اردوبے قاعدہ پ سے پارلیمنٹ
دہلی نہ معلوم کتنی بار ٹوٹی اور اس کا سہاگ اجڑا۔ اس کا قصہ کتابوں میں محفوظ ہے۔
دہلی نہ معلوم کتنی بار ٹوٹی اور اس کا سہاگ اجڑا۔ اس کا قصہ کتابوں میں محفوظ ہے۔ مگر ہماری پارلیمنٹ کا کیا حشر نشر ہوتا رہا اس کا حساب کتاب کسی کے پاس نہیں ہے۔ (اس لیے کہ ہمارے ہاں ریکارڈ رکھنے کا رواج نہیں ہے) اس کا ذمے دار کون ہے۔ یہ نشاندہی کرنے والابھی کوئی نہیں۔ یہ کبھی اپنے قدموں پر کھڑی دکھائی ہی نہیں دیتی، لڑکھڑا کر گرجاتی ہے۔ غالباً اس کی ٹانگیں کمزور ہیں۔ بعض افراد اس کی ٹانگیں مضبوط کرنے کے چکر میں اس کے گٹّوں میں ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ آمروں کے ہاتھوں ٹوٹتی ہے اور (ناکام) سیاست دانوں کے ہاتھوں اس کی تعمیر نو ہوتی ہے۔ لیکن ہر بار ریت کا محل ثابت ہوتی ہے۔ (بیچارے) عوام جب جمہوریت کے بوجھ (جو مہنگائی اور ٹیکس کی صورت میں ان کے سروں پر لادا جانے لگتا ہے) تلے دبنے بلکہ پسنے لگتے ہیں تو وردی والوں کی طرف دیکھتے اور کبھی کبھار تو نیٹ پر آوازیں دینے لگتے یا ان کی تصاویر کے بینر لہرانے لگتے ہیں۔
جب وردی والے آجاتے ہیں تب چند ماہ گاڑی لڑکھڑاتی ہوئی چلتی رہتی ہے، مگر پھر جام ہوجاتی ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وردی والوں کو بھی ملک چلانے کا سلیقہ نہیں ہوتا، وہ بھی پبلک سیکٹر کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتے اور الیکشن کے بجائے سلیکشن کرلیتے ہیں۔ پالیسی؟ کوئی ہوتی نہیں۔ اس لیے کہ پالیسی میکر تو حکمران اعلیٰ ہوتا ہے جو قانون کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتا ہے اور آرڈی نینسوں سے کام چلاتا ہے، یعنی کرلو جو کرنا ہے، میں جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔
عوامی پارلیمنٹ میں مختلف علاقوں سے اراکین منتخب ہوکر آتے ہیں، پھر اس کو کوئی نہیں چلاتا، پارلیمنٹ خودبخود چل پڑتی ہے۔ (بشرطیکہ کوئی دھرنا بیچ میں نہ آجائے) اراکین کو اپنے مشاغل سے فرصت نہیں ملتی (یہ بہت مصروف ہوتے ہیں، صرف تصویر کھنچوانے کے لیے پبلک میں جاتے ہیں) چنانچہ یہ پارلیمنٹ میں بھی پابندی سے نہیں آتے، کورم پورا نہیں ہوتا، لیکن پارلیمنٹ چلتی رہتی ہے۔ (اسی پر علما و فضلا آنکھیں پھیلا کر کہتے ہیں کہ اس ملک کو بندے نہیں، خدا چلا رہا ہے۔) عام لوگ سادہ لوح ہیں اور ووٹ ڈالنے کے بعد بھول جاتے ہیں کہ کرنا کیا ہے؟ (اگر ان کے ہاتھ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والوں کی گردنوں پر ہوں تو انھیں چھٹی کا دودھ یاد آتا رہے) وہ روٹی دال اور صاف پانی کے چکر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں پاتے۔ کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتے۔ البتہ جب کوئی ان کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیتا ہے تو وہ چیخنے لگتے ہیں۔ پھر انقلاب لانے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ آنے والے مریخ سے تھوڑی آئیں گے، وہ بھی اسی ملک کے باشندے ہیں اور ان میں بھی نمک کے برابر ایمانداری، دیانت داری، پاسداری اور رواداری ہے، جو اس سے پہلے والوں میں تھی۔ ابتدا میں تماشا دیکھنے والوں (بیچارے عوام) کو سب کچھ ''اچھا اور نیا نیا'' سا لگتا ہے۔ اخبارات میں دوسری تصاویر شائع ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ پرانے فریموں میں نئے چہرے سیٹ ہوجاتے ہیں۔ اخبارات میں بیانات کا ڈھیر لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہم یہ کردیں گے، وہ کردیں گے، وغیرہ۔ کچھ دنوں بعد پتا چلتا ہے کہ پچھلے اراکین پارلیمنٹ ہی اچھے تھے۔
ادھر کچھ یوں ہورہا ہے کہ ایک ہی خاندان حکومت کیے جارہا ہے۔ اس لیے کوئی بڑی تبدیلی آہی نہیں رہی ہے۔ وہی پرانی سوچ، پرانی بوتلوں میں پرانا اور سڑا ہوا پانی۔
ایسا کوئی نہیں ملتا جو وہ کہہ رہا ہے، وہ کر بھی ڈالے۔ اگر آٹھ یا دس برس پہلے کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیے جائیں تو ملکی ترقی کے بارے میں سیاست دانوں کے جو لمبے چوڑے بیانات پہلے شائع ہوتے تھے، وہی اب بھی شائع ہوتے ہیں، جب کہ ملک وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ پارلیمنٹ وہی کررہی ہے جو پہلے کررہی تھی، یعنی اراکین اپنی جگہوں پر بیٹھ کر ڈیسک بجاتے ہیں یا پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ پھر جب حسب خواہ حکومت پر پریشر پڑجاتا ہے تو پارلیمنٹ میں واپس آجاتے ہیں۔
جو صاحب اقتدار ہوتے ہیں انھیں ''سب اچھا'' نظر آتا ہے۔ (کیونکہ وہ اپنی ناک کے آگے دیکھ ہی نہیں پاتے) جو اقتدار میں نہیں ہوتے انھیں ''سب خراب'' دکھائی دیتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں آتے ہیں تو الزامات کی بوری اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں پھر اسے صاحب اقتدار افراد پر الٹ دیتے ہیں۔ جب اس پر بھی بس نہیں چلتا تو گالیوں، لاتوں، گھونسوں اور تھپڑوں کا بے بھاؤ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد پارلیمنٹ اور مچھلی بازار میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا۔ دراصل اس میں ''میں نہ مانوں'' کا عنصر بھی کارفرما ہوتا ہے، جن پر لعن طعن کی جارہی ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ غلط سمجھے یوں نہ تھا، فقط ''یوں'' تھا۔ ان کی یوں ووں دوسروں کو پسند نہیں آتی۔ نتیجے کے طور پر جسمانی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ شنیدن ہے کہ کسی زمانے میں ڈھاکا پارلیمنٹ میں کچھ ممبر زیادہ ہی جذباتی ہوگئے، انھوں نے ''میں نہ مانوں'' کہنے والے ممبر پر فائرنگ کرکے اسے دوسری دنیا میں پہنچادیا تھا۔
ممبران پارلیمنٹ کو اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی محکمے کو (خاص طور پر محکمہ پولیس کو) بہتر نہیں بناسکتے، دہشت گردی ختم نہیں کرسکتے، تعلیم کو عام نہیں کرسکتے، سڑکوں سے کوڑا نہیں اٹھوا سکتے، چیزوں سے ملاوٹ ختم نہیں کروا سکتے، رشوت ستانی کا خاتمہ نہیں کرا سکتے، بلاجواز بڑھنے والی قیمتوں کی روک تھام نہیں کرسکتے، لوڈشیڈنگ ختم نہیں کراسکتے، لوگوں کو صاف پانی مہیا نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ان کا سارا زور ہائی وے بنانے، پل بنانے، شاندار عمارات بنانے اور پارک بنانے پر صرف ہوتا ہے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔ یعنی زمین پر ایک چیز قائم کردی، اپنے نام کی تختی لگوادی، اخبارات میں فیتہ کاٹتے ہوئے اپنی تصاویر شائع کرادیں اور ٹھیکے دار سے اپنا کمیشن بھی وصول کرلیا۔ (اس بیچارے کے بلوں کی ادائیگی تو اس وقت تک نہیں ہوتی ہے، جب تک وہ اپنی جیب سے کمیشن ادا نہ کردے)
پارلیمنٹ کے بعض حکومتی ممبران اس پھوہڑپن سے کام کرتے ہیں کہ کرپشن کی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں۔ بات اس وقت لیک آؤٹ ہوجاتی ہے جب متعلقہ افراد کو اپنا حصہ نہیں ملتا۔ (سمجھ دار افراد حصے داری کا پورا خیال رکھتے ہیں۔) سب لتّے لے کر اس ''مخصوص شخص'' کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں، لیکن ثابت کچھ نہیں کرپاتے۔ معاملہ اخبارات میں خوب خوب اچھالا جاتا ہے، لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ معاملہ بتدریج اس لیے ٹھنڈا ہوجاتا ہے کہ مذکورہ شخص سب کی جیب میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتا ہے۔ یوں سب کے منہ بند ہوجاتے ہیں۔ پینڈورا کا بکس بند ہوجاتا ہے اور ساری بلائیں واپس اس میں بند ہوجاتی ہیں۔ ہمیں اس لفڑے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ ایران توران، یورپ اور امریکا میں کیا ہوتا ہے۔ ان کی پارلیمنٹ کیسے کام کرتی ہے اور پبلک کا کوئی فرد اگر کسی پر اعتراض کردے تو وہ اس کا جواب دہ ہوتا ہے، نہ کہ اسے اٹھوا کر پارلیمنٹ سے باہر پھنکوا دیتا ہے۔ اگر کوئی ہاتھ اٹھا کر ''وہاں'' کی مثال دیتا ہے تو ریت میں منہ چھپا کر (مانند شتر مرغ) جواب ملتا ہے کہ وہاں کی پارلیمنٹ بہت پرانی ہے، لوگ تعلیم یافتہ ہیں، سمجھ دار ہیں، قانون پر عمل کرتے ہیں۔ گویا ہم آداب پارلیمنٹ سے واقف نہیں ہیں، تعلیم یافتہ نہیں ہیں، سمجھ دار نہیں ہیں اور قانون پر عمل بھی نہیں کرتے (البتہ اس میں ترمیمات کرتے رہتے ہیں)۔
جب وردی والے آجاتے ہیں تب چند ماہ گاڑی لڑکھڑاتی ہوئی چلتی رہتی ہے، مگر پھر جام ہوجاتی ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وردی والوں کو بھی ملک چلانے کا سلیقہ نہیں ہوتا، وہ بھی پبلک سیکٹر کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتے اور الیکشن کے بجائے سلیکشن کرلیتے ہیں۔ پالیسی؟ کوئی ہوتی نہیں۔ اس لیے کہ پالیسی میکر تو حکمران اعلیٰ ہوتا ہے جو قانون کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتا ہے اور آرڈی نینسوں سے کام چلاتا ہے، یعنی کرلو جو کرنا ہے، میں جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔
عوامی پارلیمنٹ میں مختلف علاقوں سے اراکین منتخب ہوکر آتے ہیں، پھر اس کو کوئی نہیں چلاتا، پارلیمنٹ خودبخود چل پڑتی ہے۔ (بشرطیکہ کوئی دھرنا بیچ میں نہ آجائے) اراکین کو اپنے مشاغل سے فرصت نہیں ملتی (یہ بہت مصروف ہوتے ہیں، صرف تصویر کھنچوانے کے لیے پبلک میں جاتے ہیں) چنانچہ یہ پارلیمنٹ میں بھی پابندی سے نہیں آتے، کورم پورا نہیں ہوتا، لیکن پارلیمنٹ چلتی رہتی ہے۔ (اسی پر علما و فضلا آنکھیں پھیلا کر کہتے ہیں کہ اس ملک کو بندے نہیں، خدا چلا رہا ہے۔) عام لوگ سادہ لوح ہیں اور ووٹ ڈالنے کے بعد بھول جاتے ہیں کہ کرنا کیا ہے؟ (اگر ان کے ہاتھ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والوں کی گردنوں پر ہوں تو انھیں چھٹی کا دودھ یاد آتا رہے) وہ روٹی دال اور صاف پانی کے چکر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں پاتے۔ کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتے۔ البتہ جب کوئی ان کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیتا ہے تو وہ چیخنے لگتے ہیں۔ پھر انقلاب لانے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ آنے والے مریخ سے تھوڑی آئیں گے، وہ بھی اسی ملک کے باشندے ہیں اور ان میں بھی نمک کے برابر ایمانداری، دیانت داری، پاسداری اور رواداری ہے، جو اس سے پہلے والوں میں تھی۔ ابتدا میں تماشا دیکھنے والوں (بیچارے عوام) کو سب کچھ ''اچھا اور نیا نیا'' سا لگتا ہے۔ اخبارات میں دوسری تصاویر شائع ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ پرانے فریموں میں نئے چہرے سیٹ ہوجاتے ہیں۔ اخبارات میں بیانات کا ڈھیر لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہم یہ کردیں گے، وہ کردیں گے، وغیرہ۔ کچھ دنوں بعد پتا چلتا ہے کہ پچھلے اراکین پارلیمنٹ ہی اچھے تھے۔
ادھر کچھ یوں ہورہا ہے کہ ایک ہی خاندان حکومت کیے جارہا ہے۔ اس لیے کوئی بڑی تبدیلی آہی نہیں رہی ہے۔ وہی پرانی سوچ، پرانی بوتلوں میں پرانا اور سڑا ہوا پانی۔
ایسا کوئی نہیں ملتا جو وہ کہہ رہا ہے، وہ کر بھی ڈالے۔ اگر آٹھ یا دس برس پہلے کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیے جائیں تو ملکی ترقی کے بارے میں سیاست دانوں کے جو لمبے چوڑے بیانات پہلے شائع ہوتے تھے، وہی اب بھی شائع ہوتے ہیں، جب کہ ملک وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ پارلیمنٹ وہی کررہی ہے جو پہلے کررہی تھی، یعنی اراکین اپنی جگہوں پر بیٹھ کر ڈیسک بجاتے ہیں یا پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ پھر جب حسب خواہ حکومت پر پریشر پڑجاتا ہے تو پارلیمنٹ میں واپس آجاتے ہیں۔
جو صاحب اقتدار ہوتے ہیں انھیں ''سب اچھا'' نظر آتا ہے۔ (کیونکہ وہ اپنی ناک کے آگے دیکھ ہی نہیں پاتے) جو اقتدار میں نہیں ہوتے انھیں ''سب خراب'' دکھائی دیتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں آتے ہیں تو الزامات کی بوری اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں پھر اسے صاحب اقتدار افراد پر الٹ دیتے ہیں۔ جب اس پر بھی بس نہیں چلتا تو گالیوں، لاتوں، گھونسوں اور تھپڑوں کا بے بھاؤ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد پارلیمنٹ اور مچھلی بازار میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا۔ دراصل اس میں ''میں نہ مانوں'' کا عنصر بھی کارفرما ہوتا ہے، جن پر لعن طعن کی جارہی ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ غلط سمجھے یوں نہ تھا، فقط ''یوں'' تھا۔ ان کی یوں ووں دوسروں کو پسند نہیں آتی۔ نتیجے کے طور پر جسمانی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ شنیدن ہے کہ کسی زمانے میں ڈھاکا پارلیمنٹ میں کچھ ممبر زیادہ ہی جذباتی ہوگئے، انھوں نے ''میں نہ مانوں'' کہنے والے ممبر پر فائرنگ کرکے اسے دوسری دنیا میں پہنچادیا تھا۔
ممبران پارلیمنٹ کو اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی محکمے کو (خاص طور پر محکمہ پولیس کو) بہتر نہیں بناسکتے، دہشت گردی ختم نہیں کرسکتے، تعلیم کو عام نہیں کرسکتے، سڑکوں سے کوڑا نہیں اٹھوا سکتے، چیزوں سے ملاوٹ ختم نہیں کروا سکتے، رشوت ستانی کا خاتمہ نہیں کرا سکتے، بلاجواز بڑھنے والی قیمتوں کی روک تھام نہیں کرسکتے، لوڈشیڈنگ ختم نہیں کراسکتے، لوگوں کو صاف پانی مہیا نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ان کا سارا زور ہائی وے بنانے، پل بنانے، شاندار عمارات بنانے اور پارک بنانے پر صرف ہوتا ہے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔ یعنی زمین پر ایک چیز قائم کردی، اپنے نام کی تختی لگوادی، اخبارات میں فیتہ کاٹتے ہوئے اپنی تصاویر شائع کرادیں اور ٹھیکے دار سے اپنا کمیشن بھی وصول کرلیا۔ (اس بیچارے کے بلوں کی ادائیگی تو اس وقت تک نہیں ہوتی ہے، جب تک وہ اپنی جیب سے کمیشن ادا نہ کردے)
پارلیمنٹ کے بعض حکومتی ممبران اس پھوہڑپن سے کام کرتے ہیں کہ کرپشن کی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں۔ بات اس وقت لیک آؤٹ ہوجاتی ہے جب متعلقہ افراد کو اپنا حصہ نہیں ملتا۔ (سمجھ دار افراد حصے داری کا پورا خیال رکھتے ہیں۔) سب لتّے لے کر اس ''مخصوص شخص'' کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں، لیکن ثابت کچھ نہیں کرپاتے۔ معاملہ اخبارات میں خوب خوب اچھالا جاتا ہے، لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ معاملہ بتدریج اس لیے ٹھنڈا ہوجاتا ہے کہ مذکورہ شخص سب کی جیب میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتا ہے۔ یوں سب کے منہ بند ہوجاتے ہیں۔ پینڈورا کا بکس بند ہوجاتا ہے اور ساری بلائیں واپس اس میں بند ہوجاتی ہیں۔ ہمیں اس لفڑے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ ایران توران، یورپ اور امریکا میں کیا ہوتا ہے۔ ان کی پارلیمنٹ کیسے کام کرتی ہے اور پبلک کا کوئی فرد اگر کسی پر اعتراض کردے تو وہ اس کا جواب دہ ہوتا ہے، نہ کہ اسے اٹھوا کر پارلیمنٹ سے باہر پھنکوا دیتا ہے۔ اگر کوئی ہاتھ اٹھا کر ''وہاں'' کی مثال دیتا ہے تو ریت میں منہ چھپا کر (مانند شتر مرغ) جواب ملتا ہے کہ وہاں کی پارلیمنٹ بہت پرانی ہے، لوگ تعلیم یافتہ ہیں، سمجھ دار ہیں، قانون پر عمل کرتے ہیں۔ گویا ہم آداب پارلیمنٹ سے واقف نہیں ہیں، تعلیم یافتہ نہیں ہیں، سمجھ دار نہیں ہیں اور قانون پر عمل بھی نہیں کرتے (البتہ اس میں ترمیمات کرتے رہتے ہیں)۔