پشاور کے شہید بچوں کے نام
یہ بدبختی بیسویں صدی کے نصیب میں آئی کہ اس میں دو عظیم جنگیں برپا ہوئیں
یہ بدبختی بیسویں صدی کے نصیب میں آئی کہ اس میں دو عظیم جنگیں برپا ہوئیں اور اسی میں وہ علاقائی لڑائیاں لڑی گئیں جن میں بچوں کو سفاکی سے استعمال کیا گیا اور چائلڈ سولجر کی اصطلاح روزمرہ بن گئی۔ لڑکے اور لڑکیاں جنگ زدہ علاقوں سے اغوا کیے گئے، یرغمال بنائے گئے۔ بارودی سرنگوں سے بھرے ہوئے علاقوں میں انھیں ہر اول دستے کے طور پر آگے رکھا گیا۔ جان سے جائیں تو وہ جائیں۔ لڑکیاں اور لڑکے دونوں جنسی غلام بنا کر رکھے گئے اور ان سے کھانے پکانے، برتن اور کپڑے دھونے اور جسمانی مشقت کے تمام کام لیے گئے۔ وہ بچے جو اغوا کیے گئے اور جنھوں نے لڑاکوں کے ظلم و ستم سہے، ان کے گھر والوں پر کیا گزری ہو گی، اس کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔
انیسویں صدی تک بدترین دشمنوں نے بھی حریف کے بچوں کا خیال رکھا اور ایسا بہت کم ہوا کہ اجتماعی طور پر انھیں قتل کیا جائے اور اس کا سہرا بھی اپنے سر باندھا جائے۔ انیسویں صدی کے نصف اول میں لکھی جانے والی ایک نظم جو آج بھی اپنے پڑھنے والوں کو آبدیدہ کر دیتی ہے، وہ میں نے میٹرک میں پڑھی تھی اور آج تک دل پر نقش ہے۔
موسمِ سرما کی چھٹیاں ہونے والی تھیں اور ہماری پرنسپل ستارہ جبیں جعفری صاحبہ انگریزی کا کورس ختم کرانے کے درپے تھیں۔ وہ کلاس میں آئیں اور انھوں نے ہمیں Casabianca پڑھانی شروع کی، The Boy stood on the burning deck 'لڑکا جلتے ہوئے عرشے پر کھڑا تھا'۔ یہ نظم ایک برطانوی شاعرہ فیلیسیا ڈورتھیا ہی مانز نے 1826ء میں لکھی تھی۔ شجاعت اور پیمانِ وفا کو اس سے بڑا خراج تحسین اور خراج عقیدت کیا ہو گا کہ فرانسیسی جنگی جہاز پر کھڑا ہوا وہ بچہ جو شعلوں میں گھرا ہوا تھا، وہ اس لیے جلتے ہوئے عرشے سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اس کے کمانڈر باپ نے اسے وہاں کھڑے ہونے کا حکم دیا تھا۔ وہ باپ کو پکار کر پوچھ رہا تھا کہ کیا میں یہیں کھڑا رہوں اور جواب نہیں آتا تھا۔ آتا بھی کیسے کہ باپ اپنی جان ہار چکا تھا۔ بیٹا آگ کے شعلوں میں گھرا کھڑا رہا یہاں تک کہ آگ بارود خانے تک پہنچ گئی اور ہولناک دھماکے نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔
ستارہ جبیں کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور ہم میں سے اکثر کے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔ وہ بچہ جس کا خاندانی نام 'کاسابیانکا' تھا اور جو اپنے باپ کے ساتھ اس جنگی جہاز پر موجود تھا، وہ ہمت اور استقامت کی ایک مثال بن کر ہمارے سامنے ابھرا تھا۔
پشاور میں ہونے والے سانحے اور اس کے ایک برس گزرنے کے دوران یہ نظم مجھے بار بار یاد آئی۔ بہ طور خاص اس وجہ سے کہ اس سانحے کے حوالے سے ایک مصرعہ فضا میں گونجا کہ 'ہمیں اپنے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے'۔ یہ بات پہلی مرتبہ ملالہ یوسف زئی نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے سے سنبھلنے کے بعد کہی تھی کہ 'میں طالبان کے بچوں کو بھی تعلیم دینا چاہتی ہوں'۔ 'کاسابیانکا' کی خاص بات یہ ہے کہ 1826ء میں جب یہ جنگ ہو رہی تھی، اس وقت انگلستان اور فرانس ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اور ان کی جنگیں 30 برس اور 100 برس چلتی تھیں۔ 'کاسابیانکا' نظم لکھ کر برطانوی شاعرہ فیلیسیا نے ایک فرانسیسی بچے کو خراج عقیدت ادا کیا تھا۔ یہ نظم عرصہ دراز تک انگلستان کے اسکولوں کے نصاب میں شامل رہی۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی یہ پڑھائی جاتی رہی اور اس کی سطریں دل کو مٹھی میں لے لیتی ہیں۔
ہم نہیں جانتے کہ وہ کم نصیب کون تھے جنھیں کلمہ گو ہونے کا دعویٰ تھا اور جنھوں نے اب سے ایک برس پہلے پشاور میں ان بچوں کو ذبح کر دیا اور انھیں گولی مار دی جو نہ دشمنی کے مفہوم سے واقف تھے اور نہ یہ جانتے تھے کہ انھیں کس جرم کی سزا میں زندگی جیسی بیش بہا دولت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ان کی آنکھوں میں خواب تھے اور ان ہی خوابوں کو آنکھوں میں بسائے وہ ایک جاودانی سفر پر روانہ ہوئے۔ اس خوں آشامی سے بچ رہنے والے ایک لڑکے نے کس دل سوزی سے کہا کہ میں ہوش میں آیا تو میں نے خون سے بھرے ہوئے اپنے دوستوں اور بھائیوں کو فرش پر سوتے ہوئے دیکھا۔
وہ بچے جو اس سانحے میں زخمی ہوئے اور بچ گئے، یا جو کسی کونے کھدرے میں چھپ کر اپنی جان بچا پائے، وہ تاحیات اس سانحے کو بھلا نہیں پائیں گے۔ انھیں اپنے ساتھیوں کی شرارتیں یاد آئیں گی، ایک دوسرے سے لڑنا اور پھر ایک دوسرے کو منانا، ایک دوسرے کے گھروں میں جانا اور ماؤں سے بڑی بہنوں یا نانیوں دادیوں سے لاڈ کرانا، وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں جو زندگی میں جگنوؤں کی طرح جگمگاتی ہیں، ان سے یہ تمام دل نوازیاں چھن گئی ہیں، ان کی زندگیاں کیسی تہی دامن ہو گئی ہیں، یہ وہی جانتے ہیں۔
ان کی شفقت بھری ٹیچریں، ان کی پرنسپل مسز طاہرہ قاضی جو اپنی جان بچا سکتی تھیں، وہاں سے نکل سکتی تھیں لیکن جنھوں نے کہا کہ میں اس وقت جاؤں گی جب میرا آخری بچہ یہاں سے بہ حفاظت چلا جائے گا۔ لیکن بارود بھری گولی نے انھیں کہیں جانے نہیں دیا۔ 'فرض شناسی' کا مفہوم لغت میں دیکھیے، آپ کو مل جائے گا لیکن اس لفظ کی حقیقت جاننی ہو تو مسز طاہرہ قاضی سے اور آرمی پبلک اسکول کی حفاظت پر مامور لوگوں سے پوچھیے جنھوں نے جان دے دی لیکن پیٹھ نہیں دکھائی۔ 'استقامت' اور 'پیمانِ وفا' کو سمجھنا ہو تو اس فرانسیسی بچے کے آخری لمحوں سے سمجھئے جس کا خاندانی نام 'کاسابیانکا' تھا۔ وہ بارود کے پروں پر سفر کرتا ہوا جاودانی زندگی کے گلستان میں رہنے چلا گیا۔
ان بچوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے گمنام سری لنکن، کوریائی، افریقی اور افغان بچے یاد آتے ہیں جنھیں بارودی سرنگوں سے بھرے ہوئے میدانوں میں ہر اول دستے کے طور پر استعمال کیا گیا اور ان میں سے اکثر کے چیتھڑے اڑ گئے کیونکہ ان کے پیر زمین میں چھپائی جانے والی کسی بارودی سرنگ پر پڑ گئے تھے اور انھوں نے پیچھے آنے والے 'سورماؤں' کا راستہ صاف کر دیا تھا۔
پشاور کے جانہار بچوں کو یاد کرتے ہوئے مجھے بسلان کا قتل عام یاد آتا ہے۔ پہلی ستمبر 2004ء کو انگش اور چیچن دہشت گردوں نے بسلان اسکول میں گھس کر گیارہ سو افراد کو یرغمال بنا لیا، ان میں 777 بچے تھے۔ چیچن وار لارڈ شامل بیسایو کے بھیجے ہوئے یہ دہشتگرد اقوام متحدہ سے چیچنیا کی آزاد ریاست کے طلبگار تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ روسی فوجیں چیچنیا کی سرزمین خالی کر دیں۔ بسلان اسکول جمنازیم میں مسلح دہشت گردوں نے گیارہ سو افراد کو یرغمال رکھا جن میں 777 چھوٹے بچے تھے۔
تین دن تک یہ بچے بوند پانی اور نوالہ روٹی کو ترستے رہے۔ اس جمنازیم میں اتنے لوگوں کی موجودگی کے سبب گرمی اتنی بڑھی کہ بچوں نے اپنے کپڑے اتار دیے۔ کچھ پیاس سے اس قدر بے تاب ہوئے کہ انھوں نے اپنا پیشاب پیا۔ ان میں سے کچھ بیہوش ہوئے، کچھ قریب المرگ ہوئے۔ چھوٹے بچوں نے رونا چیخنا شروع کیا اور اپنی ٹیچروں سے نہیں سنبھلے تو انھیں یرغمال بنانے والے سورماؤں نے زد و کوب کیا۔ ایک نوزائیدہ بچہ جو شاید اپنی ماں کی گود میں تھا، گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
یہ بھی ایک المناک واقعہ ہے کہ محاصرے کے تیسرے دن جب روسی فوجیوں نے یرغمالیوں کو چھڑانا چاہا تو فائرنگ کا ایسا خوفناک تبادلہ ہوا کہ اس میں بچوں سمیت سیکڑوں لوگ مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ روسیوں نے چیچنیا کو زیر اقتدار رکھنے کے لیے بھاری اسلحہ استعمال کیا تھا اور طیاروں سے بمباری بھی کی تھی اور چیچن اپنے ساتھ ہونے والے سلوک سے بے حد مشتعل تھے لیکن جب چیچنیا والوں کو یہ معلوم ہوا کہ سیکڑوں روسی بچے چیچن گوریلوں کے ہاتھوں جان سے گئے تو چیچنیا میں گہرے تاسف کا اظہار کیا گیا اور چیچن آزادی کے لیے کام کرنیوالے ایک شخص نے کہا کہ ''ہم پر اس سے شدید حملہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دنیا بھر میں لوگ یہ سمجھیں گے کہ چیچن اگر بچوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں تو وہ (انسان نہیں) عفریت ہیں''۔
یکم ستمبر 2004ء کو بسلان میں ہونے والے بچوں کا قتل عام ہو یا 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہمارے بچوں کو خاک و خون میں نہلانا۔ یہ واقعات اور دنیا کے مختلف ملکوں میں چائلڈ سولجرز کے ساتھ برتی جانے والی سفاکی، یہ الم ناک واقعات اس بات کا مظہر ہیں کہ انسان جو متمدن ہونے کا دعویدار ہے، وہ وحشت و بربریت کی دلدل میں دھنس چکا ہے اور مظلومیت کا مکھوٹا چڑھا کر کبھی دین دھرم اور کبھی آزادی کے نام پر بچوں کو ذبح کرنا عین ثواب سمجھتا ہے۔ شاید زمانہ وحشت کے وہ دن لوٹ آئے ہیں جب دیوتاؤں کے چرنوں پر بچوں کی بلی چڑھائی جاتی تھی۔
ان سب حقائق کے باوجود ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ ذہنیت ہم پر راج کرے گی۔ جب ہمارے بچے گلی کوچوں میں گاتے پھر رہے ہوں کہ 'بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے' اور یہ کہہ کر دشمن سے انتقام لینے کا اعلان کر رہے ہوں کہ 'ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے' تو جان لیا جائے کہ دہشت گرد اپنی جنگ ہار چکے ہیں۔
انیسویں صدی تک بدترین دشمنوں نے بھی حریف کے بچوں کا خیال رکھا اور ایسا بہت کم ہوا کہ اجتماعی طور پر انھیں قتل کیا جائے اور اس کا سہرا بھی اپنے سر باندھا جائے۔ انیسویں صدی کے نصف اول میں لکھی جانے والی ایک نظم جو آج بھی اپنے پڑھنے والوں کو آبدیدہ کر دیتی ہے، وہ میں نے میٹرک میں پڑھی تھی اور آج تک دل پر نقش ہے۔
موسمِ سرما کی چھٹیاں ہونے والی تھیں اور ہماری پرنسپل ستارہ جبیں جعفری صاحبہ انگریزی کا کورس ختم کرانے کے درپے تھیں۔ وہ کلاس میں آئیں اور انھوں نے ہمیں Casabianca پڑھانی شروع کی، The Boy stood on the burning deck 'لڑکا جلتے ہوئے عرشے پر کھڑا تھا'۔ یہ نظم ایک برطانوی شاعرہ فیلیسیا ڈورتھیا ہی مانز نے 1826ء میں لکھی تھی۔ شجاعت اور پیمانِ وفا کو اس سے بڑا خراج تحسین اور خراج عقیدت کیا ہو گا کہ فرانسیسی جنگی جہاز پر کھڑا ہوا وہ بچہ جو شعلوں میں گھرا ہوا تھا، وہ اس لیے جلتے ہوئے عرشے سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اس کے کمانڈر باپ نے اسے وہاں کھڑے ہونے کا حکم دیا تھا۔ وہ باپ کو پکار کر پوچھ رہا تھا کہ کیا میں یہیں کھڑا رہوں اور جواب نہیں آتا تھا۔ آتا بھی کیسے کہ باپ اپنی جان ہار چکا تھا۔ بیٹا آگ کے شعلوں میں گھرا کھڑا رہا یہاں تک کہ آگ بارود خانے تک پہنچ گئی اور ہولناک دھماکے نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔
ستارہ جبیں کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور ہم میں سے اکثر کے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔ وہ بچہ جس کا خاندانی نام 'کاسابیانکا' تھا اور جو اپنے باپ کے ساتھ اس جنگی جہاز پر موجود تھا، وہ ہمت اور استقامت کی ایک مثال بن کر ہمارے سامنے ابھرا تھا۔
پشاور میں ہونے والے سانحے اور اس کے ایک برس گزرنے کے دوران یہ نظم مجھے بار بار یاد آئی۔ بہ طور خاص اس وجہ سے کہ اس سانحے کے حوالے سے ایک مصرعہ فضا میں گونجا کہ 'ہمیں اپنے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے'۔ یہ بات پہلی مرتبہ ملالہ یوسف زئی نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے سے سنبھلنے کے بعد کہی تھی کہ 'میں طالبان کے بچوں کو بھی تعلیم دینا چاہتی ہوں'۔ 'کاسابیانکا' کی خاص بات یہ ہے کہ 1826ء میں جب یہ جنگ ہو رہی تھی، اس وقت انگلستان اور فرانس ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اور ان کی جنگیں 30 برس اور 100 برس چلتی تھیں۔ 'کاسابیانکا' نظم لکھ کر برطانوی شاعرہ فیلیسیا نے ایک فرانسیسی بچے کو خراج عقیدت ادا کیا تھا۔ یہ نظم عرصہ دراز تک انگلستان کے اسکولوں کے نصاب میں شامل رہی۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی یہ پڑھائی جاتی رہی اور اس کی سطریں دل کو مٹھی میں لے لیتی ہیں۔
ہم نہیں جانتے کہ وہ کم نصیب کون تھے جنھیں کلمہ گو ہونے کا دعویٰ تھا اور جنھوں نے اب سے ایک برس پہلے پشاور میں ان بچوں کو ذبح کر دیا اور انھیں گولی مار دی جو نہ دشمنی کے مفہوم سے واقف تھے اور نہ یہ جانتے تھے کہ انھیں کس جرم کی سزا میں زندگی جیسی بیش بہا دولت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ان کی آنکھوں میں خواب تھے اور ان ہی خوابوں کو آنکھوں میں بسائے وہ ایک جاودانی سفر پر روانہ ہوئے۔ اس خوں آشامی سے بچ رہنے والے ایک لڑکے نے کس دل سوزی سے کہا کہ میں ہوش میں آیا تو میں نے خون سے بھرے ہوئے اپنے دوستوں اور بھائیوں کو فرش پر سوتے ہوئے دیکھا۔
وہ بچے جو اس سانحے میں زخمی ہوئے اور بچ گئے، یا جو کسی کونے کھدرے میں چھپ کر اپنی جان بچا پائے، وہ تاحیات اس سانحے کو بھلا نہیں پائیں گے۔ انھیں اپنے ساتھیوں کی شرارتیں یاد آئیں گی، ایک دوسرے سے لڑنا اور پھر ایک دوسرے کو منانا، ایک دوسرے کے گھروں میں جانا اور ماؤں سے بڑی بہنوں یا نانیوں دادیوں سے لاڈ کرانا، وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں جو زندگی میں جگنوؤں کی طرح جگمگاتی ہیں، ان سے یہ تمام دل نوازیاں چھن گئی ہیں، ان کی زندگیاں کیسی تہی دامن ہو گئی ہیں، یہ وہی جانتے ہیں۔
ان کی شفقت بھری ٹیچریں، ان کی پرنسپل مسز طاہرہ قاضی جو اپنی جان بچا سکتی تھیں، وہاں سے نکل سکتی تھیں لیکن جنھوں نے کہا کہ میں اس وقت جاؤں گی جب میرا آخری بچہ یہاں سے بہ حفاظت چلا جائے گا۔ لیکن بارود بھری گولی نے انھیں کہیں جانے نہیں دیا۔ 'فرض شناسی' کا مفہوم لغت میں دیکھیے، آپ کو مل جائے گا لیکن اس لفظ کی حقیقت جاننی ہو تو مسز طاہرہ قاضی سے اور آرمی پبلک اسکول کی حفاظت پر مامور لوگوں سے پوچھیے جنھوں نے جان دے دی لیکن پیٹھ نہیں دکھائی۔ 'استقامت' اور 'پیمانِ وفا' کو سمجھنا ہو تو اس فرانسیسی بچے کے آخری لمحوں سے سمجھئے جس کا خاندانی نام 'کاسابیانکا' تھا۔ وہ بارود کے پروں پر سفر کرتا ہوا جاودانی زندگی کے گلستان میں رہنے چلا گیا۔
ان بچوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے گمنام سری لنکن، کوریائی، افریقی اور افغان بچے یاد آتے ہیں جنھیں بارودی سرنگوں سے بھرے ہوئے میدانوں میں ہر اول دستے کے طور پر استعمال کیا گیا اور ان میں سے اکثر کے چیتھڑے اڑ گئے کیونکہ ان کے پیر زمین میں چھپائی جانے والی کسی بارودی سرنگ پر پڑ گئے تھے اور انھوں نے پیچھے آنے والے 'سورماؤں' کا راستہ صاف کر دیا تھا۔
پشاور کے جانہار بچوں کو یاد کرتے ہوئے مجھے بسلان کا قتل عام یاد آتا ہے۔ پہلی ستمبر 2004ء کو انگش اور چیچن دہشت گردوں نے بسلان اسکول میں گھس کر گیارہ سو افراد کو یرغمال بنا لیا، ان میں 777 بچے تھے۔ چیچن وار لارڈ شامل بیسایو کے بھیجے ہوئے یہ دہشتگرد اقوام متحدہ سے چیچنیا کی آزاد ریاست کے طلبگار تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ روسی فوجیں چیچنیا کی سرزمین خالی کر دیں۔ بسلان اسکول جمنازیم میں مسلح دہشت گردوں نے گیارہ سو افراد کو یرغمال رکھا جن میں 777 چھوٹے بچے تھے۔
تین دن تک یہ بچے بوند پانی اور نوالہ روٹی کو ترستے رہے۔ اس جمنازیم میں اتنے لوگوں کی موجودگی کے سبب گرمی اتنی بڑھی کہ بچوں نے اپنے کپڑے اتار دیے۔ کچھ پیاس سے اس قدر بے تاب ہوئے کہ انھوں نے اپنا پیشاب پیا۔ ان میں سے کچھ بیہوش ہوئے، کچھ قریب المرگ ہوئے۔ چھوٹے بچوں نے رونا چیخنا شروع کیا اور اپنی ٹیچروں سے نہیں سنبھلے تو انھیں یرغمال بنانے والے سورماؤں نے زد و کوب کیا۔ ایک نوزائیدہ بچہ جو شاید اپنی ماں کی گود میں تھا، گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
یہ بھی ایک المناک واقعہ ہے کہ محاصرے کے تیسرے دن جب روسی فوجیوں نے یرغمالیوں کو چھڑانا چاہا تو فائرنگ کا ایسا خوفناک تبادلہ ہوا کہ اس میں بچوں سمیت سیکڑوں لوگ مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ روسیوں نے چیچنیا کو زیر اقتدار رکھنے کے لیے بھاری اسلحہ استعمال کیا تھا اور طیاروں سے بمباری بھی کی تھی اور چیچن اپنے ساتھ ہونے والے سلوک سے بے حد مشتعل تھے لیکن جب چیچنیا والوں کو یہ معلوم ہوا کہ سیکڑوں روسی بچے چیچن گوریلوں کے ہاتھوں جان سے گئے تو چیچنیا میں گہرے تاسف کا اظہار کیا گیا اور چیچن آزادی کے لیے کام کرنیوالے ایک شخص نے کہا کہ ''ہم پر اس سے شدید حملہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دنیا بھر میں لوگ یہ سمجھیں گے کہ چیچن اگر بچوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں تو وہ (انسان نہیں) عفریت ہیں''۔
یکم ستمبر 2004ء کو بسلان میں ہونے والے بچوں کا قتل عام ہو یا 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہمارے بچوں کو خاک و خون میں نہلانا۔ یہ واقعات اور دنیا کے مختلف ملکوں میں چائلڈ سولجرز کے ساتھ برتی جانے والی سفاکی، یہ الم ناک واقعات اس بات کا مظہر ہیں کہ انسان جو متمدن ہونے کا دعویدار ہے، وہ وحشت و بربریت کی دلدل میں دھنس چکا ہے اور مظلومیت کا مکھوٹا چڑھا کر کبھی دین دھرم اور کبھی آزادی کے نام پر بچوں کو ذبح کرنا عین ثواب سمجھتا ہے۔ شاید زمانہ وحشت کے وہ دن لوٹ آئے ہیں جب دیوتاؤں کے چرنوں پر بچوں کی بلی چڑھائی جاتی تھی۔
ان سب حقائق کے باوجود ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ ذہنیت ہم پر راج کرے گی۔ جب ہمارے بچے گلی کوچوں میں گاتے پھر رہے ہوں کہ 'بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے' اور یہ کہہ کر دشمن سے انتقام لینے کا اعلان کر رہے ہوں کہ 'ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے' تو جان لیا جائے کہ دہشت گرد اپنی جنگ ہار چکے ہیں۔