کم جونگ اِلکوریا کا سپوت…
18دسمبر ورکرز پارٹی آف کوریا کے جنرل سیکریٹری اور عوامی جمہوریہ کوریا کے انقلابی صدرکم جونگ کا چوتھا یومِ وفات ہے
18دسمبر ورکرز پارٹی آف کوریا کے جنرل سیکریٹری اور عوامی جمہوریہ کوریا کے انقلابی صدرکم جونگ کا چوتھا یومِ وفات ہے، 1994میں کامریڈ کم ال سنگ کے بعد جس بالشویک نے کوریائی انقلاب کا عَلم بلند رکھتے ہوئے امریکی استعمار اوراس کے گماشتوں کی سازشوں کا پامردی سے مقابلہ کیا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ کم ال سنگ کے بہادر بیٹے اور مادرِ کوریا کے فرزند کم جونگ ال ہی تھے جنھیں جولائی 1994میں عوامی جمہوریہ کوریا کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔
انھوں نے اپنی بے پناہ قوتِ تخلیق و تدبر سے بالشویک روایات کی پاسداری کرتے ہوئے، کم ال سنگ کے جوچے نظریے میں '' سونگن'' نظریے کا اضافہ کیا اور یوں مارکسزم، لینن ازم کے فلسفے کو مزید مالا مال کیا، جس کی بدولت آج کوریائی عوام ہر قسم کی تجاوزکاری کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔
اس وقت سے لے کر آج تک بورژوا ڈیموکریسی کے نام نہاد نظریہ دانوں ،دانشوروں اوران کی کاسہ لیسی کرنے والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے تھے اور یہ مروڑکوئی جمہوریت کے صدمے سے نہیں بلکہ ''یانکی سامراج'' المعروف امریکی امپریلزم سے ملنے والے ڈالرز کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدہضمی کا نتیجہ تھے ۔کوئی اسے'' کمیونسٹ شہنشاہیت'' قرارد دیتے ہوئے سرمائے کی گلیوں میں سربگریباں تھا توکوئی ''خاندانی کمیونزم''کا رونا روتے ہوئے کاسۂ گدائی میں نوحے لیے پھر رہا تھا ۔کوئی سامراج کے غم میں برابرکا شریک ہوتے ہوئے دھندلی آنکھوں سے ''جمہوریت'' نامی اس چڑیا کو فضاؤں میں ڈھونڈنے کی سعیٔ ناکام کر رہا تھا جو حقیقت میں خود کبھی مغرب کے ایوانوں میں بھی نظر نہیں آئی کہ وہاں توخیر سے سرمائے کے مردار خورگِدھوں اور خوں آشام عقابوں کا بسیرا ہے ۔
کوریاکی وجۂ شہرت نہ تو اس کے فلک بوس پہاڑ اور حسین و شاداب وادیاں ہیں اور نہ ہی اس کے خوبصورت دریا و آبشار، بلکہ اس کی اصل وجۂ شہرت وتکریم وہ سرخ سورج ہے جوکوہِ پیکڈوکی دو ہزار سات سو پچاس میٹر بلند چوٹی سے طلوع ہوا تھا ۔یہ محنت کش عوام اور مظلوم قوم کے اس انقلاب کا سورج ہے ،وہ انقلاب جس نے 1945میںجاپانی سامراج کو طویل گوریلا جنگ کے ذریعے خاک چاٹنے پر مجبورکیا اور1953میں اس وقت امریکی شہنشاہیت کو عبرتناک شکست سے دوچارکیا جب برٹش ایمپائرکا سورج غروب ہونے کے بعد سرمائے کا یہ نیا جوان درندہ دنیا کے مظلوموں کا لہو پینے اورہڈیاں چبانے نکلا تھا۔اس انقلاب کی رہنمائی وقیادت کوریا کے بے مثال بالشویک کم ال سنگ نے کی تھی ۔
یہ 1942کے دن تھے ،کم ال سنگ اور ان کے کمیونسٹ گوریلے اسی کوہِ پیکدو میں جاپانی استعمارکے خلاف گوریلا جنگ میں مصروف تھے اور یہ پہاڑ انقلابیوں کا مسکن تھا۔ اسی پہاڑ کے ایک گوریلا کیمپ میں 16فروری1942کو عظیم کمیونسٹ مجاہدہ اور کم ال سنگ کی شریک حیات کامریڈ کم جونگ سنگ نے ایک ننھے انقلابی کو ایسے حالات میں جنم دیا جب توپوں کی گھن گرج اور لاکھوں سامراجی فوجیوں کی بندوقوں اور بموں کی آوازوں سے کان پھٹے جا رہے تھے ۔
یہی بچہ بڑا ہو کر کوریائی عوام کا محبوب قائد کم جونگ اِل کے نام سے معروف ہوا ۔ کم جونگ ال نے انقلاب کی گود میں پرورش پائی،اکثر جب وہ اپنی مجاہدہ ماں کے کندھوں پر سوار ہوتا تھا تو ماں کی بندوق کی سرد نال اس کے گالوں سے کھیل رہی ہوتی تھی ۔ جب ذرا بڑے ہوئے تو بارودکی بو ان کے لیے بالکل ایک مانوس شے تھی اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ انھوں نے آنکھ ہی اس میدانِ کارزار میں کھولی تھی جہاں ظالم و مظلوم کے درمیان بلا کا رن پڑا تھا ۔
اس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے مجاہد والدین کو اپنا سب کچھ تج کر انقلابی جدوجہد اور عوام کی خدمت میں مصروف پایا تھا ۔ کامریڈ نے محض 7,8سال کی عمر میں کوریائی محبانِ وطن کو عظیم رہنما کامریڈ کم ال سنگ کی قیادت میں امریکی تجاوزکاروں سے نبرد آزما ہوتے اور انھیںتاریخ کی بد ترین شکست سے دوچار کرتے دیکھا تھا ۔یہی انقلابی جہد اور سامراج دشمنی ہمیشہ کے لیے ان کے شعورکا حصہ بن گئی اور وہ ساری عمر اس کا عملی نمونہ بنے رہے۔
1960میں کامریڈ نے ابتدائی دس سالہ تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد چار سال تک وہ پیانگ یانگ کی کم ال سنگ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کرتے رہے۔ انھوںنے مختلف سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ تمام فوجی نظریات اور فنونِ حرب میں بھی کمال کی مہارت حاصل کی ۔وہ دنیا کی تقریباََ تمام بڑی جنگوں اور ان سے حاصل ہونے والے تجربات کی چلتی پھرتی انسائیکلو پیڈیا کہلاتے تھے اوراکثر اپنے ساتھیوں کو اس سے مستفید کرتے رہتے تھے ۔ان کی یہی مہارت بعد ازاں عظیم ''سونگن نظریے'' کی بنیاد بنی جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آج عوامی جمہوریہ کوریا ایک ناقابلِ شکست اور باوقار سوشلسٹ ریاست کی حیثیت سے زندہ و پایندہ ہے جس سے امریکی سامراج اور خطے میں اس کے حاشیہ بردار لرزہ بر اندام ہیں ۔
اپریل1964سے 1973تک وہ ورکرز پارٹی آف کوریا کی مرکزی کمیٹی کے ایک شعبے میں نگراں افسر،ڈپٹی ڈائریکٹر اور بطور ڈائریکٹر خدمات ادا کرتے رہے ۔ ستمبر1973میں انھیں مرکزی کمیٹی کا سیکریٹری اور فروری1974میں سیاسی کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا ۔اپنی خدمات اور انقلابی کارکردگی کی بنیاد پرکامریڈ کم جونگ ال کو اکتوبر 1980میں ہونے والی ورکرز پارٹی کی چھٹی کانگریس میں مرکزی کمیٹی کے پولٹ بیوروکارکن، مرکزی کمیٹی کا سیکریٹری اور مرکزی کمیٹی کے ملٹری کمیشن کا رکن منتخب کرکے پارٹی اور قوم کا قائد چُن لیا گیا۔
فروری 1982سے کامریڈ کم جونگ ال عوامی جمہوریہ کوریا کی ساتویں ، آٹھویں اور نویں سپریم پیپلز اسمبلی کے رکن بنے اور مئی1990میں انھیں عوامی جمہوریہ کوریا کے نیشنل ڈیفنس کمیشن کا اول وائس چیئر مین منتخب کیا گیا ۔ دسمبر1991میں کامریڈ کورین پیپلزآرمی کے سپریم کمانڈر مقررکیے گئے اور جولائی 1994میں کوریا کے بے مثال گوریلا لیڈر اور عوامی جمہوریہ کوریا کے صدر کامریڈ کم ال سنگ کا انتقال ہوا تو کم جونگ ال کو مرکزی کمیٹی نے عوامی جمہوریہ کوریا کا صدر منتخب کر لیا ۔
وہ 17سال تک سوشلسٹ کوریا کی قیادت کرتے رہے ۔ انھوں نے نہ صرف کوریا کے انقلاب کو اپنے محور پر رواں دواں رکھا بلکہ ایک ایسے عہد میں ایک خود دار اور باوقار سوشلسٹ انقلاب کی حاصلات کو برقرار رکھا جب امریکی سامراج اپنی فوجوں کے جلو میں دنیا بھر میں قوموں کی آزادی اور وقار کا مذاق اڑاتا پھر رہا تھا ۔
کم جونگ ال کے سونگن عہد میں عوامی جمہوریہ کوریا نے کامیابی و کامرانی کی نت نئی منزلیں طے کی ہیں جو ان کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری ہے ۔بہادر کوریائی عوام آج سامراجی ڈاکوؤں کے سامنے سینہ سپر ہیں اور ان کے پاس کم جونگ ال کے لفظوں میں ایک زبردست ہتھیار ہے '' ہماری بندوق ،طبقے کی بندوق اور انقلاب کی بندوق ہے اور سامراج کے خلاف طبقاتی جدوجہد میں یہ انتہائی طاقتور ہتھیار ہے۔ ''
آج اس خطے میں انقلابی قوتیں کمزور سہی مگر وہ آگے کی جانب پیشرفت کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں عوامی جمہوریہ کوریا بے شک نمایاں کردار ادا کرے گا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج اس خطے میں کوریا کا وہی کردار ہے جو لاطینی امریکا میں کیوبا ادا کر رہا ہے۔