ادب اور رویوں کی بازگشت
عجیب سا سوال تھا جو بہت سے لوگوں کے اذہان پر گراں گزرا۔ لیجیے بھلا یہ بھی پوچھنے کی بات تھی
ایک بہت بڑے پروگرام کی منصوبہ بندی کرنا اور ترتیب دینا، آسان کام نہیں ہے جس میں ہزاروں لوگوں کی شرکت متوقع ہو اور جو کم ازکم چار، پانچ دن مختلف وقفوں کے ساتھ جاری و ساری رہے، ساتھ میں مہمانان گرامی کے طعام و قیام کا بھی اہتمام ہو، لیکن یہ کام گزشتہ آٹھ برسوں سے بے حد خیر و خوبی کے ساتھ انجام پا رہا ہے۔ دور دراز سے اہل ادب تشریف لاتے ہیں اور اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ادب کا قاری ان کا علمیت و قابلیت سے استفادہ کرتا ہے، یہ ایک منظم پروگرام ہوتا ہے۔
آرٹس کونسل کے جنرل سیکریٹری احمد شاہ تقریب سے قبل کچھ حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں، اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہونے والے پروگرام میں اہل قلم نہ کہ اس تقریب کا حصہ بنے بلکہ اپنی قیمتی آرا سے بھی نوازا، لیکن تقریب میں موجود شرکا کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوگیا کہ وہ مختصر بات سننا چاہتے ہیں، کچھ کو سننا ہی نہیں چاہتے، کئی لوگوں کو انھوں نے ٹوکا اور ان کے مشوروں کو بھی رد کیا۔ انھوں نے صاف دلی سے یہ بھی فرمایا کہ آپ پڑھنا چاہتے ہیں؟
عجیب سا سوال تھا جو بہت سے لوگوں کے اذہان پر گراں گزرا۔ لیجیے بھلا یہ بھی پوچھنے کی بات تھی، ہر لکھنے والا اس بڑے پیمانے پر ہونے والے ادبی اجتماع میں اپنا تعارف کرانا اور اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑنے کا خواہشمند ہوتا ہے، اس بات میں سینئر اور جونیئر کی تفریق نہیں۔ دوسرے شہروں، ملکوں سے سفر کر کے آنیوالے حضرات تفریح کرنے نہیں آتے ہیں بلکہ ان کا مقصد اپنی علمی و ادبی گفتگو میں اپنے لوگوں کو شامل کرنا ہے، کلاسیکی ادب اور ادب کی بدلتی ہوئی صورتحال کو بین الاقوامی ادب و ثقافت کے پس منظر میں پیش کرنا ہے تاکہ قارئین و حاضرین اور اہل ادب، ادب کی جدید جہتوں سے واقف ہوسکیں۔
ویسے سچی بات یہ ہے کہ ادب کی خوشبو دور دور تک پھیلتی ہے، آج کے ادیب و شعرا جو بھی تخلیقی کام کررہے ہیں ان سے سب لوگ واقف ہیں، پاکستان میں بھی اور بیرون پاکستان بھی کہ ان کی تحریروں کا سحر ہیں، قاری انھیں پڑھ کر اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے، پھر بھلا ایسے سچے اور کھرے ادیب کیوں کر خوشامد کریں گے کہ ہمیں پڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ منتظمین میں وسیع النظری کا ہونا ضروری ہے، ان کی آنکھوں کو دور تک دیکھنا چاہیے، بغیر کسی تعصب کا چشمہ لگائے، اور دل کو بغض و عناد سے پاک کر کے فیصلہ کرے کہ کون مستحق ہے، کس کا حق ہے؟ کون کتنا کام کر رہا ہے؟ ایسا کون سا ادیب و شاعر ہے جو معاشرے میں اپنی تحریروں کے حوالے سے قابل اعتبار ہے؟
اگر اس طرح سوچا جائے تو منصفی کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں اور خوشامد و پرچی و سفارش کا کلچر ختم ہوسکتا ہے۔ خوشامدی اور مفاد پرست لوگ کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں، اس طرح وہ اپنے مقصد میں تو کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن عزت و وقار سے محروم رہتے ہیں، چونکہ دوسرے لوگ بھی اتنی عقل و دانائی رکھتے ہیں، ایسی شہرت وقتی ہوتی ہے جو جلد ہی بلبلے کی طرح بیٹھ جاتی ہے، انسان کو اپنے کام اور کام پر ہی یقین رکھنا چاہیے۔ کام کرنیوالے ہی اعلیٰ مقام پاتے ہیں۔
آرٹس کونسل کی سالانہ اردو عالمی کانفرنس میں بے حد اہم شاعر، ادیب اور نقاد شرکت کرتے ہیں جو یقیناً سب کے لیے باعث فخر اور خوشی کی بات ہے، ان کی آمد سے کانفرنسوں کی اہمیت و افادیت بڑھ جاتی ہے۔ لوگ انھیں سننا چاہتے اور ان افکار سے واقف ہونا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں لیکن اس وقت بڑا ہی افسوس ہوتا ہے، جب کسی قلمکار سے جلد سے جلد اپنے مقالوں کو اختتام تک پہنچانے کی بات کی جائے۔
اس اہم بات کا ذکر ہم چند سطور کے بعد کریں گے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ منگل 8 دسمبر کو افتتاحی اجلاس تھا، اس کے بعد بالترتیب ''نفاذ اردو مسائل اور امکانات اردو کا نصاب تعلیم'' کے عنوانات کے تحت پروگراموں کا انعقاد ہوا۔ سحر انصاری نے کہا کہ ''زبانوں کے سلسلے میں ابھی بہت سے کام ہونے باقی ہیں، پاکستان میں 56 زبانیں بولی جاتی ہیں جب کہ 16 زبانوں کے اسکرپٹ وغیرہ بھی موجود ہیں اور ان میں سے بہت سی زبانیں ترقی یافتہ ہیں، پاکستان مختلف اور بڑی زبانوں کا گلدستہ ہے۔
ڈاکٹر عالیہ امام نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا، انھوں نے کہا کہ فی زمانہ دارالکتاب کو فروغ دینے کے بجائے دارالکباب کو اہمیت دی جارہی ہے، اردو زبان کا جھگڑا کسی سے نہیں ہے، انھوں نے احمد شاہ کو نئے کوہ کن کا بھی خطاب دیا۔ امداد حسینی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاعری کی اصناف ایک ہیں، زبانوں کا بیر نہیں ہے، ہمارا سب سانجھا ہے، یہ غلط بات ہے کہ کون سی زبان کس کے خلاف ہے۔
مظہر جمیل نے اپنے خطبے میں کہا کہ عدالت عظمیٰ نے تو اردو کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ بات بے حد اہم ہے، اسے استحقاق حاصل ہوگیا ہے کہ اردو ہی سرکاری زبان ہونی چاہیے، اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے نصاب سازی کے عمل کے لیے سنجیدہ رویے کو ضروری قرار دیا۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے بہت اچھی بات کہی، وہ یہ کہ ہم ڈاکٹر یا انجینئر تو بنادیتے ہیں لیکن انسان نہیں بناتے ہیں۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے اردو کے حوالے سے کہا کہ آپ پورا سسٹم درست کریں، انھوں نے نصاب کی خامیوں کی طرف توجہ دلائی کہ اسلامیات ایک مضمون ہے، 10 سے 40 فیصد تک اسلامیات شامل ہے، دوسری جماعت کے کورس میں وہ واقعات درج کیے ہیں جنھیں شامل کرنا کسی طور پر مناسب نہ تھا۔ پروفیسر انیس زیدی نے اساتذہ کی تربیت کی بات کی، انھوں نے کہا کہ ادب اور زبان کے درمیان جو فرق ہے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ پروفیسر ہارون الرشید نے درست فرمایا کہ تعلیمی اداروں میں 80 فیصد اساتذہ ملازمت کررہے ہیں۔
آج کے استاد کو ''صریرخامہ'' کا مطلب معلوم نہیں ہے۔ انتظار حسین، محترمہ کشور ناہید، ابوالکلام قاسمی نے بھی اردو زبان کے حوالے سے اہم تقاریر کیں۔ وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے کہا کہ زبانیں تو زبانیں، مذہبی تعصبات بڑھ گئے ہیں، ہر شخص عدم برداشت کا شکار ہے، یہ بات چھپائی گئی کہ قائداعظم نے اردو زبان کے بعد بھی کچھ کہا تھا۔''میں نے درج بالا سطور میں جس المیے کی طرف نشاندہی کی تھی وہ یہ ہے کہ وقت کی کمی کے باعث ناظمہ نے پوری پوری تقاریر سننے کا موقع نہیں دیا اور ہر اہم مقرر کے بعد وہ وقت کی یاد دہانی کراتی رہیں اس پر طرہ امتیاز یہ ہوا کہ احمد شاہ نے خود آکر پروگرام کو جلد سے جلد لپیٹا اور دوسرے پروگرام یعنی ضیا محی الدین کو سننے کے لیے اس طرح اعلان کیا کہ آپ لوگ بالکل اس طرح خاموشی اختیار کرلیں، جس طرح کہ آپ کے گھر میں کوئی مرگیا ہو۔
ایسے مواقعوں پر اور ہر موقع پر بددعائیہ کلمے ہرگز زیب نہیں دیتے، دوسری بات یہ کہ نابغہ روزگار شخصیات کو اتنا وقت دینا ضروری ہے کہ وہ اپنی بات کو مکمل کرسکیں، اس طرح کی جلد بازی سامعین کو بھی ناگوار گزرتی ہے اور علم و ادب کی اعلیٰ شخصیات کے وقار کے بھی منافی ہے، وقت کی تقسیم سوچے سمجھے لائحہ عمل کیمطابق ہونا ضروری ہے اور اس کا اندراج دعوت نامے میں کردیا جائے تو اس طرح کے مسائل درپیش نہیں ہوں گے، چونکہ ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق ہی فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو سننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اگر ضیا محی الدین کے لاکھوں پرستار ہیں تو ادب کے طالبعلموں کی بھی کمی نہیں ہے جو ادبا و شعرا کو تادیر سننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
کتابوں کی تقریب رونمائی کے موقع پر بھی انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا جاتا ہے، میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے ان تخلیق کاروں کو بھی شامل رونمائی کیا جائے جن کی کتابیں وسائل کی کمی کے باعث تقریب پذیرائی کا حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔ اچھے قلم کاروں اور اچھی کتابوں کی کمی ہرگز نہیں، بس اس نگاہ اور بصیرت کی ضرورت ہے، جو ان کتابوں کو تلاش کرسکے۔ یقیناً یہ ایک اچھی کاوش ہوگی بشرطیکہ اقربا پروری اور تعلقات کے بجائے منصفی اور قدردانی کا رویہ اپنایا جائے۔ یہی ادب کہلاتا ہے، ورنہ ادب کی آڑ میں بے ادبی اور اس محاورے پر عمل کیا جاتا ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں، اپنوں کو۔
آرٹس کونسل کے جنرل سیکریٹری احمد شاہ تقریب سے قبل کچھ حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں، اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہونے والے پروگرام میں اہل قلم نہ کہ اس تقریب کا حصہ بنے بلکہ اپنی قیمتی آرا سے بھی نوازا، لیکن تقریب میں موجود شرکا کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوگیا کہ وہ مختصر بات سننا چاہتے ہیں، کچھ کو سننا ہی نہیں چاہتے، کئی لوگوں کو انھوں نے ٹوکا اور ان کے مشوروں کو بھی رد کیا۔ انھوں نے صاف دلی سے یہ بھی فرمایا کہ آپ پڑھنا چاہتے ہیں؟
عجیب سا سوال تھا جو بہت سے لوگوں کے اذہان پر گراں گزرا۔ لیجیے بھلا یہ بھی پوچھنے کی بات تھی، ہر لکھنے والا اس بڑے پیمانے پر ہونے والے ادبی اجتماع میں اپنا تعارف کرانا اور اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑنے کا خواہشمند ہوتا ہے، اس بات میں سینئر اور جونیئر کی تفریق نہیں۔ دوسرے شہروں، ملکوں سے سفر کر کے آنیوالے حضرات تفریح کرنے نہیں آتے ہیں بلکہ ان کا مقصد اپنی علمی و ادبی گفتگو میں اپنے لوگوں کو شامل کرنا ہے، کلاسیکی ادب اور ادب کی بدلتی ہوئی صورتحال کو بین الاقوامی ادب و ثقافت کے پس منظر میں پیش کرنا ہے تاکہ قارئین و حاضرین اور اہل ادب، ادب کی جدید جہتوں سے واقف ہوسکیں۔
ویسے سچی بات یہ ہے کہ ادب کی خوشبو دور دور تک پھیلتی ہے، آج کے ادیب و شعرا جو بھی تخلیقی کام کررہے ہیں ان سے سب لوگ واقف ہیں، پاکستان میں بھی اور بیرون پاکستان بھی کہ ان کی تحریروں کا سحر ہیں، قاری انھیں پڑھ کر اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے، پھر بھلا ایسے سچے اور کھرے ادیب کیوں کر خوشامد کریں گے کہ ہمیں پڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ منتظمین میں وسیع النظری کا ہونا ضروری ہے، ان کی آنکھوں کو دور تک دیکھنا چاہیے، بغیر کسی تعصب کا چشمہ لگائے، اور دل کو بغض و عناد سے پاک کر کے فیصلہ کرے کہ کون مستحق ہے، کس کا حق ہے؟ کون کتنا کام کر رہا ہے؟ ایسا کون سا ادیب و شاعر ہے جو معاشرے میں اپنی تحریروں کے حوالے سے قابل اعتبار ہے؟
اگر اس طرح سوچا جائے تو منصفی کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں اور خوشامد و پرچی و سفارش کا کلچر ختم ہوسکتا ہے۔ خوشامدی اور مفاد پرست لوگ کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں، اس طرح وہ اپنے مقصد میں تو کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن عزت و وقار سے محروم رہتے ہیں، چونکہ دوسرے لوگ بھی اتنی عقل و دانائی رکھتے ہیں، ایسی شہرت وقتی ہوتی ہے جو جلد ہی بلبلے کی طرح بیٹھ جاتی ہے، انسان کو اپنے کام اور کام پر ہی یقین رکھنا چاہیے۔ کام کرنیوالے ہی اعلیٰ مقام پاتے ہیں۔
آرٹس کونسل کی سالانہ اردو عالمی کانفرنس میں بے حد اہم شاعر، ادیب اور نقاد شرکت کرتے ہیں جو یقیناً سب کے لیے باعث فخر اور خوشی کی بات ہے، ان کی آمد سے کانفرنسوں کی اہمیت و افادیت بڑھ جاتی ہے۔ لوگ انھیں سننا چاہتے اور ان افکار سے واقف ہونا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں لیکن اس وقت بڑا ہی افسوس ہوتا ہے، جب کسی قلمکار سے جلد سے جلد اپنے مقالوں کو اختتام تک پہنچانے کی بات کی جائے۔
اس اہم بات کا ذکر ہم چند سطور کے بعد کریں گے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ منگل 8 دسمبر کو افتتاحی اجلاس تھا، اس کے بعد بالترتیب ''نفاذ اردو مسائل اور امکانات اردو کا نصاب تعلیم'' کے عنوانات کے تحت پروگراموں کا انعقاد ہوا۔ سحر انصاری نے کہا کہ ''زبانوں کے سلسلے میں ابھی بہت سے کام ہونے باقی ہیں، پاکستان میں 56 زبانیں بولی جاتی ہیں جب کہ 16 زبانوں کے اسکرپٹ وغیرہ بھی موجود ہیں اور ان میں سے بہت سی زبانیں ترقی یافتہ ہیں، پاکستان مختلف اور بڑی زبانوں کا گلدستہ ہے۔
ڈاکٹر عالیہ امام نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا، انھوں نے کہا کہ فی زمانہ دارالکتاب کو فروغ دینے کے بجائے دارالکباب کو اہمیت دی جارہی ہے، اردو زبان کا جھگڑا کسی سے نہیں ہے، انھوں نے احمد شاہ کو نئے کوہ کن کا بھی خطاب دیا۔ امداد حسینی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاعری کی اصناف ایک ہیں، زبانوں کا بیر نہیں ہے، ہمارا سب سانجھا ہے، یہ غلط بات ہے کہ کون سی زبان کس کے خلاف ہے۔
مظہر جمیل نے اپنے خطبے میں کہا کہ عدالت عظمیٰ نے تو اردو کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ بات بے حد اہم ہے، اسے استحقاق حاصل ہوگیا ہے کہ اردو ہی سرکاری زبان ہونی چاہیے، اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے نصاب سازی کے عمل کے لیے سنجیدہ رویے کو ضروری قرار دیا۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے بہت اچھی بات کہی، وہ یہ کہ ہم ڈاکٹر یا انجینئر تو بنادیتے ہیں لیکن انسان نہیں بناتے ہیں۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے اردو کے حوالے سے کہا کہ آپ پورا سسٹم درست کریں، انھوں نے نصاب کی خامیوں کی طرف توجہ دلائی کہ اسلامیات ایک مضمون ہے، 10 سے 40 فیصد تک اسلامیات شامل ہے، دوسری جماعت کے کورس میں وہ واقعات درج کیے ہیں جنھیں شامل کرنا کسی طور پر مناسب نہ تھا۔ پروفیسر انیس زیدی نے اساتذہ کی تربیت کی بات کی، انھوں نے کہا کہ ادب اور زبان کے درمیان جو فرق ہے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ پروفیسر ہارون الرشید نے درست فرمایا کہ تعلیمی اداروں میں 80 فیصد اساتذہ ملازمت کررہے ہیں۔
آج کے استاد کو ''صریرخامہ'' کا مطلب معلوم نہیں ہے۔ انتظار حسین، محترمہ کشور ناہید، ابوالکلام قاسمی نے بھی اردو زبان کے حوالے سے اہم تقاریر کیں۔ وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے کہا کہ زبانیں تو زبانیں، مذہبی تعصبات بڑھ گئے ہیں، ہر شخص عدم برداشت کا شکار ہے، یہ بات چھپائی گئی کہ قائداعظم نے اردو زبان کے بعد بھی کچھ کہا تھا۔''میں نے درج بالا سطور میں جس المیے کی طرف نشاندہی کی تھی وہ یہ ہے کہ وقت کی کمی کے باعث ناظمہ نے پوری پوری تقاریر سننے کا موقع نہیں دیا اور ہر اہم مقرر کے بعد وہ وقت کی یاد دہانی کراتی رہیں اس پر طرہ امتیاز یہ ہوا کہ احمد شاہ نے خود آکر پروگرام کو جلد سے جلد لپیٹا اور دوسرے پروگرام یعنی ضیا محی الدین کو سننے کے لیے اس طرح اعلان کیا کہ آپ لوگ بالکل اس طرح خاموشی اختیار کرلیں، جس طرح کہ آپ کے گھر میں کوئی مرگیا ہو۔
ایسے مواقعوں پر اور ہر موقع پر بددعائیہ کلمے ہرگز زیب نہیں دیتے، دوسری بات یہ کہ نابغہ روزگار شخصیات کو اتنا وقت دینا ضروری ہے کہ وہ اپنی بات کو مکمل کرسکیں، اس طرح کی جلد بازی سامعین کو بھی ناگوار گزرتی ہے اور علم و ادب کی اعلیٰ شخصیات کے وقار کے بھی منافی ہے، وقت کی تقسیم سوچے سمجھے لائحہ عمل کیمطابق ہونا ضروری ہے اور اس کا اندراج دعوت نامے میں کردیا جائے تو اس طرح کے مسائل درپیش نہیں ہوں گے، چونکہ ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق ہی فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو سننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اگر ضیا محی الدین کے لاکھوں پرستار ہیں تو ادب کے طالبعلموں کی بھی کمی نہیں ہے جو ادبا و شعرا کو تادیر سننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
کتابوں کی تقریب رونمائی کے موقع پر بھی انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا جاتا ہے، میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے ان تخلیق کاروں کو بھی شامل رونمائی کیا جائے جن کی کتابیں وسائل کی کمی کے باعث تقریب پذیرائی کا حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔ اچھے قلم کاروں اور اچھی کتابوں کی کمی ہرگز نہیں، بس اس نگاہ اور بصیرت کی ضرورت ہے، جو ان کتابوں کو تلاش کرسکے۔ یقیناً یہ ایک اچھی کاوش ہوگی بشرطیکہ اقربا پروری اور تعلقات کے بجائے منصفی اور قدردانی کا رویہ اپنایا جائے۔ یہی ادب کہلاتا ہے، ورنہ ادب کی آڑ میں بے ادبی اور اس محاورے پر عمل کیا جاتا ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں، اپنوں کو۔