غفلت کیوں اور کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے
ہم اپنے ساتھ ہونیوالے بُرے کام پرتولعن طعن کرتے ہیں لیکن اپنی غفلت اورمستقبل میں احتیاط کے پہلوکو نظرانداز کردیتے ہیں۔
آج کل کی روز مرہ کی زندگی میں ہمیں عموماً ایسے واقعات سُننے کو ملتے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے واقعی اخلاقی قدریں ناپید و اصلاحی اقدامات ناکافی ہوتے چلے جارہے ہیں۔ بلکہ اگر آپ کسی سے اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی معمولی سے واقعہ کا ذکر بھی کریں تو اگلا فوراً کہہ دے گا کہ میرے ساتھ یا میرے فلاں قریبی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوچکا ہے۔ اصل میں آج اگر ہم صرف اپنے تئیں غور کریں تو ہم ذہن، جسم اور وقت کے ملاپ کے بغیر دن گذار رہے ہیں۔ یعنی تینوں میں کوئی ہم آہنگی نہیں۔ بس اسی کا فائدہ اُٹھا کر کوئی دوسرا ہمیں پلک جھپکتے نقصان پہنچانے میں دیر نہیں کرتا۔
پھر ہم اُس بُرے کام پر تو لعن طعن کرتے ہیں لیکن اپنی غفلت اور مستقبل میں احتیاط کے پہلو کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ لہذا اس پر غور کرنے کیلئے چند روز مرہ معاملات کو زیرِ ِبحث لانا بہت ضروری ہے۔
یہ بھی ہماری ذہنی اُلجھنوں کا پیش خیمہ ہے کہ آج ہم اس ڈیوائس کے بغیر نہیں رہ سکتے اور غیر ضروری مواقعوں پر بھی استعمال کرکے وہاں ہی رکھ کر کسی کام میں مصروف ہوجاتے ہیں یا وہ کہیں گر بھی جاتا ہے۔ بس اب یہ اُس کا حق ہے جسکو مل گیا۔ بلکہ ایسے لگتا ہے کہ وہ اُس ہی کی تاک میں ہوتا ہے۔ حالانکہ ایسی صورت ِحال میں ملنے والے کو اُس ہی موبائل میں موجود پہلے دو چار نمبروں میں سے کسی ایک پر کال کرکے اطلاع دے دینی چاہیئے کہ فلاں کا یہ موبائل میرے پاس ہے واپس لے جائیں، پر کیوں؟
اگر نو سر باز اپنے میدان میں سرگرمِ عمل رہتے ہیں تو عوام بھی اُن کے چکمے میں آئے بغیر نہیں رہتی۔ کبھی بیرونِ ملک جانے کا شوق اور کبھی اپنا گھر بنانے کیلئے پلاٹ حاصل کرنے کی خواہش وغیرہ۔ بلکہ آجکل تعمیر شُدہ گھر یا فلیٹ بھی اس ہی زُمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ ملازمت پیشہ ور افراد اس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وجہ ملازمت سے چُھٹیاں ممکن نہیں۔ بس اس ہی کا فائدہ اُٹھا کر آج ایسی تعمیراتی کمپنیاں بھی میدان میں آچکی ہیں جو خوبصورت گھر کی تعمیر کا خواب دکھا کر ایک بڑی رقم ہتھیا لیتی ہیں اور پھر چکر شروع، لیکن کمپنیوں کو احساس کہاں؟ انسان کے ہاتھوں انسان بے حال اور مکان ہواؤں میں!
عام طور پر پٹرول پمپ پر جا کر پٹرول ڈالونے والا یہ کہہ کر کہ اتنے روپے کا پٹرول ڈال دیں یا تو موبائل پر بات کرنا شروع کردیتا ہے یا پٹرول پمپ کے اسٹاف ہی کا کوئی دوسرا فرد اُس کو دوسری طرف باتوں میں لگا لیتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے کہ شیشہ صاف کردیں یا کسی پروموشن اسکیم کا ذکر کرتا ہے۔ اِس دوران کئی دفعہ پیٹرول ڈالنے والا فرد اپنے ذاتی فعل کے تحت میٹر کے روپے والے حصے کو تبدیل کردیتا ہے اور پھر صارف سے کہتا ہے کہ میٹر چیک کرلیں، پیٹرول ڈال دیا ہے۔ حالانکہ کسٹمر کو روپے والے میٹر کی بجائے لیٹر والے میٹر کو چیک کرنا چاہیئے۔
لیکن چونکہ وہ ذہنی طور پر وہاں موجود نہیں ہوتا۔ لہذا ہیرا پھیری تو روپے والے میٹر میں ہوچکی ہوتی ہے اور کسٹمر کم پیٹرول ڈالوا کر بھی مطمئن ہو کر چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی شک پر شکایت کر ہی دے تو جواب آتا ہے کہ میں نے آپکو میٹر صفر کرکے دکھا دیا تھا۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھلا کسی کو نقصان پہنچا کر کون سے اخلاقی اصول کی پیروی کی جاتی ہے؟ کیا اس سے نئی تعلیم میں نقص وفقدان گردانا جائے گا یا شیطانی کھیل کا گھمنڈ؟ آج کے مصروف ترین دور میں اگر کوئی ادارہ یا فرد اپنی معلومات کا مواد کمپیوٹر میں اس لئے محفوظ کرکے رکھتا ہے کہ جب کوئی معلومات درکا ہوں تو باآسانی حاصل کرلی جائیں۔ ان معلومات یا ویب کو ہیکرز اپنے بنائے ہوئے کسی بھی شیطانی سوفٹ وئیر سے ہیک کرلیتے ہیں۔ پاس ورڈ تبدیل کردینا، بینک اکاؤنٹ سے فنڈز منتقل کردینا، ٹیلی فون کارڈز کا استعمال اور وائرس سے کمپیوٹر کو نقصان پہنچانا وغیرہ بھی اس ہی کی کڑی ہے۔ بس جہاں یہ شیطانی عمل مالی طور پر نقصان کا باعث بنتا ہے وہیں ذہنی اذیت کا بھی۔
ویسے تو کوئی نئی بات نہیں، لیکن ایک وقت ہوگا کہ شاید ایسا کرنے والا کچھ تو خوف رکھتا ہو۔ خوفِ خدا یا خوفِ قانون! کیونکہ بہرحال فی الوقت تو ایسا کوئی خوف دکھائی نہیں دیتا۔ لہذا یہ ایسی واردات کا روپ اختیار کرچکی ہے کہ آئے دن کے اہم واقعات میں شمار ہونا اب معمول بن چکا ہے۔ موٹر سائیکل پر لٹیرے آتے ہیں اور گن پوائنٹ پر دوسرے کے پاس جو بھی ہو لیکر اڑن چھو، اور بصورتِ مزاحمت گولی چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ گذشتہ کچھ مدت سے موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین سے اُنکا پرس اسطرح چھیننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بے دھیانی میں سر کے بَل سڑک پر جا پڑتی ہیں اور پھر ''پولیس کے ساتھ ایمبولنس'' کو کال بھی یقینی ہوجاتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ کیمسٹ کے ساتھ ملی بھگت سے ہی ہوتا ہے۔ مقصد منافع کمانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ ایسا کام کرنے والوں کے نذدیک چونکہ زندہ رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ضروری ہے، اگر کسی کی زندگی جاتی ہے تو اِس بات سے اُن لوگوں کو کوئی فرق ںہیں پڑتا۔
یہ بھی ایک عام نوعیت کی بُرائی تصور کی جا رہی ہے۔ جس کے نتائج منفی ہی ہوتے ہیں۔ کئی شادی شُدہ افراد اپنی ملازمتیں چھوڑ کر اس میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی خوشیاں اپنے ہاتھوں برباد کردیتے ہیں ساتھ میں گھر بھی۔ بلکہ گذشتہ دنوں تو ایک فرد اس کام میں اتنا قرض دار ہوگیا کہ اُس نے چوہے مار دوائی پی کر خود کشی ہی کرلی۔
اِن کے علاوہ بھی کچھ اور معاملات میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ جن میں گھر میں ملازمین پر خصوصی نظر، اے ٹی ایم سے رقم نکلواتے وقت ارد گرد کے افراد کا جائزہ اور خاص طور پر آجکل اپنے بچوں کے دوستوں اور سہیلیوں کے گھر والوں کی تحقیق کہ وہ کون لوگ ہیں؟ وغیرہ۔
[poll id="836"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
پھر ہم اُس بُرے کام پر تو لعن طعن کرتے ہیں لیکن اپنی غفلت اور مستقبل میں احتیاط کے پہلو کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ لہذا اس پر غور کرنے کیلئے چند روز مرہ معاملات کو زیرِ ِبحث لانا بہت ضروری ہے۔
موبائل فون کہیں رکھ کر بھول جائیں
یہ بھی ہماری ذہنی اُلجھنوں کا پیش خیمہ ہے کہ آج ہم اس ڈیوائس کے بغیر نہیں رہ سکتے اور غیر ضروری مواقعوں پر بھی استعمال کرکے وہاں ہی رکھ کر کسی کام میں مصروف ہوجاتے ہیں یا وہ کہیں گر بھی جاتا ہے۔ بس اب یہ اُس کا حق ہے جسکو مل گیا۔ بلکہ ایسے لگتا ہے کہ وہ اُس ہی کی تاک میں ہوتا ہے۔ حالانکہ ایسی صورت ِحال میں ملنے والے کو اُس ہی موبائل میں موجود پہلے دو چار نمبروں میں سے کسی ایک پر کال کرکے اطلاع دے دینی چاہیئے کہ فلاں کا یہ موبائل میرے پاس ہے واپس لے جائیں، پر کیوں؟
تعمیراتی کمپنیاں
اگر نو سر باز اپنے میدان میں سرگرمِ عمل رہتے ہیں تو عوام بھی اُن کے چکمے میں آئے بغیر نہیں رہتی۔ کبھی بیرونِ ملک جانے کا شوق اور کبھی اپنا گھر بنانے کیلئے پلاٹ حاصل کرنے کی خواہش وغیرہ۔ بلکہ آجکل تعمیر شُدہ گھر یا فلیٹ بھی اس ہی زُمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ ملازمت پیشہ ور افراد اس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وجہ ملازمت سے چُھٹیاں ممکن نہیں۔ بس اس ہی کا فائدہ اُٹھا کر آج ایسی تعمیراتی کمپنیاں بھی میدان میں آچکی ہیں جو خوبصورت گھر کی تعمیر کا خواب دکھا کر ایک بڑی رقم ہتھیا لیتی ہیں اور پھر چکر شروع، لیکن کمپنیوں کو احساس کہاں؟ انسان کے ہاتھوں انسان بے حال اور مکان ہواؤں میں!
پیٹرول ڈالنے والا اسٹاف
عام طور پر پٹرول پمپ پر جا کر پٹرول ڈالونے والا یہ کہہ کر کہ اتنے روپے کا پٹرول ڈال دیں یا تو موبائل پر بات کرنا شروع کردیتا ہے یا پٹرول پمپ کے اسٹاف ہی کا کوئی دوسرا فرد اُس کو دوسری طرف باتوں میں لگا لیتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے کہ شیشہ صاف کردیں یا کسی پروموشن اسکیم کا ذکر کرتا ہے۔ اِس دوران کئی دفعہ پیٹرول ڈالنے والا فرد اپنے ذاتی فعل کے تحت میٹر کے روپے والے حصے کو تبدیل کردیتا ہے اور پھر صارف سے کہتا ہے کہ میٹر چیک کرلیں، پیٹرول ڈال دیا ہے۔ حالانکہ کسٹمر کو روپے والے میٹر کی بجائے لیٹر والے میٹر کو چیک کرنا چاہیئے۔
لیکن چونکہ وہ ذہنی طور پر وہاں موجود نہیں ہوتا۔ لہذا ہیرا پھیری تو روپے والے میٹر میں ہوچکی ہوتی ہے اور کسٹمر کم پیٹرول ڈالوا کر بھی مطمئن ہو کر چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی شک پر شکایت کر ہی دے تو جواب آتا ہے کہ میں نے آپکو میٹر صفر کرکے دکھا دیا تھا۔
ہیکرز
سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھلا کسی کو نقصان پہنچا کر کون سے اخلاقی اصول کی پیروی کی جاتی ہے؟ کیا اس سے نئی تعلیم میں نقص وفقدان گردانا جائے گا یا شیطانی کھیل کا گھمنڈ؟ آج کے مصروف ترین دور میں اگر کوئی ادارہ یا فرد اپنی معلومات کا مواد کمپیوٹر میں اس لئے محفوظ کرکے رکھتا ہے کہ جب کوئی معلومات درکا ہوں تو باآسانی حاصل کرلی جائیں۔ ان معلومات یا ویب کو ہیکرز اپنے بنائے ہوئے کسی بھی شیطانی سوفٹ وئیر سے ہیک کرلیتے ہیں۔ پاس ورڈ تبدیل کردینا، بینک اکاؤنٹ سے فنڈز منتقل کردینا، ٹیلی فون کارڈز کا استعمال اور وائرس سے کمپیوٹر کو نقصان پہنچانا وغیرہ بھی اس ہی کی کڑی ہے۔ بس جہاں یہ شیطانی عمل مالی طور پر نقصان کا باعث بنتا ہے وہیں ذہنی اذیت کا بھی۔
راہ چلتے چھینا چھپٹی
ویسے تو کوئی نئی بات نہیں، لیکن ایک وقت ہوگا کہ شاید ایسا کرنے والا کچھ تو خوف رکھتا ہو۔ خوفِ خدا یا خوفِ قانون! کیونکہ بہرحال فی الوقت تو ایسا کوئی خوف دکھائی نہیں دیتا۔ لہذا یہ ایسی واردات کا روپ اختیار کرچکی ہے کہ آئے دن کے اہم واقعات میں شمار ہونا اب معمول بن چکا ہے۔ موٹر سائیکل پر لٹیرے آتے ہیں اور گن پوائنٹ پر دوسرے کے پاس جو بھی ہو لیکر اڑن چھو، اور بصورتِ مزاحمت گولی چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ گذشتہ کچھ مدت سے موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین سے اُنکا پرس اسطرح چھیننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بے دھیانی میں سر کے بَل سڑک پر جا پڑتی ہیں اور پھر ''پولیس کے ساتھ ایمبولنس'' کو کال بھی یقینی ہوجاتی ہے۔
غیر معیاری دوائیوں کا کاروبار
ظاہر سی بات ہے کہ یہ کیمسٹ کے ساتھ ملی بھگت سے ہی ہوتا ہے۔ مقصد منافع کمانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ ایسا کام کرنے والوں کے نذدیک چونکہ زندہ رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ضروری ہے، اگر کسی کی زندگی جاتی ہے تو اِس بات سے اُن لوگوں کو کوئی فرق ںہیں پڑتا۔
میچوں پر شرطیں لگانا
یہ بھی ایک عام نوعیت کی بُرائی تصور کی جا رہی ہے۔ جس کے نتائج منفی ہی ہوتے ہیں۔ کئی شادی شُدہ افراد اپنی ملازمتیں چھوڑ کر اس میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی خوشیاں اپنے ہاتھوں برباد کردیتے ہیں ساتھ میں گھر بھی۔ بلکہ گذشتہ دنوں تو ایک فرد اس کام میں اتنا قرض دار ہوگیا کہ اُس نے چوہے مار دوائی پی کر خود کشی ہی کرلی۔
احتیاطیں
- پہلی صورت میں پیٹرول ڈالتے وقت مشین کے میٹر کی طرف متوجہ رہیں اور کسی آواز پر بھی توجہ نہ دیں۔ رقم و لیٹر کا تعین کریں۔
- موبائل فون کے غیر ضروری استعمال سے گریز کریں۔ خصوصاً دوکان، کار، موٹر سائیکل اور سڑک پر۔
- پہلی کوشش کریں کہ اپنا مکان خود بنائیں یا پھر معیاری تعمیراتی کمپنی کا بنا ہوا مکان یک مُشت رقم کی ادائیگی پر خریدنے کو ترجیح دیں۔
- سوشل میڈیا پر معیاری ویب سائیٹز آپ کو ہیکرز سے بچنے کی ہر ممکن تلقین کرتی اور گائیڈ لائن بھی دیتی ہیں۔ عمل یقینی بنائیں۔
- دوائیاں ہی نہیں کوئی بھی شے خریدنے کے بعد اُس دوکان کی ''کیش میمو'' پر اُس شے کا نام بمعہ تیار کرنے والی کمپنی کا نام لکھوائیں۔ اگر دوکاندار نے انکار کردیا کہ اُس کے پاس کیش میمو نہیں ہے تو سمجھ جائیں کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔
- شرطوں سے احتیاط تو دلوں کا بھید ہی ہے۔ لہذا دُعا گو رہیں کہ اس بھید پر ''خودداری'' کندہ ہو۔
اِن کے علاوہ بھی کچھ اور معاملات میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ جن میں گھر میں ملازمین پر خصوصی نظر، اے ٹی ایم سے رقم نکلواتے وقت ارد گرد کے افراد کا جائزہ اور خاص طور پر آجکل اپنے بچوں کے دوستوں اور سہیلیوں کے گھر والوں کی تحقیق کہ وہ کون لوگ ہیں؟ وغیرہ۔
[poll id="836"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔