حالت جنگ اور حالت بھنگ
سینیٹر صاحب نے وضاحت کر دی ورنہ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں جمعہ کو بحث مباحثہ کے دوران حکومتی پارٹی کے سینیٹر مشاہدہ اللہ صاحب نے کہہ دیا کہ حکومت حالت جنگ میں ہے مگر سندھ کی حکومت حالت بھنگ میں ہے۔ اس پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے واک آؤٹ کر دیا جو بعد میں منت سماجت اور الفاظ واپس لینے پر ختم ہو گیا۔ مشاہد اللہ صاحب نے اہل زبان کے سامنے بڑی شاعرانہ وضاحت کی کہ میں جنگ کا قافیہ ملانے کے چکر میں بھنگ کہہ گیا جس کی معافی چاہتا ہوں۔
سینیٹر صاحب نے وضاحت کر دی ورنہ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اس کی وضاحت یا بھنگ کے اس مسئلے پر ایک ایرانی شاعر نے فیصلہ کر دیا تھا۔ صائب تبریزی ہندوستان آئے۔ پرانے زمانے میں ایرانی شعراء چند دن خوشحالی میں گزارنے کے لیے ہندوستان کا سفر کیا کرتے تھے۔ ہندوستان جاتا ہوا، کوئی صاحب ذوق مسافر یا قافلہ سالار صاحب ذوق مل جاتا تو یہ شاعر قافلے کے ساتھ مفت کا چکر لگا لیتے۔ صائب بھی کسی قافلے کے ساتھ ایک مفت خور مسافر کی طرح ہندوستان پہنچا اور تفریح کے لیے ملنگوں کے کسی گروہ میں شاید اتفاقاً حاضری دی۔ وہاں اس کو بھنگ پلائی گئی، مہمان کی خاطر تواضع کے لیے اور بھنگ کا اس ایرانی شاعر نے پہلی بار نشہ لیا اور ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ اس پر اس نے ایک خوبصورت شعر کہا جو ایک مثل بن گیا۔
بنگے زدیم و غلغلہ بر آسماں زنیم
مارا ازیں گیاہِ ضعیف ایں گماں نہ بود
بھنگ کے چند گھونٹ کیا پئے کہ میرا شور و غل گویا آسمان تک جا پہنچا، مجھے گھاس (بھنگ) کے ان کمزور سے پتوں پر یہ گماں نہ تھا۔ مشاہد اللہ صاحب کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ وہ سیاست کے علاوہ شاعری سے بھی کچھ شغل کرتے ہیں جو قافیہ شناسی کے شوق کو اپنے ساتھ ایوان تک لے گئے اور پکڑے گئے۔ بہرکیف شاعروں کا پکڑا جانا کچھ عجیب نہیں، یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔
کچھ شاعر اپنے کلام میں بے احتیاطی کی وجہ سے پکڑے گئے اور کچھ دل کی بات زبان پر لا کر مثلاً حبیب جالب یا پھر ہمارے یہ سینیٹر جو اپنی ہی برادری کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے جب کہ وہ بار بار کہتے بھی رہے کہ میرا بھنگ کی طرف سچ مچ اشارہ یا حوالہ نہیں تھا لیکن ذرا غور کیجیے کہ ایرانی شاعر صائب تبریزی چند گھونٹ چڑھا کر ایسا ملنگ ہو گیا کہ اس کا شور و غل آسمان تک جا پہنچا۔
ویسے مشہور ہے کہ بھنگ کے نشے میں کوئی ہنسنا شروع ہو جاتا ہے تو کوئی رونا۔ بھنگ نوشی سے پہلے جو جس موڈ میں ہو بھنگ اسی کو برملا کر دیتی ہے۔ صائب بھی ایسے ہی کسی بلند آہنگ موڈ میں تھا۔ سینیٹر کے قافیہ پیمائی کا شوق ایک محفوظ ایوان میں تھا۔ وہ صرف شریفانہ واک آؤٹ کی سزا بھی بھگت سکے جو ان کی معافی پر ختم ہو گئی، وہ اگر لفنگوں کی محفل میں ہوتے تو کیا ہوتا اس پر کچھ عرض نہیں کیا جا سکتا۔
یہ شاعرانہ باتیں تھیں لیکن بھارت سے وہی خبریں پھر سے شروع ہو گئی ہیں کہ یہاں مسلمانوں کی جگہ نہیں ہے۔ اب تو انھوں نے بھارت کے سب سے بڑے اداکار پر حملہ کیا ہے کہ اس کی فلم ریلیز نہیں ہونے دیں گے۔ شاہ رخ، دلیپ کمار (یوسف خان) کے بعد دوسرا وہ فلمی اداکار ہے جس نے برسوں تک بھارتیوں کو اپنی اداکاری سے مدہوش کیے رکھا۔ دلیپ کمار کی طرح یہ بھی مسلمان ہے۔
اداکاراؤں میں مدھو بالا بھی مسلمان تھی، پاکیزہ کی ہیروئن بھی مسلمان تھی، نام یاد نہیں آ رہا۔ علاوہ ازیں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی اور موسیقار نوشاد جس کی دھنوں پر بھارتی فلمی صنعت مدتوں تک بلکہ آج تک رقص کرتی چلی آ رہی ہے، مسلمان تھا۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے۔ مسلمانوں کے ذہن اور دل میں ایک ایسی وسعت ہوتی ہے اور جذب کر لینے کی ایسی صلاحیت جس کی بنیاد مسلمان کا وہ عقیدہ ہے جس میں تنگ نظری قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
اگر ہوتا ہے تو وہ پیشہ ور لوگوں کی پیدا کی ہوتی ہے جو اپنے معاشی مقاصد کے لیے فرقہ واریت پیدا کرتے ہیں اور پھر اس کی پرورش کرتے ہیں تا کہ وہ زندہ رہے۔ میں چونکہ فرقہ واریت کے بارے میں سخت ترین خیالات رکھتا ہوں اس لیے ان کا ذکر کر کے میں کچھ لوگوں کو اس حد تک ناراض نہیں کر سکتا کہ وہ میرے ادارے کے لیے خطرہ بن جائیں، جانی اور مالی جو ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں۔
بھارت اب اپنے ہاں سیکولرازم کے ڈھونگ کو ننگا کرنے میں مصروف ہے اور کوئی بھارتی مسلمان جو کہیں بھی کسی شعبے میں مامور ہے اس کی زندگی کے درپے ہیں۔ بھارت کے ہندوؤں کو یہ معلوم نہیں کہ ان کے ملک کی عظمت اگر کوئی ہے تو اس میں مسلمانوں کا حصہ کم از کم ہندوؤں سے زیادہ ہے۔
سائنس ہو، ادب ہو یا کوئی اور شعبہ، مسلمان اگر اس کے قائد نہیں ہیں تو اس کو آگے بڑھانے میں حصہ دار ضرور ہیں۔ یہ ان متعصب ہندوؤں کی بدقسمتی ہے کہ انھوں نے اپنے ہاں کے مسلمان ماہرین کو بھی نہیں بخشا اور وہ جان بچانے کے لیے پاکستان کی پناہ میں آ گئے ہیں کیونکہ پاکستان میں کوئی جان لیوا تعصب نہیں ہے اور اگر پاکستان میں کسی فرقے میں کوئی ایسی حرکت ہوتی ہے تو وہ ان تنگ نظر لوگوں کے ایماء اور اشتعال پر ہوتی ہے جو اسلام کی روح اور اس کی تعلیمات کی نعمت سے محروم ہیں۔
ہمیں تو حالت جنگ میں بھی دشمن کے علاقے میں درخت کاٹنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کہاں کہ کسی انسان کی جان لے لی جائے۔ ہم پاکستانیوں کو یوں تو بھارت کی بقا ہی کے ان آثار کو دیکھ کر خوش ہونا چاہیے لیکن بھارت کا یہ رویہ انسان دشمنی پر مبنی ہے جس کی سزا دنیا کی اس مبینہ بڑی جمہوریت کو ملے گی۔ جس مذہب میں انسانوں کو چار حصوں اور چار دنیاوی حیثیتوں میں تقسیم کر دیا جائے اس میں جمہوریت کیسے ہو سکتی ہے بلکہ یہ تو غیر مساوی لوگوں کی ایک سوسائٹی ہے۔ بھارتیوں کے ایسے مغالطوں کو دور کرنے کا مشورہ دینا چاہیے جو اس کی نجات کا ضامن ہو سکتا ہے۔