بلا تفریق تمام بولرز کو بائیومکینک کی کسوٹی پر پرکھا جائے

محمد حفیظ کی ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ خصوصی نشست

محمد حفیظ کی ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ خصوصی نشست ۔ فوٹو : فائل

محمد حفیظ کیریئر کی ابتدا میں کئی اتار چڑھائودیکھنے کے بعد بالآخر ایک مستند آل رائونڈر کے طور پر قومی ٹیم میں جگہ پکی کرنے میں کامیاب ہوگئے،تینوں فارمیٹ کی کرکٹ کے لیے موزوں سمجھے جانے والے کھلاڑی نے متعدد بار گرین شرٹس کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

گزشتہ سال بولنگ ایکشن غیرقانونی قرار پانے کے بعد انھوں نے کلیئرنس حاصل کی لیکن 17جولائی کو ایک بار پھر شکوک کی زد میں آنے کے بعد پابندی کا شکار ہوگئے، انھوں نے آل رائونڈر کے اسٹیٹس سے محرومی کو روگ بنانے کے بجائے بطور بیٹسمین اپنی افادیت منوانے پر زیادہ توجہ دی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔

''پروفیسر'' کی عرفیت رکھنے والے 35 سالہ کرکٹر نے یواے ای میں ٹیسٹ سیریز کے دوران ٹاپ آرڈر میں بیٹنگ کرتے ہوئے انگلش کپتان الیسٹر کک کے بعد سب سے زیادہ رنز 380 بنائے، ون ڈے میچز میں وہ 184رنز کے ساتھ دونوں ٹیموں میں ٹاپ اسکورر تھے،گزشتہ سال امارات میں ہی نیوزی لینڈ سے طویل فارمیٹ کے مقابلوں سے ان کے سنہرے دور کا آغاز ہوا،اب تک وہ 9میچز میں 75.20کی اوسط سے 1128رنز اسکور کر چکے،ان میں 4سنچریاں بھی شامل ہیں۔ محمد حفیظ کے ساتھ ''ایکسپریس'' کی خصوصی نشست میں کی جانے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: آل رائونڈر ہونے کے باوجود آپ صرف بیٹنگ تک محدود ہیں، بولنگ نہ کرنے پر کیا محسوس کرتے ہیں؟
محمدحفیظ: انٹرنیشنل کرکٹ میں کسی بھی حیثیت سے کھیلیں کارکردگی دکھانے کا چیلنج تو درپیش ہوتا ہے، آپ کو میچ کی صورتحال کے مطابق ٹیم کے لیے پرفارم کرتے ہوئے اپنی اہمیت ثابت کرنا ہوتی ہے۔

بیٹنگ میں ذمہ داریاں اپنی جگہ لیکن میں نے کیریئر کے آغاز سے ہی اپنی بولنگ کا بھی بھر پور لطف اٹھایا، کارکردگی ٹیم کے کام آتی تو بڑی خوشی محسوس کرتا، کبھی میچ کی صورتحال ایسی ہو جس میں میری بولنگ کا اہم کردار ہوسکتا ہو تو دکھ ہوتا ہے کہ میں صلاحیتوں کا اظہار کیوں نہیں کرپا رہا،کمی تو محسوس ہو رہی ہے،ارمان مچلتا ہے کہ کاش اس موقع پر میں ٹیم کے لیے کچھ کرپاتا۔ بہرحال واپسی کے لیے کوشش اور محنت کررہا ہوں، بولنگ ایکشن کے بارے میں پہلے بھی کئی مواقع پر بات کرچکا کہ اس حوالے سے اقدامات کرکٹ کی بہتری کے لیے کیے جارہے ہیں لہذا پالیسی بھی عالمگیر ہونی چاہیے۔

نظر میں آنے والے 1،2 بولرز کو پکڑا اور دیگر کو چھوڑ دیا جائے تو یہ اچھی بات نہیں ہے، میں نے پہلے بھی اس معاملے پر ٹھوس رائے دی تھی کہ اس وقت آئی سی سی کی منظور شدہ 5 بائیو مکینکس لیب کام کررہی ہیں، وہاں تمام انٹرنیشنل بولرز کا جائزہ لیا جائے، جس کا ایکشن نئے قوانین کے معیار پر پورا اترے اسی کو بولنگ کی اجازت دیں، جو ناکام ہوجائیں ان کو روک دیا جائے،مشکوک بولرز اپنے ایکشن کو درست کرنے کے بعد ہی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آئیں،موجودہ طریقہ کار ختم ہونا چاہیے،صرف اسپنرز کو ہی گرفت میں لانے کے بجائے فاسٹ، سلو،رائٹ آرم، لیفٹ آرم سب کو بائیومکینکس لیب سے کلیئر کرانا چاہیے۔
؎
ایکسپریس:رپورٹ کیے جانے کے بعد آپ کا ایکشن کلیئر بھی ہوگیا تھا لیکن ایک بار پھر مشکوک قرار دیدیا گیا،آپ کے خیال میں کیا کمی رہ گئی تھی کہ ایک سال کی پابندی کا صدمہ برداشت کرنا پڑگیا؟
محمدحفیظ:کمی تو کوئی نہیں تھی، نیچرل انداز میں ہی بولنگ کررہا تھا، حقیقت یہ ہے کہ میں 2003ء میں انٹرنیشنل کیریئر کے آغاز سے اب تک ایک ہی اسٹائل میں گیندیں کر رہا ہوں، ایکشن میں تبدیلی یا ورایٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔

مجھے ''دوسرا'' یا ''تیسرا'' کرنی آتی ہے، نہ کبھی سیکھنے کی کوشش کی، میںٕ پارٹ ٹائم بولر کے طور پربولنگ شروع کرنے کے بعد چیزوں کو سادہ رکھتے ہوئے لائن و لینتھ پر کنٹرول سے بیٹسمینوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا، اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی، ون ڈے کرکٹ میں نمبرون بولر اور آل رائونڈرز کی رینکنگ میں بھی سرفہرست رہا، یوں میری بولنگ سے ٹیم کو اور مجھے خود بھی کیریئر آگے بڑھانے کا موقع ملا، مینجمنٹ کو متوازن اسکواڈ تشکیل دینے میں بھی آسانی ہوئی۔

ایکسپریس:کیا رپورٹ ہونے کے بعد آپ نے ایکشن کو نئے قوانین سے ہم آہنگ کرنے کے لیے زیادہ کام نہیں کیا جو دوبارہ شکوک کی زد میں آگئے؟
محمدحفیظ:نیوزی لینڈ کے خلاف 2014ء کی ٹیسٹ سیریز میں میرا ایکشن رپورٹ ہوا تو اس وقت مسائل کے حل کے لیے کام شروع کردیا تھا، ری ماڈلنگ کے لیے اینالسٹ نے میرے ساتھ بڑا تعاون کیا، ثقلین مشتاق، مشتاق احمد اور محمد اکرم نے رہنمائی کرتے ہوئے مفید مشورے دیے، روزانہ 25 سے 30 اوورز کرتا رہا تاکہ بازو کے خم اور دیگر جسمانی حرکات میں کوئی دشواری نہ رہے، 6 ماہ تک محنت کے بعد پورا یقین تھا کہ کلیئر ہوجائوں گا اور ایسا ہی ہوا، بعدازاں انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی اصلاح شدہ ایکشن کے ساتھ ہی بولنگ کررہا تھا۔

اس میں بھی کسی تجربے یا تبدیلی سے گریز کیا، کسی گگلی، ''دوسرا، تیسرا'' یا نئی ایجاد کا اضافہ بھی نہیں کیا، ری ماڈلنگ کے بعد مسلسل 2 ماہ اسی ایکشن سے بولنگ کرتا رہا،میں خود حیران تھا کہ اب اس میں کیا خرابی آگئی، ٹیسٹ ہوا تو فوٹیج میں بازو کا خم 15 ڈگری سے زیادہ آگیا،میں ایسی ہی بولنگ کرتے ہوئے اسی زاویے کی فوٹیج میں خم حد کے اندر ہونے پر کلیئر ہوا تھا، اس لیے میرا خیال ہے کہ ایک ہی قانون اور طریقہ کار سب پر یکساں لاگو کیا جانا چاہیے، سب کا ٹیسٹ لیں جو کلیئر ہو اسے بولنگ کی اجازت ملے اور دوسروں کو روک دیا جائے۔

ایکسپریس:سعید اجمل ٹیم میں جگہ محفوظ نہیں رکھ پائے، آپ کو بولنگ کی اجازت نہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا اسپن شعبہ ماضی جیسی کارکردگی دوہرا پائے گا؟
محمدحفیظ:سعید اجمل، شاہد آفریدی اور میری ایک مثلث تھی، کپتان کے پاس 3 ٹرمپ کارڈ ہوتے جنھیں وہ موقع کے مطابق استعمال کرسکتا تھا، ٹیم کا اچھا کمبی نیشن بنانے میں بھی مشکلات نہیں ہوتی تھیں، ہم تینوں صرف سازگار حالات میں ہی نہیں ہر قسم کی کنڈیشنز میں بہتر پرفارم کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، یہ مثلث ٹوٹی تو ٹیم کا توازن بگڑگیا جس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے۔




سعید اجمل مشکل کنڈیشنز اور میچ کے فیصلہ کن لمحات میں بہتر انتخاب ثابت ہوتے، میری بولنگ بھی رنز روکنے اور حریف پر دبائو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی، البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس شعبے میں بہتری کا سفر بھی ختم ہوگیا، مسائل کے باوجود زندگی میں آگے بڑھنا ہی پڑتا ہے، چند باصلاحیت نوجوان آگے آرہے ہیں، ان سے اچھی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں، وقت بڑی تیزی سے گزرتا ہے، میرا کم بیک بھی ہوگا اور ایک بارپھر آل رائونڈر کی حیثیت سے کھیلوں گا، سعید اجمل بھی فائٹر ہیں، ان کے لیے بھی بڑی نیک خواہشات ہیں، امید ہے کہ مشکل وقت جلد گزرجائے گا اور وہ خود کو انٹرنیشنل کرکٹ چیلنجز کے لیے تیار کرکے میدان میں واپس آئیں گے۔

ایکسپریس:بیٹنگ آرڈر میں کس نمبر پر کھیلتے ہوئے زیادہ پُراعتماد محسوس کرتے ہیں؟
محمدحفیظ:میری اصل پہچان تو بیٹنگ ہی ہے، خود کو ہمیشہ بطور بیٹسمین منوانے کے لیے بھر پور کوشش کی ہے، گو میری بولنگ سے ٹیم کو فائدہ ہوا لیکن بنیادی ذمہ داری بیٹنگ کو ہی لیتا ہوں،2003ء سے 2010ء تک کیریئر کے ابتدائی دور میں بہت زیادہ غلطیاں کیں، اب بھی کرتا ہوں لیکن اس وقت شرح بہت زیادہ تھی، ابتدائی 7برسوں میں کبھی ٹیم میں اپنی جگہ پکی نہ کرسکا، ہمارے ہاں بعض اوقات اعدادو شمار بھی اپنی مرضی کے طریقہ سے پیش کیے جاتے ہیں، 2010ء کے بعد میں تکنیک اور فٹنس پر خاصی محنت سے ذہنی طور پر بھی زیادہ بہتر انداز میں تیار ہوا۔

واپسی کے بعد اعدادو شمار پر نظر ڈالی جائے تو بیٹنگ میں میری کارکردگی بھی سرفہرست ہوگی، ٹیسٹ میں بھی بطور بیٹسمین دوسرے یا تیسرے نمبر پر نظر آئوں گا، ٹی ٹوئنٹی میں میری جگہ ٹاپ پر ہوگی، یہ حقائق بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بولنگ کو ایک طرف رکھ دیں تو بطور بیٹسمین بھی گرین شرٹ زیب تن کرنے کا مستحق ہوں، بولنگ پر پابندی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔

کیریئر کے آغاز میں میری غلطیوں کے ساتھ بیٹنگ آرڈر میں بار بار تبدیلی بھی کارکردگی میں عدم تسلسل کی وجوہات میں شامل تھی، بنیادی طور پر میں ایک اوپنر اور اسی پوزیشن پر کھیلتے ہوئے زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہوں لیکن ٹیم کی ضرورت کے لیے نمبر 3 پر کھیلتا رہا، عمران فرحت، ناصر جمشید اور احمد شہزاد کی صورت میں اوپنرز موجود ہونے پر کوچ ڈیوڈ واٹمور نے زور دیا تھا کہ ون ڈائون پر بیٹنگ کے لیے کوئی نہیں، اس خلا کو پُر کرنے کے لیے میں تیار ہوگیا، گزشتہ سال بھی اوپنر تو کبھی نمبر 3 پر کھیلتا رہا تاہم یہ بات طے ہے کہ میں انہی 2 پوزیشنزکا بیٹسمین ہوں، نمبر 5 یا 6 کا نہیں، اس کے باوجود فارمیٹ اور ٹیم کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے کسی بھی نمبر پر بھیجا جائے تو اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کروں گا، اعدادو شمار بھی واضح کرتے ہیں کہ میری کارکردگی اوپنر اور نمبر 3 بیٹسمین کے طور پر زیادہ اچھی رہی ہے۔

ایکسپریس:آپ قومی ٹی ٹوئنٹی کی قیادت خود چھوڑ چکے، مستقبل میں کبھی موقع ملا تو کپتان بننا چاہیں گے؟
محمدحفیظ:ابھی یہ سوال قبل از وقت ہے،مصباح الحق ٹیسٹ، اظہر علی ون ڈے اور شاہد آفریدی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کپتان ہیں، فی الحال تو سب سے اہم کام ایک سینئر کے طور پر ان کی بھر پور سپورٹ کرنا ہے،بہرحال قیادت میرے لیے کوئی ناکام تجربہ نہیں تھی، میں نے کمان سنبھالی تو ٹیم عالمی رینکنگ میں نمبر 9 پر تھی، میرا ایک ویژن اور سب کی اچھی پلاننگ و محنت تھی،ہم تیسرے نمبر پر آگئے۔

میرے قیادت چھوڑنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کا سیٹ اپ تبدیل ہوا تھا، میں نہیں چاہتا تھاکہ نجم سیٹھی کی سربراہی میں نئی مینجمنٹ سابقہ فیصلوں کا بوجھ اٹھائے،میں نے خود کہا کہ اگر انھیں لگتا ہے کہ کوئی زیادہ بہتر قیادت کرسکتا ہے تو اسے ذمہ داری سونپ دیں کیونکہ یہ منصب کسی کی میراث نہیں، بالآخر بورڈ کو ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون اس ذمہ داری کے لیے موزوں ہے، میں نے قیادت چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ بورڈ جب جس بھی فارمیٹ کے لیے مناسب سمجھے مجھے کپتان بنا سکتا ہے۔

میں نے اس وقت ٹی ٹوئنٹی کی قیادت کے ساتھ ٹیسٹ اور ون ڈے کی نائب کپتانی بھی چھوڑی تھی، فری ہینڈ دینے کا مطلب یہ تھا کہ مینجمنٹ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے جو چاہے فیصلے کرسکے،البتہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کپتان کو سپورٹ نہیں ملتی، جیسے ہی آپ کو ذمہ داری سونپی جائے لوگ مہم شروع کردیتے ہیں، قیادت کسی کے بھی ہاتھ میں ہو ٹیم، میڈیا اور پرستاروں کوسپورٹ کرنا چاہیے۔

ایکسپریس:یو اے ای میں انگلینڈ کے خلاف سیریز میں آپ کے رن آئوٹس کا بڑا تذکرہ رہا،اس بارے میں کیا کہیں گے؟
محمدحفیظ:وکٹوں کے درمیان دوڑنے میں میرے کبھی زیادہ مسائل نہیں رہے لیکن گزشتہ چند ماہ میں تسلسل کے ساتھ رن آئوٹ ہوتا رہا ہوں، کریز پر ان غلط فہمیوں میں صرف مجھے ہی قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا،ٹیم میں کئی نئے کھلاڑیوں کی شمولیت کی وجہ سے تال میل میں مشکل پیش آتی رہی، آج کل کی تیز کرکٹ میں قریبی فیلڈرز کسی غفلت کے بعد سنبھلنے کی مہلت نہیں دیتے، رن بنانا ہے یا نہیں فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، نوجوان کرکٹرز کو زیادہ کھیلنے کے مواقع ملے تو اس طرح کے مسائل کم ہوتے جائیں گے۔

ایکسپریس:پاکستان کی ٹیسٹ میں کارکردگی اچھی لیکن ون ڈے میں بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے، اس کی کیا وجہ لگتی ہے؟
محمدحفیظ:زوال کا یہ سفر راتوں رات شروع نہیں ہوا، کھلاڑی، کوچز، سلیکشن کمیٹیز اور کپتان سب ذمہ دار ہیں، فیصلوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے مسائل بڑھتے گئے، ٹیم میں زیادہ تبدیلیوں کی وجہ سے کھلاڑیوں کے اعتماد میں کمی ہوجاتی ہے اور وہ بے خوف ہوکر نہیں کھیلتے،کسی پلیئرکو منتخب کرنے کے بعد مسلسل مواقع دیے جائیں تو وہ انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا جائے گا۔

ایکسپریس:ڈومیسٹک کرکٹ میں بار بار تبدیلیاں کی جارہی ہیں اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
محمدحفیظ:سب سے پہلے تو ڈومیسٹک کرکٹ کی قدر کرنی چاہیے، دوسرے اس کے معاملے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لینا چاہیے، جتنی مقابلے کی فضا ہو بہتر رہے گا، عالمی کرکٹ کے لیے ہماری کھیپ اتنی ہی اچھی تیار ہوگی، ہمیں مقدار کے بجائے معیار بڑھانے کی فکر کرنا چاہیے، آسٹریلوی کرکٹرز مختلف براعظموں میں جاکر ورلڈکپ جیتے ہیں، وجہ ان کی فرسٹ کلاس اور انٹرنیشنل کرکٹ کے معیار میں زیادہ فرق نہ ہونا ہے، ہماری کرکٹ میں بڑا خلا موجود ہے جسے جلد از جلد دور کرنا ہوگا۔

ہمیں اسی معیار کی گیندیں استعمال کرنا ہوں گی جو عالمی کرکٹ میں نظرآتی ہیں، ہم 6 ماہ ایک گیند استعمال کرتے پھر مصلحت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں، ڈومیسٹک اسٹرکچر ایک ہونا چاہیے، پھر اس کو مسابقتی بنانے کے لیے مسلسل کام کیا جائے، کوالٹی کرکٹ ہوگی تو سلیکٹرز کے لیے نئے ٹیلنٹ کا انتخاب آسان ہوگا، ایک کھلاڑی صلاحتیوں کے نکھار اور اظہار کے بعد ہی اوپر آئے تو اس پر اعتماد کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوگا، ہمارے ہاں عام طور پر لڑکے انٹرنیشنل کرکٹ میں آبھی جائیں تو معیار اور سہولیات میں فرق کی وجہ سے انھیں مطابقت پیدا کرنے میں 6 ماہ سے سال تک کا وقت لگ جاتا ہے۔
Load Next Story