کراچی آپریشن… تشویش بلاوجہ نہیں

امریکا آج بھی یہ مضحکہ خیز الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں ناکام رہا

ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ حکومت خدشات اور تحفظات کے بھنور سے نکلے، اپنے مینڈیٹ کے مطابق سندھ میں گڈ گورننس کی طرف توجہ دے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ کراچی آپریشن کی کامیابیوں کو کسی طور ًضایع نہیں کیا جائے گا اور کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے جب کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے سندھ میں رینجرز کے اختیارات محدود کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت میں یہ تشویش بلاوجہ بھی نہیں ہے، اس کا جواز خود بعض ذمے داروں کی سیاسی عاقبت نااندیشی نے پیدا کیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزراء اسحاق ڈار، چوہدری نثار علی خان، خواجہ محمد آصف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصرخان جنجوعہ، مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز، معاون خصوصی طارق فاطمی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر سمیت دیگر سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکی سالمیت اور داخلی خلفشار اور آپریشن سے متعلق گومگو کی کیفیت سے دوچار سندھ حکومت کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ سیاسی و عسکری قیادت کے احساسات اور ترجیحات کا درست سمت میں مطلب اخذ کرے اور کراچی آپریشن کے لیے رینجرز کے اختیارات اور مدت میں توسیع کو رسہ کشی اور قانونی موشگافیوں سے دور رکھے ۔ مگر بد قسمتی سے وہی ہو رہا ہے جو ریموٹ کنٹرول حکمرانی میں اکثر ہوتا ہے کہ حقائق سے زیادہ مصلحت کوشی موقع پرستی اور دوست نوازی کو قومی مفاد پر ترجیح ملتی ہے جس کا نتیجہ کثیر جہتی تشویش کی صورت میں نکلنا ناگزیر ہے ۔

وزیر اعظم نے اب تو واضح پیغام دیا ہے، چشم فلک بھی دہشتگردی کے اندوہ ناک خطرات کا مشاہدہ کر رہی ہے مگر کراچی میں آپریشن کو متنازع بنانے اور رینجرز کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی جو فلاسفی پیش کی گئی ہے اسے کوئی فعال اور دہشت گردی سے ٹکر لینے پر کمر بستہ وفاقی مشینری کسی طور قبول نہیں کر سکتی ، یہ کیسی کپتانی ہے جو رینجرز جیسے اپنے ایک موثر طاقتور اور جرائم پیشہ عناصر کے لیے پیغام موت ثابت ہونے والی فورس کو عضو معطل یا ''سندھ کا چوکیدار'' بنا دیتی ہے، جب کہ ملک شدید حالت جنگ میں ہے دل فگاران وطن کو روز ایک نئی دلگداز حقیقت اپنے وجود سے خبردار کرتی جاتی ہے۔


امریکا آج بھی یہ مضحکہ خیز الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں ناکام رہا ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت جائز تشویش میں مبتلا نہ ہو، سندھ حکومت کسی جزیرہ میں تو قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ جمہوری و پارلیمانی جزو ہے کُل سے جڑی رہے اور ادراک کرے کہ جب ریاستی رٹ کو تسلیم نہ کرنے والے اپنی جان بچانے کے لیے روپوش ہو گئے، آپریشن ضرب عضب نے ان کے ایجنڈے، خواہشات اور خلافت و امارات کے خواب چکنا چور کر دیئے، اسے وہی اسٹیبلشمنٹ کیسے 'واک اوور' دے دے۔ ملک دشمن کچھ افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں، بعض یورپی ممالک اور لاتعداد گینگ وار کرمنلز بیرون ملک بھاگ گئے۔

اس لیے لمحہ موجود میں مثالی اشتراک و تعاون کی ضرورت ہے۔ سندھ سمیت ملک بھر میں دہشتگردی انتہاپسندی ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اورا سٹریٹ کرائم سے لے کر وائٹ کالر جرائم، نیز القاعدہ و دیگر تنظیموں کی مالی فنڈنگ میں ملوث اہم ماخذ و مراکز کے خلاف ریاستی اور حکومتی اقدامات پر کسی کو انحراف کی حکمت عملی اختیار نہیں کرنی چاہیے، سندھ حکومت اپنی پریشانیوں میں اضافہ بھی نہ کرے، اسے کراچی اور سندھ کے طول و عرض میں دہشتگری کے خلاف قیادت اور کپتانی دی گئی ہے، اس نازک وقت میں وزیر اعلیٰ سندھ کو دانشمندی تدبر اور معاونت کے لیے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کی مشترکہ فورسز کو اعتماد میں لینا چاہیے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان سے ملک میں امن و امان میں بہتری اور خوشحالی کا سفر شروع ہو گیا ہے، کراچی آپریشن تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے شروع کیا ہے اسے ادھورا نہیں چھوڑیں گے جب کہ سندھ میں اپوزیشن جماعتوں اور گورنر عشرت العباد کے بعد کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے بھی رینجرز اختیارات میں مشروط توسیع کے حوالے سے وضاحت کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن رینجرز کو دیئے گئے خصوصی اختیارات سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ ادھر انٹیلی جنس ادارے کی جانب سے اعلیٰ حکومتی شخصیات کو ارسال کیے جانے والے مراسلے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کی سیکیورٹی میں خامیوں سے دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب کہ کراچی شہر میں سیکیورٹی فورسز اور سیاسی رہنماؤں پر حملوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے، وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب ہوٹل سمیت بلند عمارتوں پر پولیس گارڈ تعینات کیے جائیں، موجودہ حالات کے پیش نظر بلند عمارتوں کی چھتوں پر پولیس گارڈز کا نہ ہونا سیکیورٹی رسک ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ حکومت خدشات اور تحفظات کے بھنور سے نکلے، اپنے مینڈیٹ کے مطابق سندھ میں گڈ گورننس کی طرف توجہ دے، ایک پیراڈائم شفٹ لائے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ اسے کسی کو بچانے اور خود کو ڈبونے میں کوئی دلچسپی نہیں، صوبہ میں اپوزیشن جماعتوں نے ایک نئے سیاسی الائنس کی تشکیل کا عندیہ دیا ہے، اس لیے احتیاط معاملہ فہمی اور بالادستوں کے جائز اضطراب کو سمجھنے کا وقت ہے۔
Load Next Story