خود رو کی کہانی
’’خود روکی کہانی، خود اس کی زبانی‘‘ قمر احمد علی کی داستان حیات ہے۔ وہ اپنے آپ کو خود رو کہتی ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔
''خود روکی کہانی، خود اس کی زبانی'' قمر احمد علی کی داستان حیات ہے۔ وہ اپنے آپ کو خود رو کہتی ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ ان کی بڑی اچھی نگہداشت ہوئی ہے، ان کو بھرپور توجہ ملی ہے اور اپنوں اور غیروں کی محبت، ہمدردی اور رہنمائی بھی۔ یہ بات دوسری ہے کہ انھوں نے خود اپنی محنت سے اپنی راہ نکالی ہے اور اپنی صلاحیتوں سے کام لیا ہے ایک کمی ان میں تھی وہ اسے احساس کمتری کہتی ہیں لیکن یہ درحقیقت ان میں اپنی ذات پر اعتماد کی کمی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے وقت انھیں یہ خوف رہتا تھا کہ کہیں میں وہ نہ کرسکوں جس کی مجھ سے توقع کی جارہی ہے۔
قمر تین سال کی تھیں کہ ان کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ یہ ایک ایسی محرومی تھی جس کا انھیں بجا طور پر ہر وقت احساس رہا۔ ماں کی محبت کا بڑی حد تک بدلا، انھیں اپنی نانی کی محبت سے ملا۔ جنھوں نے ان کی اور ان سے چھوٹی بہن کی پرورش کی۔ ان کی انا بلو بوا کا بھی ان کی ابتدائی زندگی میں بڑا رول رہا۔ قمر احمد علی لکھتی ہیں ''ہمیں تمیز سکھانا بھی بوا کا کام تھا''
قمرکے نانا بڑے صاحبِ حیثیت تھے۔ ان کے والد ریاض الدین احمد خان انڈین پولیس میں ایس پی تھے۔یہ آئی سی ایس کی طرح کی سروس تھی۔ روشن خیال تھے۔ انگریزوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا اور ویسے ہی طور طریقے، بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے۔قمر کہتی ہیں ''انھوں نے کبھی میری بات کو نہیں ٹالا۔''
قمر سے محبت کرنے والی ایک ہستی اور بھی تھی وہ ان کی خالہ تھیں جنھیں یہ اماں جان کہتی تھیں۔ ان کے بارے میں لکھتی ہیں ''کیا اعلیٰ انسان تھیں نہایت سمجھدار، عقل مند،ہنس مکھ، ملنسار، میں نے ان جیسی دوسری شخصیت نہیں دیکھی، وہ میری شخصیت پر کافی حد تک اثر انداز ہوئیں''
قمرکے نانا کا آبائی گھر بریلی میں تھا، وہیں ان کی بسم اﷲ کی رسم ہوئی نانا نے بسم اﷲ پڑھائی، پھر مکتب میں ایک مولوی صاحب نے قرآن پڑھایا، چھ سال کی عمر میں قرآن ختم کرایا۔ یہ سات سال کی تھیں جب ان کے والد کا تبادلہ لکھنو کا ہوا۔ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے، قمر کو بریلی سے بلاکر مسلم گرلز اسکول میں داخل کردیا یہ اپنی ابوا کے ساتھ اسکول کے ہوسٹل میں رہنے لگیں ان کی بہن کشور جو تین سال کی تھی رو دھوکر ان کے ساتھ ہوسٹل میں پہنچ گئی اور اسکول میں داخل ہوگئی۔ لکھنو میں یہ اسکول ایسا تھا جہاں لڑکیوں کو جدید تعلیم کے علاوہ تربیت بھی اسلامی قدروں کو ملحوظ رکھ کر دی جاتی تھی۔ اس کی پرنسپل ایک بڑی لائق انگریز خاتون تھیں۔ لکھتے ہیں ''اسکول میں وقت کی پابندی، شعور، تمیزوغیرہ پر بہت توجہ دی جاتی تھیں، ہر کام پر چاہے صبح کا اٹھنا ہو، اسکول جانا ہو،کھانا کھانا ہو،کھیل کے لیے جانا، رات کو سونے کا وقت ہو، گھنٹی بجاکرتی تھی، سب کچھ وقت پرکرنا پڑتا تھا یہ تربیت تھی میری زندگی گھنٹیوں کے اشارے پر گزرتی تھی۔''
اسکول کی پڑھائی ختم ہوئی تو قمر نے لکھنو ہی میں مشہور امریکن کالج ایزا بیلا تھوبرن کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں ان کے مضامین انگلش، فارسی اور فلاسفی تھے پھر فلاسفی چھوڑ کر اکونامسٹ لے لی۔ یہاں بھی ہوسٹل میں قیام رہا۔ آئی ٹی کالج کے دو سال جلد ہی گزرگئے۔ والد نے پوچھا،اب کیا کرنے کا ارادہ ہے، انھوں نے جواب دیا میں پڑھاؤںگی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی سے خاندانی تعلقات تھے انھوں نے علی گڑھ بلالیا اور قمر وہاں ٹیچرز ٹریننگ کالج میں داخل ہوگئیں۔ لکھتی ہیں ''صبح کو ہم لوگ کالے برقعے پہن کر ہوسٹل سے ٹریننگ کالج کا رخ کرتے تھے،کالے برقعے ہمارا یونیفارم تھا، کالج میں بعض کلاسوں میں لڑکوں سے الگ اور بعض میں ان کے پیچھے بیٹھتے تھے۔''
قمر علی گڑھ سے بی ٹی کرکے اپنے پرانے مسلم گرلز اسکول میں ملازم ہوگئیں۔ ہوسٹل میں رہیں پھر ان کی شادی کے لیے پیام آنے شروع ہوگئے۔ایک پیام افغانستان کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی کے ہاں سے آیا جو میرٹھ میں آباد تھی۔ لڑکے کا نام احمد علی خان تھا، احمد فوج میں تھے، جنگ ختم ہوچکی تھی وہ سنگاپور میں تعینات تھے قمر مسلم اسکول میں پڑھارہی تھیں، رشتہ طے ہوگیا تاریخ طے ہوگئی احمد کو سنگاپور سے آنا تھا، مقررہ تاریخ پر نہ پہنچ سکی تاریخ آگے بڑھائی گئی اور پھر احمد لکھنو آئے اور قمر رخصت ہوکر میرٹھ پہنچیں مگر پھر فوراً ہی کراچی جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔
ہوا یوں کہ مشہور صحافی اور ادیب بریگیڈیئر ڈسمنڈینگ نے جن سے احمد کی دوستی سنگاپور میں ہوگئی تھی ان سے کہاکہ وہ یوسف ہارون کے اخبار پاکستان ہیرالڈ نکالنے کے لیے کراچی جارہے ہیں اور احمد وہاں آکر ان کے ساتھ شریک ہوجائیں، یہ جون 1947 کی بات ہے جب نئی بہاتا قمر احمد کے ساتھ ٹرین میں لکھنو سے کراچی پہنچ گئیں۔ 14 اگست کو پاکستان وجود میں آیا ہیرالڈ کی جگہ ڈان اخبار نکلا احمد ڈان چھوڑ کر سرکاری ملازم ہوگئے کامرس منسٹری میں سیکنڈ سیکریٹری کا عہدہ مل گیا۔
کراچی میں قیام کی الگ کہانی ہے یہیں قمر کی بیٹی زمزم پیدا ہوئی۔ 1950 میں احمد علی خان تہران میں پاکستان کے سفارت خانے میں کمرشل سیکریٹری مقرر ہوئے اور قمر زمزم کو لے کر ایران پہنچ گئیں لکھتی ہیں ''کیا بتاؤں سفر کیسا رہا بہت چھوٹا اور پرانا جہاز تھا۔ مسافر بھی دو تین ہی تھے کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا جہاز لڑکھڑاتا ہوا، ہچکولے کھاتا ہوا چلتا رہا۔ شام کے قریب تہران پہنچا'' تہران میں سعد خیری تھے انھوں نے قمر کو بتایاکہ ایران میں بہار اس طرح آتی ہے جیسے ہندوستانی فلموں میں ہیروئن کے اسٹیج آتے ہیں ایک دم پھول کھل جاتے ہیں، مہمان بدل جاتا ہے انھیں یقین نہیں آیا مگر واقعی ایسا ہی دیکھا۔
احمد ایران میں پونے دو سال رہے پھر لندن پوسٹنگ ہوگئی، بحری جہاز سے سفر ہوا راستے میں جہاز سوئز پہنچا تو قمر نے جاکر مصر کے اہرام دیکھ لیے، ممی بھی دیکھ آئیں۔ کراچی سے لندن کا طویل سفر تھا، خوب لطف آیا، لندن میں ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی کا جشن دیکھا اور ٹریننگ کالج میں ٹیچنگ کا ایک کورس بھی کرلیا۔
سات سال لندن میں گزرے اور پھر احمد کا تبادلہ سنگاپور کا ہوگیا قمر نے یہاں ساڑھے چھ سال گزارے بہت یادیں یہاں سے ان کی وابستہ ہیں سنگاپور کی دنیا لندن سے بہت مختلف تھیں احمد وہاں پاکستان کے ٹریڈ کمشنر تھے سوشل زندگی کا قمر کو یہاں زیادہ تجربہ ہوا۔ اب ان کے دو بچے تھے، زمزم اور ایک لڑکا شاہ رخ، دونوں کی ابتدائی تعلیم بھی یہاں شروع ہوئی کچھ نادر تجربے بھی ہوئے۔
سنگاپور سے احمد جاپان پہنچے۔ قمر نے ٹوکیو پہنچ کر جاپانی زبان سیکھنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی، جاپانیوں نے تعاون نہیں کیا، ہاں انھوں نے ٹوکیو میں پینٹنگ سیکھی، سنگاپور میں پینٹنگ سیکھنے کی ابتدا ہوئی تھی بعد میں کراچی میں آرٹس کونسل میں قمر کی پینٹنگز کی ایک نمائش بھی ہوئی جس کا افتتاح مرکزی وزیر اطلاعات نے کیا تھا۔
احمد جاپان میں خوش تھے لیکن اپنے سفیر سے نہیں بنتی تھی۔ ایک سال بعد ہی ان کا تبادلہ ہانگ کانگ ہوگیا، وہاں قمر پانچ سال رہیں، ہندوستان سے 1965 کی جنگ میں یہ وہیں تھیں۔ ہانگ کانگ میں انھوں نے چینی زبان سیکھنے کے لیے کورس کیا اور پینٹنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا چین کی سیر بھی کرلی۔ لکھتی ہیں ''چینی لوگ ماضی کی عزت کرتے ہیں لیکن وہ مستقبل کی تلاش میں حال کو فراموش نہیں کرتے''
اب احمد کے ہانگ کانگ سے تبادلے کا وقت آگیا تھا اور یہ ان کے ریٹائرمنٹ کا زمانہ بھی تھا۔ قمر واپس پاکستان جانے پر کافی خوش تھیں۔ سوچ رہی تھیں کہ اتنے عرصے باہر رہنے کے بعد بہت سے تجربوں سے فائدہ اٹھاؤںگی۔ غریب عورتوں اور بچوں کے لیے اپنے علاقے میں مدرسہ قائم کروںگی۔ ان کی بہبود کے لیے اور عورتوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے کمیونٹی سینٹر قائم کروںگی۔احمد کی ریٹائرمنٹ کے احکامات آگئے تو اکثر اخباروں کی نمایندہ خواتین آکر پوچھتیں کہ ان کا آئندہ کا پروگرام کیا ہے۔قمر احمد علی لکھتی ہیں ''میں بتاتی کہ میرا کیا کیا کرنے کا پروگرام ہے اپنا گھر ہوگا، اس کو اپنی مرضی کے مطابق بناؤںگی اپنے عزیزوں سے ملنا رہے گا۔ میرے والد لکھنو میں تنہا رہتے ہیں ضعیف ہیں میں ان کو بلاؤں۔ وہ میرے پاس آکر رہیںگے میں نے مکان کے لیے کچھ چیزیں، ایک چھوٹا سا جاپانی باغ اس کے لیے کچھ دلچسپ سامان خریدا ہے ہم اپنے گھر میں ہوںگے میرے پاپا ساتھ ہوںگے میں ان کی خوب خدمت کروںگی جس کا مجھے باہر رہنے کی وجہ سے اب تک موقع نہیں ملا ہے'' لیکن بقول قمر کے پاپا ''پروگرام کیا معنی رکھتاہے'' ایسا ہی ہوا۔
قمرکے والد کا انتقال ہوگیا، احمد علی خان کے انتقال کو ابھی تیس برس ہوگئے ہیں، بیٹے شاہ رخ چالیس سال سے لندن میں رہتے ہیں، بیٹی زمزم 25سال سے امریکا میں ہیں کراچی میں قمر تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں پڑھاتی ہیں، بچوں کے لیے کتابیں لکھتی ہیں، تعلیمی اداروں کو مشورے دیتی ہیں اور سماجی بہبود کے کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔