کیا ہم روز حشر پر ایمان رکھتے ہیں
اس ملک میں سود کا نظام نافذ ہے۔ جسے اﷲ اپنے اور اپنے رسول کے خلاف...
میں یہ گفتگو سن رہا تھا اور خوف سے میرا بدن کانپ رہا تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس مملکت خداداد پاکستان کی اسمبلی کا ایک رکن جس کی میں اس کے مذہبی خیالات، سیاسی جدوجہد اور عام آدمی کی سطح سے محنت کر کے یہاں تک پہنچنے کی وجہ سے بہت عزت کرتا ہوں۔ یہ شخص جمہوریت کے دفاع میں اس قدر مبہوت ہوجائے گا۔
یوں تو اس کا تعلق ایک ایسی جماعت سے رہا ہے جو اس ملک میں گزشتہ ستر سال سے اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ لیکن میرے اﷲ کی مصلحت تھی کہ جمہوریت کے اس نڈر سپوت کو ایک دوسری جماعت میں پناہ لینا پڑی۔ اگر یہ گفتگو کسی نجی محفل میں ہوئی ہوتی تو میں فون کر کے یا خود اس کے دروازے پر حاضری دے کر سمجھاتا کہ آپ نے بہت غلط بات کہی ہے۔ لیکن چونکہ ایک ٹاک شو میں اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اسے سن رہے تھے اس لیے اگر میں قلم نہ اٹھاتا تو شاید اﷲکے حضور اپنی خاموشی کا کوئی جواز پیش نہ کر سکتا۔ اس رکن اسمبلی کے ساتھ جب جمہوریت پر گرم جوشی سے بحث جاری تھی تو ایک صاحب نے کہا کہ جس آئین کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ اس میں اﷲ اور اس کے رسول کی سنت اور احکام کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اسی ملک میں سود کا نظام نافذ ہے۔ جسے اﷲ اپنے اور اپنے رسول کے خلاف اعلان جنگ کہتا ہے۔
بجائے شرمندگی، کوتاہی اور ندامت سے سرجھکا کر یہ تسلیم کرتے کہ ہاں ہم نادم ہیں، یہ ہمارا قصور ہے، اس ممبر اسمبلی نے وہی لہجہ اختیار کیا جو آجکل ہمارے سیاسی رہنما اپنے قائدین کے خلاف الزامات لگائے جانے پر اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں جائو جاکر عدالت میں ثابت کرو، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائو۔ اسی عالم طیش میں ان ممبر اسمبلی نے کہا اگر اس ملک میں سود کا نظام جاری ہے تو سپریم کورٹ میں کیوں نہیں جاتے۔ کاش یہ ممبر اسمبلی حشر کے میدان میں جب کوئی سایہ نہ ہوگا، جب چاروں جانب سناٹے میں میرے اﷲ کی آواز گونجے گی۔ ''کون ہے آج کے دن کا مالک۔'' تین دفعہ پکارا جائے گا۔ بڑے سے بڑا مقرر، جلسے لوٹنے والا، ٹاک شو میں لوگوں کا ناک میں دم کرنے والا، پارلیمنٹ میں اپنی للکار سے ہیبت پیدا کرنے والا سب کے سب خاموش ہوں گے اور پھر صدا گونجے گی۔
صرف اﷲ جو قہاّر ہے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو چند لاکھ ووٹ لے کر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے اﷲ کے سامنے جوابدہ ہیں اور پھر ان چند لاکھ ووٹروں کے سامنے، یہی جمہوریت کا ''حسن'' ہے۔ لیکن میرے اس دوست اور ممبر اسمبلی کو یاد نہیں کہ اس سود کے نظام کے خلاف جنگ اﷲ اور اس کے رسول نے شروع کی ہے اور یہ صرف سپریم کورٹ کے جج یا معاشیات کے ماہرین کی ذمے داری نہیں میری اور آپ سب کی ذمے داری ہے۔ سپریم کورٹ تو بعد کی بات ہے کیا گزشتہ نو سال جو آپ اسمبلی میں رہے بلکہ آپ کے ساتھ جو ایک ہزار سے زیادہ ممبران اسمبلی روز جمہوریت، انسانی حقوق، سسٹم، قانون کی بالادستی کی آواز بلند کرتے رہے، کیا ایک سیکنڈ کے لیے بھی انھوں نے اس جنگ میں اﷲ اور اس کے رسول کا ساتھ دینے کے لیے منہ کھولا، کوئی نکتۂ اعتراض کوئی تحریک استحقاق، کوئی بل، کوئی قرارداد۔ کیا آپ نے کبھی کہا کہ جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو ہر چوک، چوراہے اور گلی کوچے میں اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کی دکانیں کھلی ہیں، اشتہار آویزاں ہیں، میں برداشت نہیں کر سکتا۔
یاد رکھو پورا قرآن اٹھا کر دیکھ لو، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اٹھالیں، اﷲ اور اس کے رسول نے زنا کے خلاف، جھوٹ کے خلاف، کرپشن اور بددیانتی کے خلاف، قتل و غارت اور فتنے کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ سود کے خلاف کیاہے۔ اور اس آیت میں لفظ ''حرب'' استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کوئی بھی ڈکشنری اٹھا کر حرب کا لفظ ڈھونڈیں اس کے معنی پڑھیں آپ کو کسی مولوی کے پاس جانے یا اسے غلط معنی بتانے پر لعن طعن کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ آپ کو خود اپنی وہ صف نظر آجائے گی جس میں آپ اﷲ اور اس کے رسول کے مقابل کھڑے ہیں۔
اگر آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ تو پھر آپ بس یہ کہئے کہ جرات نہ ہوتی۔ ''تو پھر جائو نہ سپریم کورٹ کے پاس'' آپ کس مرض کی بلا ہیں۔ ہم آپ کا دامن کیوں نہ پکڑیں جنہوں نے قانون بنانا ہے، غلط قانون پر آواز بلند کرنا ہے۔ جناب والا! میں آپ کی یاد دہانی کے لیے قرآن پاک کی سورۂ البقرہ کی آیت نمبر 278-79 تحریر کیے دیتا ہوں۔ ''اے ایمان والوں اﷲ سے ڈرو اور چھوڑو جو سود باقی رہ گیا ہے اگر تم مومن ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ میں آپ کو شافع محشر سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات بھی پیش کردیتا ہوں۔
آپ نے فرمایا سود کے سترگناہ ہیں۔ ان میں ادنیٰ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کی بے حرمتی کرے (سنن ابن ماجہ 165)۔ پھر فرمایا۔''سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا سے زیادہ شدید جرم ہے۔ بشرطیکہ کھانے والے کو معلوم ہو کہ یہ درہم سود کا ہے (مسند احمد 225-5) ایک اور حدیث کے مطابق ''ایک درہم جس کو کوئی شخص سود سے حاصل کرے اﷲ کے نزدیک تینتیس زانیوں کے حالت اسلام میں زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔''
آپ اس ملک میں سسٹم کا تحفظ کیجیے، جمہوریت کی بقا کے لیے قربانیاں دیجیے، لیکن روز محشر یہی فقرہ دہرانے کے لیے بھی تیار ہو جائیے کہ ہم نے کہہ دیا تھا۔ ''جائو سپریم کورٹ کے پاس۔'' آپ بہت حوصلے والے جوانمرد ہیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میں نے رات کے پچھلے پہر اﷲ سے آپ کے لیے مغفرت اور ہدایت کی دعا کی۔ شاید اس لیے کہ کہیں یہ فقرہ آپ سے انجانے میں نہ نکل گیا ہو۔ میں آج بھی آپ سے نیک گمان رکھتا ہوں۔ لیکن آپ نے اﷲ کے حضور اپنے خلاف اٹھارہ کروڑ گواہ بنالیے ہیں۔
اﷲ آپ کو ہدایت دے، آپ سپریم کورٹ جانے کا مشورہ دینے کے بجائے اسمبلی کے ایوان میں سود کے خلاف آواز اٹھانے والے مجاہد بن جائیں۔ یاد رکھیں اﷲ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جمہوریت رہتی ہے یا ڈکٹیٹر شپ، سسٹم رہتا ہے یا انارکی، اس کی ترجیحات اور ہیں اور اپنی ترجیحات پر حساب لے گا۔ لیکن شاید یہ ترجیحات میرے ملک کے رہنمائوں کی نہیں ہیں۔ وہ کس قدر مگن ہیں۔ الیکشن کمشنر آ گیا ہے، معاہدے ہو رہے ہیں، الیکشن کی تیاری ہے، گٹھ جوڑ ہو رہے ہیں۔
جلسوں کے جلسے اور منشوروں کی تیاریاں۔ سب کچھ کتنا دلچسپ ہے۔ اس ساری گہما گہمی میں روز قتل بھی ہوتے ہیں، فاقے بھی چل رہے، خودکشیاں بھی ہو رہی ہیں، بے بس اور خاموش عوام کا غصہ اندر ہی اندر ابل رہا ہے، لیکن شاید میرا اﷲ اس غصے کے ابلنے کا بھی انتظار نہ کرے، صاحبان نظر آسمان کی جانب دیکھتے ہیں تو کانپ اٹھتے ہیں یوں لگتا ہے ایک سمندر انتظار کر رہا ہو حکم کا۔ کہ یوں لگے کہ جیسے آسمان پھٹ پڑا ہے۔ ایسے میں کسی کو کچھ یاد نہ رہے گا نہ جمہوریت، نہ آمریت، نہ سسٹم اور نہ آئین، نہ ٹاک شو اور نہ تقریریں۔ جب زمین سمندر بن جائے تو پھر اپنے اﷲ کے حضور معافی کے لیے گڑگڑائو گے۔