر المناک ہوتے ہیں، جن کو بھلانا انسان کے بس میں ہوتا ہی نہیں ہے۔

یہ واقعات ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ انسان انھیں اپنی سوچ سے کھرچنے کی لاکھ کوشش کرے بھی تو ناکام ٹھہرتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی ان دلخراش واقعات کی یاد آنکھیں نم اور دل رنجیدہ کرنے کو کافی ہوتی ہے۔ انسان انتہائی خوشگوار موڈ میں بھی بیٹھا ہو تو ان واقعات کا ہلکا سا خیال ہی انسان کی ساری خوشیوں کو اداسیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔

گزشتہ سال پشاور میں پیش آنے والا بچوں کی خونریزی کا بدترین سانحہ بھی اسی نوع کا ایک واقعہ ہے، جوایک سال گزرنے کے باوجود سوچ میں کانٹے کی طرح پیوست ہے۔ بھلانے کی تمام تگ ودو کے باوجود بھی تاریخ انسانیت میں پیش آنے والے اس بدترین واقعے کی ہولناکی ذہن میں سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی ہے، اگرچہ اس سانحے کے کئی ذمے داران انجام کو پہنچ چکے، لیکن سینے میں دھڑکتا دل رکھنے والے انسانوں کے زخم ابھی تک ہرے ہیں۔

ایک سال بیت گیا، لیکن یوں لگتا ہے، جیسے خون کی یہ ہولی کل ہی کھیلی گئی ہے۔جب جب بچوں کی لاشوں کی تصاویر نظروں کے سامنے آئیں، تب تب آنکھیں بہہ پڑیں، واقعہ ہی کچھ ایسا تھا۔ پشاور میں بے گناہ ومعصوم بچوں کو بلاوجہ بیہمانہ قتل کرکے بدترین درندگی کی مثال قائم کی گئی۔ جوکچھ بچوں کے ساتھ ہوا، وہ انسانی عقل سے ماورا ہے، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ انسانیت کی روح کو بے چین اور شرمندہ کردیا۔خون میں لت پت بچوں کی کتابوں، جوتوں اوران کی اسکول یونیفارم کے مناظر نے پاکستان تو کیا پوری دنیا میں تمام والدین کو تڑپا دیا۔

16دسمبر کو پشاور میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ نے ہر شخص کو دکھ، درد، تکلیف، غم اور پریشانی میں مبتلا کیا۔ سانحے کے بعد کوئی فرد بچوں کے قاتلوں پر چار حرف بھیجے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس دہشتگردی کے سامنے جارحیت، درندگی، سفاکیت اور حیوانیت جیسے الفاظ بھی بہت چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔

اس قدر وحشیانہ رویہ، اس قدر شقی القلبی کہ انسان ایسے حیوان نما انسانوں کی انسانیت پر بھی حیرت آشنا ہو جائے۔ مشرق و مغرب سے لے کر شمال وجنوب تک ہر ملک، ہر مذہب اور ہر نسل کا ہر فرد حیران وپریشان ہوا کہ آخر ان بے گناہ ونہتے بچوں کا قصورکیا تھا؟ انھیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ اس واقعے کی دردناکی نے ہر اس شخص کو شدید صدمے سے دوچارکیا، جو دماغ میں عقل اور پہلو میں دل رکھتا ہے۔اس سانحے کی اندوہناکی کسی بھی پیمانے سے ماپی نہیں جاسکتی۔ یہ ایک ایسا قومی سانحہ تھا، جس کی کوئی نظیر اور مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔

پوری دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ مسلمانوں کا ملک پاکستان کیسی دھرتی ہے، جہاں بغیر کسی جرم کے کھلنے سے پہلے ہی پھولوں کو مسل دیا گیا، جہاں اسلام کے حکم ''علم حاصل کرو'' کے مطابق الف، ب، پ پڑھنے کے ''جرم'' میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بے گناہ و نہتے بچوں کو ہمیشہ کی نیند سلادیا گیا۔کسی نے بچوں کے ساتھ اس قسم کی درندگی کے وقوع کا سوچا تک نہیں تھا۔ یہ بچے تو ابھی ان کھلی کلیوں کی مانند تھے۔ روشنی کے ننھے چراغوں کو اپنی روشنی پھیلانے سے پہلے ہی گل کردیا گیا۔

قاتل ان معصوموں کے خون کی ہولی کھیلتے رہے اور درندگی کا یہ کھیل اس وقت تک جاری رہا، جب تک قاتلوں میں درندگی کا کھیل کھیلنے کی سکت باقی رہی۔ کہتے ہیں بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق چاہے کسی ملک، مذہب یا نسل سے ہو، سینے میں انسانی دل رکھنے والے شخص کو ان پر پیار آیا ہی کرتا ہے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی جدا نظر آیا۔ جو بچے قوم کا مستقبل اور اپنے والدین کی امنگوں کا محور تھے، حملہ آوروں نے اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے ان کو درندگی کا نشانہ بناڈالا، کیونکہ قاتل بچوں کی تعلیم سے خوفزدہ تھے، بچوں سے ڈرتے تھے، جب کہ بچے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرتے ہوئے زبان حال سے کہہ رہے تھے:

میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے

پاکستان کو ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کے انتہائی دہشت ناک عفریت کا سامنا ہے، جس سے مساجد محفوظ ہیں نہ درسگاہیں، چرچ محفوظ ہیں نہ امام بارگاہیں، بازار محفوظ ہیں نہ شاہرائیں، اسپتال محفوظ ہیں نہ دفاتر، مشائخ محفوظ ہیں نہ علمائے کرام، عورتیں محفوظ ہیں نہ بچے، مائیں محفوظ ہیں نہ بیٹیاں، باپ محفوظ ہیں نہ بیٹے، اسکول محفوظ ہیں نہ کالج، مدارس محفوظ ہیں نہ یونیورسٹیاں۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ درندگی اسلام کے نام پر کی جاتی ہے، حالانکہ اسلام تو ہر ظلم کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔

جنگ میں بھی دشمن کے بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر ہاتھ اْٹھانے، حتیٰ کہ سرسبز باغات اور ہرے بھرے کھیت بھی اْجاڑنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہ لوگ بے گناہ لوگوں کے قتل کو اسلام کی خدمت خیال کررہے ہیں، جب کہ اسلام کے نام پر بے گناہ لوگوں کی جان لینے اور ان کی حمایت کرنے والے جاہل و ناپختہ مسلمانوں کی وجہ سے آج دنیا اسلام اور مسلمانوں سے متنفرہونے لگی ہے۔

یہ امر نہایت خوش آیند ہے کہ سانحۂ پشاور کے بعد ساری قوم اتحاد و اتفاق کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر نظر آئی۔ قومی رہنما اپنے تمام اختلافات اور جھگڑوں کو ایک طرف رکھ کر اس قومی سانحے کی مذمت پر یکسو ہوئے۔ فوج، حکومت، علمائے کرام اورعوام نے مل کر دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کرنے کا اعلان کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال کے بعد ملک میں دہشتگردی میں کافی حد تک کمی واقع ہوچکی ہے، لیکن ابھی مزید بہت جدوجہد کی ضرورت ہے۔

مکمل طور پر امن کے قیام اور دہشتگردی کی بیخ کنی اسی صورت میں ممکن ہے، جب پوری قوم مستقل طور پر بیدار و متحد ہوکر دہشتگردی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ ملک میں تعلیم کو فروغ دے کر جہالت کا خاتمہ کیا جائے، کیونکہ دہشتگردی جہالت سے جنم لیتی ہے اور جہالت کا مقابلہ تعلیم سے کیا جاسکتا ہے۔ قوم کو حالات کے اس گرداب سے نکالنے کے لیے علمائے کرام بھی کھل کر میدان میں آئیں اور قوم کے سامنے کھوٹے اور کھرے کی تمیز بالکل واضح کردیں۔ جب تک معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمے داری ادا نہیں کرے گا، اس وقت تک قوم کا اس گرداب سے نکلنا مشکل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں