شام کی خانہ جنگی ختم کرانے کی کوششیں

بڑی طاقتیں کوشش کررہی ہیں کہ شام کی طویل خانہ جنگی کوختم کرانےکےلیےکسی متفقہ قراردادپرسب کااتفاق رائےعمل میں لایاجاسکے


Editorial December 20, 2015
ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا اور اس کی اتحادی یورپی قوتیں، سعودی عرب اور اس کے حامی ممالک، ترکی، روس اور ایران پہلے کسی نتیجے پر پہنچیں۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

بڑی طاقتیں کوشش کر رہی ہیں کہ شام کی طویل خانہ جنگی کو ختم کرانے کے لیے کسی متفقہ قرارداد پر سب کا اتفاق رائے عمل میں لایا جا سکے اور اس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری حاصل کر لی جائے۔

واضح رہے شام میں ہونے والی خانہ جنگی کو پانچ سال کا عرصہ گزر گیا ہے جس میں عالمی طاقتوں کے علاوہ علاقائی ممالک بھی اپنے اپنے مفادات کے حوالے سے برسرپیکار ہیں۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کا وزارتی سطح پر اجلاس ہوا ہے جس میں پانچ بڑے ممالک کی کوشش ہے کہ اس خانہ جنگی کو ختم کرانے کے لیے کسی عالمی ایجنڈے پر تمام فریقوں کا اتفاق رائے کرایا جا سکے۔ مغربی طاقتوں کا خیال ہے کہ سلامتی کونسل کو شام کی برسراقتدار حکومت کو اپوزیشن کے نمایندوں کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کے لیے دو سال کا روڈ میپ دیا جائے جس کی اقوام متحدہ سے منظوری حاصل کر لی جائے گی۔

ان مذاکرات میں 17 رکنی بین الاقوامی شام حمایت گروپ کے اراکین بھی شامل ہیں۔ شام کے لیے جو روڈ میپ مرتب کیا جا رہا ہے اس میں ملک گیر فائربندی کی ایک شرط عائد کی گئی ہے تاہم سب جانتے ہیں کہ اس فائر بندی کا داعش پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض عسکریت پسند تنظیموں کے نمایندے بھی ویانا میں ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کر رہے ہیں۔ روس کے سفیر ویٹالے چرکن نے کہا ہے کہ قرارداد کے مسودے پر فریقین میں ہی بہت واضح اختلافات موجود ہیں۔

سلامتی کونسل کے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک میں امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین شامل ہیں۔ روسی سفیر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں کسی متفقہ قرارداد کا اقوام متحدہ میں پیش ہونا قابل عمل نہیں لگتا ہے۔ بعض سفارتی حلقے قرارداد کی منظوری میں ناکامی کے امکان کا ذمے دار روس اور ایران کو قرار دے رہے ہیں جن کے مختلف اور متحارب گروپوں کے ساتھ رابطے ہیں البتہ بعض سفارتکاروں کو توقع ہے کہ جنوری میں مفاہمتی مذاکرات کا ڈول ڈالا جا سکے گا۔ شام کا بحران بہت پیچیدہ ہو گیا ہے۔

یہاں قائم ہونے والی اسلامک اسٹیٹ کے مفادات الگ ہیں جب کہ شامی حکومت کے مفادات الگ ہیں۔ اس طرح یہاں برسرپیکار عالمی قوتوں اور ہمسایہ ممالک کے بھی اپنے اپنے مفادات ہیں۔ شام کے بحران کا اثر عراق پر بھی پڑ رہا ہے۔ یوں یہ دونوں ملک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا اور اس کی اتحادی یورپی قوتیں، سعودی عرب اور اس کے حامی ممالک، ترکی، روس اور ایران پہلے کسی نتیجے پر پہنچیں، شام میں فائربندی انتہائی ضروری ہے تاکہ عام آدمی سکھ کا سانس لے سکے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب تمام طاقتیں اپنے اپنے مفادات سے باہر نکلیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں