شام میں جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد

شام میں تقریباً 5 برس سےجاری لڑائی میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور سوا کروڑ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں


Editorial December 21, 2015
جنگ بندی کے بعد 6 ماہ کے اندر شام میں قابلِ اعتماد اور غیر فرقہ وارانہ حکومت قائم کی جائے گی۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں خانہ جنگی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دیدی ہے جب کہ صدر بشارالاسد کے مستقبل پر اختلافات برقرار ہیں۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس کی اہمیت یہ تھی کہ اس میں سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے علاوہ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون بھی شریک ہوئے۔

اس قرارداد میں آیندہ ماہ سے شامی حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے جس کا ابتدائی مقصد فریقین کے درمیان جنگ بندی کرانا ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خانہ جنگی میں صدر بشار کی سرکاری فوجیں باغیوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں جب کہ ماضی کے حریف امریکا اور روس شام پر بمباری کر رہے ہیں جس میں ان کے بقول باغیوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے حالانکہ ان باغیوں میں بھی بھانت بھانت کے لوگ شامل ہیں جن میں سے بعض آپس میں ہی سر پھٹول کر رہے ہیں۔ سلامتی کونسل کی قرارداد میں داعش اور القاعدہ کی ذیلی تنظیم النصرہ فرنٹ جیسے گروہوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ روس، فرانس اور امریکا بھی شام میں داعش کو نشانہ بنا سکیں گے۔

یہاں اس قرارداد کے داخلی تضاد کا اظہار ہوتا ہے کہ ایک طرف جنگ بندی کی بات کی جا رہی ہے دوسری طرف غیر ملکی بمباری کے جاری رکھنے کا اعلان کیا جا رہا ہے ایسی صورت میں جنگ بندی کون کرے گا؟ قرارداد کے مطابق جنگ بندی پر نظر رکھنے کے لیے لائحہ عمل سے متعلق رپورٹ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون فراہم کریں گے۔ جنگ بندی کے بعد 6 ماہ کے اندر شام میں قابلِ اعتماد اور غیر فرقہ وارانہ حکومت قائم کی جائے گی۔ یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جو سابق امریکی صدر جارج بش نے عراق کی صدام حکومت کو تبدیل کرانے کے لیے عراق پر حملہ کیا تھا مگر اس کا کتنا بھیانک نتیجہ نکلا وہ اب ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور بھگت رہی ہے۔ قرارداد کے مطابق 18 ماہ کے اندر اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں آزاد اور شفاف انتخابات کروائے جائیں گے جس میں شام کے عوام ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

واضح رہے آج سے تقریباً ستر سال قبل اسی سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کرانے کی قرارداد بھی منظور کی تھی آخر اس پر کتنا عمل کرایا جا سکا ہے؟ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے تازہ قرارداد کی منظوری کے بعد کہا ہے کہ صدر بشار الاسد شام کو متحد رکھنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں تاہم ان سے فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ جنگ کو طویل کر رہا ہے۔ اس لیے مغرب اور عرب اقوام اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ شامی صدر کو انتقالِ اقتدار کے عمل کے خاتمے تک موجود رہنا چاہیے۔ گویا اب شام کے صدر کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ جب کہ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ شامی عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا چاہیے۔

اس قرارداد کا بنیادی مقصد داعش کو شکست دینا اور شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام ہے اور امید ہے کہ آیندہ 6 ماہ میں شام میں اتحادی حکومت پر معاہدہ طے پا جائے گا۔ شام میں تقریباً 5 برس سے جاری لڑائی میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور سوا کروڑ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ادھر شامی صدر بشار الاسد نے دمشق میں واقع ایک چرچ میں کرسمس کی تیاریوں کے سلسلے میں منعقد کی گئی تقریب میں شرکت کی ہے اور وہاں انھوں نے اپنی قوم کے ان لوگوں کی مذمت کی جو غیر ملکی ایجنڈے کی خاطر ملک میں بدامنی پیدا کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔