ہنس کی چال
انسانوں کے دوست بن سکتے ہیں، دشمنیاں دور کرسکتے ہیں اور اللہ کی تمام مخلوق کے کام آسکتے ہیں
شیخ سعدیؒ کا قول ہے کہ ''انسان کی پہچان اچھا لباس نہیں بلکہ اچھا اخلاق اور اس کا ایمان ہے''۔ ایک اور قول ہے کہ ''عقل مند اور بے وقوفوں میں کچھ نہ کچھ عیب ضرور ہوتا ہے مگر عقلمند اپنے عیب خود دیکھتا ہے اور بے وقوفوں کا عیب دنیا دیکھتی ہے۔''
یہ شاندار لوگ جب اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کچھ فرماتے ہیں تو یقیناً اس میں بے انتہا وزن بھی موجود ہے، یہ خالی الفاظ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سبق ہے جو وہ ہماری آسانیوں کے لیے دے کرگئے۔خلیل جبران کہتے ہیں کہ ''زندگی ایک ایسا نغمہ ہے جس کی فرمائش کی جائے تو دوبارہ نہیں چلتا''۔ زندگی ایک بینک کی طرح ہے جو کچھ اس میں جمع کروگے وہی نکلوا سکو گے۔ تعلیم، علم ایک ایسا خزانہ ہے جو دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں ہمارے لیے اللہ کا تحفہ ہے، ایک ایسا راستہ جس پہ رواں دواں ہوکر ہم اللہ کے قریب ہوسکتے ہیں۔
انسانوں کے دوست بن سکتے ہیں، دشمنیاں دور کرسکتے ہیں اور اللہ کی تمام مخلوق کے کام آسکتے ہیں، ہم سب کو مر کر واپس اللہ کی طرف ہی جانا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اگر ہم عقل و شعور رکھتے ہیں تو ہدایت کا راستہ ہی ہمارا انتخاب ہونا چاہیے۔اپنے کیریئر کے دوران میں نے بہت سے ایسے لوگوں کی مدد کی جو تعلیم سے دور اور خرافات میں زیادہ تھے، ایسی خواتین جو اپنے آپ کو فیشن زدہ سمجھتی تھیں مگر فیشن ہے کیا، کچھ پتہ نہیں۔ زبان کی تیزی اور اس کے حساب سے بے وقوف بنانے کا ہنر ان کو سکھادیا گیا ہے جو وہ سب پر لاگو کرتی ہیں، ایسے مرد جو تعلیم یافتہ بھی ہیں مگر ہدایت کی روشنی سے خالی، صحیح ڈائریکشن نہ ہونا، صحیح لوگوں کا نہ ملنا اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا۔ صحیح پلیٹ فارم نہ ملنا بھی بہت سی کمزوریوں کا باعث بنتا ہے۔
ایک اور جگہ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ''میرے پاس وقت نہیں لوگوں سے نفرت کرنے کا، کیونکہ میں لوگوں سے محبت کرنے میں مصروف رہتا ہوں۔'' اور ہمارے یہاں تو ایسے ذرائع جن سے محبت بڑھائی جاتی ہے اس کو بھی نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ میڈیا کی دنیا میں ہمارے چینلز ابھی تک میچور نہیں ہوسکے بلکہ ابھی تک سیکھ رہے ہیں اور اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ ابھی ایک مارننگ شو میں جانا ہوا، خواتین کی فلاح و بہبود اور کردار اس کا موضوع تھا، خواتین پر ظلم و ستم، روتے پیٹتے ڈرامے، مظلوم عورت کا کردار، آنسو بہاتی لڑکیاں ابھی تک ہمارے ٹی وی ڈراموں کی کامیابی ہے، ابھی تک ڈراموں میں عورت کو بے بس، بے سہارا، بے وقوف ہی دکھایا جارہا ہے۔ بات یورپ اور امریکا کی ہوتی ہے۔
مثالیں یورپ کی دی جاتی ہیں، فیشن اور چہرے کے میک اپ یورپ کی طرح کے ہوتے ہیں، بالوں کے رنگ سے لے کر جینز تک، مگر آنسو بہاتی بے بس عورت!تضادات اتنے زیادہ ہوتے جارہے ہیں کہ کبھی ٹی وی مالکان، کبھی ڈائریکٹرز حضراتمختلف دنیا کے لگتے ہیں۔ پھر کہا یہ جاتا ہے کہ عوام اور خواتین یہی دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے یہی دکھایا جارہا ہے۔ تمام خواتین ڈائجسٹ کے افسانہ نگار، بڑے بڑے رائٹرز کی صف میں آکر کھڑے ہوگئے ''وہ ہلکی گلابی شام، سرد ہوائیں، کھڑکی کے پٹ سے ٹکراتی ہوئی، ہلکے سبز رنگ میں ملبوس، بھیگی بھیگی آنکھوں والی لیلیٰ۔ کالے سوٹ میں شاندار نظر آنے والا شہروز، بے پناہ مردانہ وجاہت، دائیں ہاتھ میں سلگتی ہوئی سگریٹ، ماتھے پہ سوچ کی شکنیں۔'' اور بہت سارے اسی طرح کے ڈائیلاگ میں آپ کو بتاسکتی ہوں جو آج تک مصالحہ بنے ہوتے ہیں اور خواتین اور نوجوان نسل کو آگے کے بجائے پیچھے ہی لے جا رہے ہیں۔
جب ایک پی ٹی وی ہوتا تھا تو اس میں مزاحیہ سے لے کر سنجیدہ کارٹون، ڈرامہ، فلم سبھی کچھ ہوتا تھا، کوالٹی ٹائم ہوتا تھا۔ محنت، سوچ، بہترین ہوم ورک ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک اس کی تخلیق کو دیکھا جاتا ہے۔ایسے ایسے لوگ اب ڈرامہ رائٹر بنے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم پریشان ہوتے ہیں۔ یہ رائٹر ٹائپ کے لوگ ماڈلنگ بھی کرتے نظر آتے ہیں، ڈانس بھی کرتے نظر آتے ہیں اور 6 سے آٹھ فلموں کو ملا کر ایک فلم بناکر پاکستانی فلمی انڈسٹری میں انقلاب بھی لانا چاہتے ہیں۔
انقلاب تو سوچ سے آتا ہے، مختلف اور مضبوط ارادوں سے آتا ہے، نہ کہ ادھر ادھر کی چیزوں کو نقل کردیا جائے اور انقلاب برپا کیا جائے۔ انتہا ہے یہ بے وقوفی کی اور شاباش ہے ان لوگوں کو جو ان جیسے لوگوں کو پروموٹ کرتے ہیں اور ان مسخروں کو جو ادھر ادھر سے 8-6 فلموں کے کلپس ملاکر ایک ڈرامہ یا فلم بناتے ہیں۔ہم اور آپ ٹائم تو پاس کرسکتے ہیں مگر کوئی ذخیرہ نہیں بناسکتے ہیں۔ حیرت تو اس پر بھی ہوتی ہے کہ ناتجربہ کار لوگوں کے ساتھ ساتھ بے انتہا تجربہ کار لوگ بھی ان چیزوں کا، ان طریقہ کار کا حصہ بن رہے ہیں اور زبردستی وہ سب کچھ دماغوں میں ٹھونسا جارہا ہے جو بے حد فضول اور لاحاصل ہے۔
بڑے بڑے ادیب اور تجزیہ کار، نامور مصنف بھی اپنی روزی روٹی کے چکر میں اپنی مخالفت نہ ہونے کے چکر میں ایسے لوگوں کا ساتھ دے رہے ہیں جن کے نتائج بالکل صحیح نہیں۔ آنے والا وقت ان لوگوں کو بھی ان لوگوں کی صف میں کھڑا کردے گا جنھوں نے پیسے کمانے کے چکر میں اپنی بہترین سوچ، اور بہترین الفاظ کا مناسب استعمال نہیں کیا ہوگا۔موجودہ اور آنے والے تمام اخبارات، ٹی وی چینلز بہت بھاری ذمے داری اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ صرف پلیٹ فارمز کی کمی ہے، ان مخلص اور سچے لوگوں کی کمی ہے جو اپنی دکان چمکانے کی سوچ سے بالاتر ہوں۔
ایسے سچے اور مخلص لوگ جو لالچ اور ریا کاری سے بلند ہوں، نام تو ایسے ہی لوگوں کے زندہ رہتے ہیں باقی تو وقت کے ساتھ ساتھ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہی بن جاتے ہیں۔الفاظ کا صحیح استعمال، اپنی ذاتی انا کو چھوڑ کر کیا جائے۔ اپنے آپ کو بہترین مثال بناکر پیش کیا جائے، ورنہ کوئی آج کے دور میں اتنا بے وقوف نہیں کہ سمجھ نہ سکے کہ لالو کھیت سے ڈیفنس تک پہنچنے کا ذریعہ کیا ہے؟ ہمارے اردگرد کے لوگ اتنے بے وقوف نہیں کہ بدلتے ہوئے لائف اسٹائل کو نہ سمجھ سکیں۔ چاہے آپ اور ہم لاکھ ادائیں دکھائیں، لاکھوں دفعہ سیلون جائیں، بہترین لباس، بہترین گاڑی، وغیرہ وغیرہ۔ مگر اپنے ماضی کو کہاں لے جائیں گے؟
یہ شاندار لوگ جب اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کچھ فرماتے ہیں تو یقیناً اس میں بے انتہا وزن بھی موجود ہے، یہ خالی الفاظ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سبق ہے جو وہ ہماری آسانیوں کے لیے دے کرگئے۔خلیل جبران کہتے ہیں کہ ''زندگی ایک ایسا نغمہ ہے جس کی فرمائش کی جائے تو دوبارہ نہیں چلتا''۔ زندگی ایک بینک کی طرح ہے جو کچھ اس میں جمع کروگے وہی نکلوا سکو گے۔ تعلیم، علم ایک ایسا خزانہ ہے جو دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں ہمارے لیے اللہ کا تحفہ ہے، ایک ایسا راستہ جس پہ رواں دواں ہوکر ہم اللہ کے قریب ہوسکتے ہیں۔
انسانوں کے دوست بن سکتے ہیں، دشمنیاں دور کرسکتے ہیں اور اللہ کی تمام مخلوق کے کام آسکتے ہیں، ہم سب کو مر کر واپس اللہ کی طرف ہی جانا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اگر ہم عقل و شعور رکھتے ہیں تو ہدایت کا راستہ ہی ہمارا انتخاب ہونا چاہیے۔اپنے کیریئر کے دوران میں نے بہت سے ایسے لوگوں کی مدد کی جو تعلیم سے دور اور خرافات میں زیادہ تھے، ایسی خواتین جو اپنے آپ کو فیشن زدہ سمجھتی تھیں مگر فیشن ہے کیا، کچھ پتہ نہیں۔ زبان کی تیزی اور اس کے حساب سے بے وقوف بنانے کا ہنر ان کو سکھادیا گیا ہے جو وہ سب پر لاگو کرتی ہیں، ایسے مرد جو تعلیم یافتہ بھی ہیں مگر ہدایت کی روشنی سے خالی، صحیح ڈائریکشن نہ ہونا، صحیح لوگوں کا نہ ملنا اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا۔ صحیح پلیٹ فارم نہ ملنا بھی بہت سی کمزوریوں کا باعث بنتا ہے۔
ایک اور جگہ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ''میرے پاس وقت نہیں لوگوں سے نفرت کرنے کا، کیونکہ میں لوگوں سے محبت کرنے میں مصروف رہتا ہوں۔'' اور ہمارے یہاں تو ایسے ذرائع جن سے محبت بڑھائی جاتی ہے اس کو بھی نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ میڈیا کی دنیا میں ہمارے چینلز ابھی تک میچور نہیں ہوسکے بلکہ ابھی تک سیکھ رہے ہیں اور اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ ابھی ایک مارننگ شو میں جانا ہوا، خواتین کی فلاح و بہبود اور کردار اس کا موضوع تھا، خواتین پر ظلم و ستم، روتے پیٹتے ڈرامے، مظلوم عورت کا کردار، آنسو بہاتی لڑکیاں ابھی تک ہمارے ٹی وی ڈراموں کی کامیابی ہے، ابھی تک ڈراموں میں عورت کو بے بس، بے سہارا، بے وقوف ہی دکھایا جارہا ہے۔ بات یورپ اور امریکا کی ہوتی ہے۔
مثالیں یورپ کی دی جاتی ہیں، فیشن اور چہرے کے میک اپ یورپ کی طرح کے ہوتے ہیں، بالوں کے رنگ سے لے کر جینز تک، مگر آنسو بہاتی بے بس عورت!تضادات اتنے زیادہ ہوتے جارہے ہیں کہ کبھی ٹی وی مالکان، کبھی ڈائریکٹرز حضراتمختلف دنیا کے لگتے ہیں۔ پھر کہا یہ جاتا ہے کہ عوام اور خواتین یہی دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے یہی دکھایا جارہا ہے۔ تمام خواتین ڈائجسٹ کے افسانہ نگار، بڑے بڑے رائٹرز کی صف میں آکر کھڑے ہوگئے ''وہ ہلکی گلابی شام، سرد ہوائیں، کھڑکی کے پٹ سے ٹکراتی ہوئی، ہلکے سبز رنگ میں ملبوس، بھیگی بھیگی آنکھوں والی لیلیٰ۔ کالے سوٹ میں شاندار نظر آنے والا شہروز، بے پناہ مردانہ وجاہت، دائیں ہاتھ میں سلگتی ہوئی سگریٹ، ماتھے پہ سوچ کی شکنیں۔'' اور بہت سارے اسی طرح کے ڈائیلاگ میں آپ کو بتاسکتی ہوں جو آج تک مصالحہ بنے ہوتے ہیں اور خواتین اور نوجوان نسل کو آگے کے بجائے پیچھے ہی لے جا رہے ہیں۔
جب ایک پی ٹی وی ہوتا تھا تو اس میں مزاحیہ سے لے کر سنجیدہ کارٹون، ڈرامہ، فلم سبھی کچھ ہوتا تھا، کوالٹی ٹائم ہوتا تھا۔ محنت، سوچ، بہترین ہوم ورک ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک اس کی تخلیق کو دیکھا جاتا ہے۔ایسے ایسے لوگ اب ڈرامہ رائٹر بنے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم پریشان ہوتے ہیں۔ یہ رائٹر ٹائپ کے لوگ ماڈلنگ بھی کرتے نظر آتے ہیں، ڈانس بھی کرتے نظر آتے ہیں اور 6 سے آٹھ فلموں کو ملا کر ایک فلم بناکر پاکستانی فلمی انڈسٹری میں انقلاب بھی لانا چاہتے ہیں۔
انقلاب تو سوچ سے آتا ہے، مختلف اور مضبوط ارادوں سے آتا ہے، نہ کہ ادھر ادھر کی چیزوں کو نقل کردیا جائے اور انقلاب برپا کیا جائے۔ انتہا ہے یہ بے وقوفی کی اور شاباش ہے ان لوگوں کو جو ان جیسے لوگوں کو پروموٹ کرتے ہیں اور ان مسخروں کو جو ادھر ادھر سے 8-6 فلموں کے کلپس ملاکر ایک ڈرامہ یا فلم بناتے ہیں۔ہم اور آپ ٹائم تو پاس کرسکتے ہیں مگر کوئی ذخیرہ نہیں بناسکتے ہیں۔ حیرت تو اس پر بھی ہوتی ہے کہ ناتجربہ کار لوگوں کے ساتھ ساتھ بے انتہا تجربہ کار لوگ بھی ان چیزوں کا، ان طریقہ کار کا حصہ بن رہے ہیں اور زبردستی وہ سب کچھ دماغوں میں ٹھونسا جارہا ہے جو بے حد فضول اور لاحاصل ہے۔
بڑے بڑے ادیب اور تجزیہ کار، نامور مصنف بھی اپنی روزی روٹی کے چکر میں اپنی مخالفت نہ ہونے کے چکر میں ایسے لوگوں کا ساتھ دے رہے ہیں جن کے نتائج بالکل صحیح نہیں۔ آنے والا وقت ان لوگوں کو بھی ان لوگوں کی صف میں کھڑا کردے گا جنھوں نے پیسے کمانے کے چکر میں اپنی بہترین سوچ، اور بہترین الفاظ کا مناسب استعمال نہیں کیا ہوگا۔موجودہ اور آنے والے تمام اخبارات، ٹی وی چینلز بہت بھاری ذمے داری اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ صرف پلیٹ فارمز کی کمی ہے، ان مخلص اور سچے لوگوں کی کمی ہے جو اپنی دکان چمکانے کی سوچ سے بالاتر ہوں۔
ایسے سچے اور مخلص لوگ جو لالچ اور ریا کاری سے بلند ہوں، نام تو ایسے ہی لوگوں کے زندہ رہتے ہیں باقی تو وقت کے ساتھ ساتھ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہی بن جاتے ہیں۔الفاظ کا صحیح استعمال، اپنی ذاتی انا کو چھوڑ کر کیا جائے۔ اپنے آپ کو بہترین مثال بناکر پیش کیا جائے، ورنہ کوئی آج کے دور میں اتنا بے وقوف نہیں کہ سمجھ نہ سکے کہ لالو کھیت سے ڈیفنس تک پہنچنے کا ذریعہ کیا ہے؟ ہمارے اردگرد کے لوگ اتنے بے وقوف نہیں کہ بدلتے ہوئے لائف اسٹائل کو نہ سمجھ سکیں۔ چاہے آپ اور ہم لاکھ ادائیں دکھائیں، لاکھوں دفعہ سیلون جائیں، بہترین لباس، بہترین گاڑی، وغیرہ وغیرہ۔ مگر اپنے ماضی کو کہاں لے جائیں گے؟