محبت کاپُل
مسلمان بحیثیت مسلمان دہشت گردنہیں ہیں۔یہ جواب پاکستان میں سوچنے،لکھنے اوربحث کے لیے بہت آسان ہے۔
لیری سیاہاکنز(Larycia Hawkins)سیاسیات کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ویٹن(Wheaton) کالج میں اپنے شعبہ کی پروفیسرہیں۔لیری سیاہ فام ہیں اورامریکی معاشرہ میں سانس لینے والی ایک سادہ سی استادہیں۔مگرعام ساانسان نظرآنے کے باوجودوہ ہرگزہرگزعام نہیں۔ان کے خیالات اوراقدامات نے انھیں بہت ممتازکرڈالاہے۔فہم اور ادراک سے بھرپورسوچنے والی ایک بلندقامت شخصیت۔
ویٹن کالج شکاگومیں ہے۔شہرسے تھوڑے فاصلے پر موجوداس درسگاہ میںلیری سیاہاکنزبرسوں سے طالبعلموں اور طالبات کوسیاسیات جیسادقیق مضمون پڑھارہی ہیں۔ کیلیفورنیا اورچنددیگرحادثات کے بعدلیری نے محسوس کیا کہ امریکا کے مسلمان ایک اَن دیکھے خوف کاشکار ہیں۔ان میں سے اکثریت ایک دباؤمیں زندگی گزاررہے ہیں۔یہ بھی محسوس کیا کہ امریکی،ان مسلمانوں کے خوف کاادراک نہیں کرپارہے۔ ایک شام کوتنہابیٹھ کراپنے آپ سے سوال کیاکہ کیااسلام اور دہشت گردی کاآپس میں کوئی تعلق ہے۔ اس کا اپناجواب نفی میں تھا۔اپنے آپ سے دوسراسوال کیاکہ کیا مسلمان دہشت گردہیں۔سوچتی رہی کیونکہ یہ سوال بہت مشکل بھی تھا اور امریکی معاشرے میں نازک ترین بھی۔ یاد رہے کہ امریکی میڈیانے چندواقعات کواس طرح پیش کیا کہ اکثرسادہ لوگ یقین کربیٹھے ہیں کہ، ہاں مسلمان اور دہشت گردی کاایک تعلق ہے۔لیری نے دودن لیے۔انتہائی عرق ریزی سے پڑھتی اور سوچتی رہی۔کئی حادثات کوغورسے پر کھا جن میں مسلمان مرد اورخواتین دہشت گردی میں ملوث پائے گئے۔اسلامی معاشروں کابھی بغورجائزہ لیا۔
دوسرے سوال کا جواب ملاکہ مسلمان بحیثیت مسلمان دہشت گردنہیں ہیں۔یہ جواب پاکستان میں سوچنے،لکھنے اوربحث کے لیے بہت آسان ہے۔ مگر امریکا جہاں ایک خاص نقطہ نظرکی سوچ غالب آچکی ہے، وہاں اس نتیجہ پرپہنچنابہت دشوار اور خطرناک ہے۔لیری سیاہ نے اپنے آپ سے تیسراسوال کیا۔عام امریکی بے شک وہ عیسائی یایہودی ہو،یاکسی اور مذہب سے تعلق رکھتاہو،نے اپنے اردگردبسنے والے مسلمانوں کے اندرونی خوف اورعدم تحفظ کوختم کرنے کے لیے کیاذاتی اقدامات اٹھائے ہیں۔ تیسرے سوال کاجواب مکمل نفی میں تھا۔لیری نے محسوس کیا کہ وہ اور منسلک لوگوں نے اپنے ساتھ رہنے والے مسلمانوں کومحفوظ اورقریب لانے کے کوئی قدم نہیں اٹھائے۔یہ نفی لیری کی زندگی کومکمل طور پرتبدیل کرگئی۔ اس نے کچھ دن اپنے سرکوڈھاپنے کا فیصلہ کرلیا۔ سر پرسادہ سا اسکارف لینے سے وہ ثابت کرناچاہتی تھی کہ انسان بنیادی طور پراچھاہے مگران کوبرایااچھابنانے میں تمام منفی معاشرتی پہلو نظراندازکردیے جاتے ہیں۔اہم پہلوؤں سے صَرف نظر کر کے عامیانہ سی رائے کے مطابق ایک جواب یا سوچ بنالی جاتی ہے جومختلف مذہبی عقائدکے لوگوں کی زندگی کوسمجھنے سے محروم ہوتی ہے۔
لیری کے ذہن میں یہ بھی تھاکہ وہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔کہیں یہ نہ ہوکہ امریکا کے مسلمان اسکواس بات کی اجازت ہی نہ دیں کہ وہ کرسمس تک اپنے سرپر اسکارف باندھ سکے۔چنانچہ وہ شکاگوکے اسلامی تعلقات عامہ کی کونسل(Council on American Islamic Relations)کے دفترچلی گئی۔ہاکنزوہاں موجودایک مسلمان سے باربارپوچھتی رہی کہ کیا اس بات سے ناراض تونہیں ہوجائینگے کہ وہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجودکچھ دن اپنے سرپراسکارف باندھ رہی ہے۔اسلامی مرکزکاجواب خوش کن تھا۔کہاگیاکہ اس کے اس اقدام سے صرف اورصرف یکجہتی کوفروغ ہوگا۔لہذاناراض ہونے کاکوئی سوال ہی پیدانھیں ہوتا۔لیری نے اپنی زندگی کاوہ مضبوط فیصلہ کیاجسکی بازگشت پوری دنیامیں سنائی دی گئی۔اس نے کرسمس تک مسلمانوں سے یکجہتی ظاہرکرنے کیلیے سر پر حجاب لے لیا۔ اگلے دن وہ پڑھانے کے لیے ویٹن کالج گئی تو حیران کن ردِعمل کا سامناکرناپڑا۔مسلمان لڑکے اورلڑکیوں کوبلا کر بتانے لگی،کہ انھیں امریکی معاشرہ میں جگہ جگہ منفی طرزِعمل کا شکار بنایا جاتا ہے۔لہٰذایہ سب کچھ اس نے یہ ثابت کرنے کیلیے کیاہے کہ اسلام جیسے انقلابی مذہب کادہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس نے یہ بھی کہاکہ عیسائیت ایک عظیم مذہب ہے جسکی بنیاد محبت پرہے۔وہ اس جذبہِ محبت کے تحت سب کچھ کررہی ہے۔لیری نے اپنی فیس بُک پرلکھا۔"میں اپنے ہمسایہ مسلمان کے ساتھ کھڑی ہوں کیونکہ تمام انسان ایک ہی جیسی مٹی سے بنے ہیں۔ہم انسانیت کے یکساں قافلہ کے مسافر ہیں۔اس کے علاوہ میں مسلمانوں کے ساتھ اسلیے بھی کھڑا ہونا چاہتی ہوں کہ وہ اہل کتاب ہیں"۔
لیری کوایک بات کااندازہ نہیں تھاکہ امریکی معاشرہ میں شدت اورانتہاپسندی کس خوفناک حدتک سرایت کرچکی ہے۔ کالج کی انتظامیہ نے اسے "جبری رخصت"پربھیج دیا۔ لیری کو کالج کیمپس آنے سے منع کردیاگیا۔جبری رخصت کے ساتھ یہ بھی حکم دیاگیاکہ ویٹن کالج کی انتظامیہ اس کے رویہ کو قوانین کے مطابق جانچے گی۔کالج کے صدر،فلپ رائی کن (Philip Ryken)نے عجیب سابیان دیا۔کہنے لگاکہ ادارہ کی اسکارف اورمذہبی یگانگت کے متعلق کوئی پالیسی نہیں ہے۔ مگر لیری کوکن قوانین کے تحت جبری رخصت پربھجوایا،اس پر مکمل خاموشی اختیارکرلی گئی۔لیری میں کتناعزم اورہمت تھی اورہے۔اس کاانتظامیہ کوبالکل اندازہ نہیں تھا۔لیری نے اپنے جذبات کوسوشل میڈیاپرلکھناشروع کردیا۔پوری دنیامیں کہرام مچ گیا۔چنددنوں میں لیری ایک ایسی آفاقی خاتون بن کر ابھری جوکسی بھی سیاسی شخصیت سے زیادہ طاقتورا ور مضبوط تھی۔اس کے خیالات کی پختگی نے اسے ایک عالمی شخصیت بنا ڈالا۔اس کاپیغام ہرجگہ پہنچا اور لوگوں میں سرایت کرگیا۔امریکا میں مسلمانوں کے متعلق انتہائی متضاداورمشکل رویے بھی موجودہیں۔
ڈونلڈٹرمپ نے مسلمانوں کوامریکا آنے پرپابندی کے متعلق جو شر انگیز بیان دیاہے،اس کاتجزیہ کرنے کی اشدضرورت ہے۔ صدارت کاکوئی امیدوار اتنا سادہ نہیں ہوتاکہ بغیر مشورے اور تیاری کے کوئی متنازع بیان دے ڈالے۔اگرکسی بھی امریکی امیدوارکی صدارتی مہم کا جائزہ لیں توآپ فوراًسمجھ جائینگے کہ اس سطح پرکوئی بھی قدم ماہرین کے مشورہ کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔ہربیان سے پہلے اس کا ردِعمل پر کھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کامسلمانوں کے متعلق بیان ایک سوچا سمجھاقدم ہے۔ وہ مسلسل مشاورت کے بعد دیا گیا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ کوسیاسی طور پراس کاکافی فائدہ بھی ہوا ہے۔اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکا کو مذہبی عقیدہ کی بنیادپرتقسیم ہوناچاہیے۔ریپبلیکن پارٹی میں ٹرمپ کی پذیرائی بڑھ گئی ہے۔معروضی اعتبارسے ٹرمپ کے امریکی صدربننے کے امکانات بہت محدود ہیں۔ مگراس متعصب ذہن کاشخص اگر وائٹ ہاؤس حادثاتی وجہ سے پہنچ گیا تومسلمانوں سے کیا سلوک کیاجائیگا،ان پرکوئی دورائے نہیں ہونگی۔مسلمانوں کو تیسرے درجہ کاشہری بنادیا جائیگا۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط سوچ رہاہوں۔اگرمجھے ایسے لگ رہاہے کہ مغربی دنیامیں اسلام مخالف قوتوں میں ایک فکری مرکزیت آرہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کابیان اس کی صرف ایک کڑی ہے۔امریکا بذات خودایک مخصوص شدت پسندی کا شکار ہو چکا ہے۔ نومبر 2015ء میں رابرٹ ڈیر(Robert Dear) نامی شخص نے ایک کلینک میں جاکرشدیدفائرنگ کی۔وہاں موجودلوگوں میں سے تین مارے گئے اور نو افراد زخمی ہوگئے۔ کولو راڈو (Colorado) میں جب یہ سنگین حادثہ ہواتوحملہ آوررابرٹ ایک سیاسی جماعت کے نعرے زور زور سے پڑھ رہا تھا۔ بالکل اسی طرح نومبرکے دوران مینیاپلز (Minneapolis) میں سیاہ فام لوگ پولیس کے خلاف پُرامن احتجاج کررہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ پولیس نے ایک نہتے سیاہ فام نوجوان کودن دہاڑے قتل کردیاتھا۔پُرامن مظاہرے میں مصروف لوگوں کومزاچھکانے کے لیے دوگورے افرادنے فائرنگ کی۔جس سے پانچ بے گناہ افرادشدیدزخمی ہوگئے۔امریکی میڈیاکے مطابق یہ تمام اس ملک میں نسلی انتہاپسندی کوفروغ دینے کی بدولت ہواہے۔ڈونلڈٹرمپ نے اس پربھی ایک سوچا سمجھا بیان دیاہے جس میں پولیس کو سیاہ فام افرادکے خلاف مزید اختیارات دینے کی بات کی گئی ہے۔ان دونوں واقعات کا صرف ایک منطقی نتیجہ ہے کہ مختلف ذہنی سوچ اورکالی چمڑی والا شخص قابلِ تعزیرہے۔
معاشروں میں ہرسوچ اورفکرکے لوگ پائے جاتے ہیں۔ انتہاپسندبھی اورمیانہ روی کے حامل بھی۔جنونی بھی اور امن پسند بھی۔کسی بھی معاشرے کورنگ اورنسل کی بنیاد پر پُرامن یا دہشت گردقرارنہیں دیاجاسکتا۔کسی بھی مذہب کو انتہاپسندی کامنبع قرارنہیں دیاجاسکتا۔یہ درست ہے کہ دہشت گردی کے اکثر واقعات میں مسلمان ملوث نظرآتے ہیں۔ مگر جس طرح پُرامن مسلمان ممالک کوشدت پسندی کا زہر پلایا گیا،وہ سب کے علم میں ہے۔کیاافغانستان کا جہاد رونلڈ ریگن کی اجازت اورمرضی کے بغیرہواتھا۔سویٹ یونین کوختم کرنے کے جنون نے جس پودے کی آبیاری کی تھی،اب اس کی شاخیں ایک اورطریقہ سے مغربی دنیامیں پھل پھول رہی ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں مذہبی شدت اورانتہاپسندی عروج پرہے۔فرقہ کی بنیادپرہم بے گناہ لوگوں کوقتل کرنا ثواب سمجھتے ہیں۔مگراب یہ زہرپوری قوت سے مغربی دنیا کی فکرمیں بھی شامل ہوچکا ہے۔ لیری سیاہاکنزجیسی معقول اورمہذب آوازیں کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہیں۔ ان کومضبوط کرنا چاہیے،کیونکہ یہ قیمتی افراد ہیں۔یہ تمام لوگ رنگ اورمذہبی منافرت کے دریاکے اوپر اعتدال پسندی اور یگانگت کاوہ مضبوط راستہ ہے جس کی بدولت لوگ قربت کا سفرکرسکتے ہیں۔اکیسویں صدی میں محبت کے اس طاقتور مگر کمزورپُل کی حفاظت کرنی چاہیے۔