بنگلہ دیش کا دورۂ پاکستان سیاہ بادل نہ چھٹ سکے
بعض حلقوں نے روڑے اٹکانا شروع کردیے، چندبورڈ ڈائریکٹرز بھی مخالف، سیکیورٹی صورتحال بہتر نہ ہونے کاجواز۔
بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے مجوزہ دورہ پاکستان پر چھائے سیاہ بادل چھٹنے کا نام لینے کو تیار نہیں ہیں۔
پی سی بی کی جانب سے سیریز کے حوالے سے مثبت خیالات کا اظہار بعض حلقوں کو سخت ناگوار گذرا اور انھوں نے روڑے اٹکانا شروع کر دیے ہیں، بنگلہ بورڈ کے بعض ڈائریکٹرز بھی ٹورکے سخت مخالف ہیں، ملالہ واقعے کی آڑ میں سیریز سے جان چھڑانے کی کوششیں ہو رہی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک کی سیکیورٹی صورتحال بہتر نہیں ہوئی لہذا فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا ہوگا، دسمبر میں بی سی بی کے انتخابات بھی ہونے ہیں اور حکام کے مطابق یہ وقت کسی حساس فیصلے کیلیے مناسب نہیں ہے۔
ادھر صدر نظم الحسن کے مطابق دورے کے حوالے سے گذشتہ میٹنگ میں کوئی بات نہیں ہوئی،اسی کے ساتھ بعض حلقوں کاکہنا ہے کہ صرف دو روز کیلیے ٹیم بھیجنے کی تجویز پر غورجاری ہے، سیریز کے بقیہ میچز ڈھاکا میں ہی ہو سکتے ہیں،ادھر پٹیشن کے ذریعے اپریل کا دورہ ملتوی کرانے والے دونوں افراد ایک بار پھر یہ اقدام دہرانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق بنگلہ دیشی ٹیم کو اپریل میں پاکستان کا ٹور کرنا تھا مگر ڈھاکا میں ہائی کورٹ ڈویژن بینچ نے ایک مقامی وکیل اور پرائیوٹ یونیورسٹی ٹیچر کی رٹ پٹیشن پر سیریزکیخلاف حکم امتناع جاری کر دیا، انھوں نے پڑوسی ملک کی سیکیورٹی صورتحال کوجواز بنایا تھا، بی سی بی کے سابق مصطفیٰ کمال جب آئی سی سی کی نائب صدارت پر فائز ہوئے تو پاکستان کے شکر گذار نظر آئے جس نے انھیں نامزد کیا تھا۔
انھوں نے ایک بار پھر سیریز کے انعقاد کی آس دلائی، کراچی میں انٹرنیشنل ورلڈالیون کے دو میچز کامیابی سے ہونے کے بعد پی سی بی کے حوصلے بھی بڑھے، چیئرمین ذکا اشرف نے اتوار کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کسی غیرملکی ٹیم کے ٹور کا اشارہ دیا تھا،ان سے قبل نو منتخب صدر بنگلہ دیشی بورڈ نظم الحسن نے بھی کہا تھا کہ وہ ٹیم پاکستان بھیجنے پر غور کریں گے، ابھی یہ اطلاعات سامنے آئی ہی تھیں کہ دورے کی مخالف لابیز سرگرم ہو گئیں،ایسے میں نظم الحسن کو بھی بیک فٹ پر جانا پڑا، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بدھ کو ہونے والی میٹنگ میں دورئہ پاکستان پر تبادلہ خیال نہیں ہوا کیونکہ یہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، البتہ دیگر بورڈ حکام نے میڈیا کو بتایا کہ غیررسمی طور پر ٹور کے حوالے سے بات چیت جاری ہے اور اب یکم نومبر کے اجلاس میں مزید غور ہو گا، ایک آفیشل کے مطابق گفتگو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
ہم بعض تجاویز پر غور کر رہے ہیں مگر اس کا انحصار کئی دیگر معاملات پر ہوگا، ایک تجویز یہ ہے کہ خیرسگالی کے اظہار کیلیے بنگلہ دیشی ٹیم کو صرف دو روز کیلیے پاکستان بھیجا جائے جہاں ایک یا دو میچز ہو سکتے ہیں، سیریز کے بقیہ میچز کا انعقاد ڈھاکا میں کیا جائے۔ بورڈ آفیشل نے مزید بتایا کہ حتمی منظوری سے قبل سیکیورٹی معاملات پر غور کرنا ہوگا، دسمبر میں بورڈ کے انتخابات بھی ہو رہے ہیں اور ایسے وقت میں کوئی بھی ڈائریکٹر اتنے حساس فیصلے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، گذشتہ 6 ماہ کے دوران پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی، جو ملک پڑھائی کی شوقین ایک14سالہ بچی کیلیے محفوظ نہیں وہاں ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا ہوگا، یاد رہے کہ 2009میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے پاکستان کو غیرملکی ٹیموں کیلیے نوگوایریا بنا دیا ہے۔
پی سی بی کی جانب سے سیریز کے حوالے سے مثبت خیالات کا اظہار بعض حلقوں کو سخت ناگوار گذرا اور انھوں نے روڑے اٹکانا شروع کر دیے ہیں، بنگلہ بورڈ کے بعض ڈائریکٹرز بھی ٹورکے سخت مخالف ہیں، ملالہ واقعے کی آڑ میں سیریز سے جان چھڑانے کی کوششیں ہو رہی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک کی سیکیورٹی صورتحال بہتر نہیں ہوئی لہذا فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا ہوگا، دسمبر میں بی سی بی کے انتخابات بھی ہونے ہیں اور حکام کے مطابق یہ وقت کسی حساس فیصلے کیلیے مناسب نہیں ہے۔
ادھر صدر نظم الحسن کے مطابق دورے کے حوالے سے گذشتہ میٹنگ میں کوئی بات نہیں ہوئی،اسی کے ساتھ بعض حلقوں کاکہنا ہے کہ صرف دو روز کیلیے ٹیم بھیجنے کی تجویز پر غورجاری ہے، سیریز کے بقیہ میچز ڈھاکا میں ہی ہو سکتے ہیں،ادھر پٹیشن کے ذریعے اپریل کا دورہ ملتوی کرانے والے دونوں افراد ایک بار پھر یہ اقدام دہرانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق بنگلہ دیشی ٹیم کو اپریل میں پاکستان کا ٹور کرنا تھا مگر ڈھاکا میں ہائی کورٹ ڈویژن بینچ نے ایک مقامی وکیل اور پرائیوٹ یونیورسٹی ٹیچر کی رٹ پٹیشن پر سیریزکیخلاف حکم امتناع جاری کر دیا، انھوں نے پڑوسی ملک کی سیکیورٹی صورتحال کوجواز بنایا تھا، بی سی بی کے سابق مصطفیٰ کمال جب آئی سی سی کی نائب صدارت پر فائز ہوئے تو پاکستان کے شکر گذار نظر آئے جس نے انھیں نامزد کیا تھا۔
انھوں نے ایک بار پھر سیریز کے انعقاد کی آس دلائی، کراچی میں انٹرنیشنل ورلڈالیون کے دو میچز کامیابی سے ہونے کے بعد پی سی بی کے حوصلے بھی بڑھے، چیئرمین ذکا اشرف نے اتوار کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کسی غیرملکی ٹیم کے ٹور کا اشارہ دیا تھا،ان سے قبل نو منتخب صدر بنگلہ دیشی بورڈ نظم الحسن نے بھی کہا تھا کہ وہ ٹیم پاکستان بھیجنے پر غور کریں گے، ابھی یہ اطلاعات سامنے آئی ہی تھیں کہ دورے کی مخالف لابیز سرگرم ہو گئیں،ایسے میں نظم الحسن کو بھی بیک فٹ پر جانا پڑا، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بدھ کو ہونے والی میٹنگ میں دورئہ پاکستان پر تبادلہ خیال نہیں ہوا کیونکہ یہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، البتہ دیگر بورڈ حکام نے میڈیا کو بتایا کہ غیررسمی طور پر ٹور کے حوالے سے بات چیت جاری ہے اور اب یکم نومبر کے اجلاس میں مزید غور ہو گا، ایک آفیشل کے مطابق گفتگو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
ہم بعض تجاویز پر غور کر رہے ہیں مگر اس کا انحصار کئی دیگر معاملات پر ہوگا، ایک تجویز یہ ہے کہ خیرسگالی کے اظہار کیلیے بنگلہ دیشی ٹیم کو صرف دو روز کیلیے پاکستان بھیجا جائے جہاں ایک یا دو میچز ہو سکتے ہیں، سیریز کے بقیہ میچز کا انعقاد ڈھاکا میں کیا جائے۔ بورڈ آفیشل نے مزید بتایا کہ حتمی منظوری سے قبل سیکیورٹی معاملات پر غور کرنا ہوگا، دسمبر میں بورڈ کے انتخابات بھی ہو رہے ہیں اور ایسے وقت میں کوئی بھی ڈائریکٹر اتنے حساس فیصلے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، گذشتہ 6 ماہ کے دوران پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی، جو ملک پڑھائی کی شوقین ایک14سالہ بچی کیلیے محفوظ نہیں وہاں ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا ہوگا، یاد رہے کہ 2009میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے پاکستان کو غیرملکی ٹیموں کیلیے نوگوایریا بنا دیا ہے۔