دلیپ کمار کا ہم شکل

جس طرح دنیا میں بہت سے ہم شکل افراد جنم لیتے ہیں،اسی طرح فلمی دنیا میں بھی ہم شکل افراد کا چرچا رہا ہے


یونس ہمدم December 19, 2015
[email protected]

جس طرح دنیا میں بہت سے ہم شکل افراد جنم لیتے ہیں،اسی طرح فلمی دنیا میں بھی ہم شکل افراد کا چرچا رہا ہے جیسے ہندوستان کے نامور اداکار فلمسازوہدایت کار راجکپورکا ہم شکل پاکستان کی فلمی دنیا میں اداکارکمال تھا اور لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار کا ہمشکل اداکار حنیف تھا۔ میری دونوں اداکاروں سے بے تکلفی بھی تھی اور دونوں سے لاہور اور کراچی میں کافی ملاقاتیں بھی رہی ہیں۔ میں کراچی کے جس پرانے علاقے رامسوامی میں رہتا تھا اس علاقے میں ادیب، شاعر اور فنکاروں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اسی پرانے علاقے سے مشہور استاد و شاعر غنی دہلوی، انور شعور، مرزا سلیم بیگ، اداکار شبیر جان، لیاقت سولجر، محمود سلطان اور مشہور اداکار دلیپ کمار کے ہم شکل اداکار حنیف نے اپنے کیریئرکا آغاز کیا تھا۔ یہ اسی زمانے کا قصہ ہے میں ایک دن اپنے فنکار اور شاعر دوستوں سے ملنے مارواڑی محلے سے گزرتا ہوا لکھپتی ہوٹل جا رہا تھا تو میں نے مارواڑی محلے میں ایک بلڈنگ کے باہر ایک سرخ رنگ کی کارکھڑی دیکھی یہ وہی کار تھی جسے میں ایسٹرن فلم اسٹوڈیوز میں بارہا دیکھ چکا تھا۔

یہ اداکار حنیف کی ہی کار تھی۔ میں چند لمحوں کے لیے کھڑا ہوکر سوچنے لگا کہ اداکار حنیف کی کار یہاں کیوں کھڑی ہے اسی دوران بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور کے دروازے سے اداکار حنیف نکلا اور اپنی کار کی طرف آیا اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اس کی مجھ پر بھی نظر پڑی تو وہ دھیمے دھیمے قدموں سے میری طرف آیا اور قریب آکر کہنے لگا ارے میاں یونس ہمدم! آپ یہاں۔ میں نے کہا حنیف صاحب میرا تو یہ محلہ ہے۔ میں روز ہی اس علاقے سے گزرتا ہوں۔ یہ سن کر حنیف نے کہا ارے میاں ! ہم بھی اسی محلے میں رہتے ہیں۔ ہمیں تو آج پتہ چلا آپ بھی اسی محلے میں رہتے ہو۔ہمدم میاں! اس طرح تو آپ ہمارے محلے دار ہوئے۔

بھئی! آج یہ جان کر ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔ پھر حنیف میرا ہاتھ تھام کر اندر گھر میں لے گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت اور سجا ہوا کمرہ تھا۔ اور دیواروں پر دلیپ کمار کی مختلف فلموں ترانہ، انداز، میلہ، بابل، دیدار اور سنگدل کی تصویریں آویزاں تھیں میں وہ تصویریں بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا تو حنیف نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا، یہ ہے فلمی دنیا کا بے تاج بادشاہ دلیپ کمار اور ہمارا دیوتا اور ہم ہیں اس کے پجاری۔ پھر حنیف بولے کچھ دیر آرام سے بیٹھو تمہارے لیے ایک چیمپئن سی چائے کا بندوبست کرتے ہیں۔ میں نے حنیف سے کہا، نہیں چائے آج رہنے دیں پھر کبھی سہی یا پھر یہ چائے ادھار رہی اسٹوڈیو میں پئیں گے کیونکہ میں گھر سے چائے پینے کے لیے ہی نکلا تھا۔ لکھپتی ہوٹل جا رہا تھا جہاں میرے ادیب و شاعر دوست میرا انتظار کر رہے ہیں۔ میں تو بس بلڈنگ کے باہر کھڑی آپ کی کار دیکھ کر رک گیا تھا۔ آج کی یہ ملاقات بڑی اچھی رہی۔ اور میں حنیف کو خدا حافظ کہہ کر لکھپتی ہوٹل آگیا۔ اور پھر رات گئے تک دوستوں کے درمیان شعر و ادب کی گفتگو جاری رہی۔ اب میں پھر اداکار حنیف کی طرف آتا ہوں جو تھا تو مارواڑی مگر گفتگو لکھنوی انداز میں کرتا تھا۔ حنیف اپنی قوم کا ہیرو نمبر ون تھا اور اس کو اس کی قوم کے لوگ چھوٹا دلیپ کمار کہتے تھے۔

حنیف کا خاندان پاکستان بننے سے پہلے راجستھان کے علاقے جیسلمیر سے ہجرت کر کے کراچی آن بسا تھا۔ حنیف نے ابتدائی تعلیم کراچی کے سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی اور وہ صرف میٹرک ہی کر سکا تھا کہ فلموں کے شوق نے اسے اپنے بچپن ہی سے فلم بینی سے وابستہ کردیا تھا۔ یہ دلیپ کمارکی فلموں کا دیوانہ اور شیدائی تھا۔ اور دلیپ کمار کی فلمیں بار بار دیکھا کرتا تھا۔ ابھی خود اداکار نہ بنا تھا مگر آنکھوں میں خواب سجائے کراچی میں خود کو دلیپ کمار کے روپ میں ڈھالے اپنی کار میں اڑا اڑا پھرتا تھا۔ ایک دن سینئر اداکار بٹ کاشر کی اس پر نظر پڑی اور پھر بٹ کاشر ہی نے اداکار حنیف کو اپنی فلم ''ہمیں جینے دو'' میں ہیرو کاسٹ کیا جب کہ زمرد فلم کی ہیروئن تھی اور زمرد کا اصلی نام ناز تھا۔ اس فلم سے حنیف کو شہرت تو ملی مگر اس کی یہ فلم زیادہ کامیاب نہ ہوسکی اسی دوران اس نے ہدایت کار ایم سلطان کی فلم ''استادوں کے استاد'' میں کام کیا۔ اس فلم کی ہیروئن روزینہ تھی اور پھر روزینہ کے ساتھ اداکار وحید مراد کی کئی فلموں میں سائیڈ کردار ادا کیے اور پھر آہستہ آہستہ حنیف کو اس کے خوابوں کی تعبیر ملتی چلی گئی اور اداکار حنیف کراچی کی فلموں کا معروف ترین اداکار بن گیا تھا۔ وحید مراد کے بعد کمال کے ساتھ بھی اس نے فلمیں کیں۔ پھر یہ ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم ''تم ملے پیار ملا'' اور ہدایت کار قمر زیدی کی فلم ''رشتہ ہے پیار کا'' میں بھی بہت اچھے انداز میں آیا۔

مگر بڑی کوششوں کے بعد بھی یہ سائیڈ ہیرو سے آگے نہ بڑھ سکا جب کہ اس نے کئی بڑی کاسٹ کی فلموں میں بھی کھل کر کام کیا تھا ان فلموں میں ایک میگا فلم ''چاند سورج'' بھی تھی جس میں ندیم، وحید مراد اور محمد علی کے ساتھ حنیف نے بھی اچھا کام کیا تھا۔ ''چاند سورج'' کے ہدایت کار کہنہ مشق ہدایت کار شورلکھنوی تھے اور فلم کے مصنف ہندوستان سے آئے ہوئے مشہور کہانی نویس حسرت لکھنوی تھے۔ مگر بدقسمتی سے اچھی کاسٹ اور پیسے کی بھرمار کے باوجود بھی مذکورہ فلم اچھی نہ بن سکی اور بری طرح فلاپ ہوگئی اب تک حنیف کافی فلموں میں کام کرچکا تھا ان میں کچھ نامور ہدایت کاروں کی فلمیں بھی تھیں اور ان فلموں میں آرزو، ارمان، جوش، ہنی مون، مسٹر 420اور فلم ''سمندر'' بھی تھی جو وحید مراد کی ذاتی فلم تھی اور جس میں حنیف نے بھی اچھا کام کیا تھا۔

وحید مراد نے اپنی فلم ''احسان'' کی بری طرح ناکامی کے بعد اپنی پوری ٹیم ہی بدل دی تھی۔ فلم ''سمندر'' کے ہدایت کار باپو رفیق رضوی تھے جن کا بیٹا سعید رضوی آج ایک نامور فلمساز و ہدایت کار ہے۔ اداکار حنیف نے مصنف و ہدایت کار اقبال رضوی کی حب الوطنی کے موضوع پر بنائی گئی فلم ''آزادی یا موت'' میں بھی بڑی جاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اب میں تذکرہ کروں گا اس فلم کا جو ہندوستان سے آئے ہوئے مشہور شاعر فلمساز و ہدایت کار نخشب جارچوی نے بنائی تھی فلم کا نام تھا ''میخانہ'' ۔نخشب صاحب کی ایک فلم ''زندگی اور طوفان'' نے ہندوستان میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور پاکستان میں تو اس فلم نے بزنس کے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ یہ فلم جب بھی سینماؤں پر لگائی جاتی تھی فلم بینوں کا رش لگا رہتا تھا۔ حنیف کو جب نخشب نے فلم ''میخانہ'' میں کاسٹ کیا تو حنیف اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھ بیٹھا تھا۔

اس کا خیال تھا کہ اس کی یہ فلم نمائش پذیر ہونے کے بعد ایک دھوم مچا دے گی۔ اس فلم کے موسیقار بھی ناشاد تھے جنھوں نے ''زندگی اور طوفان'' کے لیے بڑی لازوال دھنیں بنائی تھیں جب تک یہ فلم بنتی رہی اخبارات میں ''میخانہ'' کے تذکرے ہوتے رہے اور فلم بینوں نے بھی نخشب کی اس فلم سے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ مگر جب فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی تو فلم بینوں کو اس فلم سے بڑی مایوسی ہوئی۔ یہ فلم بری طرح فلاپ ہوگئی۔ اس فلم کے فلاپ ہونے کے بعد نخشب صاحب بھی اپنی چوکڑی بھول گئے تھے اور ان کی خوش فہمیوں کے سارے جام چکنا چور ہوگئے تھے۔ فلم کی ناکامی کی وجہ ''میخانہ'' کی ناقص کہانی اورکمزور ہدایت کاری تھی۔ حنیف بھی اس فلم کی ناکامی سے کافی مایوس ہوگیا تھا پھر اس نے لاہور کی فلم انڈسٹری کے بھی کئی چکر لگائے مگر لاہور فلم انڈسٹری جہاں گروپ بندی بھی عروج پر تھی اور پھر فلم انڈسٹری کے بارے میں تو یہ بات مشہور ہے کہ وہاں وہی گھوڑا لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے جو ریس میں آگے آگے دوڑتا ہے۔ بڑی کوششوں کے بعد بھی جب لاہور میں حنیف کی قسمت نے یاوری نہیں کی تو حنیف مایوس ہوکر واپس لاہور سے کراچی آگیا۔

فلموں کی تعداد کے حساب سے اداکار حنیف کے کھاتے میں بے شمار فلمیں آتی ہیں مگر وہ کبھی صف اول کے اداکاروں میں شامل نہ ہوسکا اور یہی دکھ اس کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ تھا۔ حنیف نے بے شمار اردو فلموں کے علاوہ ایک سندھی فلم ''گھونگٹ لاء کنوار'' میں بھی کام کیا تھا اس کی آخری فلم ہدایت کار الحامہ کی فلم ''کھلونا'' تھی مجموعی طور پر حنیف نے ایک کامیاب زندگی گزاری تھی۔ اس نے تین شادیاں کی تھیں پہلی شادی نوعمری میں اپنی ہی مارواڑی قوم کی لڑکی سے کی تھی پھر یکے بعد دیگرے دو اور شادیاں کی تھیں۔ حنیف ایک خوش گفتار، خوش لباس اور ہشاش بشاش انسان تھا۔ وحید مراد اور حنیف کے درمیان بہت اچھی دوستی تھی اور قدر مشترک اور قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ دونوں آرٹسٹوں نے ہر طرح سے کامیاب اور ایک اچھی زندگی گزاری مگر دونوں کی عمریں ان سے زیادہ وفا نہ کرسکیں اور یہ دونوں آرٹسٹ عین عالم شباب میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللہ ان دونوں کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔