آنکھیں اجڑ چکی ہیں مناظر کو دیکھ کر
تکیہ، چادر، رضائی، بچھانے کے لیے کوئی گدا یا گدا نما کوئی بھی شے مریض کے گھر سے آتی ہے
لوگوں کی بے حسی کے مناظر ہیں چار سُو
فرصت ملے تو چشم ندامت اٹھائیے
......
شہر والوں کی بے حسی کے نثار
خون رسنے لگا گلابوں سے
......
تمہارے شہر کی سڑکوں پہ لاشے بکھرے ہیں
مگر سوال یہ ہے کس سے خوں بہا مانگو
یہ تینوں اشعار میرے شریک حیات قاضی اختر جونا گڑھی کی غزلوں کے ہیں۔ لیکن یہ تین شعر مجھے کیوں منتخب کرنے پڑے؟ یہ وہ لوگ بہتر محسوس کر سکتے ہیں جن کا کوئی اپنا کسی بھی اسپتال میں داخل رہا ہو اور زندہ آدمی لاچار اور مجبور جسد خاکی کی صورت میں لایا گیا ہو۔ اسپتال والوں کی بے حسی، لوٹ مار اور کسی نہ کسی طرح مریض کے لواحقین کی جیبوں سے مختلف حیلے بہانوں سے پیسہ نکلوانا، نجی اسپتالوں، ڈاکٹروں اور مختلف ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز کا ایک ایسا مکروہ دھندہ بن چکا ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے۔
سوائے ان بے حس حکمرانوں کے جو محض چھٹیاں منانے، بیرونی تفریحی دورے کرنے، نئے ہنی مون منانے، منگنی کرنے، دل کے آپریشن کروانے، چہروں کی جھریاں دور کروانے، سروں پہ نئے بال لگوانے، سیخ کباب کھانے، خوبرو ماڈل اور کال گرلز کے ساتھ مزے اڑانے کے سامان تعیش کے کاروبار میں شب و روز منہمک رہتے ہیں۔ویسے تو ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی بے حسی کی کہانیاں کوئی نئی نہیں ہیں لیکن آج میں جس غیر انسانی رویے کی طرف اشارہ کر رہی ہوں، اس کی توثیق ہر وہ شخص کرے گا جس کے کسی بھی قریبی عزیز نے کسی اسپتال میں دم توڑا ہو، اور یہ رویے کوئی آج کے دور کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ یہ تو ہم ''صاحب ایمان'' لوگوں کا پرانا وطیرہ ہے۔
ایسے الم ناک موقعوں پر جب لوگ مل بیٹھتے ہیں تو ایسی ایسی تکلیف دہ باتوں کا انکشاف ہوتا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ انسان اتنا بھی گر سکتا ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ کسی بھی اسپتال میں جب کسی مریض کو داخل کیا جاتا ہے تو اس کی ضرورت کا کچھ نہ کچھ سامان بھی گھر سے مہیا کیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ اور سیمی پرائیویٹ رومز میں مریض کے ساتھ ایک اٹینڈنٹ کو ٹھہرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اٹینڈنٹ کو صرف ایک بینچ یا سیٹی فراہم کی جاتی ہے۔
تکیہ، چادر، رضائی، بچھانے کے لیے کوئی گدا یا گدا نما کوئی بھی شے مریض کے گھر سے آتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض کے لیے برتن، گلاس، ہاٹ پاٹ، پانی کی بوتل، پلیٹ، چمچہ، کانٹا وغیرہ سب کچھ گھر والے لاتے ہیں۔ پھر اچانک زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے۔ قریبی دوستوں یا اٹینڈنٹ کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ میت کو وہاں سے لے کر جانا ہوتا ہے۔
ایک طرف بلنگ ڈپارٹمنٹ دوسری طرف ایمبولینس کا انتظام۔ لیکن اس ساری اذیت اور تکلیف میں کسی کو بھی خیال نہیں آتا کہ وہ مریض کے ساتھ کا اپنا سامان سمیٹے۔ دوسری جانب اسپتال کا عملہ تاک میں رہتا ہے کہ جونہی ڈیڈ باڈی لواحقین لے کر جائیں، تو فوری طور پہ حملہ آوروں کی طرح تمام سامان سمیٹ کر غائب کر دیا جائے۔ کتنے ظالم، کتنے بے حس اور کتنے لالچی۔ اف توبہ یہ گِدھوں کی طرح مریضوں کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں اور پلک جھپکنے میں سامان یوں غائب کرتے ہیں کہ انسانیت لرز جاتی ہے۔
بعض دفعہ لوگوں نے اسپتال انتظامیہ کو رپورٹ بھی کی اور شکایت بھی درج کروائی کہ انھیں اپنے عزیز کے زیر استعمال رہنے والی اشیا بطور یادگار درکار ہیں۔ لیکن اسپتال کی انتظامیہ ٹکا سا جواب دیتی ہے کہ ''ہم نے شکایت نوٹ کر لی ہے، آگے پہنچا دی جائے گی۔'' بعض اوقات بل کی زائد رقم بھی واپس نہیں کی جاتی۔ پہلے منہ بھر کے ایڈوانس رقم لے لی جاتی ہے اور جب حساب کتاب کے بعد ٹھیک ٹھاک رقم بچ رہی ہے، اس کی واپسی کے لیے کبھی پندرہ دن اور کبھی ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔
کوئی اصول پسند جب رقم واپس لینے پہنچتا ہے تو کوئی اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ لوگ تھک کر آنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ کوئی چھوٹے اسپتالوں میں نہیں ہو رہا، بڑے بڑے نامور اسپتال اس طرح کی بے ایمانیوں میں ملوث ہیں۔ مجھے خود دو دفعہ اپنے شریک حیات قاضی اختر کے سلسلے میں پانچ سال پہلے دو بڑے اسپتالوں کا ہولناک تجربہ ہو چکا ہے۔
چونکہ میں زیادتی پر احتجاج کرنا اپنا حق سمجھتی ہوں اس لیے شنوائی بھی ہوئی اور اسپتال کے عملے نے برملا میرا ساتھ دیا اور کہا کہ ''میڈم! لوگ چپ رہتے ہیں، پیسے بھی دیتے ہیں اور کسی بات کی شکایت بھی نہیں کرتے۔ اس لیے مالکان نوٹس نہیں لیتے۔ اگر آپ کی طرح لوگ اپنا حق استعمال کر کے نامناسب رویے پر شکایت کریں تو بہت اچھا ہو۔ ہم تو ملازم ہیں۔ لیکن ہمارا بھی دل کڑھتا ہے جب مالکان کی سنگدلی دیکھتے ہیں۔''اور یہ بھی آپ کو بتا دوں کہ تقریباً دس سال پہلے اختر کے سینے میں درد اٹھا۔ میں اس وقت بی کام کی کاپیاں چیک کر رہی تھی۔ اسی وقت یوں ہی سب چھوڑ چھاڑ کر ایک معروف دل کے اسپتال لے گئی۔
فوراً ایک مخصوص رقم جمع کروائی۔ اختر کو بیڈ پہ ڈال کر نہ جانے کون کون سی مشینیں لگا دی گئیں۔ لیکن میں دیکھ رہی تھی کہ ان کی ہارٹ بیٹ تو شاندار تھی۔ ڈیوٹی پر موجود لیڈی ڈاکٹر اور ایک اٹینڈنٹ نے بھی تصدیق کی کہ دل کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ تب کہا کہ آپ ڈسچارج کر دیں۔ وہ کسی قسم کی کوئی بیماری نہ ڈھونڈ سکے۔ اچانک اسپتال کے پیرا میڈیکل اسٹاف میں سے کسی نے آہستہ سے آ کر کان میں کہا ''باجی کچھ نہیں ہے صرف گیس تھی۔ آپ چاہو تو کہیں اور بھی دکھا لو۔'' تب میں نے لیڈی ڈاکٹر سے کہا کہ جب دل کی کوئی تکلیف نہیں ہے تو آپ مریض کو ڈسچارج کریں۔ اس وقت تک اختر بھی بہتر محسوس کر رہے تھے اور درد کا نام و نشان تک نہ تھا۔
لیکن جب خاتون ڈاکٹر نے کہا کہ وہ ہر صورت میں مریض کو ایک رات اسپتال میں رکھیں گے اور میں مزید رقم کاؤنٹر پہ جمع کروا دوں تو میں پھٹ پڑی۔ اور صرف ایک جملے نے لیڈی ڈاکٹر کے چہرے پہ ہوائیاں اڑا دیں۔ میں نے کہا ''میں بخوبی جانتی ہوں کہ آپ کو زیادہ سے زیادہ وقت تک مریض کو اسپتال میں روک کر رکھنے پر جو کمیشن ملے گا وہی آپ کی نوکری کا بھی ضامن ہے۔'' وہ گھبرا گئی اور بولی ''آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟'' تب میں نے بتایا کہ وہ کسی عام ہاؤس وائف سے مخاطب نہیں ہے۔ اور ساتھ ہی ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے مریضوں کی جیبیں کاٹنے والے طریقوں سے پردہ اٹھا دیا۔ تب وہ بی بی سمجھ گئی کہ غلط جگہ ہاتھ ڈالا ہے۔ لیکن اسے اپنی نوکری بھی بچانی تھی۔ اس لیے کہنے لگی کہ ''آپ اپنے رِسک پر پیشنٹ کو لے جا سکتی ہیں، میں کسی کاغذ پہ سائن نہیں کروں گی۔''
کیا ہمیں ان سب تکلیف دہ باتوں کو دیکھتے ہوئے یقین کرنا چاہیے کہ ہم انسان بھی ہیں یا نہیں؟ ہر اسپتال میں کھال اتارنے والے، مختلف حیلوں بہانوں سے مال بنانے والے، گردے نکال کر بیچنے والے باعزت اور محترم ہیں۔ کالم لکھتے لکھتے چند خواتین تعزیت کے لیے آئیں۔ یہ وہ نورجہاں تھیں جن کی مدد کے لیے ایکسپریس میں میرا کالم چھپا تھا۔ وہ اب کینسر کی مریضہ ہیں۔ انھوں نے نہایت دل گرفتہ لہجے میں بتایا کہ انھیں لاہور لے جایا گیا تا کہ کینسر کے معروف اسپتال میں علاج ہو جائے۔ لیکن انھوں نے بڑے کرب سے کہا کہ ''میڈم! دور کے ڈھول سہانے، ہمیں تو او پی ڈی میں بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔'' وہ کراچی لائی گئیں اور اب ان کا علاج کراچی کے اسپتال میں ہو رہا ہے۔
لیکن ان خواتین کی تفصیلی باتیں سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ عمران خان دوسرا کینسر اسپتال پشاور میں بنا رہے ہیں۔ کراچی کا انھیں پھر بھی خیال نہ آیا۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کو کراچی میں ''زندہ لاشیں'' بھی نظر آ گئیں لیکن زندہ لاشوں اور ان کے ہم زبانوں کے لیے کسی کینسر اسپتال کے قیام کا خیال نہیں آیا جب کہ سب سے زیادہ فنڈز انھیں اسی شہر سے ملیں گے۔ خواہ ''قرض اتارو، ملک سنوارو'' کا نعرہ ہو یا شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے چندے کی اپیل، کراچی ہمیشہ بازی لے جاتا ہے۔ کہیں زلزلہ آئے یا سیلاب، کراچی کے عوام سب سے آگے۔ لیکن جب بھلائی، تعمیری کام، ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی درستگی اور دیگر ضروری بلدیاتی کاموں کی باری آئے تو کراچی سب سے پیچھے۔ البتہ ''سائیں'' کے لیے ہر جگہ منرل واٹر اور انسانوں کے لیے ٹینکر مافیا وافر دستیاب ہے۔
ایک بار پھر سوچیے اور جواب دیجیے کہ ہم کہاں ہیں؟ انسان تو ہرگز نہیں ہیں۔ البتہ سونے کے بچھڑوں کو پوجنے، مال بنانے اور ظاہری حلیہ مسلمانوں کا بنانے والے اور ہر جملے میں ''میرے اللہ کی مرضی'' کی تکرار کرنے والے بہت۔ روئیے اور سر پیٹیے کہ اب ان سے چھٹکارا ممکن نہیں۔