پاکستانی ساحل سے پہلی بار نایاب نسل کا کچھوا لوگر ہیڈ مل گیا
15دسمبرکوماہی گیرکے جال میں پھنسنے والے اس کچھوے کوسمندرمیں چھوڑدیاگیا،لوگر ہیڈکے شواہد پہلے نہیں ملے
کراچی میں پہلی بار نایاب نسل کے کچھوے لوگر ہیڈ کے شواہد مل گئے، 15دسمبر کو ماہی گیر حسنت خان نے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کو اطلاع دی کہ اس کے جال میں مختلف قسم کا کچھوا پھنس گیا ہے جسے پیمائش کے بعد دوبارہ سمندر میں چھوڑدیا گیا۔
ماہرین کے مطابق یہ کچھوا دنیا کے بہت سے گرم ممالک میں پایا جاتا ہے اور عمان میں اس نسل کے کچھووں کی بڑی تعداد انڈے دینے آتی ہے ، پاکستان میںاس نسل کے کچھوے کی موجودگی کے شواہد پہلے کبھی نہیں ملے ، چند سال قبل اس نسل کے کچھوے کی پاکستان میں دریافت کے حوالے سے مقالہ لکھا گیا مگر وہ ایک زیتونی کچھوا تھا، ماہرین کے مطابق لوگرہیڈ نامی اس کچھوے کا پاکستان کے ساحل سے ملنا اہمیت کا حامل ہے، سائنسی اعتبار سے اس کچھوے کا پاکستان کے ساحل سے نہ ملنا تعجب کا باعث تھا۔
دوسری جانب ماہرین آبی حیات نے ماہی گیروں کے نایاب نسل کے آبی حیات کو واپس سمندر میں چھوڑنے کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مقامی ماہی گیر حسنت خان نے نہ صرف کچھوے کی اقسام کو پہلی دفعہ پاکستان میں دریافت کیا اور اس کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کچھوے کو احتیاط سے واپس سمندر میں چھوڑدیا جو انتہائی خوش آئند امر ہے۔محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ماہرین نے اس کچھوے کو لوگرہیڈ کے طور پر شناخت کیا ہے۔
نایاب نسل کی آبی حیات کی بقا کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تحت ماہی گیروں کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت اب تک 40 ماہی گیروں کو تربیت دی جاچکی ہے،تربیت یافتہ ماہی گیر نہ صرف اپنے جال میں پھنسنے والے نایاب جانوروں کو بحفاظت چھوڑدیتے ہیں بلکہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیگر ماہی گیروں نے بھی اپنے جال میں پھنس جانے والے نایاب جانوروںکو واپس سمندر میں چھوڑنا شروع کردیا ہے، ایک اندازے کے مطابق اب تک پاکستان کے ساحل سے ماہی گیروں نے 30 ہزار کچھوے،17 وہیل شارک، 2 ڈولفن اور ایک وہیل مچھلی کو واپس چھوڑا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف ترجمان کے مطابق پاکستان میں کچھووں کی 4 اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سبزکچھوا سب سے عام ہے اور اس کی مادہ پاکستانی ساحلوں کے بہت سے مقامات پر انڈے دینے آٓتی ہے جس میں سینڈزپٹ، ہاکس بے، گوادر اور دران (جیوانی) شامل ہیں، کچھووں کی دوسری قسم کو زیتونی کچھوا کہا جاتاہے2012 سے قبل زیتونی کچھوے پاکستان کے ساحلوں پر کئی مقامات پر انڈے دینے آتے تھے اب یہ پاکستانی ساحلوں پر ناپید ہوگئے ہیں مگر پاکستان کے گہرے ساحلوں میں ان کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے، کچھووں کی مزید 2 اقسام لیدربیک اور پاکس بل ہیں جوکہ گوادر اور ملان کے ساحلوں پر آتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ کچھوا دنیا کے بہت سے گرم ممالک میں پایا جاتا ہے اور عمان میں اس نسل کے کچھووں کی بڑی تعداد انڈے دینے آتی ہے ، پاکستان میںاس نسل کے کچھوے کی موجودگی کے شواہد پہلے کبھی نہیں ملے ، چند سال قبل اس نسل کے کچھوے کی پاکستان میں دریافت کے حوالے سے مقالہ لکھا گیا مگر وہ ایک زیتونی کچھوا تھا، ماہرین کے مطابق لوگرہیڈ نامی اس کچھوے کا پاکستان کے ساحل سے ملنا اہمیت کا حامل ہے، سائنسی اعتبار سے اس کچھوے کا پاکستان کے ساحل سے نہ ملنا تعجب کا باعث تھا۔
دوسری جانب ماہرین آبی حیات نے ماہی گیروں کے نایاب نسل کے آبی حیات کو واپس سمندر میں چھوڑنے کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مقامی ماہی گیر حسنت خان نے نہ صرف کچھوے کی اقسام کو پہلی دفعہ پاکستان میں دریافت کیا اور اس کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کچھوے کو احتیاط سے واپس سمندر میں چھوڑدیا جو انتہائی خوش آئند امر ہے۔محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ماہرین نے اس کچھوے کو لوگرہیڈ کے طور پر شناخت کیا ہے۔
نایاب نسل کی آبی حیات کی بقا کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تحت ماہی گیروں کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت اب تک 40 ماہی گیروں کو تربیت دی جاچکی ہے،تربیت یافتہ ماہی گیر نہ صرف اپنے جال میں پھنسنے والے نایاب جانوروں کو بحفاظت چھوڑدیتے ہیں بلکہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیگر ماہی گیروں نے بھی اپنے جال میں پھنس جانے والے نایاب جانوروںکو واپس سمندر میں چھوڑنا شروع کردیا ہے، ایک اندازے کے مطابق اب تک پاکستان کے ساحل سے ماہی گیروں نے 30 ہزار کچھوے،17 وہیل شارک، 2 ڈولفن اور ایک وہیل مچھلی کو واپس چھوڑا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف ترجمان کے مطابق پاکستان میں کچھووں کی 4 اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سبزکچھوا سب سے عام ہے اور اس کی مادہ پاکستانی ساحلوں کے بہت سے مقامات پر انڈے دینے آٓتی ہے جس میں سینڈزپٹ، ہاکس بے، گوادر اور دران (جیوانی) شامل ہیں، کچھووں کی دوسری قسم کو زیتونی کچھوا کہا جاتاہے2012 سے قبل زیتونی کچھوے پاکستان کے ساحلوں پر کئی مقامات پر انڈے دینے آتے تھے اب یہ پاکستانی ساحلوں پر ناپید ہوگئے ہیں مگر پاکستان کے گہرے ساحلوں میں ان کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے، کچھووں کی مزید 2 اقسام لیدربیک اور پاکس بل ہیں جوکہ گوادر اور ملان کے ساحلوں پر آتے ہیں۔