بُک شیلف
ان دونوں مجموعوں میں شامل باقی ناولٹ بھی ایسے ہی دیگرمعاشرتی موضوعات پر مبنی ہیں
جب ہندوستان فتح ہوگا
مصنف: توصیف احمد خان،قیمت:300روپے
ناشر:نگارشات،24 مزنگ روڈ لاہور
حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا، ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہندوستان کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا، یقینا تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا اوراللہ مجاہدین کوفتح دے گا حتیٰ کہ وہ سندھ کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میںپائیں گے۔
ہمارے یہاں عامۃ الناس میں سے بہت کم غزوہ ہند کی بابت جانتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام کو فروعی اختلافات بیان کرنے سے فرصت نہیںچہ جائیکہ وہ رسول اقدس ﷺ کی تعلیمات کی روشنی کو عام لوگوں تک پہنچائیں، مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں امید و ہمت دلائیں۔
زیرنظرکتاب کی صورت میں علمائے کرام کی اسی کوتاہی کی تلافی کی گئی ہے۔ مصنف قریباً نصف صدی پر محیط طویل صحافتی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیاہے۔ پہلا اور سب سے اہم حصہ غزوہ ہند کے بارے میں احادیث مبارکہ سے متعلق ہے۔ اس میں غزوہ کے ثمرات اور شہداکے مقام کا بھی ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں کچھ بزرگان دین کی آراموجود ہیں ، تیسرے حصے میں ہرمجدون کی جنگ اور امام مہدی کا احادیث مبارکہ کی روشنی میں ذکر ہے۔
مجدون کی جنگ کا لوگوں کی اکثریت کو علم نہیں ہے۔ یہ اسرائیل میں لڑی جائے گی اور اس میں مسلمان اور عیسائی متحد ہوں گے۔ کتاب کے چوتھے حصے میں عظیم روحانی شخصیت حضرت نعمت شاہ ولی کی ساڑھے آٹھ سو برس قبل کی گئی پیش گوئیاں درج کی گئی ہیں جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں۔ اس میں بھارت کے ساتھ جنگ کے علاوہ تیسری عالمی جنگ کا منظر بھی موجود ہے اور آخری یعنی پانچویں حصے میں پاکستان کے بارے میں بعض روحانی شخصیات کے تاثرات موجود ہیں۔ آج جب بستی بستی ، وادی وادی ، صحرا صحرا مسلمانوں کو خون بہایاجارہاہے، ایسے میں ایسی کتابیں ہی روشنی اور ہمت عطاکرتی ہیں۔
امریکا، ایک انوکھے ملک کا منفرد سفرنامہ
مصنف: سیدفیروزشاہ گیلانی،قیمت:300 روپے
ناشر: راز پرنٹرز،18 نابھہ روڈ پرانی انارکلی لاہور
کسی بھی بڑے ملک کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرکے سفرنامہ لکھنا خاصا کٹھن کام ہے، اس کی مثال ایسے ہوتی ہے جیسے کچھ اشخاص اندھیرے میں ہاتھوں سے ٹٹول کر ہاتھی کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہوں، ہر ایک کا تاثر اور اندازبیان جدا ہوتاہے۔ امریکا کے بارے میں بھی بہت سفرنامے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں۔
زیرنظر سفرنامہ مصنف کے چاراسفار کا احوال ہے جس میں انھیں امریکا سے متعلق ایسے مواقع بھی حاصل ہوئے جو کسی عام سیاح کو میسر نہیں ہوتے۔ سفرنامہ نگار بنیادی طورپر ایک وکیل ہیں اس لئے انھوں نے امریکا کو اسی اعتبار سے دیکھا، سمجھا اور پرکھاہے۔
انھوں نے امریکا کی سیاسی ، انتظامی اور عدالتی ساخت کا باریک بینی سی جائزہ لیاہے جبکہ امریکی تاریخ اور آزادی کی جدوجہد سے جڑے ہوئے واقعات کو بھی شامل کیاہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کے ذریعے قارئین کے سامنے یہ حقیقت پورے دلائل وشواہد کے ساتھ رکھی ہے کہ آزادی اور خودمختاری کے بغیر کوئی قوم اپنی تمام ترصلاحیتیں بروئے کار نہیں لاسکتی۔ قارئین یقینا اسے ایک منفردسفرنامہ پائیں گے۔
نام... 6ستمبر1965ء ، وہ سترہ دن
مرتبین: امرشاہد/ پروفیسرسیدامیرکھوکھر،قیمت:600 روپے
ناشر:بک کارنر، جہلم پاکستان
پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ سمجھتاہے کہ جنگ ستمبر 1965ء میں فتح پاکستان کو نہیں بھارت کو ہوئی تھی، یہ وہی طبقہ ہے جو تاریخ کو درست کرنے کے نام پر ہروہ بات غلط سمجھتاہے جو پاکستانیوں اور مسلمانوں کی کہی یا لکھی ہوئی ہو اور ہراس بات کو مستند سمجھتاہو جو پاکستان سے بیر رکھنے والوں کی کہی یا لکھی ہوئی ہو۔ زیرنظرکتاب جنگ ستمبرکے پچاس برس مکمل ہونے پر شائع کی گئی ہے جب بھارت جنگ ستمبر میں اپنی کامیابی کے دعوے کررہاہے اور پاکستان کا مذکورہ بالا مخصوص طبقہ بھی بھارت کی آواز میں اپنی آواز شامل کررہاہے۔
اس کتاب میں پاکستان کی فتح پر سوالات اٹھانے والوںکو مفصل اور مدلل مضامین، انٹرویوز کی صورت میں جواب دیاگیاہے جبکہ درجنوں تصاویر اور ثبوت بھی شامل کئے گئے ہیں جو ظاہرکرتی ہیں کہ پاکستانی فوج کے بہادرجوانوں نے بھارتی حملے کو کیسے الٹ دیا اور پھر جواب میں مختلف محاذوں میں کئی سو کلومیٹر کا علاقہ کافتح کرلیاتھا۔
کتاب میں ائیرمارشل(ر) ظفرچودھری، نیول کموڈور(ر) طارق مجید، بریگیڈیئر (ر) رب نوازبھٹی، کرنل(ر) عبدالرئوف مگسی، کرنل(ر) ایل ے ٹریسلر، لیفٹیننٹ کرنل(ر) ارشدنذیر، لیفٹیننٹ کمانڈر ایم وائی صدیقی اور گوہر ایوب خان کے انٹرویوز شامل ہیں۔ جنگ ستمبر کی عظیم الشان فتح کی مفصل تاریخ پر اردوزبان میں کوئی قابل ذکر کتاب نہیں تھی، اس کتاب نے اس ضرورت کو پورا کردیاہے۔
آواز
شاعر: حسین مجروح،صفحات: 224،قیمت: 400 روپے
ناشر: رنگ ِادب پبلی کیشنز ، اردو بازار ، کراچی
حسین مجروح اردو کے معرو ف شاعر اور صاحب ِ طرز ادیب ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ان کی شاعری کامجموعہ ہے جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔اس سے پہلے ان کا پہلا مجموعہ کلام ''کشید''کے عنوان سے چودہ برس قبل منظر عام پر آیا تھا اور یہ ان کا دوسر ا مجموعہ کلام ہے۔ حسین مجروح کوبات کہنے کا ہنر آتا ہے۔
وہ بڑی سلیقہ مندی سے اپنے جذبات و احساسات کو شعرو ں کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ان کی غزلیں کلاسیکیت اور جدیدیت کے خوبصورت امتزاج کی ایسی دلآویز شبیہ بناتی ہیں کہ قاری اس کے سحر میں کھو جاتاہے ۔مضامین کا تنوع ، لہجے کا بانکپن ، خیالات کی ندرت ، لفظیات ، ترکیبات اور تشبیہات کا اچھوتا پن ، فکر کی تازگی ان کی شاعری کے عناصر ِ ترکیبی ہیں ۔
وہ اردو کی کلاسیکی روایت سے انحراف کیے بغیر روح عصر کو اپنے ہمراہ رکھتے ہوئے اپنے لیے ایک الگ راستہ تلاشتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں عشق و محبت کے جذبات میں گندھے اشعار رومانویت کی ایسی خوشگوار فضا پیدا کرتے ہیں کہ جس میں ایک وقار اور ایک شان نظر آتی اور ان میں جھلکتا سماجی شعور بھی صاف طورپر دکھائی دیتا ہے ۔
ان کے کلام میں غنائیت عجیب طرح کی جلترنگ پیدا کرتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ حسین مجروح کی شخصیت اور شاعری دونوں ہی ''چیزے دیگرے '' کے ذیل میں آتی ہیں ۔ جس طرح آج سے چودہ سال پہلے ان کے اولین شعری مجموعے ''کشید'' نے اہل فکر و نظر کو چونکا دیا تھا اسی طرح دوسرا مجموعہ کلام بھی اہل ادب کی توجہ کا مرکز بنے گا اور ہاتھوں ہاتھ لیاجائے گا ۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جومعیار انہوںنے اپنے پہلے شعری مجموعے میں قائم کیا تھا دوسرا مجموعہ اس سے یقینی طورپر دو ہاتھ آگے ہے یو ںان کے تخلیقی سوتے چودہ سال کے طویل وقفہ میں خشک ہونے کے بجائے مزید سرسبز و شاداب ہوئے ہیں ۔ملک کے منفرد مصور اور خطاط اسلم کمال نے کتاب کے سرورق نے اس کے ظاہری حسن کو بھی آشکار کردیا ہے ۔بلا مبالغہ یہ ایک معیاری شعری مجموعہ ہے سو اس کے خالق حسین مجروح کے ساتھ اس کے ناشر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوںنے اردو کے صاحبان ذوق کو اس خوبصورت شعری مجموعے کا تحفہ دیا۔
امن کی تلاش ۔ ۔ ۔ ضربِ عضب تک
مصنف:عرفان طارق،قیمت :380روپے،
پبلشر:ایم ٹی ایم پبلی کیشنز،اسلام آباد
جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہے کہ محمد عرفان طارق نے ملکِ عزیز کے امن اور سلامتی کی جانب سفر کی روداد قلم بند کی ہے۔پہلے کچھ محرکات کا ذکر ہے جس میں نائن الیون کے بعد افغانستان کی صورت حال اور ڈیورنڈلائن کے تاریخی پس منظر پر بات کی گئی ہے۔افغان جہاد کے مشہور کردار اسامہ بن لادن اور ملا عمر مجاہد بھی زیر بحث لائے گئے ہیں۔
کتاب میں پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے کردار کا اعداد وشمار کے ساتھ ذکر ہے۔سانحہ پشاور کے حوالے سے کتاب میں شامل مضمون میں تصاویر کے علاوہ ماضی کے چند بڑے واقعات کا ذکر ہے۔حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور ان کی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں آپریشن ضرب عضب کی تفاصیل اور تصویری جھلکیاں شامل کی گئی ہیں۔مصنف محمد عرفان طارق کہنہ مشق صحافی ہیں جو اس سے قبل کئی ڈاکیومنٹریز بھی تیار کر چکے ہیں۔
انہوں نے دیباچے میں کتاب لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان دشمنوں کی طرف سے ملک کو کمزور کرنے کی سازشوں کے حوالے سے نوجوانوں میں شعور اور جذبۂ حب الوطنی اُجاگر کرنا چاہتے ہیں ۔''کتاب کا ٹائٹل خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا ہے اور شروع میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ کتاب میںعمدہ کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔
سفر زندگی کا
مصنف:جسٹس ریٹائرڈ بشیر ۔اے۔مجاہد،قیمت:500
ناشر:بک ہوم ، بک سٹریٹ، 46 مزنگ روڈ لاہور
''انسان کی پوری زندگی ایک امتحان ہے۔ وسائل کی فراوانی، اختیارات کی عطاء،وسائل سے محرومی،زندگی کی آسائشیں اور رکاوٹیں اسی امتحان کی کڑیاں ہیں ۔انسان کی کامیابی ان مشکلات کو زیر کرنے ، اقتدار، اختیارات اور وسائل کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق استعمال کرنے میں ہے۔
محترم (ر)جسٹس بشیر احمد مجاہد کی زندگی انہی اصولوں کی پیروی کا عکس ہے۔''یہ الفاظ ہیں جسٹس(ر) خلیل الرحمٰن رمدے کے جو انہوں نے زیرِنظر آپ بیتی کے پیش لفظ میں رقم کیے ہیں۔جسٹس بشیر اے مجاہد کی آپ بیتی ''سفر زندگی کا'' پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ بڑے مقاصد کے لیے آگے بڑھنے والے لوگ کس طرح اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی اور لکنزاِن میں تعلیمی دورانیے کی یادیں بڑی خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں۔
ترکی،ایران اورافغانستان کی سرزمین کا ذکر اور پھر لکنز اِن کے چند دوستوں کی کہانیاں خوب ہیں۔ جب لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے تو ان کا واسطہ کئی ایک مشکل مقدمات سے پڑاجن کا سرسری سا ذکر کتاب میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سیاست سے جڑے کئی کرداروں کا ذکر بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جونیجو چپقلش،میاں نواز شریف اور جونیجو کے درمیان تلخی کے علاوہ پاکستان کے عدالتی نظام پر کچھ تحریریں کتاب کا حصہ ہیں۔
آخر میں شیخ مجیب الرحمٰن کے موقف ،سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب ،بھٹو ، نواز شریف اور جرنیلوں کے تعلقات میںاُتار چڑھاؤ پر ایک مختصر مضمون شامل ہے۔ کتاب میں قدرے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔خود مصنف کے الفاظ ہیں ''اس میں بہت سے موضوعات کا میں نے اجمالاً ذکر کیا ہے حالانکہ ان پر بہت تفصیل سے لکھنے اور بحث ومباحثہ کرنے کی ضرورت ہے۔''کتاب میں مصنف نے اپنے خاندان اور احباب کے ساتھ لی گئیں یاد گار تصاویر بھی شامل کی ہیں۔ کتاب کا سرورق خوبصورت ہے اور کاغذ بھی عمدہ ہے۔
کوئی محرم راز نہ ملدا
ترتیب و ترجمہ: سلیم اختر
ناشر: بک ہوم، بک سٹریٹ 46، مزنگ روڈ، لاہور
قیمت: 500 روپے،صفحات: 240
زیر نظر کتاب میں صوفی شاعر خواجہ غلام فریدؒ کے منتخب کلام کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس سے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے آسانی پیدا ہو گئی ہے، جو خواجہ غلام فریدؒ کا کلام پڑھنا چاہتے ہیں، لیکن سرائیکی زبان سے واقفیت نہیں رکھتے۔
مترجم سلیم اختر پیش لفظ میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں: ''اس کتاب میں خواجہ صاحب کے کلام سے پچاس منتخب کافیوں کا اردو ترجمہ اور کچھ ڈوھڑے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب اگرچہ خواجہ غلام فرید کے کلام کی کلی طور پر عکاسی تو نہیں کرتی کیونکہ آپ کے کلام کا کینوس بہت وسیع ہے۔
جہاں تک اردو ترجمے کا تعلق ہے تو وہ بھی میں نے عام بول چال کے انداز میں اور بامحاورہ ترجمہ کیا ہے۔ حتی المقدور میری کوشش رہی کہ خواجہ صاحب کا وہ کلام جو گایا گیا اور مختلف ادبی رسالوں میں شائع ہوتا رہا اور ہر خاص و عام میں مقبول ہوا، سامنے لایا جائے تاکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر جہاں بھی اردو بولنے والے، پڑھنے والے اور سمجھنے والے موجود ہیں، وہ خواجہ صاحب کے افکار و نظریات اور ان کے نقطہ نظر کو سمجھ سکیں، ان کی تہہ تک جا سکیں اور اس طرح تحقیق کے نئے نئے در وا ہو سکیں۔''
یہ سویرا کا 93 نمبر ہے ۔ اردو ادب کی اس صبح درخشاں کو طلوع ہوئے 70 برس ہونے کا آئے ہیں مگر اس کی ضو میں ذرا بھی کمی نہیں آئی۔ کرشن چندر، بیدی، عصمت، منٹو، قرۃ العین حیدر، محمد حسن عسکری، ناصر کاظمی ، مجید امجد ، انتظار حسین، عبداللہ حسین، منیر نیازی ، محمد سلیم الرحمان ، سہیل احمد خان غرض کوئی بڑا نام رہ گیا ہو گا جس کی تحریریں سویرا میں نہ چھپی ہوں۔
ان میں بعض نام تو ایسے ہیں جو پہلے پہل سویرا ہی میں چھپے۔ سویرا کا تازہ شمارہ بھی اس چمک دار روایت کا تسلسل ہے۔ خورشید رضوی کا عربی ادب قبل از اسلام کا قسط وار سلسلہ براعظیم میں علمی تحقیق کی ثروت مندی کی یاد دلاتا ہے۔ قسط میں صعالیک شعراء کی روایت کے عظیم شاعر تابط شرا کو موضوع بنایا گیا ہے۔
خاکوں کے بارے میں انتظار حسین اور جیلانی بانو کے خاکے اردو نثر کی عمدہ مثالیں لیں۔ انتظار حسین نے شاہد احمد دہلوی جب کہ جیلانی بانو نے قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، سردار جعفری اور راجندر سنگھ بیدی جیسی شخصیت کو موضوع بنایا ہے۔ افسانوں کے حصے میں محمود احمد قاضی ، ذکیہ مشہدی کے افسانے حیرتوں کے جہان کی سیاحت کرواتے ہیں۔
انوار ناصر کے دو، تین تین سطری افسانے، افسانوں کی روایت میں نئے فن کا پتا دیتے ہیں۔ غزل اور نظم کا حصہ کلام کی رنگارنگی اور بیان میں سلیقے کی خبر دیتا ہے۔ گزشتہ 40 سال سے سویرا کی یہ شمع فیروزاں محمد سلیم الرحمان اور ریاض احمد کے ہاتھوں میں ہے۔ آج کل 'سویرا' ریڈنگ کے اشاعتی ادارے القاء پبلی کیشنز 12-K مین بلیوارڈ گلبرگ، لاہورسے شائع ہوتا ہے۔
دو ناول
نگہت سیما ڈائجسٹوںکا ایک بڑا نام ہیں۔ ان کے سلسلہ وار ناول اور ناولٹ اکثرشائع ہوتے رہتے ہیں۔ ''خواب ، رنگ اور راستے'' بھی انہی میں سے چار ناولٹوں کا مجموعہ ہے۔' خواب رنگ اور راستے'،'شہر محبت'،'صبا اس سے یہ کہہ دینا'، اور'رگ سنگ'۔ اسی طرح ''چراغوں کو بجھا نہ دینا'' بھی چارناولٹوں کا مجموعہ ہے، 'چراغوں کو بجھا نہ دینا'،' مسافتیں بے نشاں ٹھہریں'،' مرگِ گل سے پیشتر'،' وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے'۔
''خواب ، رنگ اور راستے'' کی کہانی بتاتی ہے کہ انسان خواب دیکھتاہے اور ان میں رنگ بھرتاہے لیکن بعض اوقات راستے میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں کہ سارے خواب بکھرجاتے ہیں۔ جبکہ ''شہرِ محبت'' ایک نہایت حساس موضوع پر لکھاگیاہے ۔گودمیں لئے گئے بچے کی پرورش اور جوانی تک کا سفر خاصا نازک ہوتاہے۔
گودمیں لینے والوں کو بھی خاصا سنبھل کر چلناپڑتاہے بالخصوص اگر بعد میں ان کے اپنے بچے بھی آجائیں۔ اور اگر گود میں لئے جانے والے بچے کو یہ معلوم ہوجائے کہ وہ گودمیں لیاہوا بچہ ہے تو پھر حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ایک فرد کو اپنی عمر کا ایک بڑاحصہ گزارنے کے بعد معلوم ہو کہ جن لوگوں کے درمیان وہ رہ رہا ہے وہ اس کے اصل اپنے نہیں بلکہ مکمل اجنبی ہیں، تو اس کی شخصیت کا بکھرنا ایک فطری امر ہے ۔ 'شہرمحبت'اسی حساسیت اور محبت کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔
اس کہانی میں سمیعہ مرکزی کردار ہے ، اپنوں کی تلاش میں اسے کیاکچھ نہیںکرناپڑا۔ یہ ایک بہت دلچسپ کہانی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کہانی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جو عام طورپر سوچاجاتاہے لیکن ایسا بہت کچھ ہوگیا جو انسان سوچ نہیں سکتا۔
ان دونوں مجموعوں میں شامل باقی ناولٹ بھی ایسے ہی دیگرمعاشرتی موضوعات پر مبنی ہیں، ایسے موضوعات جن کے بارے میں سوچنا، بات کرنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ 'خواب، رنگ اور راستے' کی قیمت 350 روپے جبکہ 'چراغوں کو بجھا نہ دینا' کی قیمت400روپے ہے۔ یہ القریش پبلی کیشنز، سرکلرروڈ چوک اردوبازار لاہور سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
مصنف: توصیف احمد خان،قیمت:300روپے
ناشر:نگارشات،24 مزنگ روڈ لاہور
حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا، ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہندوستان کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا، یقینا تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا اوراللہ مجاہدین کوفتح دے گا حتیٰ کہ وہ سندھ کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میںپائیں گے۔
ہمارے یہاں عامۃ الناس میں سے بہت کم غزوہ ہند کی بابت جانتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام کو فروعی اختلافات بیان کرنے سے فرصت نہیںچہ جائیکہ وہ رسول اقدس ﷺ کی تعلیمات کی روشنی کو عام لوگوں تک پہنچائیں، مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں امید و ہمت دلائیں۔
زیرنظرکتاب کی صورت میں علمائے کرام کی اسی کوتاہی کی تلافی کی گئی ہے۔ مصنف قریباً نصف صدی پر محیط طویل صحافتی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیاہے۔ پہلا اور سب سے اہم حصہ غزوہ ہند کے بارے میں احادیث مبارکہ سے متعلق ہے۔ اس میں غزوہ کے ثمرات اور شہداکے مقام کا بھی ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں کچھ بزرگان دین کی آراموجود ہیں ، تیسرے حصے میں ہرمجدون کی جنگ اور امام مہدی کا احادیث مبارکہ کی روشنی میں ذکر ہے۔
مجدون کی جنگ کا لوگوں کی اکثریت کو علم نہیں ہے۔ یہ اسرائیل میں لڑی جائے گی اور اس میں مسلمان اور عیسائی متحد ہوں گے۔ کتاب کے چوتھے حصے میں عظیم روحانی شخصیت حضرت نعمت شاہ ولی کی ساڑھے آٹھ سو برس قبل کی گئی پیش گوئیاں درج کی گئی ہیں جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں۔ اس میں بھارت کے ساتھ جنگ کے علاوہ تیسری عالمی جنگ کا منظر بھی موجود ہے اور آخری یعنی پانچویں حصے میں پاکستان کے بارے میں بعض روحانی شخصیات کے تاثرات موجود ہیں۔ آج جب بستی بستی ، وادی وادی ، صحرا صحرا مسلمانوں کو خون بہایاجارہاہے، ایسے میں ایسی کتابیں ہی روشنی اور ہمت عطاکرتی ہیں۔
امریکا، ایک انوکھے ملک کا منفرد سفرنامہ
مصنف: سیدفیروزشاہ گیلانی،قیمت:300 روپے
ناشر: راز پرنٹرز،18 نابھہ روڈ پرانی انارکلی لاہور
کسی بھی بڑے ملک کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرکے سفرنامہ لکھنا خاصا کٹھن کام ہے، اس کی مثال ایسے ہوتی ہے جیسے کچھ اشخاص اندھیرے میں ہاتھوں سے ٹٹول کر ہاتھی کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہوں، ہر ایک کا تاثر اور اندازبیان جدا ہوتاہے۔ امریکا کے بارے میں بھی بہت سفرنامے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں۔
زیرنظر سفرنامہ مصنف کے چاراسفار کا احوال ہے جس میں انھیں امریکا سے متعلق ایسے مواقع بھی حاصل ہوئے جو کسی عام سیاح کو میسر نہیں ہوتے۔ سفرنامہ نگار بنیادی طورپر ایک وکیل ہیں اس لئے انھوں نے امریکا کو اسی اعتبار سے دیکھا، سمجھا اور پرکھاہے۔
انھوں نے امریکا کی سیاسی ، انتظامی اور عدالتی ساخت کا باریک بینی سی جائزہ لیاہے جبکہ امریکی تاریخ اور آزادی کی جدوجہد سے جڑے ہوئے واقعات کو بھی شامل کیاہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کے ذریعے قارئین کے سامنے یہ حقیقت پورے دلائل وشواہد کے ساتھ رکھی ہے کہ آزادی اور خودمختاری کے بغیر کوئی قوم اپنی تمام ترصلاحیتیں بروئے کار نہیں لاسکتی۔ قارئین یقینا اسے ایک منفردسفرنامہ پائیں گے۔
نام... 6ستمبر1965ء ، وہ سترہ دن
مرتبین: امرشاہد/ پروفیسرسیدامیرکھوکھر،قیمت:600 روپے
ناشر:بک کارنر، جہلم پاکستان
پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ سمجھتاہے کہ جنگ ستمبر 1965ء میں فتح پاکستان کو نہیں بھارت کو ہوئی تھی، یہ وہی طبقہ ہے جو تاریخ کو درست کرنے کے نام پر ہروہ بات غلط سمجھتاہے جو پاکستانیوں اور مسلمانوں کی کہی یا لکھی ہوئی ہو اور ہراس بات کو مستند سمجھتاہو جو پاکستان سے بیر رکھنے والوں کی کہی یا لکھی ہوئی ہو۔ زیرنظرکتاب جنگ ستمبرکے پچاس برس مکمل ہونے پر شائع کی گئی ہے جب بھارت جنگ ستمبر میں اپنی کامیابی کے دعوے کررہاہے اور پاکستان کا مذکورہ بالا مخصوص طبقہ بھی بھارت کی آواز میں اپنی آواز شامل کررہاہے۔
اس کتاب میں پاکستان کی فتح پر سوالات اٹھانے والوںکو مفصل اور مدلل مضامین، انٹرویوز کی صورت میں جواب دیاگیاہے جبکہ درجنوں تصاویر اور ثبوت بھی شامل کئے گئے ہیں جو ظاہرکرتی ہیں کہ پاکستانی فوج کے بہادرجوانوں نے بھارتی حملے کو کیسے الٹ دیا اور پھر جواب میں مختلف محاذوں میں کئی سو کلومیٹر کا علاقہ کافتح کرلیاتھا۔
کتاب میں ائیرمارشل(ر) ظفرچودھری، نیول کموڈور(ر) طارق مجید، بریگیڈیئر (ر) رب نوازبھٹی، کرنل(ر) عبدالرئوف مگسی، کرنل(ر) ایل ے ٹریسلر، لیفٹیننٹ کرنل(ر) ارشدنذیر، لیفٹیننٹ کمانڈر ایم وائی صدیقی اور گوہر ایوب خان کے انٹرویوز شامل ہیں۔ جنگ ستمبر کی عظیم الشان فتح کی مفصل تاریخ پر اردوزبان میں کوئی قابل ذکر کتاب نہیں تھی، اس کتاب نے اس ضرورت کو پورا کردیاہے۔
آواز
شاعر: حسین مجروح،صفحات: 224،قیمت: 400 روپے
ناشر: رنگ ِادب پبلی کیشنز ، اردو بازار ، کراچی
حسین مجروح اردو کے معرو ف شاعر اور صاحب ِ طرز ادیب ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ان کی شاعری کامجموعہ ہے جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔اس سے پہلے ان کا پہلا مجموعہ کلام ''کشید''کے عنوان سے چودہ برس قبل منظر عام پر آیا تھا اور یہ ان کا دوسر ا مجموعہ کلام ہے۔ حسین مجروح کوبات کہنے کا ہنر آتا ہے۔
وہ بڑی سلیقہ مندی سے اپنے جذبات و احساسات کو شعرو ں کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ان کی غزلیں کلاسیکیت اور جدیدیت کے خوبصورت امتزاج کی ایسی دلآویز شبیہ بناتی ہیں کہ قاری اس کے سحر میں کھو جاتاہے ۔مضامین کا تنوع ، لہجے کا بانکپن ، خیالات کی ندرت ، لفظیات ، ترکیبات اور تشبیہات کا اچھوتا پن ، فکر کی تازگی ان کی شاعری کے عناصر ِ ترکیبی ہیں ۔
وہ اردو کی کلاسیکی روایت سے انحراف کیے بغیر روح عصر کو اپنے ہمراہ رکھتے ہوئے اپنے لیے ایک الگ راستہ تلاشتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں عشق و محبت کے جذبات میں گندھے اشعار رومانویت کی ایسی خوشگوار فضا پیدا کرتے ہیں کہ جس میں ایک وقار اور ایک شان نظر آتی اور ان میں جھلکتا سماجی شعور بھی صاف طورپر دکھائی دیتا ہے ۔
ان کے کلام میں غنائیت عجیب طرح کی جلترنگ پیدا کرتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ حسین مجروح کی شخصیت اور شاعری دونوں ہی ''چیزے دیگرے '' کے ذیل میں آتی ہیں ۔ جس طرح آج سے چودہ سال پہلے ان کے اولین شعری مجموعے ''کشید'' نے اہل فکر و نظر کو چونکا دیا تھا اسی طرح دوسرا مجموعہ کلام بھی اہل ادب کی توجہ کا مرکز بنے گا اور ہاتھوں ہاتھ لیاجائے گا ۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جومعیار انہوںنے اپنے پہلے شعری مجموعے میں قائم کیا تھا دوسرا مجموعہ اس سے یقینی طورپر دو ہاتھ آگے ہے یو ںان کے تخلیقی سوتے چودہ سال کے طویل وقفہ میں خشک ہونے کے بجائے مزید سرسبز و شاداب ہوئے ہیں ۔ملک کے منفرد مصور اور خطاط اسلم کمال نے کتاب کے سرورق نے اس کے ظاہری حسن کو بھی آشکار کردیا ہے ۔بلا مبالغہ یہ ایک معیاری شعری مجموعہ ہے سو اس کے خالق حسین مجروح کے ساتھ اس کے ناشر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوںنے اردو کے صاحبان ذوق کو اس خوبصورت شعری مجموعے کا تحفہ دیا۔
امن کی تلاش ۔ ۔ ۔ ضربِ عضب تک
مصنف:عرفان طارق،قیمت :380روپے،
پبلشر:ایم ٹی ایم پبلی کیشنز،اسلام آباد
جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہے کہ محمد عرفان طارق نے ملکِ عزیز کے امن اور سلامتی کی جانب سفر کی روداد قلم بند کی ہے۔پہلے کچھ محرکات کا ذکر ہے جس میں نائن الیون کے بعد افغانستان کی صورت حال اور ڈیورنڈلائن کے تاریخی پس منظر پر بات کی گئی ہے۔افغان جہاد کے مشہور کردار اسامہ بن لادن اور ملا عمر مجاہد بھی زیر بحث لائے گئے ہیں۔
کتاب میں پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے کردار کا اعداد وشمار کے ساتھ ذکر ہے۔سانحہ پشاور کے حوالے سے کتاب میں شامل مضمون میں تصاویر کے علاوہ ماضی کے چند بڑے واقعات کا ذکر ہے۔حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور ان کی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں آپریشن ضرب عضب کی تفاصیل اور تصویری جھلکیاں شامل کی گئی ہیں۔مصنف محمد عرفان طارق کہنہ مشق صحافی ہیں جو اس سے قبل کئی ڈاکیومنٹریز بھی تیار کر چکے ہیں۔
انہوں نے دیباچے میں کتاب لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان دشمنوں کی طرف سے ملک کو کمزور کرنے کی سازشوں کے حوالے سے نوجوانوں میں شعور اور جذبۂ حب الوطنی اُجاگر کرنا چاہتے ہیں ۔''کتاب کا ٹائٹل خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا ہے اور شروع میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ کتاب میںعمدہ کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔
سفر زندگی کا
مصنف:جسٹس ریٹائرڈ بشیر ۔اے۔مجاہد،قیمت:500
ناشر:بک ہوم ، بک سٹریٹ، 46 مزنگ روڈ لاہور
''انسان کی پوری زندگی ایک امتحان ہے۔ وسائل کی فراوانی، اختیارات کی عطاء،وسائل سے محرومی،زندگی کی آسائشیں اور رکاوٹیں اسی امتحان کی کڑیاں ہیں ۔انسان کی کامیابی ان مشکلات کو زیر کرنے ، اقتدار، اختیارات اور وسائل کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق استعمال کرنے میں ہے۔
محترم (ر)جسٹس بشیر احمد مجاہد کی زندگی انہی اصولوں کی پیروی کا عکس ہے۔''یہ الفاظ ہیں جسٹس(ر) خلیل الرحمٰن رمدے کے جو انہوں نے زیرِنظر آپ بیتی کے پیش لفظ میں رقم کیے ہیں۔جسٹس بشیر اے مجاہد کی آپ بیتی ''سفر زندگی کا'' پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ بڑے مقاصد کے لیے آگے بڑھنے والے لوگ کس طرح اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی اور لکنزاِن میں تعلیمی دورانیے کی یادیں بڑی خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں۔
ترکی،ایران اورافغانستان کی سرزمین کا ذکر اور پھر لکنز اِن کے چند دوستوں کی کہانیاں خوب ہیں۔ جب لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے تو ان کا واسطہ کئی ایک مشکل مقدمات سے پڑاجن کا سرسری سا ذکر کتاب میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سیاست سے جڑے کئی کرداروں کا ذکر بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جونیجو چپقلش،میاں نواز شریف اور جونیجو کے درمیان تلخی کے علاوہ پاکستان کے عدالتی نظام پر کچھ تحریریں کتاب کا حصہ ہیں۔
آخر میں شیخ مجیب الرحمٰن کے موقف ،سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب ،بھٹو ، نواز شریف اور جرنیلوں کے تعلقات میںاُتار چڑھاؤ پر ایک مختصر مضمون شامل ہے۔ کتاب میں قدرے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔خود مصنف کے الفاظ ہیں ''اس میں بہت سے موضوعات کا میں نے اجمالاً ذکر کیا ہے حالانکہ ان پر بہت تفصیل سے لکھنے اور بحث ومباحثہ کرنے کی ضرورت ہے۔''کتاب میں مصنف نے اپنے خاندان اور احباب کے ساتھ لی گئیں یاد گار تصاویر بھی شامل کی ہیں۔ کتاب کا سرورق خوبصورت ہے اور کاغذ بھی عمدہ ہے۔
کوئی محرم راز نہ ملدا
ترتیب و ترجمہ: سلیم اختر
ناشر: بک ہوم، بک سٹریٹ 46، مزنگ روڈ، لاہور
قیمت: 500 روپے،صفحات: 240
زیر نظر کتاب میں صوفی شاعر خواجہ غلام فریدؒ کے منتخب کلام کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس سے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے آسانی پیدا ہو گئی ہے، جو خواجہ غلام فریدؒ کا کلام پڑھنا چاہتے ہیں، لیکن سرائیکی زبان سے واقفیت نہیں رکھتے۔
مترجم سلیم اختر پیش لفظ میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں: ''اس کتاب میں خواجہ صاحب کے کلام سے پچاس منتخب کافیوں کا اردو ترجمہ اور کچھ ڈوھڑے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب اگرچہ خواجہ غلام فرید کے کلام کی کلی طور پر عکاسی تو نہیں کرتی کیونکہ آپ کے کلام کا کینوس بہت وسیع ہے۔
جہاں تک اردو ترجمے کا تعلق ہے تو وہ بھی میں نے عام بول چال کے انداز میں اور بامحاورہ ترجمہ کیا ہے۔ حتی المقدور میری کوشش رہی کہ خواجہ صاحب کا وہ کلام جو گایا گیا اور مختلف ادبی رسالوں میں شائع ہوتا رہا اور ہر خاص و عام میں مقبول ہوا، سامنے لایا جائے تاکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر جہاں بھی اردو بولنے والے، پڑھنے والے اور سمجھنے والے موجود ہیں، وہ خواجہ صاحب کے افکار و نظریات اور ان کے نقطہ نظر کو سمجھ سکیں، ان کی تہہ تک جا سکیں اور اس طرح تحقیق کے نئے نئے در وا ہو سکیں۔''
یہ سویرا کا 93 نمبر ہے ۔ اردو ادب کی اس صبح درخشاں کو طلوع ہوئے 70 برس ہونے کا آئے ہیں مگر اس کی ضو میں ذرا بھی کمی نہیں آئی۔ کرشن چندر، بیدی، عصمت، منٹو، قرۃ العین حیدر، محمد حسن عسکری، ناصر کاظمی ، مجید امجد ، انتظار حسین، عبداللہ حسین، منیر نیازی ، محمد سلیم الرحمان ، سہیل احمد خان غرض کوئی بڑا نام رہ گیا ہو گا جس کی تحریریں سویرا میں نہ چھپی ہوں۔
ان میں بعض نام تو ایسے ہیں جو پہلے پہل سویرا ہی میں چھپے۔ سویرا کا تازہ شمارہ بھی اس چمک دار روایت کا تسلسل ہے۔ خورشید رضوی کا عربی ادب قبل از اسلام کا قسط وار سلسلہ براعظیم میں علمی تحقیق کی ثروت مندی کی یاد دلاتا ہے۔ قسط میں صعالیک شعراء کی روایت کے عظیم شاعر تابط شرا کو موضوع بنایا گیا ہے۔
خاکوں کے بارے میں انتظار حسین اور جیلانی بانو کے خاکے اردو نثر کی عمدہ مثالیں لیں۔ انتظار حسین نے شاہد احمد دہلوی جب کہ جیلانی بانو نے قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، سردار جعفری اور راجندر سنگھ بیدی جیسی شخصیت کو موضوع بنایا ہے۔ افسانوں کے حصے میں محمود احمد قاضی ، ذکیہ مشہدی کے افسانے حیرتوں کے جہان کی سیاحت کرواتے ہیں۔
انوار ناصر کے دو، تین تین سطری افسانے، افسانوں کی روایت میں نئے فن کا پتا دیتے ہیں۔ غزل اور نظم کا حصہ کلام کی رنگارنگی اور بیان میں سلیقے کی خبر دیتا ہے۔ گزشتہ 40 سال سے سویرا کی یہ شمع فیروزاں محمد سلیم الرحمان اور ریاض احمد کے ہاتھوں میں ہے۔ آج کل 'سویرا' ریڈنگ کے اشاعتی ادارے القاء پبلی کیشنز 12-K مین بلیوارڈ گلبرگ، لاہورسے شائع ہوتا ہے۔
دو ناول
نگہت سیما ڈائجسٹوںکا ایک بڑا نام ہیں۔ ان کے سلسلہ وار ناول اور ناولٹ اکثرشائع ہوتے رہتے ہیں۔ ''خواب ، رنگ اور راستے'' بھی انہی میں سے چار ناولٹوں کا مجموعہ ہے۔' خواب رنگ اور راستے'،'شہر محبت'،'صبا اس سے یہ کہہ دینا'، اور'رگ سنگ'۔ اسی طرح ''چراغوں کو بجھا نہ دینا'' بھی چارناولٹوں کا مجموعہ ہے، 'چراغوں کو بجھا نہ دینا'،' مسافتیں بے نشاں ٹھہریں'،' مرگِ گل سے پیشتر'،' وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے'۔
''خواب ، رنگ اور راستے'' کی کہانی بتاتی ہے کہ انسان خواب دیکھتاہے اور ان میں رنگ بھرتاہے لیکن بعض اوقات راستے میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں کہ سارے خواب بکھرجاتے ہیں۔ جبکہ ''شہرِ محبت'' ایک نہایت حساس موضوع پر لکھاگیاہے ۔گودمیں لئے گئے بچے کی پرورش اور جوانی تک کا سفر خاصا نازک ہوتاہے۔
گودمیں لینے والوں کو بھی خاصا سنبھل کر چلناپڑتاہے بالخصوص اگر بعد میں ان کے اپنے بچے بھی آجائیں۔ اور اگر گود میں لئے جانے والے بچے کو یہ معلوم ہوجائے کہ وہ گودمیں لیاہوا بچہ ہے تو پھر حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ایک فرد کو اپنی عمر کا ایک بڑاحصہ گزارنے کے بعد معلوم ہو کہ جن لوگوں کے درمیان وہ رہ رہا ہے وہ اس کے اصل اپنے نہیں بلکہ مکمل اجنبی ہیں، تو اس کی شخصیت کا بکھرنا ایک فطری امر ہے ۔ 'شہرمحبت'اسی حساسیت اور محبت کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔
اس کہانی میں سمیعہ مرکزی کردار ہے ، اپنوں کی تلاش میں اسے کیاکچھ نہیںکرناپڑا۔ یہ ایک بہت دلچسپ کہانی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کہانی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جو عام طورپر سوچاجاتاہے لیکن ایسا بہت کچھ ہوگیا جو انسان سوچ نہیں سکتا۔
ان دونوں مجموعوں میں شامل باقی ناولٹ بھی ایسے ہی دیگرمعاشرتی موضوعات پر مبنی ہیں، ایسے موضوعات جن کے بارے میں سوچنا، بات کرنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ 'خواب، رنگ اور راستے' کی قیمت 350 روپے جبکہ 'چراغوں کو بجھا نہ دینا' کی قیمت400روپے ہے۔ یہ القریش پبلی کیشنز، سرکلرروڈ چوک اردوبازار لاہور سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔